امام مسجد کا مقام مرتبہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ امام مسجد اپنے علاقے کا وہ معزز شخص ہوتا ہے جس کی اقتدا میں ہر بڑے سے بڑا ‏عہدے والا بھی  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوتا ہے اور امام کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنا ضامن تسلیم کرتا ہے ۔ امامت کا منصب کوئی عام منصب نہیں یہ وہ خاص و اعلیٰ منصب ہے جس پر انبیا علیہم ‏السلام اور اصحابِ رسول و اہلِ بیتِ اطہار علیہم الرضوان فائز رہے۔ اور شبِ معراج محبوبِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تمام انبیا علیہم السّلام ‏کے درمیان امامت کروائی ۔ اس منصب کا حق ادا کرنا بہت ضروری ہے اور امام مسجد کو سنتوں کا ایسا عامل ہونا چاہیے کہ عوام امام کو ‏دیکھ کر سنتوں کے عامل بن جائیں ۔

امامِ مسجد کا کردار ، رہن سہن ، بول چال اور عادات ایسی ہونی چاہیے کہ لوگ اس سے متاثر ہو کر دینِ اسلام کی طرف آئیں ۔ ‏ہمارے معاشرے میں امام مسجد کو بہت عزت و احترام دیا جاتا ہے۔ اور امام مسجد کو علم فقہ پر اور خصوصاً نماز روزہ زکوٰۃ وغیرہ کے مسائل بھرپور مہارت ہونی چاہیے کہ یہ روز مرہ کے معاملات میں پیش ‏آنے والے مسائل ہیں۔امام مسجد کے بہت حقوق ہیں اگر سب کو زینت قرطاس بنایا جائے تو وقت کے قلیل ہونے کے سبب سب کو یکجا جمع کرنا مشکل ہو ‏جائے گا۔ اس لیے چند حقوق کو تحریر کئے جا رہے ہیں:

‏(1) امام مسجد کو متقی و پرہیز گار ہونا چاہیے۔ تاکہ امام صاحب کو دیکھ کر لوگوں کو خوف خدا یاد آئے ‏۔

‏(2) شریعت کا پابند ہونا چاہیے ۔ تاکہ لوگ امام مسجد کو دیکھ کر شریعت پر عمل کرنا شروع کردیں۔

‏(3) امام مسجد کو اپنے منصب کا غلط استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ یعنی ایسی دکان پر جانا جہاں لوگ امام کو اس کے منصب کی وجہ سے سامان ‏فری مل جائے تو یہ غلط فعل ہے۔

‏ (4) عوام کو چاہیے کے امام صاحبان کی انفرادی طور پر لازمی مدد کریں۔ کیوں کہ عموماً امام صاحبان کی تنخواہیں بہت کم ہوتی جس سے ‏انکا گزر بسر بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس لیے اہلِ علاقہ پر لازم ہے کہ وہ امام صاحبان کی انفرادی طور پر لازمی مدد کریں۔ ‏

‏(5) امام صاحب پر طعن و تشنیع نہیں کرنی چاہیے ، اگر کبھی نماز میں تاخیر ہو جائے تو امام صاحب کی ذلت کرنے کے بجائے اس کے ‏عذر کو سنا جائے۔ اور بلاوجہ امام صاحب کے خلاف باتیں کرنے سے بچا جائے کہ یہ اخلاقی طور اور شرعی طور دونوں طرح سے ‏درست نہیں ۔

‏(6) امام صاحب اصلاح معاشرہ اور اصلاح امت کے لیے مسجد میں شارٹ کورسز کا سلسلہ جاری رکھے۔

‏(7) امام مسجد کی قراءت کا خوبصورت ہونا چاہیے ۔ اگر امام مسجد عالم دین اور حافظ قراٰن ہو تو زیادہ حسن پیدا ہو جائے گا۔

‏(8) نمازیوں کو بلاوجہ امام مسجد کی تنقید نہیں کرنی چاہیے۔

‏(9) امام مسجد معاشرے کا عظیم شخص ہوتا ہے اسلیے اس کو ایسے کاموں سے بچنا چاہیے جو اس کی تذلیل کا باعث بنیں ، اور ایسی جگہ ‏جانے سے بھی بچیں جو محل تہمت ہو۔

‏(10) امام مسجد اپنے اہل علاقہ کے عقائد کو درست کرے اور علاقے کی ابھرتی نسل کے عقائد درست کرے تاکہ وہ دین اسلام کی ‏خدمت کر سکیں۔

امام صاحب کے ساتھ تعاون کرنے کی وجہ یہی ہے کہ ہم امام صاحب سے یہ نہ پوچھیں کہ "حالات کیسے ہیں ، کسی چیز کی حاجت" ، امام ‏صاحب کبھی یہ نہیں کہیں گے کہ مجھے فلاں فلاں شے کی حاجت ہے بالکل وہ سکوت اختیار کرکے نفی کا اشارہ کریں گے۔ ہمیں چاہیے ‏کہ ہم بغیر پوچھے امام صاحب کی خدمت میں رقم راشن پیش کردیں ، ایسا کرنے کے بعد اس کو جتایا نہ جائے بلکہ ہونا تو یوں چاہیے ‏کہ دائیں ہاتھ سے دیں اور بائیں کو معلوم نہ ہو۔ تبھی آپ کو دیے ہوئے مال راشن کا فائدہ ہوگا۔ ‏

