اسلام کے ارکان میں ایک اہم ترین رکن نماز ہے۔جس کی تاکید قرآن پاک میں سات سو زائد مرتبہ آئی ہےاور ان نمازوں میں نمازِ عصر کو آیت قرآنی کی روشنی میں خاص اہمیت حاصل ہے۔ جیسا کہ اللہ پاک کا فرمان ہے:حٰفِظُوْا عَلَى الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰىۗ-وَ قُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِیْنَ(۲۳۸)ترجَمۂ کنزُالایمان: نگہبانی کرو سب نمازوں اور بیچ کی نماز کی اور کھڑے ہو اللہ کے حضور ادب سے ۔(پ2،بقرہ:238 )یعنی تمام نمازوں کی اور خصوصاً عصر کی بہت نگہبانی (حفاظت) کرو۔حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ

(1)حضرت سیِّدُناجابر بن عبدُاللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رحمت ِ عالم صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ مُعَظَّم ہے: جب مرنے والا قبر میں داخل ہوتا ہے تو اُسے سورج ڈوبتا ہوا معلوم ہوتا ہے تو وہ آنکھیں ملتا ہوا بیٹھتا ہے اور کہتا ہے:مجھے چھوڑ و میں نماز پڑھ لوں ۔(ابن ماجہ، 4/503،حدیث:4272)

صوفیاء فرماتے ہیں جیسے جیوگے ویسے ہی مرو گے اور جیسےمرو گے ویسے ہی اٹھو گے۔ خیال رہے کہ مؤمن کو اس وقت ایسا معلوم ہوگا جیسے میں سوکر اٹھا ہوں نزع وغیرہ سب بھول جائے گا ممکن ہے کہ اس عرض پر سوال جواب ہی نہ ہوں اور ہوں تو نہایت آسان کیونکہ اس کی یہ گفتگو تمام سوالوں کا جواب ہوچکی۔(مرآۃ المناجیح۔1/142)

کیا پوچھتے ہو مجھ سے، نکیرین! لحد میں

لو دیکھ لو! دل چیر کے، اَرمانِ محمد(صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم)

(2) حضرت سیدنا ابو بصرہ غِفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :یہ نماز یعنی نماز عصر تم سے پچھلے لوگوں پر پیش کی گئی تو انہوں نے اسے ضائع کر دیا لہذا جو پابندی سے ادا کرے گا اسے دگنا (یعنی Double) اجر ملے گا ۔(مسلم، ص322،حدیث:1927)حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ اِس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں :یعنی پچھلی اُمتوں پر بھی نمازِ عصر فرض تھی مگر وہ اِسے چھوڑ بیٹھے اور عذاب کے مستحق ہوئے ،تم ان سے عبرت پکڑنا۔ (مراٰۃالمناجیح ،2/166)

(3) حضرتِ سیِّدُنا عبدُ اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ پاک کے پیارے رسول صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس کی نمازِعصر نکل گئی (یعنی جو جان بوجھ کر نمازِ عصر چھوڑے گویا اُس کے اَہل وعیال و مال ’’وَتر‘‘ ہو (یعنی چھین لئے) گئے ۔(بخاری ،1 /202 ،حدیث: 552)

وَتر کا مطلب : حضرت علامہ ابو سلیمان خطابی شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :وَتر کا معنی ہے: ’’نقصان ہونا یا چھن جانا،‘‘ پس جس کے بال بچے اور مال چِھن گئے یا اس کا کوئی نقصان ہو گیا گویا وہ اکیلا رہ گیا ۔ لہٰذا نماز کے فوت ہونے سے انسان کو اس طرح ڈرنا چاہیے جس طرح وہ اپنے گھر کے افراد اور مال و دولت کے جانے ( یعنی بربادہونے )سے ڈرتا ہے ۔(اکمال المعلم بفوائد المسلم ،2/590)

(4) حضرت سیِّدُنا عمارہ بن رویبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے مصطَفٰے جانِ رحمت صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے سنا :جس نے سورج کے طُلُوع و غروب ہونے (یعنی نکلنے اور ڈوبنے) سے پہلے نَماز ادا کی (یعنی جس نے فجر و عصر کی نما ز پڑھی) وہ ہر گز جہنَّم میں داخِل نہ ہوگا۔ (مسلم ،ص250،حدیث: 1436)

(5) حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص دو ٹنڈی نمازیں (فجر و عصر) پڑھتا رہا وہ جنّت میں داخل ہوگا۔(مسلم،حدیث:635)

اللہ پاک ہم سب کو پانچوں نمازوں کی پابندی کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم