دینِ اسلام وہ عظیم دین ہے جس میں انسانوں کے باہمی حقوق اور معاشرتی آداب کو خاص اہمیت دی گئی ہے اور ان چیزوں کا خاص خیال (لحاظ) رکھا گیا ہے۔ اسی لئے جو چیز انسانی حقوق کو ضائع کرنے کا سبب بنتی ہے اور جو چیز معاشرتی آداب کے برخلاف ہے اس سے دین اسلام نے منع فرمایا ہے اور اس سے بچنے کا تاکید کے ساتھ حکم دیا ہے۔ انہی اشیاء میں سے ایک چیز بدگمانی ہے جو کہ انسانی حقوق کی پامالی کا بہت بڑا سبب اور معاشرتی آداب کے انتہائی بر خلاف ہے۔ اس (بدگمانی) سے دینِ اسلام میں خاص طور پر منع کیا گیا ہے۔ آئیے اس کے بارے میں مزید جانتے ہیں : فرمان باری ہے : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو بہت گمانوں سے بچو بیشک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے۔(پ 26،الحجرات:12 )

اس آیت ِکریمہ کے تحت اِمام فخر الدین رازِی رحمۃُ اللہ علیہ تفسیر ِکبیر میں لکھتے ہیں: کیونکہ کسی شخص کا کام دیکھنے میں تو بُرا لگتا ہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا کیونکہ ممکن ہے کہ کرنے والا اسے بھول کر کررہا ہو یا دیکھنے والا ہی غَلَطی پر ہو ۔ (بدگمانی،ص 13)

بنیادی طور پر گمان(ظن) کی دو اقسام ہیں:(1)حسنِ ظن (یعنی اچھا گمان) (2)سوئے ظن(یعنی برا گمان)۔اسے بد گُمانی بھی کہتے ہیں۔

چونکہ ہمارا موضوع دوسری قسم ( سوئے ظن) ہے۔ آئیے اس حوالے سے چند معلومات حاصل کرتے ہیں :

بدگمانی کی تعریف : بدگمانی سے مراد یہ ہے کہ بلا دلیل (بغیر دلیل کے) دوسرے کے بُرے ہونے کا دل سے اعتقاد جازم (یعنی یقین) کرنا ۔ (فیض القدیر ، 3/ 122 ، تحت الحدیث : 2901 وغیرہ)

بدگمانی کا نقصان : بدگمانی سے بغض اور حسد جیسے باطنی امراض بھی پیدا ہوتے ہیں ۔ نیز دل آزاری اور غیبت کا بھی سبب ہے۔ اسی طرح دشمنی کابھی سبب ہے ۔

بدگمانی کی مذمت میں 5 احادیث مبارکہ:

(1) اپنے رب سے بدگمانی کی : حضرت سیِّدتُنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ خاتم المرسلین، رحمۃ للعالمین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے اپنے بھائی کے متعلق بدگمانی کی بے شک اس نے اپنے رب سے بد گمانی کی، کیونکہ اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:( اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘) ترجمۂ کنزالایمان: بہت گمانوں سے بچو۔(کنزالعمال، کتاب الاخلاق،ظن السوء ، 2/199، حدیث : 7582)

(2)بدگمانی سے بچو: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسولُ الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : بدگمانی سے بچو کیونکہ بد گمانی سب سے چھوٹی بات ہے۔ ( بخاری ، کتاب الفرائض ، باب تعليم الفرائض ، 4/313 ، حدیث : 6724)

(3)حرام ہے: نبی مکرم شفیع معظم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان رحمت نشان ہے: مسلمان کا خون، مال اور اس سے بد گُمانی (دوسرے مسلمان) پر حرام ہے۔(شعب الایمان ،باب فی تحریم اعراض الناس،5/297،حدیث :6706)

(4) بدگمانی نہ کرو : حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: تم اپنے بھائی کے منہ سے نکلنے والی کسی بات کا اچھا مَحمل پاتے ہو تو اس کے بارے میں بدگمانی نہ کرو۔(در منثور، الحجرات، تحت الاٰيۃ:12، 7/566)

(5) بھائی بھائی ہو جاؤ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اپنے آپ کو بدگمانی سے بچاؤ کہ بدگمانی بد ترین جھوٹ ہے، ایک دوسرے کے ظاہری اور باطنی عیب مت تلاش کرو، حرص نہ کرو، حسد نہ کرو، بغض نہ کرو، ایک دوسرے سے رُو گَردانی نہ کرو اور اے اللہ کے بندو بھائی بھائی ہو جاؤ۔(مسلم، کتاب البرّ والصلۃ والاٰداب، باب تحریم الظّنّ والتّجسّس...الخ، ص1386، حدیث: 2563)

بدگمانی کا حکم : اعلحضرت امام احمد رضاخان رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مسلمان پر بد گمانی حرام ہے جب تک ثبوتِ شرعی نہ ہو ۔ (فتاوی رضویہ ، 6/486) دوسرے مقام پر فرماتے ہیں :مسلمانوں پر بدگمانی حرام اور حتّی الامکان اس کے قول وفعل کو وجہ ِصحیح پر حمل واجب (ہے)۔( فتاوی رضویہ،20 / 278)

بدگمانی کا علاج: شیخ طریقت امیر اہلسنت بانی دعوت اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دامت بر کاتہم العالیہ کے رسالے شیطان کے بعض ہتھیار صفحہ (34) سے بدگمانی کے سات علاج پیش خدمت ہیں: (1) مسلمان کی خوبیوں پر نظر رکھئے۔(2) بدگمانی سے توجہ ہٹا دیجئے۔ (3) خود نیک بنئے تاکہ دوسرے بھی نیک نظر آئیں ۔ (4) بری صحبت برے گمان پیدا کرتی ہے۔(5) کسی سے بدگمانی ہو تو عذاب الٰہی سے خود کو ڈرائیے۔ (6) کسی کے بارے میں بدگمانی پیدا ہو تو اپنے لئے دعا کیجئے ۔ (7) جس کے لیے بدگمانی ہو اس کے لیے دعائے خیر کیجئے ۔

مشورہ: مزید معلومات کیلئے المدینۃ العلمیہ کا رسالہ بد گمانی کا مطالعہ کیجئے ۔

مجھے غیبت و چغلی و بدگمانی

کی آفات سے تو بچایا الہی

خدا بدگمانی کی عادت مٹادے

مجھے حُسن ظن کا تو عادی بنا دے

الله پاک ہمیں بدگمانی سے بچنے اور اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ اچھا گمان رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