امام صاحبان کی تنخواہوں میں بغیر امام صاحب کے کہے ہی اضافہ کرنا چاہیے۔ اتنی تنخواہ ضرور ہونی چاہیے کہ وہ اپنا پورا ماہ سکون سے ‏گزار سکیں۔

کاش ہم منصبِ امامت کی اہمیت کو جان لیں اور فضیلت امام کو پہنچان لیں تو یقیناً ہمارا معاشرہ بہترین معاشرہ بن جائے گا۔‏

یہ منبر و محراب کے وارث سنتِ رسول کو عام کرنے میں کوشاں ہوتے ہیں ہمیں ان مبارک لوگوں کا ساتھ دے کر دینِ اسلام کی ‏خدمت میں حصہ ملانا چاہیے۔ یہی ہمارے لیے ذریعۂ نجات بن سکتا ہے۔

رب العالمین ہمیں امام الانبیا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے برکتیں عطا فرمائے۔ اٰمین ثم اٰمین ۔


مسجد کو آباد کرنا بڑا عظیم کام ہے۔ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا ‏: اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَى الزَّكٰوةَ وَ لَمْ یَخْشَ اِلَّا اللّٰهَ فَعَسٰۤى اُولٰٓىٕكَ اَنْ یَّكُوْنُوْا مِنَ الْمُهْتَدِیْنَ(۱۸) ‏ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اللہ کی مسجدوں کو وہی آباد کرتے ہیں جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان لاتے ہیں اور نما ز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تو عنقریب یہ لوگ ہدایت والوں میں سے ہوں گے۔(پ ‏‏10،التوبۃ:18)‏ اور ایسے لوگوں کو ہدایت یافتہ قرار دیا ‏۔

مسجد کی آباد کاری میں سب سے بڑا کردار امام مسجد کا ہے اور امامت ایسا عظیم منصب ہے کہ ‏ خود حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ،صحابۂ کرام،اولیائے کرام ،علمائے کرام،بزگانِ دین نے امامت فرمائی ۔حدیث مبارکہ میں فرمایا: ثلاثةٌ على كُثبانٍ من المسك يوم القيامة ، و ذُكر أنّ منهم رجلا أم قومًا و هم به راضون ترجمہ : آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: روزِقیامت تین قسم کے آدمی کستوری کے ٹیلوں پر ہوں گے ان میں سے ایک وہ شخص ہو گا جس ‏نے قوم کی امامت کی اور وہ اس (امام )سے خوش تھے۔ (جامع الترمذی البروالصلۃ باب ماجاء فی فضل المملوک الصلح، حدیث :1986)

‏ اور خود حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے امام کے لیے دعا فرمائی (الإمام ضامن ، والمؤذِّنُ مؤتَمنٌ، اللہمَّ أرشِدِ الأئمَّةَ واغفِر للمؤذِّنينَ) ‏رسولُ اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: امام ضامن ہے اور مؤذن امین ہے، اے اللہ! تو اماموں کو راہِ راست پر رکھ اور مؤذنوں کی ‏مغفرت فرما۔(مسند احمد بن حنبل، حدیث : 6996)‏

‏ اس سے امامِ مسجد کی اہمیت و مقام و مرتبہ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے لیکن فی زمانہ ائمہ و علما کی تعظیم و توقیر کے بجائے ایک ملازم کی ‏حیثیت سے دیکھا جاتا ہے کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ اسی کے پیشِ نظر امام کے چند حقوق پیشِ خدمت ہیں تاکہ ہم ان پر عمل کرکے ‏بہتری لا سکیں ‏۔

‏(1) امام کی عزت کرنا:‏ عن ابن عمر : أكرموا حملة القراٰن ، فمن أكرمهم فقد أكرم اللّٰہ ‏ ترجمہ حاملین قراٰن (حفاظ و علمائے کرام) کا اکرام کرو، جس نے ان کا اکرام کیا، اس نے اللہ کا اکرام کیا۔(كنز العمال، 1/523 ،حديث:2343)‏

عن أبي أمامة : حامل القراٰن حامل راية الإسلام ، من أكرمه فقد أكرم الله ، ومن أهانه فعليه لعنة الله ترجمہ: حاملین قراٰن اسلام کا جھنڈا اٹھانے والے ہیں، جس نے ان کی تعظیم کی، اس نے اللہ کی تعظیم کی اور جس نے ان کی تذلیل کی،اس ‏پر اللہ تعالی کی لعنت ہے۔ (كنز العمال، 1/523،حديث:2344)‏

آج کے اس پرفتن دور میں کچھ لوگ امام کو حقیر و ذلیل سمجھ کر ان کی توہین کرتے ہیں ، بلا وجہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ٹوکتے رہتے ہیں ‏اور کبھی کبھی نازیبا کلمات کہہ کر دل شکنی کرتے ہیں ایسے لوگوں کو چاہیے کہ امام کو اپنا پیشوا ، دین کا رہبر ، نائبِ انبیا سمجھے اور ادب و ‏احترام کے دائرے میں رہ کر ان سے کلام کرے۔‏

