عصر کا معنی” دن کا آخری حصہ“ چونکہ یہ نماز اسی وقت میں ادا کی جاتی ہے اس لیے اس نماز کو عصر کی نماز کہا جاتا ہے۔حضرت  عزیر علیہ السلام سو برس کے بعد زندہ فرمائے گئے اس کے بعد آپ نے چار رکعتیں ادا کیں تو یہ نمازِ عصر ہو گئی۔ پانچ فرامینِ مصطفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم :روایت ہے حضرت اُمِّ سلمہ رَضِیَ اللہُ عنہا سے، فرماتی ہیں: نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم بمقابلہ تمہارے جلدی ظہرپڑھتے تھے اور تم عصر حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے جلدی پڑھتے ہو۔(احمد و ترمذی/مراۃ المناجیح،1/379)اس حدیث سے معلوم ہوا !عصر کی نماز وقت شروع ہوتے ہی نہ پڑھے کچھ دیر سے پڑھے، اگر حضور دو وقت شروع ہوتے ہی پڑھا کرتے تو یہ حضرات اس سے پہلے کیسے پڑھ سکتے ہیں؟ روایت ہے، حضرت عمارہ بن رویبہ رَضِیَ اللہُ عنہ سے، فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے سنا :وہ شخص آگ میں ہر گز داخل نہ ہوگا جو سورج نکلنے اور ڈوبنے سے پہلے کی نمازیں پڑھتا رہے یعنی فجر اور عصر۔(مسلم،مراۃ المناجیح،ص381) روایت ہے،حضرت ابنِ مسعود اور سمرہ ا بنِ جندب سے،فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: بیچ کی نماز عصر ہے۔(ترمذی،مراۃ المناجیح،ص385) (کیونکہ یہ نماز دن اور رات کی نمازوں کے درمیان ہے نیز اس وقت دنیاوی کاروبار زیادہ زور پر ہوتے ہیں اس لیے اس کی تاکید زیادہ فرمائی گئی اکثر صحابہ کا یہی قول ہے)حضرت ابوبصرہ غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نور والے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:یہ نماز یعنی نمازِ عصر تم سے پچھلے لوگوں پر پیش کی گئی تو انہوں نے اسے ضائع کر دیا لہٰذا جو اسے پابندی سے ادا کرے گا اسے دگنا اجر ملے گا۔(فیضانِ نماز،ص30)حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں،ہم حضور پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بارگاہ میں حاضر تھے، آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے چودہویں رات کے چاند کی طرف دیکھ کر ارشاد فرمایا: عنقریب تم اپنے رب کو اس طرح دیکھو جس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہو، تو اگر تم لوگوں سے ہو سکے تو نمازِ فجر نہ چھوڑو۔ پھر حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے یہ آیت پڑھی:وسبح بحمد ربک قبل طلوع الشمس و قبل غروبھا ترجمۂ کنز الایمان: اور اپنے رب کو سراہتے ہوئے اس کی سورج چمکنے سے پہلے اور اس کے ڈوبنے سے پہلے۔ (مسلم،ص239،حدیث:1434)