دینِ اسلام ایک ایسا دین ہے جو ہر کسی کے حقوق کا خیال رکھتا ہے چاہے وہ انسان ہو یا جانور۔ اور دینِ اسلام ہر اس چیز سے روکتا ہے جس سے دوسرے کو تکلیف پہنچتی ہو ۔اس میں بہت سی چیزیں آجاتی ہیں:۔ ظلم، جھوٹ، غیبت تکبر و غیرہ ۔  ان میں سے ایک برائی بدگمانی بھی ہے جو کہ آج کل ہمارے معاشرے میں پہاڑ کی کی طرح مضبوط ہو گئی ہے اور درخت کی جڑوں کی طرح پھیلتی ہی جارہی ہے۔ بچہ سے لے کر بوڑھا ہر کوئی اس برائی میں ہیں۔ قراٰنِ پاک اور احادیث مبارکہ میں بھی اس کی مذمت اور اس سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے ۔ الله پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو بہت گمانوں سے بچو بیشک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے۔(پ 26،الحجرات:12 )

آیت کے اس حصے میں اللہ پاک نے اپنے مومن بندوں کو بہت زیادہ گمان کرنے سے منع فرمایا کیونکہ بعض گمان ایسے ہیں جو محض گناہ ہیں لہٰذا احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ گمان کی کثرت سے بچا جائے۔( ابن کثیر ، الحجرات ، تحت الآیۃ: 12 ، 7 / 352)

امام فخر الدین رازی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : (یہاں آیت میں گمان کرنے سے بچنے کا حکم دیا گیا) کیونکہ گمان ایک دوسرے کو عیب لگانے کا سبب ہے ،اس پر قبیح افعال صادر ہونے کا مدار ہے اور اسی سے خفیہ دشمن ظاہر ہوتا ہے اور کہنے والا جب ان اُمور سے یقینی طور پر واقف ہو گا تو وہ ا س بات پر بہت کم یقین کرے گا کہ کسی میں عیب ہے تاکہ اسے عیب لگائے ،کیونکہ کبھی فعل بظاہر قبیح ہوتا ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا اس لئے کہ ممکن ہے کرنے والا اسے بھول کر کررہا ہو یا دیکھنے والا غلطی پر ہو۔( تفسیرکبیر ، الحجرات ، تحت الآیۃ: 12 ، 10 / 110)

بد گمانی کی تعریف : بد گُمانی سے مراد یہ ہے کہ بلا دلیل دوسرے کے بُرے ہونے کا دل میں اعتقادِ جازم ( یعنی یقین) کرنا۔ (فیض القدیر، 3/122،تحت الحدیث:2901 وغیرہ)

حدیثِ اول: رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مسلمان کا خون مال اور اس سے بد گُمانی (دوسرے مسلمان) پر حرام ہے۔(شعب الایمان ،باب فی تحریم اعراض الناس،5/297،حدیث :6706)

حدیثِ ثانی: حضرت سیِّدتُنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مرفوعاً ہے کہ: جس نے اپنے بھائی کے متعلق بدگمانی کی بے شک اس نے اپنے رب سے بد گمانی کی، کیونکہ اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:( اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘) ترجمۂ کنزالایمان: بہت گمانوں سے بچو۔(کنزالعمال، کتاب الاخلاق،ظن السوء ، 2/199، حدیث : 7582)

حدیثِ ثالث : نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عبرت نشان ہے: بد گُمانی سے بچو بیشک بد گُمانی بدترین جھوٹ ہے ۔ (صحیح البخاری،3/446، حدیث: 5143)

بد گمانی بہت بری چیز ہے۔ اکثر طور پر نعت شریف یا بیان و غیره سن کر کسی کو روتا دیکھا تو اس کے بارے میں یہ خیال جما لینا کہ یہ لوگوں کو دکھانے کے لئے رورہا ہے۔ الامان والحفیظ ۔اللہ پاک ہم سب کو اس بری بیماری سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین 


دین اسلام وہ عظیم دین ہے جس میں انسانوں کے باہمی حقوقی اور معاشرتی آداب کو خاص اہمیت دی گئی اور ان چیزوں کا خصوصی لحاظ رکھا گیا ہے اس لئے جو چیز انسانی حقوق کو ضائع کرنے کا سبب بناتی ہے اور جو چیز معاشرتی آداب کے بر خلاف ہے اس سے دین اسلام نے منع فرمایا اور اس سے بچنے کا تاکید کے ساتھ حکم دیا ہے۔ جیسے ان اشیاء میں سے ایک چیز بد گمانی بھی ہے جو کہ انسانی حقوق کے پامالی کا بہت بڑا سبب اور معاشرتی آداب کے ابتدائی بر خلاف ہے، اس سے دین اسلام میں خاص طور پر منع کیا گیا ہے، چنانچہ قراٰن مجید میں ایک اور مقام پر اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌؕ-اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا (۳۶) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں بےشک کان اور آنکھ اور دل ان سب سے سوال ہونا ہے۔(پ15، بنی ٓ اسرآءیل:36)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اپنے آپ کو بدگمانی سے بچاؤ کہ بدگمانی بد ترین جھوٹ ہے، ایک دوسرے کے ظاہری اور باطنی عیب مت تلاش کرو، حرص نہ کرو، حسد نہ کرو، بغض نہ کرو، ایک دوسرے سے رُو گَردانی نہ کرو اور اے اللہ کے بندو بھائی بھائی ہو جاؤ۔(مسلم، کتاب البرّ والصلۃ والاٰداب، باب تحریم الظّنّ والتّجسّس...الخ، ص1386، حدیث: 2563)

اللہ پاک ہمیں ایک دوسرے کے بارے میں بدگمانی کرنے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (اٰمین)

بد گمانی کی تعریف : بد گمانی سے مراد یہ ہے کہ بلا دلیل دوسرے کے برے ہونے کا دل سے اعتقاد جازم (یعنی یقین) کرنا۔(فیض القدیر، 3/122،تحت الحدیث:2901 وغیرہ)

بد گمانی سے بغض اور حسد جیسے باطنی امراض بھی پیدا ہوتے ہیں۔

بد گمانی حرام ہے: بدگمانی کے بارے میں 2 فرامینِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: (1) بد گمانی سے بچو بے شک بد گُمانی بد ترین جھوٹ ہے۔(صحیح البخاری،کتاب النکاح،باب مایخطب علی خطبۃ اخیہ،3/446،حدیث:5143)

(2) مسلمان کا خون مال اور اس سے بد گُمانی (دوسرے مسلمان) پر حرام ہے۔(شعب الایمان ،باب فی تحریم اعراض الناس،5/297،حدیث :6706)

(3)مؤمن کی بدگمانی اللہ سے بدگمانی: اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدتُنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے اپنے بھائی کے متعلق بدگمانی کی بے شک اس نے اپنے رب سے بد گمانی کی، کیونکہ اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:( اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘) ترجمۂ کنزالایمان: بہت گمانوں سے بچو۔(کنزالعمال، کتاب الاخلاق،ظن السوء ، 2/199، حدیث : 7582)