‏ (2) امام کی ٹوہ میں پڑنا :‏ بلاوجہ شرعی کسی مسلمان کے پیچھے پڑنا ، اس کی خامیوں اور کمیوں کی تلاش میں لگا رہنا اور برا بھلا کہنا گناہ ہے ۔ حدیث شریف میں ‏ہے قَالَ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : لَيْسَ الْمُؤْمِنُ بِالطَّعَّانِ، وَلَا اللَّعَّانِ، وَلَا الْفَاحِشِ، وَلَا الْبَذِيءِ یعنی مسلمان لعن طعن کرنے والا ، ‏فحش گو اور بے ہودہ گو نہیں ہوتا۔ ‏ (ترمذی شریف: باب ما جاء فی اللعنۃ،حدیث : 1977)‏

‏(3) امام کی تنخواہ ‏: امام کی تنخواہ مقرر کرتے وقت امام کے منصب اور معاشرے میں موجود مہنگائی کا لحاظ کرتے ہوئے مقرر کرنی چاہیے جائزہ لیجیے کہ ‏ایک شخص 15/20 ہزار میں کیا کر سکے گا فیملی کے خرچے،دودھ،راشن،شادی بیاہ میں جانا ،عید کی شاپنگ،بیماری میں دوائیاں لینا ‏اور کئی ضروریات ہیں جنکو پورا کیے بغیر انسان بڑی مشکل سے زندگی گذارے گا کم از کم اتنی تنخواہ رکھیں جو آپ اپنی اولاد کے لیے ‏چاہتے ہیں ایک واقعہ ہے ایک شخص امام صاحب کے پاس آیا اور دعا کے لیے کہا کہ میرے بیٹے کے لیے دعا کریں کہ جاب اچھی لگے ‏امام صاحب نے کہا کیا یہ دعا کروں کہ اتنی تنخواہ والی جاب ملے جتنی میری تنخواہ ہے وہ کہنے لگے امام صاحب یہ کیسی دعا ہے۔ لہٰذا ‏ مساجد سے منسلک افراد کے مشاہرہ و تنخواہ مقرر کرتے ہوئے ان وظائف کو محض ایک ملازم و نوکر کی حیثیت سے نہ دیکھا جائے بلکہ ‏یہ بنیاد سامنے رکھی جائے کہ یہ افراد معاشرے کی ایک اہم دینی ضرورت کو پوراکررہےہیں ،گرمی ،سردی،طوفان و آندھی اس ‏طرح موسم کی تبدیلی کی پرواہ کیے بغیر اپنی ذمہ داری کو نبھانے کی بھرپورکوشش کرتے ہیں ، لہذا ان امام و مؤذن و خادم کا معقول ‏وظائف مقرر کرنا اور ان میں اضافہ کرنا یہ اشاعت دین میں حصہ ڈالنے کے مترادف ہے ‏۔

‏(5،4)امام کو تحفہ ،تحائف دینا اور اچھے کاموں کی تعریف: تحفہ دینے سے آپس میں محبت بڑھتی ہے اور حدیث مبارکہ میں بھی تحفہ دینے کی ترغیب دی گئی ہے۔

روایت ہے حضرت عائشہ سے وہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے راوی کہ فرمایا: ہدیہ کا لین دین کرو ہدیہ عداوتوں کو مٹا دیتا ہے۔‏(مرآۃ المناجیح، 4، حدیث : 2327)‏

اسی طرح اگر امام صاحب کی قرأت یا بیان اچھا لگے یا کوئی خوبی نظر آئے تو اس کو انکے سامنے بیان کیا جائے اس سے بھی آپس میں ‏محبت بڑھے گی دوریاں ختم ہونگی۔

‏ (6) امام کی ذمہ داری کا احساس ہونا ‏۔ ‏ بظاہر تو یہ لگتا ہے کہ امام صاحب کا کام صرف نماز پڑھانا ہے پھر تو 24 گھنٹہ فارغ ہی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ سب سے زیادہ سخت ‏ڈیوٹی امام مسجد کی ہے کیونکہ امام صاحب کسی بھی جگہ کام سے جائیں تو ٹینشن یہی انکو رہتی ہے کہ واپس جاکر اسی مسجد میں نماز ‏پڑھانے جانا ہے یوں وہ دور دراز سفر کرنے سے پرہیز کرتا ہے اور بھی اپنے کئی پرسنل کام ایسے وقت میں کرتا ہے کہ واپس آکر اسی ‏مسجد میں نماز پڑھانے جانا ہے یہ بہت بڑی قربانی ہے ورنہ کچھ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ امام صاحب کو صرف نماز ہی تو پڑھانی ‏ہے جو اس پر فرض ہے پھر تنخواہ کیوں لیتا ہے تو ایسے شخص کو یہی جواب دیا جائے کہ ٹھیک ہے نماز پڑھنا فرض ہے لیکن اسی مسجد ‏میں تو پڑھنا فرض نہیں پھر تو امام صاحب کسی بھی مسجد ،کہیں بھی پڑھ سکتا ہے پھر ایک ہی مسجد میں نماز پڑھانے کا پابند کیوں ؟

