نمازِ عشا کی اہمیت و فضیلت
پر پانچ فرامینِ مصطفے از بنتِ اصغر مغل،سیالکوٹ
اللہ کریم نے اپنے پیارے نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو شبِ معراج 50 نمازوں کا تحفہ عطا فرمایا، جو حضرت موسٰی علیہ السلام کے مشورے سے پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے کم کروائیں اور تخفیف کے بعد پانچ نمازیں تحفے میں ملیں، مگر
قربان جائیے رحمتِ خداوندی کے!اس نے فرمایا :اگرچہ نمازیں پانچ ہیں، مگر ثواب پچاس
کا ہی ملے گا۔ ہر نماز ہی بے شمار خوبیوں اور فضائل کی حامل ہے، مگر ان میں سے ایک
نہایت اہم نماز جسے عموماً سستی اور غفلت اور تھکن کی وجہ سے یا تو معاذ اللہ چھوڑ
دیا جاتا ہے یا قضا کر کے پڑھا جاتا ہے اور کچھ لوگ تو مکمل پڑھتے ہی نہیں۔آئیے!
سب سے پہلے عشا کا معنی جانئے، پھراس کے فضائل و وعید جانئے اور پابندی سے ساری
نمازیں پڑھنے کی نیت فرما لیجئے۔عشا کا لغوی معنی: عشا کا لغوی معنیٰ ہے رات کی
ابتدائی تاریکی، چونکہ یہ نماز اندھیرا ہو جانے کے بعد ادا کی جاتی ہے، اس لئے اسے
عشا کی نماز کہا جاتا ہے۔1۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، تاجدارِ مدینہ
صلی اللہُ علیہ
واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عبرت
نشان ہے: سب نمازوں میں زیادہ گراں یعنی بوجھ والی منافقوں پر نمازِ عشا اور فجر
ہے اور جو ان میں فضیلت ہے اگر جانتے تو ضرور ضرور حاضر ہوتے، اگرچہ سرین(یعنی بیٹھنے میں بدن کا جو حصہ زمین پر لگتا ہے اس) کے بل گھسٹتے ہوئے، یعنی جیسے
بھی ممکن ہوتا آتے۔(ابن ماجہ، جلد 1،
صفحہ437، حدیث797)حدیثِ مبارکہ کی
شرح:حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیثِ پاک کی شرح میں لکھتے ہیں:کیونکہ منافق صرف دکھاوے کے لئے نماز پڑھتا ہے اور وقتوں میں تو
خیر جیسے جیسے پڑھ لیتے ہیں، مگر عشا کے
وقت نیند کا غلبہ، فجر کے وقت نیند کی لذت انہیں سست کر دیتی ہے، اخلاص اور عشق مشکلوں
کو حل کرتے ہیں، وہ ان میں سے نہیں، لہٰذا یہ دو نمازیں انہیں بہت گراں(یعنی بہت بڑا بوجھ معلوم ہوتی ہیں)پس اس سے معلوم ہوا کہ جو مسلمان ان دونوں نمازوں میں سستی کرے، وہ
منافقوں کے سے کام کرتا ہے۔(مراۃ المناجیح، جلد 1، صفحہ 396)2۔تابعی بزرگ حضرت سعید بن
مسیب رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ سرورِ دوجہاں صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: ہمارے اور منافقین کے درمیان علامت (یعنی پہچان)عشا اور فجر کی نماز میں حاضر ہونا ہے، کیونکہ منافقین ان نمازوں میں
آنے کی طاقت نہیں رکھتے۔(مؤطا امام مالک،
جلد 1، صفحہ123، حدیث298)3۔ بہار ِ شریعت میں ہے کہ دن کی ابتدائی حصے میں سونا یا مغرب و عشا
کے درمیان سونا مکروہ ہے۔(حوالہ بہار شریعت،
جلد 3، صفحہ 439)4۔نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ارشادفرماتے ہیں: جو نمازِ عشا سے پہلے سوئے، اللہ پاک اس کی آنکھ
کو نہ سلائے۔(جمع الجوامع،جلد 7، صفحہ289،حدیث23192)امیر المؤمنین حضرت فاروقِ
اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنے حکام کو ایک فرمان لکھا، جس میں یہ بھی ہے کہ جو عشا سے
پہلے سو جائے، خدا کرے اس کی آنکھیں نہ سوئیں، جو سو جائے اس کی آنکھیں نہ سوئیں،
جو سو جائے اس کی آنکھیں نہ سوئیں۔(حوالہ موطا امام
مالک، جلد 1، صفحہ 25، حدیث 4)5۔سرکارِ دو عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو چالیس
راتیں مسجد میں باجماعت نمازِ عشا پڑھے کہ پہلی رکعت فوت نہ ہو، اللہ پاک اس کے
لئے دوزخ سے آزادی لکھ دیتا ہے۔اللہ کریم ہمیں دلچسپی کے ساتھ خوشی اور چشتی کے
ساتھ تمام نمازوں سمیت نمازِ عشا کی پابندی کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی
الامین صلی اللہُ علیہ
واٰلہٖ وسلم