قراٰن مجید میں مسلمانوں کو بدگمانی سے بچنے کا حکم دیاگیا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو بہت گمانوں سے بچو بیشک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے۔(پ 26،الحجرات:12 )

(1) اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدتُنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ خاتم المرسلین، رحمۃ للعالمین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے اپنے بھائی کے متعلق بدگمانی کی بے شک اس نے اپنے رب سے بد گمانی کی، کیونکہ اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:( اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘) ترجمۂ کنزالایمان: بہت گمانوں سے بچو۔ (کنزالعمال، کتاب الاخلاق،ظن السوء ، 2/199، حدیث : 7582)

(2) اور بدگمانی کرنا چھوٹی بات ہے اور جھوٹ بولنا گناہ ہے۔ اس کے بارے میں حدیث پاک آئی ہے جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بد گمانی سے بچو بے شک بد گُمانی بد ترین جھوٹ ہے۔(صحیح البخاری،کتاب النکاح،باب مایخطب علی خطبۃ اخیہ،3/446،حدیث:5143)

(3) جب تم اپنے بھائی کے منہ سے کوئی بات سنو تو اس کا اچھا گمان رکھو پر اخیال نہ کرو اس کے بارے میں حدیث پاک میں فرمایا گیا ہے۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں : تم اپنے بھائی کے منہ سے نکلنے والی کسی بات کا اچھا مَحمل پاتے ہو تو اس کے بارے میں بد ُگمانی نہ کرو۔(در منثور، الحجرات، تحت الآیۃ: 12 ، 7/ 566)

(4) اور برے گمان کرنے سے غیبت ، حسد اور بغض جیسی بیماریاں پیدا ہوتی ہے۔ جیسے کہ حدیث پاک میں ان باتوں سے منع فرمایا ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اپنے آپ کو بدگمانی سے بچاؤ کہ بدگمانی بد ترین جھوٹ ہے، ایک دوسرے کے ظاہری اور باطنی عیب مت تلاش کرو، حرص نہ کرو، حسد نہ کرو، بغض نہ کرو، ایک دوسرے سے رُو گَردانی نہ کرو اور اے اللہ کے بندو بھائی بھائی ہو جاؤ۔(مسلم، کتاب البرّ والصلۃ والاٰداب، باب تحریم الظّنّ والتّجسّس...الخ، ص1386، حدیث: 2563)

الله پاک ہمیں بدگمانی کرنے سے بچنے اور اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ اچھا گمان رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (اٰمین)

بدگمانی کے سات علاج: (1) مسلمان کی خوبیوں پر نظر رکھئے۔(2) بدگمانی سے توجہ ہٹا دیجئے۔ (3) خود نیک بنئے تاکہ دوسرے بھی نیک نظر آئیں ، (4) بری صحبت برے گمان پیدا کرتی ہے۔(5) کسی سے بدگمانی ہو تو عذاب الٰہی سے خود کو ڈرائیے۔ (6) کسی کے بارے میں بدگمانی پیدا ہو تو اپنے لئے دعا کیجئے ۔ (7) جس کے لیے بدگمانی ہو اس کے لیے دعائے خیر کیجئے ۔


گمان کسے کہتے ہیں: ہر وہ خیال جو کسی ظاہری نشانی سے حاصل ہوتا ہے گمان کہلاتا ہے، اس کو ظن بھی کہتے ہیں۔

گمان کی اقسام: بنیادی طور پر گمان کی دو قسمیں ہیں: (۱) حسن ظن (2) اور سوئے ظن (یعنی برا گمان)۔

کثرت گمان کی ممانعت: الله پاک قراٰن ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو بہت گمانوں سے بچو بیشک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے۔(پ 26،الحجرات:12 )

بدگمانی کے بارے میں احادیث: (1) نبی مکرّم،نورِ مجسّم،رسولِ اکرم،شہنشاہِ بنی آدم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: بد گمانی سے بچو بے شک بد گُمانی بد ترین جھوٹ ہے۔( صحیح البخاری،کتاب النکاح،باب مایخطب علی خطبۃ اخیہ،3/446،حدیث:5143)

(2) اللہ پاک کے محبوب، صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : مسلمان کا خون مال اور اس سے بد گُمانی (دوسرے مسلمان) پر حرام ہے۔(شعب الایمان ،باب فی تحریم اعراض الناس،5/297،حدیث :6706)

(3)حضرت سیدنا حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: میری امت میں تین چیزیں لازماً رہیں گی: بدفالی، حسد اور بد گمانی۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کی: یا رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! جس شخص میں یہ تین خصلتیں ہوں وہ ان کا کس طرح تدارک کرے؟ ارشاد فرمایا: جب تم حسد کرو تو اللہ پاک سے استغفار کرو اور جب تم کوئی بد گمانی کرو تو اس پر جمے نہ رہو اور جب تم بد فالی نکالو تو اس کام کو کر لو۔(المعجم الكبير ،3/258،حديث: 3227)

(4) نبی پاک پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کا فرمان نصیحت نشان ہے : جب تین آدمی ہوں تو تیسرے کو چھوڑ کر دو آدمی سرگوشی نہ کریں۔(صحیح البخاری ،کتاب الاستئذان،4/185،حدیث: 6288)

حضرت سیدنا ملّاعلی قاری علیہ رحمۃا للہ الباری (المتوفی1014ھ)اس حدیث کے تَحَت لکھتے ہیں : تاکہ وہ یہ گُمان نہ کرے کہ یہ دونوں اس کے خلاف سرگوشی کر رہے ہیں۔ (مرقاۃ المفاتیح ،کتاب الآ داب ، 8/699)

(5) اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدتُنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ خاتم المرسلین، رحمۃُ للعالمین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے اپنے بھائی کے متعلق بدگمانی کی بے شک اس نے اپنے رب سے بد گمانی کی، کیونکہ اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:( اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘) ترجمۂ کنزالایمان: بہت گمانوں سے بچو۔ (کنزالعمال، کتاب الاخلاق،ظن السوء ، 2/199، حدیث : 7582)


پیارے پیارے اسلامی بھائیو !  گناہ یا نیکی کے ارتکاب میں جسم کے ظاہری اعضاء مثلا ہاتھ، پاؤں، آنکھ کا کردار تو سب پر واضح ہے ‏مگر اس طرف عموماً ہماری توجہ نہیں ہوتی کہ سینے میں دھڑکنے والا دل بھی ہمارے نامۂ اعمال میں نیکیوں یا گناہوں کے اضافے میں ‏ان کے ساتھ برابر کا شریک ہے چنانچہ زیرِ نظر تحریر میں دل کو عارض ہونے والی ایک صفت بدگمانی کے متعلق احادیث میں بیان ‏کردہ مذمت کو پڑھیے اور ظاہر کے ساتھ باطن کی اصلاح کی طرف بھی بھرپور توجہ کیجیے چنانچہ فرمانِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے ‏کہ بدگمانی سے بچو بےشک بدگمانی بدترین جھوٹ ہے۔(صحیح البخاری ،حدیث 5143)ایک اور مقام پر ہمارے آخری نبی ‏صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ مسلمان کو خون، مال، اور اس سے بدگمانی(دوسرے مسلمان پر) حرام ہے۔(شعب الایمان،5/298،حدیث:6806) بدگمانی کے متعلق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مرفوعاً مروی ہے کہ جس نے اپنے ‏مسلمان بھائی سے برا گمان رکھا، بےشک اس نے اپنے رب سے برا گمان رکھا ۔(الدرالمنثور ،پ26،الحجرات،تحت الآیۃ ‏‏12 ،7/566)‏