‏ (7) امام کی بات بری لگے تو درگذر کرنا اور مناسب حل نکالنا :‏ ‏ اگر امام صاحب کا کوئی رویہ نامناسب ہے تو یا کوئی غلطی ہوگئی تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپس میں گروپ بندی کرکے ہجوم بناکر امام ‏کی غیبتیں کی جائیں بلکہ الگ سے اخلاقی دائرے میں رہتے ہوئے امام صاحب کو غلطیوں کی نشاندھی کروائی جائے کیونکہ شور مچانے ‏سے ،غیبتیں کرنے سے مسئلہ کا حل نہیں نکلے گا بلکہ ہم کئی گناہوں میں ملوث ہوجائیں گے ‏۔

‏ (9،8) امام کی ضروریات کا خیال کرنا اور اچھی رہائش کا انتظام کرنا ۔ ‏ ‏ عام معاشرے میں ایک انسان کے لیے جو ضروری سہولیات ہوتی ہیں وہ سب اچھے انداز میں امام صاحب کو بھی سہولیات دی جائیں ‏عموماً مساجد کی تعمیرات و رنگ و روغن وغیرہ میں تو کثیر خرچ کیا جاتا ہے حالانکہ بسا اوقات اس کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن امام ‏صاحب کا ہجرہ خستہ حالت میں ہوتا ہے کہیں کہیں تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس کمرے میں مسجد کی دریاں،پنکھے، اسپیکر وغیرہ سامان ہوتا وہیں امام صاحب کی رہائش ہوتی ہے۔ یہ بھی بالکل نامناسب کام ہے اسی طرح عرف کے مطابق کھانا وغیرہ کا ‏اہتمام کرنا اور اگر امام صاحب بیمار ہو جائیں تو حسب حیثیت مالی تعاون کرنا اور تعزیت کے لیے انکے پاس جانا ۔

(10) امام کو مقرر کرنے میں خیال کرنا :‏ امام کو مقرر کرنے سے پہلے مستقبل کے اعتبار سے خوب سوچ کر پلاننگ کی جائے ، یہ مناسب نہیں کہ ابھی اگر مسجد زیرِ تعمیر ‏ہے یا مسجد کی آمدن کم ہے تو گزارہ کرنے کے لئے کسی غریب ،مالی اعتبار سے حاجت مند کو رکھ کر گزارہ کرلیا جائے اور جب مسجد ‏عالیشان تعمیر ہوجائے تو اس بےچارے کو نکال دیں ، اگر مسجد تعمیر ہونے کے بعد کسی بڑے عالمِ دین ہی کو لانا ہے تو شروع ہی سے ‏طے کرلیں اور ابتداءً رکھے جانے والے امام صاحب کو بتادیں کہ ہم مسجد کی تعمیر تک آپ کی خدمات حاصل کریں گے اس طرح ‏ایک مسلمان کی دل آزاری سے ہم بچ جائیں گے۔

‏ اللہ پاک ہمیں ائمہ کرام کی عزت و خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو بہت گمانوں سے بچو بیشک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے۔(پ 26،الحجرات:12 )

حضرت علّامہ عبداللہ ابو عُمَر بن محمد شیرازی بیضاوی رحمۃُ اللہ علیہ (المتوفی791ھ) تفسیر بیضاوی میں لکھتے ہیں : تاکہ مسلمان ہر ُگمان کے بارے میں مُحْتَاط ہوجائے اور غور وفکر کرے کہ یہ ُگمان کس قبیل سے ہے۔ (تفسیر بیضاوی ، پ26 ، الحجرات ، تحت الآیۃ12 ، 5/218)

اس آیت ِکریمہ کے تحت حضرت سیدنا اِمام فخر الدین رازِی رحمۃُ اللہ علیہ (المتوفی606ھ) تفسیر ِکبیر میں لکھتے ہیں : کیونکہ کسی شخص کا کام دیکھنے میں تو بُرا لگتا ہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا کیونکہ ممکن ہے کہ کرنے والا اسے بھول کر کررہا ہو یا دیکھنے والا ہی غَلَطی پر ہو ۔ (التفسیر الکبیر ، پ26 ، الحجرٰت ، تحت الآیۃ 12 ، 10/110)

گمان کی تعریف:‏ ہر وہ خیال جو ظاہری نشانی سے حاصل ہوتا ہے گمان کہلاتا ہے۔ اس کو "ظن" بھی کہتے ہیں۔ مثلاً دھواں اٹھتا ‏دیکھ کر آگ کی موجودگی کا خیال آنا ۔

(1) بد ُگمانی سے بچو بے شک بد ُگمانی بدترین جھوٹ ہے۔ (بخاری ، 3/446 ،حدیث: 5143) (2)فرمان آخری نبی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : مسلمان کا خون مال اور اس سے بد گُمانی (دوسرے مسلمان) پر حرام ہے۔(شعب الایمان ،باب فی تحریم اعراض الناس،5/297،حدیث :6706) (3) حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا سے مرفوعاً مروی ہے : جس نے اپنے مسلمان بھائی سے بُرا گُمان رکھا ، بے شک اس نے اپنے ربّ سے بُرا گُمان رکھا۔ (الدرالمنثور ، پ26 ، الحجرات ، تحت الآیۃ12 ، 7/566)

قرینہ سے اس سے ایسا ہونا ثابت ہوتا ہو تو اب حرام نہیں مثلاً کسی کو بھٹی (یعنی شراب خانے) میں آتے جاتے دیکھ کر اُسے شراب خور (شراب پینے والو) گمان کیا تو اس بد گمانی کرنے والے کا تصور۔انہیں (اس یعنی شراب خانے میں آنے جانے والے) نے موضع تہمت یعنی ( تہمت لگنے کی جگہ) سے کیوں اجتناب (یعنی پرہیز) نہ کیا۔

امیرالمؤمنین خلیفۂ دوم حضور سیدنا فاروقِ اعظم فرماتے ہیں: جو اپنے آپ کو خود تہمت کے لئے پیش کردے تو وہ اپنے بارے میں بدگُمانی کرنے والے کو مَلَامت نہ کرے ۔(الدرالمنثور، الحجرات )

بد گمانی ممنوع ہے۔ جیسے اللہ پاک کے ساتھ بدگمانی رکھنا اور نیک مؤمن کے ساتھ بدگمانی رکھنا۔(تفسیر خزائن العرفان) اللہ پاک سے بدگمانی کا مطلب یہ ہے کہ یہ گمان رکھنا کہ اللہ مجھے رزق نہیں دے گا یا میری حفاظت نہیں فرمائے گا یا میری مدد نہیں کرے گا۔ (الحديقۃ الندیۃ، 2/7)

(4) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جب تمہیں بد گمانی پیداہو تو اس پریقین نہ کرو، جب تم حسد کرو تو حد سے نہ بڑھا کرو، جب تمہیں کسی کام کے بارے میں بدشگونی پیداہو تو اسے کر گزرو اور اللہ پاک پربھروسہ رکھو اور جب کوئی چیز تولو تو زیادہ تول دیا کرو۔

(5) لوگوں سے منہ پھیر لو کیا تم نہیں جانتے کہ اگرتم لوگوں میں شک کو تلاش کرو گے تو انہیں خراب کر دوگے یافسادمیں ڈال دو گے۔

(6) لالچ ایسی پھسلانے والی چٹان ہے جس پرعلما ء بھی ثابت قدم نہیں رہتے۔

(7) نبی کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے فرمایا :اللہ پاک کی تین چیزوں سے پناہ مانگو: (1)ایسی خواہش سے جس کا کوئی فائدہ نہ ہو (2)ایسی خواہش سے جو عیب دار کر دے (3)ایسے عیب سے جس کی خواہش کی جاتی ہو، ایسی خواہش سے اللہ پاک کی پناہ مانگوجوعیب بن جائے اور ایسے عیب سے جو خواہش بن جائے۔

(8) اللہ پاک کی پناہ مانگو ایسی خواہش سے جو عیب میں ڈال دے اور ایسی خواہش سے جو دوسری خواہش میں ڈال دے اور بے فائدہ چیزکی خواہش سے۔

(9) خواہشات سے بچتے رہوکیونکہ یہ بہت بری تنگدستی ہے اور ایسے کاموں سے بچو جن پر عذر پیش کرنا پڑے۔

کچھ وضاحت : صدر الشریعہ بدر الطریقہ حضرت علامہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃُ اللہ علیہ (متوفی 1376 ھ) لکھتے ہیں: بےشک مسلمانوں پر بد گمانی حرام ہے مگر جبکہ کسی کے بارے میں بدگمانی کو دل پر جما لینا ہے تو شیطان اس کو ابھارتا ہے کہ وہ زبان سے اس کا اظہار کرے۔ اس طرح وہ شخص غیبت کا مرتکب ہو کر ہلاکت کا سامان کر لیتا ہے یا پھر وہ اس کے حقوق پورے کرنے میں کوتاہی کرتا ہے یا پھر اُسے حقیر اور خود کو اس سے بہتر سمجھتا ہے۔ یہ تمام تر چیزیں ہلاک کرنے والی ہیں۔ (الحدیقۃ الندیۃ،2/8)


دینِ اسلام وہ عظیم دین ہے جس میں انسانوں کے باہمی حقوق اور معاشرتی آداب کو خاص اہمیت دی گئی ہے اور ان چیزوں کا خاص خیال (لحاظ) رکھا گیا ہے۔ اسی لئے جو چیز انسانی حقوق کو ضائع کرنے کا سبب بنتی ہے اور جو چیز معاشرتی آداب کے برخلاف ہے اس سے دین اسلام نے منع فرمایا ہے اور اس سے بچنے کا تاکید کے ساتھ حکم دیا ہے۔ انہی اشیاء میں سے ایک چیز بدگمانی ہے جو کہ انسانی حقوق کی پامالی کا بہت بڑا سبب اور معاشرتی آداب کے انتہائی بر خلاف ہے۔ اس (بدگمانی) سے دینِ اسلام میں خاص طور پر منع کیا گیا ہے۔ آئیے اس کے بارے میں مزید جانتے ہیں : فرمان باری ہے   : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو بہت گمانوں سے بچو بیشک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے۔(پ 26،الحجرات:12 )