گمان کی تعریف:‏‏ پیارے اسلامی بھائیو! ہر اس خیال کو گمان کہتے ہیں جو ظاہری نشانی سے حاصل ہوتا ہے اس کو عربی میں "ظن" بھی ہے مثلاً دھواں ‏دیکھ کر خیال کرنا کہ آگ لگی ہے یہ ایک گمان ہے اس لئے ہمارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ اچھا گمان اچھی عبادت سے ہے۔(سنن ‏ابی داؤد، 4/387،حدیث:4993)‏

بدگمانی کا علاج:‏‏ احادیث کریمہ میں جہاں پر بدگمانی جیسی بیماری کی مذمت ذکر ہوئی ہے وہی پر طبیبوں کے طبیب اپنے رب کے پیارے ‏حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس (بدگمانی) کے علاج کے متعلق اپنے بیمار امتیوں کی تربیت فرمائی ہے چنانچہ حضرت سیدنا حارثہ بن نعمان رضی اللہ ‏ عنہ مروی ہے کہ نور کے پیکر تمام نبیوں کے سرور دو جہاں کے تاجور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :میری امت میں تین چیزیں لازماً رہیں ‏گی بدفالی، حسد اور بدگمانی۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے ارض کی کہ یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جس شخص میں یہ تین خصلتیں ہوں وہ ان کا ‏کس طرح تدارک(تلافی) کرے ؟ ارشاد فرمایا: جب تم حسد کرو تو اللہ پاک سے استغفار کرو اور جب تم بدگمانی کرو تو اس پر جمے نہ ‏رہو اور جب تم بدفالی نکالو تو اس کام کو کر لو۔(المعجم الکبیر ، 3/228،حدیث: 3227)‏

‏ سبحان اللہ! پیارے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے کس طرح ہمیں بدگمانی سے بچنے کا مدنی ذہن حدیث پاک سے حاصل ہوا۔ ‏اللہ کریم سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں قراٰن و حدیث کا فہم عطا کرے۔ قراٰن و حدیث کا فہم حاصل کرنے اور ‏اس کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے دعوت اسلامی کے مدنی ماحول سے ہر دم وابسطہ رہنے کی توفیق عطا کرے۔( اٰمین بجاہ خاتم ‏النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم )‏


دورِ حاضر میں انسان اپنے ارد گرد متوجہ ہو تو اس کے سامنے ایسی بہت سی خصلتیں رُونماں ہوں گی جو اس کے ظاہر و باطن دونوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے ان خصلتوں میں سے ایک خصلت بدگمانی ہے جس کو اختیار کرنے کے ساتھ انسان اپنے قریبی رشتہ داروں سے بے تعلق ہو کر دنیا میں فردِ واحد کی مثل بن جاتا ہے اور یوں وہ ذلت و رسوائی کا سامنا کرتے کرتے شرمندگی سے مر جاتا ہے اور یہی وہ خصلت ہے جس کے سبب ایک انسان دوسرے انسان کے لیے اپنے دل میں نفرت، بُغض، حسد اور ان جیسی دیگر بیماریوں کو جنم دے کر دوسرے مسلمان بھائی کے لیے بُرا سوچنا شروع کر دیتا ہے۔

سیَّدی امیر اہلسنت مولانا الیاس دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں : بدگمانی سے مراد یہ ہے کہ بلا دلیل دوسرے کے برے ہونے کا دل سے اِعتقادِ جازِم (یعنی یقین) کرنا۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات،ص140)

آئیے احادیث میں بیان کردہ بد گمانی کی مذمت ملاحظہ کیجئے اور اس سے بچنے کا سامان کیجئے۔

(1) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اپنے آپ کو بدگمانی سے بچاؤ کہ بدگمانی بدترین جھوٹ ہے، ایک دوسرے کے ظاہری اور باطنی عیب مت تلاش کرو، حرص نہ کرو،حسد نہ کرو، بغض نہ کرو، ایک دوسرے سے رُوگَردانی نہ کرو اور اے اللہ کے بندوں بھائی بھائی ہو جائو۔(مسلم، کتاب البرّ والصّلۃ والآداب، باب تحریم الظّنّ والتّجسّس... الخ، ص1386، حدیث: 2563)

(2) رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جس نے اپنے بھائی سے بدگمانی کی بے شک اس نے اپنے رب سے بدگمانی کی، کیونکہ اللہ پاک فرماتا ہے ’’ اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘ ‘‘ ترجمۂ کنزُالعِرفان: بہت زیادہ گمان کرنے سے بچو۔( در منثور، الحجرات، تحت الآیۃ: 12 ، 7 / 566)

(3) حضرت سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو وفات سے تین دن پہلے یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص اس حال میں نہ مرے کہ وہ اللہ پاک کے ساتھ نیک گمان رکھتا ہو ۔ (مسلم کتاب ، حدیث : 1581)

(4) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشاد گرامی ہے: مسلمان کا خون مال اور اس سے بد گُمانی (دوسرے مسلمان) پر حرام ہے۔(شعب الایمان ،باب فی تحریم اعراض الناس،5/297،حدیث :6706)

(5) حضرت عمر بن خطاب رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں : تم اپنے بھائی کے منہ سے نکلنے والی کسی بات کا اچھا مَحمل پاتے ہو تو اس کے بارے میں بد ُگمانی نہ کرو۔(در منثور، الحجرات، تحت الآیۃ: 12 ، 7/ 566)

بدگمانی سے بچنے کا طریقہ: حضرت سیدنا حارثہ بن نعمان رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے آپ علیہ السّلام نے فرمایا: میری امت پر تین چیزیں لازماً رہیں گی: بدفالی، حسد، اور بدگمانی۔ ایک صحابی نے عرض کی یارسولُ اللہ جس شخص میں یہ تین خصلتیں ہو وہ ان کا تدارک کس طرح کرے?“ ارشاد فرمایا: جب تم حسد کرو تو اللہ پاک سے استغفار کرو اور جب تم کوئی بدگمانی کرو تو اس پر جمے نہ رہو اور جب تم بدفالی نکالو تو اس کام کو کرلو۔

علامہ عبد الرؤوف مناوی علیہ رحمہ فیض القدیر میں لکھتے ہیں اس حدیث میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ تینوں خصلتیں امراضِ قلب میں سے ہیں جن کا علاج ضروری ہے جو کہ حدیث میں بیان کر دیا گیا ہے بدگمانی سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کے دل یا اعضاء سے اس کی تصدیق نا کرے۔

بد گمانی، جھوٹ، غیبت، چغلیاں

چھوڑ دے تُو رب کی نافرمانیاں

پیارے اسلامی بھائیو! ہمیں چاہیئے کہ ہم اپنے گمان کو صاف رکھیں اور سوچ کو پاکیزہ بنائیں اس بات کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے کہ ہم امتحان میں ہیں، ہم سے نہ صرف اعضاء و جوارح سے صادر ہونے والے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا، بلکہ بلا دلیل دل میں راسخ ہونے والے خیالات پر بھی مؤاخذہ ہوگا۔ اگر ہم زندگی کے ہر موڑ پر اس احساس کو تازہ رکھیں تو اللہ پاک کی ذات سے امید ہے کہ ہماری سوچ مثبت اور درست ہو جائے گی اور ہمارے اعمال بھی صحیح رخ پر گامزن ہوجائیں گے۔

اللہ کریم سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بدگمانی کرنے اور اس تک پہچانے والے اسباب سے محفوظ فرمائے۔ اٰمین


دین ِاسلام وہ عظیم دین ہے جس میں  انسانوں کے باہمی حقوق اور معاشرتی آداب کو خاص اہمیت دی گئی ہے اور ان چیزوں کا خصوصی لحاظ رکھا گیا ہے اسی لئے جو چیز انسانی حقوق کو ضائع کرنے کا سبب بنتی ہے اور جو چیز معاشرتی آداب کے بر خلاف ہے اس سے دینِ اسلام نے منع فرمایا اور اس سے بچنے کا تاکید کے ساتھ حکم دیا ہے ۔ جیسے ان اَشیاء میں سے ایک چیز ’’بد گمانی‘‘ ہے جو کہ انسانی حقوق کی پامالی کا بہت بڑا سبب اور معاشرتی آداب کے انتہائی بر خلاف ہے، اس سے دین ِاسلام میں خاص طور پر منع کیا گیا ہے ،چنانچہ قراٰنِ مجید میں ایک مقام پر اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌؕ-اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا (۳۶) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں بےشک کان اور آنکھ اور دل ان سب سے سوال ہونا ہے۔(پ15، بنی اسرآءیل:36)

اور احادیث میں بھی بدگمانی کی مذمت کی گئی ہے چند احادیث مبارکہ پیش خدمت ہیں :

(1) کسی مسلمان کے رزق میں بدگمانی نہ کرے۔ روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں۔ فرمایا نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کہ جب تم میں سے کوئی اپنے مسلمان بھائی کے پاس جائے تو اس کا کھانا کھائے اور پوچھ گچھ نہ کرے اور اس کا پانی پئے اور پوچھ گچھ نہ کرے ۔

یعنی خواہ مخواہ اس سے یہ نہ پوچھو کہ یہ کھانا دودھ پانی کہاں سے آیا ہے تیری کمائی کیسی ہے، حرام ہے یا حلال ؟ کہ اس میں بلاوجہ بھائی مسلمان پر بدگمانی ہے اور صاحبِ خانہ کو ایذا رسانی۔ خیال رہے کہ مخلوط آمدنی والے کے ہاں دعوت کھانا درست ہے۔(مسند احمد ،مسند ابی ہریرہ ،حدیث : 9184)

(2) بدگمانی فتنہ و فساد کی جڑ ہے ۔روایت ہے حضرت جابر ابن عتیک سے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ بعض شرم وہ ہیں جنہیں اللہ پسند کرتا ہے اور بعض شرم وہ ہیں جنہیں اللہ ناپسند کرتا ہے لیکن وہ شرم جسے اللہ پسند کرتا ہے وہ مشکوک چیزوں میں شرم ہے اور لیکن وہ شرم جسے اللہ ناپسند کرتا ہے وہ غیر مشکوک چیز میں شرم ہے۔ (سنن ابی داؤد کتاب الجھاد باب فی الخیلاء فی الجہاد، حدیث: 2659)

اس حصہ کے تحت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں یعنی بلاوجہ کسی پر بدگمانی کرنا غیرت نہیں بلکہ فتنہ و فساد کی جڑ ہے بعض خاوندوں کو اپنی بیویوں پر بلاوجہ بدگمانی رہتی ہے جس سے ان کے گھروں میں دن رات جھگڑے رہتے ہیں، یہ غیرت رب کو ناپسند ہے، رب فرماتا ہے: اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ (مرآۃ المناجیح، 5/157)

(3)بادشاہ کا بدگمانی کرنا ملک کے لیے نقصان دہ ہے ۔ روایت ہے حضرت ابو امامہ سے وہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے راوی فرماتے ہیں کہ حاکم جب لوگوں میں تہمت و شک ڈھونڈنے لگے تو انہیں بگاڑ دے گا(یعنی ان کے دین و دنیا تباہ کردے گا اور ملک میں فساد برپا ہوجائے گا کیونکہ عیوب سے بالکل خالی کوئی کوئی ہوگا۔ خلاصہ یہ ہے کہ لوگوں کے عیوب کی تلاش نہ کرو بلا وجہ ان پر بدگمانی نہ کرو) ریبہ ر کے کسرہ سے بمعنی شک و تہمت،قرآن کریم میں ہے"لَا رَیۡبَ فِیۡہِ"یعنی اگر سلطان یا حکام اپنی رعایا پر بدگمانی کرنے لگیں اور ان کے معمولی کاموں کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگیں اور ان کی بلاوجہ پکڑ دھکڑ کرنے لگیں۔ (سنن ابی داؤد اول کتاب الادب باب فی النھی عن التجسس حدیث : 4889)

(4) بدگمانی بدترین جھوٹ ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اپنے آپ کو بدگمانی سے بچائو کہ بدگمانی بدترین جھوٹ ہے، ایک دوسرے کے ظاہری اور باطنی عیب مت تلاش کرو، حرص نہ کرو، حسد نہ کرو، بغض نہ کرو، ایک دوسرے سے رُوگَردانی نہ کرو اور اے اللہ کے بندو بھائی بھائی ہوجائو۔ (مسلم، کتاب البرّ والصّلۃ والآداب، باب تحریم الظّنّ والتّجسّس..الخ، حدیث: 2563)

حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بدگمانی سے بچو، اس لیے کہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے۔(سنن ترمذی/كتاب البر والصلۃ عن رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ،حدیث: 1988)