بدگمانی کی تعریف: بد گُمانی سے مراد یہ ہے کہ بلا دلیل دوسرے کے بُرے ہونے کا دل میں اعتقادِ جازم ( یعنی یقین) کرنا۔ (فیض القدیر، 3/122،تحت الحدیث:2901 وغیرہ)

دو فرامینِ مصطفے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: (1) بدگمانی سے بچو سے شک بد گمانی بدترین جھوٹ ہے۔ (صحیح البخاری،3/446، حدیث: 5143)

(2) مسلمان کا خون مال اور اس سے بد گُمانی (دوسرے مسلمان) پر حرام ہے۔(شعب الایمان ،باب فی تحریم اعراض الناس،5/297،حدیث :6706)

(3) مؤمن کی بدگمانی اللہ سے بدگمانی : اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدتُنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ خاتم المرسلین، رحمۃ للعالمین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے اپنے بھائی کے متعلق بدگمانی کی بے شک اس نے اپنے رب سے بد گمانی کی، کیونکہ اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:( اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘) ترجمۂ کنزالایمان: بہت گمانوں سے بچو۔(کنزالعمال، کتاب الاخلاق،ظن السوء ، 2/199، حدیث : 7582)

(4) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اپنے آپ کو بدگمانی سے بچاؤ کہ بدگمانی بد ترین جھوٹ ہے، ایک دوسرے کے ظاہری اور باطنی عیب مت تلاش کرو، حرص نہ کرو، حسد نہ کرو، بغض نہ کرو، ایک دوسرے سے رُو گَردانی نہ کرو اور اے اللہ کے بندو بھائی بھائی ہو جاؤ۔(مسلم، کتاب البرّ والصلۃ والاٰداب، باب تحریم الظّنّ والتّجسّس...الخ، ص1386، حدیث: 2563)

اللہ پاک ہمیں ایک دوسرے کے بارے میں بدگمانی کرنے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین


بدگمانی کی تعریف: بدگمانی کی تعریف بیان کرتے ہوئے شیخ طریقت امیر اہلسنت بانی دعوت اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دامت بر کاتہم العالیہ فرماتے ہیں: بدگمانی سے مراد یہ ہے کہ بلا دلیل دوسرے کے برے ہونے کا دل سے اِعتقادِ جازِم(یعنی یقین) کرنا۔(شیطان کے بعض ہتھیار،ص32)

پیارے اسلامی بھائیو! بدگمانی ایک بڑی برائی ہے۔ جس کی مذمت قراٰن و احادیث مبارکہ میں آئی ہے ۔ چنانچہ پارہ 26 سورہ الحجرات آیت 12 میں ارشاد باری ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو بہت گمانوں سے بچو بیشک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے۔(پ 26،الحجرات:12 )

تفسیر خزائن العرفان میں ہے: مؤمنِ صالح کے ساتھ برا گمان ممنوع ہے ، اسی طرح اس کا کوئی کلام سن کر فاسد معنی مراد لینا باوجود یکہ اس کے دوسرے صحیح معنی موجود ہوں اور مسلمان کا حال ان کے موافق ہو ، یہ بھی گمانِ بد میں داخل ہے ۔

بدگمانی کا گناہ ہماری دنیا و آخرت برباد کر دینے والا کام ہے۔ آئیے اس سلسلے میں احادیث مبارکہ میں بیان کردہ چند و عیدیں پڑھنے اور خوف خدا سے لرزیئے :

(1) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے اپنے بھائی کے متعلق بدگمانی کی بے شک اس نے اپنے رب سے بد گمانی کی، کیونکہ اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:( اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘) ترجمۂ کنزالایمان: بہت گمانوں سے بچو۔(باطنی بیماریوں کی معلومات، ص142)

(2)فرمانِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: بدگمانی سے بچو بیشک بدگمانی بدتریں جھوٹ ہے۔(بخاری،3/446، حدیث:5143)

(3) اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :مسلمان کا خون، مال اور اس سے بدگمانی (دوسرے مسلمان ) پر حرام ہے۔(شعب الایمان ، 5/297،حدیث :6706)

(4) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اپنے آپ کو بدگمانی سے بچاؤ کہ بدگمانی بد ترین جھوٹ ہے، ایک دوسرے کے ظاہری اور باطنی عیب مت تلاش کرو، حرص نہ کرو، حسد نہ کرو، بغض نہ کرو، ایک دوسرے سے رُو گَردانی نہ کرو اور اے اللہ کے بندو بھائی بھائی ہو جاؤ۔(مسلم، کتاب البرّ والصلۃ والاٰداب، باب تحریم الظّنّ والتّجسّس...الخ، ص1386، حدیث: 2563)

محترم قارئین! دینِ اسلام وہ عظیم دین ہے جس میں انسانوں کے باہمی حقوق اور معاشرتی آداب کو خاص اہمیت دی گئی ہے اور ان چیزوں کا خاص خیال (لحاظ) رکھا گیا ہے۔ اسی لئے جو چیز انسانی حقوق کو ضائع کرنے کا سبب بنتی ہے اور جو چیز معاشرتی آداب کے برخلاف ہے اس سے دین اسلام نے منع فرمایا ہے اور اس سے بچنے کا تاکید کے ساتھ حکم دیا ہے۔