خلاصہ: بدگمانی، حسد، بغض وغیرہ وہ چیزیں ہیں جن سے محبت ٹوٹتی ہے اور اسلامی بھائی چارہ محبت چاہتا ہے لہذا ان عیوب سے ہمیں سخت بچنے کی حاجت ہے۔ اللہ پاک ہمیں ان برائیوں سے محفوظ فرمائے ۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ۔


دینِ اسلام وہ عظمت والا دین ہے جس میں انسانوں  کے باہمی حقوق اور معاشرتی آداب کو خاص اہمیت دی گئی اسی لئے جو چیز انسانی حقوق کو ضائع کرنے کا سبب بنتی ہے اور جو چیز معاشرتی آداب کے برخلاف ہے اس سے دینِ اسلام نے منع فرمایا اور اس سے بچنے کا تاکید کے ساتھ حکم دیاہے ،جیسے ان اَشیاء میں سے ایک چیز ’’بد گمانی‘‘ ہے۔

بدگمانی کی تعریف: بدگمانی سے مراد یہ ہے کہ بلا دلیل دوسرے کے برے ہونے کا دل سے اِعتقادِ جازِم (یعنی یقین) کرنا۔ (احیاءالعلوم،5/202)

بدگمانی کا حکم: مکتبۃ المدینہ کے مطبوعہ 64صفحات پر مشتمل رسالے ’’بدگمانی‘‘ صفحہ21 پر ہے: ’’کسی شخص کے دِل میں کسی کے بارے میں بُرا گُمان آتے ہی اسے گنہگار قرار نہیں دیا جائے گا کیونکہ محض دِل میں بُرا خیال آجانے کی بنا پر سزا کا حقدار ٹھہرانے کا مطلب کسی اِنسان پر اس کی طاقت سے زائد بوجھ ڈالنا ہے اور یہ بات شرعی تقاضے کے خلاف ہے ، اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: (لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَاؕ) ترجمۂ کنزالایمان : اللہ کسی جان پر بوجھ نہیں ڈالتا مگر اس کی طاقت بھر ۔ ( پ3 ،البقرۃ: 286)

بدگمانی انسانی حقوق کی پامالی کا بہت بڑا سبب اور معاشرتی آداب کے انتہائی بر خلاف ہے، اس سے دین اسلام میں خاص طور پر منع کیا گیا ہے۔ احادیث مبارکہ میں بھی بدگمانی کی بہت زیادہ مذمت کی گئی ہے چونکہ:

(1)فرمان آخری نبی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : مسلمان کا خون مال اور اس سے بد گُمانی (دوسرے مسلمان) پر حرام ہے۔(شعب الایمان ،باب فی تحریم اعراض الناس،5/297،حدیث :6706) (2) بد ُگمانی سے بچو بے شک بد ُگمانی بدترین جھوٹ ہے۔ (بخاری ، 3/446 ،حدیث: 5143)(3) حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا سے مرفوعاً مروی ہے : جس نے اپنے مسلمان بھائی سے بُرا گُمان رکھا ، بے شک اس نے اپنے ربّ سے بُرا گُمان رکھا۔ (الدرالمنثور ، پ26 ، الحجرات ، تحت الآیۃ12 ، 7/566)

بدگمانی کے علاج: شیخ طریقت امیر اہلسنت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ کے رسالے ’’شیطان کے بعض ہتھیار‘‘ صفحہ 34 سے مختصراً بدگمانی کے علاج پیش خدمت ہیں: (1)مسلمانوں کی خامیوں کی ٹَٹول کے بجائے اُن کی خوبیوں پر نظر رکھئے۔ (2)جب بھی کسی مسلمان کے بارے میں دِل میں بُرا گُمان آئے تو اسے جھٹک دیجئے اور اس کے عمل پر اچھا گُمان قائم کرنے کی کوشِش فرمایئے۔ (3)خود نیک بنئے تاکہ دوسرے بھی نیک نظر آئیں۔ (4)بُری صُحبت سے بچتے ہوئے نیک صُحبت اِختِیار کیجئے، جہاں دوسری بَرَکتیں ملیں گی وَہیں بدگُمانی سے بچنے میں بھی مدد حاصِل ہو گی۔ (5)جب بھی دِل میں کسی مسلمان کے بارے میں بدگُمانی پیدا ہو تو خود کو بدگُمانی کے انجام اور عذابِ الٰہی سے ڈرائیے۔ (6)جب بھی کسی اِسلامی بھائی کے لئے دِل میں بدگُمانی آئے تو اُس کے لئے دُعائے خیر کیجئے اور اُس کی عزّت واِکرام میں اضافہ کردیجئے ۔

اللہ پاک ہمیں برائیوں سے بچنے اور اپنے مسلمان بھائیوں کی بدگمانی کرنے سے محفوظ فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

مجھے غیبت و چغلی و بد گمانی

کی آفات سے تُو بچا یا الہٰی(وسائلِ بخشش،ص80)


ہر وہ خیال جو کسی ظاہری نشانی سے حاصل ہوتا ہے گمان کہلاتا ہے، اس کو ظن بھی کہتے ہیں۔(بد گمانی،ص13)

بنیادی طور پر گمان کی دو اقسام ہیں:(1)حسنِ ظن (یعنی اچھا گمان) (2)سوئے ظن(یعنی برا گمان)۔اسے بد گُمانی بھی کہتے ہیں۔

پھر ان میں سے ہر ایک دو قسمیں ہیں۔ حسنِ ظن کی اقسام: (1)واجب ،جیسے اللہ پاک کے ساتھ اچھا گمان رکھنا۔ (2)مُستحَب، جیسے صالح مومن کے ساتھ نیک گمان رکھنا۔

سوئے ظن (بدگمانی)کی اقسام: (1)ممنوع حرام ۔جیسے اللہ پاک کے ساتھ برا گمان کرنا اور یونہی مومن کے ساتھ برا گمان کرنا۔ (2)جائز ،جیسے فاسقِ مُعْلِن کے ساتھ ایسا گمان کرنا۔ جیسے افعال اس سے ظہور میں آتے ہوں ۔ (صراط الجنان،ص433،444)بدگمانی ایسی مذموم باطنی بیماری ہے جس کی مذمت میں کئی احادیث وارد ہوئی ہیں۔

آئیے بدگمانی کے بارے میں حضور خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ارشادات سنتے ہیں:

(1)حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اپنے آپ کو بدگمانی سے بچاؤ کہ بدگمانی بدترین جھوٹ ہے، ایک دوسرے کے ظاہری اور باطنی عیب مت تلاش کرو، حرص نہ کرو، حسد نہ کرو، بغض نہ کرو، ایک دوسرے سے رُو گَردانی نہ کرو اور اے اللہ کے بندو بھائی بھائی ہو جاؤ۔(صراط الجنان،ص435)

بد گمانی کا شرعی حکم بیان کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں :مسلمان پر بدگمانی خود حرام ہے جب تک ثبوتِ شرعی نہ ہو۔( صراط الجنان،ص434)

دوسرے مقام پر فرماتے ہیں :مسلمانوں پر بدگمانی حرام اور حتّی الامکان اس کے قول وفعل کو وجہ ِصحیح پر حمل واجب (ہے)۔( صراط الجنان،ص434)

(2) ام المومنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے اپنے بھائی کے متعلق بدگمانی کی بےشک اس نے اپنے ربّ سے بدگمانی کی، کیونکہ اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:( اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘) ترجمۂ کنزالایمان: بہت گمانوں سے بچو۔(باطنی بیماریوں کی معلومات،ص142)

(3) نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جب تم بدگمانی کر بیٹھو تو اس پر جمے نہ رہو۔ یعنی اسے اپنے دل میں جگہ نہ دو ،نہ کسی عمل کے ذریعے اس کا اظہار کرو اور نہ اعضاء کے ذریعے اس بدگمانی کو پختہ کرو۔(باطنی بیماریوں کی معلومات،ص144)

بدگمانی کی مذمت جو احادیث میں بیان ہوئی وہ ایک طرف اس کے کئی دینی و دنیاوی نقصانات بھی ہیں، جیسے:

(1)جس کے بارے میں بد گمانی کی ،اگر اُس کے سامنے اِس کا اظہار کر دیا تو اُس کی دل آزاری ہو سکتی ہے اور شرعی اجازت کے بغیر مسلمان کی دل آزاری حرام ہے ۔

(2)اگر ا س کی غیر موجودگی میں دوسرے کے سامنے اپنے برے گمان کا اظہار کیا تو یہ غیبت ہو جائے گی اور مسلمان کی غیبت کرنا حرام ہے ۔

(3)بد گمانی کرنے سے دو بھائیوں میں دشمنی پیدا ہو جاتی ہے، ساس اور بہو ایک دوسرے کے خلاف ہو جاتے ہیں ، شوہر اور بیوی میں ایک دوسرے پر اعتماد ختم ہوجاتا اور بات بات پر آپس میں لڑائی رہنے لگتی ہے اور آخر کار ان میں طلاق اور جدائی کی نوبت آجاتی ہے ،بھائی اور بہن کے درمیان تعلقات ٹوٹ جاتے ہیں اور یوں ایک ہنستا بستا گھر اجڑ کر رہ جاتا ہے۔(صراط الجنان،ص435،436)

اللہ پاک ہمیں بد گمانی جیسی مہلک باطنی امراض سے نجات عطا فرمائے۔ اٰمین


پیارے پیارے اِسلامی بھائیو! جس طرح گناہوں کے اِرتکاب میں جِسْم کے ظاہِری اَعضاء مثلاً ہاتھ، پاؤں، آنکھ وغیرہ کا کِردار ہے اسی طرح ہمارے سینے میں دھڑکنے والا دِل بھی گناہوں کے اِضافے میں اِن کے ساتھ برابر کا شریک ہے ۔ جب میدانِ مَحشَر میں آنکھ، کان وغیرہ سے حساب لیا جائے گا تو یہ دِل بھی ان کے ساتھ شریک ہوگا۔ چنانچہ دِل سے پوچھا جائے گا کہ اِس کے ذریعے کیا سوچا گیا اور پھر کیا اِعتِقاد رکھا گیا۔ بہت سارے  دل سے ہونے والے گناہوں میں سے ایک گناہ بدگمانی ہے آئیے ’’بدُگمانی‘‘ میں کے بارے کچھ جانتے ہیں۔

سوء ظن یعنی بدگمانی کی تعریف: بدگمانی سے مراد یہ ہے کہ بلا دلیل دوسرے کے برے ہونے کا دل سے اعتقاد جازم (یعنی یقین) کرنا۔ (شیطان کے بعض ہتھیار، ص32)

آئیے ! اس سلسلے میں احادیثِ مبارکہ میں بیان کردہ چند وعیدیں پڑھئے اور خوفِ خدا سے لرزیئے:

(1) نبی مکرّم،نورِ مجسّم،رسولِ اکرم،شہنشاہِ بنی آدم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: بد گمانی سے بچو بے شک بد گُمانی بد ترین جھوٹ ہے۔( صحیح البخاری،کتاب النکاح،باب مایخطب علی خطبۃ اخیہ،3/446، حدیث: 5143)

(2) اللہ پاک کے محبوب، صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : مسلمان کا خون مال اور اس سے بد گُمانی (دوسرے مسلمان) پر حرام ہے۔(شعب الایمان ،باب فی تحریم اعراض الناس،5/297،حدیث :6706)

(3) حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا سے مرفوعاً مروی ہے : جس نے اپنے مسلمان بھائی سے بُرا گُمان رکھا ، بے شک اس نے اپنے ربّ سے بُرا گُمان رکھا۔ (الدرالمنثور ، پ26 ، الحجرات ، تحت الآیۃ12 ، 7/566)

محترم قارئین ! آپ نے بدگمانی کی تباہ کاریاں ملاحظہ کیں اب بد گمانی کے دینی اور دُنْیَوی نقصانات ملاحظہ کیجیے۔

بد گمانی کے دینی اور دُنْیَوی نقصانات: یہاں بدگمانی کے دینی اور دُنْیَوی نقصانات بھی ملاحظہ ہوں تاکہ بد گمانی سے بچنے کی ترغیب ملے، چنانچہ اس کے 4 دینی نقصانات یہ ہیں:۔ (1)جس کے بارے میں بد گمانی کی ،اگر اُس کے سامنے اِس کا اظہار کر دیا تو اُس کی دل آزاری ہو سکتی ہے اور شرعی اجازت کے بغیر مسلمان کی دل آزاری حرام ہے ۔(2) اگر اس کی غیر موجودگی میں دوسرے کے سامنے اپنے برے گمان کا اظہار کیا تو یہ غیبت ہو جائے گی اور مسلمان کی غیبت کرنا حرام ہے ۔(3)بدگمانی کرنے والا محض اپنے گمان پر صبر نہیں کرتا بلکہ وہ اس کے عیب تلاش کرنے میں لگ جاتا ہے اور کسی مسلمان کے عیبوں کو تلاش کرنا ناجائز و گناہ ہے ۔ (4)بد گمانی کرنے سے بغض اور حسد جیسے خطرناک اَمراض پیدا ہوتے ہیں ۔(صراط الجنان ، 9/435 )