پیارے اسلامی بھائیو! اپنی دنیا و آخرت بہتر بنانے اور بدگمانی سے بچنے کیلئے دنوں اسلامی کا دینی ماحول اختیار کر لیجئے۔ ان شاء الله گنا ہوں سے بچنے ، نیکیاں کرنے اور سنتوں پر عمل کرنے کا ذہن بنے گا ۔ اللہ پاک ہمیں دیگر گناہوں کے ساتھ ساتھ بدگمانی سے بھی بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین


دینِ اسلام وہ عظیم دین ہے جس میں انسانوں کے باہمی حقوق اور معاشرتی آداب کو خاص اہمیت دی گئی ہے اور ان چیزوں کا خاص خیال (لحاظ) رکھا گیا ہے۔ اسی لئے جو چیز انسانی حقوق کو ضائع کرنے کا سبب بنتی ہے اور جو چیز معاشرتی آداب کے برخلاف ہے اس سے دین اسلام نے منع فرمایا ہے اور اس سے بچنے کا تاکید کے ساتھ حکم دیا ہے۔ انہی اشیاء میں سے ایک چیز بدگمانی ہے جو کہ انسانی حقوق کی پامالی کا بہت بڑا سبب اور معاشرتی آداب کے انتہائی بر خلاف ہے۔ اس (بدگمانی) سے دینِ اسلام میں خاص طور پر منع کیا گیا ہے۔ آئیے اس کے بارے میں مزید جانتے ہیں : فرمان باری ہے : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو بہت گمانوں سے بچو بیشک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے۔(پ 26،الحجرات:12 )

اس آیت ِکریمہ کے تحت اِمام فخر الدین رازِی رحمۃُ اللہ علیہ تفسیر ِکبیر میں لکھتے ہیں: کیونکہ کسی شخص کا کام دیکھنے میں تو بُرا لگتا ہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا کیونکہ ممکن ہے کہ کرنے والا اسے بھول کر کررہا ہو یا دیکھنے والا ہی غَلَطی پر ہو ۔ (بدگمانی،ص 13)

بنیادی طور پر گمان(ظن) کی دو اقسام ہیں:(1)حسنِ ظن (یعنی اچھا گمان) (2)سوئے ظن(یعنی برا گمان)۔اسے بد گُمانی بھی کہتے ہیں۔

چونکہ ہمارا موضوع دوسری قسم ( سوئے ظن) ہے۔ آئیے اس حوالے سے چند معلومات حاصل کرتے ہیں :

بدگمانی کی تعریف : بدگمانی سے مراد یہ ہے کہ بلا دلیل (بغیر دلیل کے) دوسرے کے بُرے ہونے کا دل سے اعتقاد جازم (یعنی یقین) کرنا ۔ (فیض القدیر ، 3/ 122 ، تحت الحدیث : 2901 وغیرہ)

بدگمانی کا نقصان : بدگمانی سے بغض اور حسد جیسے باطنی امراض بھی پیدا ہوتے ہیں ۔ نیز دل آزاری اور غیبت کا بھی سبب ہے۔ اسی طرح دشمنی کابھی سبب ہے ۔

بدگمانی کی مذمت میں 5 احادیث مبارکہ:

(1) اپنے رب سے بدگمانی کی : حضرت سیِّدتُنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ خاتم المرسلین، رحمۃ للعالمین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے اپنے بھائی کے متعلق بدگمانی کی بے شک اس نے اپنے رب سے بد گمانی کی، کیونکہ اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:( اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘) ترجمۂ کنزالایمان: بہت گمانوں سے بچو۔(کنزالعمال، کتاب الاخلاق،ظن السوء ، 2/199، حدیث : 7582)

(2)بدگمانی سے بچو: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسولُ الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : بدگمانی سے بچو کیونکہ بد گمانی سب سے چھوٹی بات ہے۔ ( بخاری ، کتاب الفرائض ، باب تعليم الفرائض ، 4/313 ، حدیث : 6724)

(3)حرام ہے: نبی مکرم شفیع معظم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان رحمت نشان ہے: مسلمان کا خون، مال اور اس سے بد گُمانی (دوسرے مسلمان) پر حرام ہے۔(شعب الایمان ،باب فی تحریم اعراض الناس،5/297،حدیث :6706)

(4) بدگمانی نہ کرو : حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: تم اپنے بھائی کے منہ سے نکلنے والی کسی بات کا اچھا مَحمل پاتے ہو تو اس کے بارے میں بدگمانی نہ کرو۔(در منثور، الحجرات، تحت الاٰيۃ:12، 7/566)

(5) بھائی بھائی ہو جاؤ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اپنے آپ کو بدگمانی سے بچاؤ کہ بدگمانی بد ترین جھوٹ ہے، ایک دوسرے کے ظاہری اور باطنی عیب مت تلاش کرو، حرص نہ کرو، حسد نہ کرو، بغض نہ کرو، ایک دوسرے سے رُو گَردانی نہ کرو اور اے اللہ کے بندو بھائی بھائی ہو جاؤ۔(مسلم، کتاب البرّ والصلۃ والاٰداب، باب تحریم الظّنّ والتّجسّس...الخ، ص1386، حدیث: 2563)