بد گمانی کے شرعی حکم کی تفصیل: صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :بے شک مسلمان پر بد گمانی حرام ہے مگر جبکہ کسی قرینہ سے اس کا ایسا ہونا ثابت ہوتا ہو(جیسا اس کے بارے میں گمان کیا) تو اب حرام نہیں مثلاً کسی کو (شراب بنانے کی) بھٹی میں آتے جاتے دیکھ کر اسے شراب خور گمان کیا تواِس کا قصور نہیں (بلکہ بھٹی میں آنے جانے والے کا قصور ہے کیونکہ) اُس نے موضعِ تہمت (یعنی تہمت لگنے کی جگہ) سے کیوں اِجتناب نہ کیا۔( فتاوی امجدیہ، 1 / 123)

بد گمانی کا علاج: بدگمانی کے علاج کے لئے گمانوں کی کثرت سے بچئے، بُرے کاموں سے بچئے کیونکہ جب کسی کے کام بُرے ہوجائیں تو اس کے گُمان بھی بُرے ہو جاتے ہیں، بُری صحبت میں نہ بیٹھیں، حُسنِ ظن (اچھا گمان) کی عادت بنائیے، اپنے دِل کو سُتھرا رکھنے کی کوشش کیجئے، روزانہ دس بار ”اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم“ پڑھنے والے پر شياطين سے حفاظت کرنے کے لئے اللہ پاک ایک فرشتہ مقرّر کر دیتا ہے، اپنے مسلمان بھائیوں کی خُوبیوں پر نظر رکھئے، اپنی بُرائیوں پر نظر کیجئے اور انہیں دُور کرنے میں لگ جائیے، جب بھی دل میں کسی مسلمان کے بارے میں بدگمانی پیدا ہو تو اپنی تَوَجُّہ اس کی طرف کرنے کے بجائے بدگمانی کے شَرْعِی اَحْکَام کو پیشِ نظر رکھئے اور بدگمانی کے انجام پر نِگاہ رکھتے ہوئے خود کو عذابِ الٰہی سے ڈرائیے، جس سے بدگمانی ہو اس کے لئے دُعَائے خیر کیجئے ۔

نوٹ: بدگمانی کے بارے میں تفصیلات جاننے کے لئے دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کے مطبوعہ57 صفحات پر مشتمل رسالے ’’بدگمانی ‘‘کا ضرور مطالعہ کیجئے ۔

اللہ کریم ہمیں بدگمانی سے بچنے اور مسلمانوں سے حسنِ ظن رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اعلٰی حضرت امام احمد رضا رحمۃُ اللہِ علیہ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں : ایک مسلمان پر بلا دلیل یہ گمان کیا کہ (کسی نیکی میں) اس کی نیت ریاکاری و تفاخر و ناموری ہے تو یہ حرامِ قَطعِی ہے۔کسی برائی کا حکم بغیر واضح دلیل کے کسی معین مسلمان کے لئے سمجھ لینا بدگمانی ہے اور بدگمانی حرام ہے۔ (ملخصاً، شیطان کے بعض ہتھیار، ص39)

معاشرے میں کئی فسادات اور برائیوں کے بڑھنے میں بدگمانی ایک بیج کا کردار ادا کر رہی ہے کہ سب سے پہلے بندہ کسی شخص کے بارے میں بغیر کسی تحقیق کے غلط باتیں سوچ لیتا ہے، پھر تجسس میں لگ جاتا ہے، موقع دیکھتے ہے غیبتوں اور تہمتوں کا سلسلہ شروع، پھر جس شخص کے خلاف یہ کاروائیاں جاری ہوں اور اسے معلوم ہو جائے تو بدلے کی آگ جل اٹھتی ہے اور نہ جانے پھر یہ آگ کہاں تک تباہی کردیتی ہے۔ بدگمانی اور اس طرح کی ہر بیماری کا اول سبب تو لاعلمی ہی ہے کہ جب قراٰن و حدیث کو سمجھ کر پڑھیں گے ہی نہیں تو کیسے معلوم ہوگا کہ ہمیں شریعتِ اسلامیہ بدگمانی تو دور زیادہ گمان کرنے سے بھی منع کرتی ہے کہ کوئی گمان بدگمانی نہ ہو جائے، جیسا کہ قراٰن مجید میں ارشادِ باری ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو بہت گمانوں سے بچو بیشک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے۔(پ 26،الحجرات:12 ) اسی طرح احادیثِ مبارکہ میں بھی بدگمانی سے منع کیا گیا ہے۔”سوچ“ کے تین حروف کی نسبت سے بدگمانی کی مذمت پر 3 احادیثِ کریمہ پیش کی جاتی ہیں:

(1) فرمانِ آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے : بدگمانی سے بچو بے شک بدگمانی بدترین جھوٹ ہے۔( شیطان کے بعض ہتھیار، ص32)

(2)فرمانِ رسولِ ذیشان صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے : مسلمان کاخون، مال اور اس سے بدگمانی (دوسرے مسلمان پر) حرام ہے۔(بدگمانی، ص18)

(3)حضور رحمۃ الّلعٰلمین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جس نے اپنے بھائی کے متعلق بدگمانی کی بے شک اس نے اپنے ربّ  سے بدگمانی کی۔(باطنی بیماریوں کی معلومات، ص12)

ان احادیثِ مبارکہ پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بدگمانی جھوٹ کی بھی بدترین صورت ہے اور حرام ہے۔ جبکہ لوگوں کا معاملہ اس کے برعکس ہے، اور جدید دور میں بدگمانی کی بھی جدید قسمیں رائج ہوگئیں، مثلاً: کال نہ اٹھائی تو بدگمانی کہ جان بوجھ کر نہیں اٹھائی ، سائیکل سے بائیک لی یا بائیک سے کار یا کرائے کے مکان سے اپنے مکان میں چلا گیا تو بدگمانی کہ حرام کماتا ہے، کوئی بڑا منصب مل گیا تو بدگمانی کہ رشوت دی ہوگی یا سفارش کروائی ہوگی، امام مسجد چند منٹ لیٹ ہوجائیں تو بدگمانی کہ سویا ہوگا یا فکر ہی نہیں نماز کی وغیرہ ، الغرض طرح طرح کی باتیں اور خیالات بغیر کسی ثبوت کے گڑھ لیے جاتے ہیں اور اگر پوچھ لیا جائے کہ اس بات کا ثبوت ہے آپ کے پاس تو جواب ملتا ہے کہ بس جی! ہمیں سب پتا ہے۔ اللہ کے بندوں! تمہیں کون یہ غیب کی خبریں دے رہا ہے؟ کون سے مؤکل یہ سب آپ تک پہنچا رہے ہیں؟ خدارا جب تک کسی معاملے کا یقینی علم نہ ہو، تب تک کوئی غلط خیال نہ لائیں بلکہ ہمیشہ ہمیشہ ہمیشہ حسنِ ظن رکھیں کہ ضرور کوئی مجبوری یا بہتری ہوگی۔ اللہ پاک ہمیں بدگمانی سے سے بچنے اور حسنِ ظن قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

خُدایا عطا کر دے رحمت کا پانی

رہے قَلب اُجلا دُھلے بد گُمانی