بدگمانی کا حکم : اعلحضرت امام احمد رضاخان رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مسلمان پر بد گمانی حرام ہے جب تک ثبوتِ شرعی نہ ہو ۔ (فتاوی رضویہ ، 6/486) دوسرے مقام پر فرماتے ہیں :مسلمانوں پر بدگمانی حرام اور حتّی الامکان اس کے قول وفعل کو وجہ ِصحیح پر حمل واجب (ہے)۔( فتاوی رضویہ،20 / 278)

بدگمانی کا علاج: شیخ طریقت امیر اہلسنت بانی دعوت اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دامت بر کاتہم العالیہ کے رسالے شیطان کے بعض ہتھیار صفحہ (34) سے بدگمانی کے سات علاج پیش خدمت ہیں: (1) مسلمان کی خوبیوں پر نظر رکھئے۔(2) بدگمانی سے توجہ ہٹا دیجئے۔ (3) خود نیک بنئے تاکہ دوسرے بھی نیک نظر آئیں ۔ (4) بری صحبت برے گمان پیدا کرتی ہے۔(5) کسی سے بدگمانی ہو تو عذاب الٰہی سے خود کو ڈرائیے۔ (6) کسی کے بارے میں بدگمانی پیدا ہو تو اپنے لئے دعا کیجئے ۔ (7) جس کے لیے بدگمانی ہو اس کے لیے دعائے خیر کیجئے ۔

مشورہ: مزید معلومات کیلئے المدینۃ العلمیہ کا رسالہ بد گمانی کا مطالعہ کیجئے ۔

مجھے غیبت و چغلی و بدگمانی

کی آفات سے تو بچایا الہی

خدا بدگمانی کی عادت مٹادے

مجھے حُسن ظن کا تو عادی بنا دے

الله پاک ہمیں بدگمانی سے بچنے اور اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ اچھا گمان رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


دینِ اسلام ایک ایسا دین ہے جو ہر کسی کے حقوق کا خیال رکھتا ہے چاہے وہ انسان ہو یا جانور۔ اور دینِ اسلام ہر اس چیز سے روکتا ہے جس سے دوسرے کو تکلیف پہنچتی ہو ۔اس میں بہت سی چیزیں آجاتی ہیں:۔ ظلم، جھوٹ، غیبت تکبر و غیرہ ۔  ان میں سے ایک برائی بدگمانی بھی ہے جو کہ آج کل ہمارے معاشرے میں پہاڑ کی کی طرح مضبوط ہو گئی ہے اور درخت کی جڑوں کی طرح پھیلتی ہی جارہی ہے۔ بچہ سے لے کر بوڑھا ہر کوئی اس برائی میں ہیں۔ قراٰنِ پاک اور احادیث مبارکہ میں بھی اس کی مذمت اور اس سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے ۔ الله پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو بہت گمانوں سے بچو بیشک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے۔(پ 26،الحجرات:12 )

آیت کے اس حصے میں اللہ پاک نے اپنے مومن بندوں کو بہت زیادہ گمان کرنے سے منع فرمایا کیونکہ بعض گمان ایسے ہیں جو محض گناہ ہیں لہٰذا احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ گمان کی کثرت سے بچا جائے۔( ابن کثیر ، الحجرات ، تحت الآیۃ: 12 ، 7 / 352)

امام فخر الدین رازی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : (یہاں آیت میں گمان کرنے سے بچنے کا حکم دیا گیا) کیونکہ گمان ایک دوسرے کو عیب لگانے کا سبب ہے ،اس پر قبیح افعال صادر ہونے کا مدار ہے اور اسی سے خفیہ دشمن ظاہر ہوتا ہے اور کہنے والا جب ان اُمور سے یقینی طور پر واقف ہو گا تو وہ ا س بات پر بہت کم یقین کرے گا کہ کسی میں عیب ہے تاکہ اسے عیب لگائے ،کیونکہ کبھی فعل بظاہر قبیح ہوتا ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا اس لئے کہ ممکن ہے کرنے والا اسے بھول کر کررہا ہو یا دیکھنے والا غلطی پر ہو۔( تفسیرکبیر ، الحجرات ، تحت الآیۃ: 12 ، 10 / 110)

بد گمانی کی تعریف : بد گُمانی سے مراد یہ ہے کہ بلا دلیل دوسرے کے بُرے ہونے کا دل میں اعتقادِ جازم ( یعنی یقین) کرنا۔ (فیض القدیر، 3/122،تحت الحدیث:2901 وغیرہ)

حدیثِ اول: رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مسلمان کا خون مال اور اس سے بد گُمانی (دوسرے مسلمان) پر حرام ہے۔(شعب الایمان ،باب فی تحریم اعراض الناس،5/297،حدیث :6706)

حدیثِ ثانی: حضرت سیِّدتُنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مرفوعاً ہے کہ: جس نے اپنے بھائی کے متعلق بدگمانی کی بے شک اس نے اپنے رب سے بد گمانی کی، کیونکہ اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:( اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘) ترجمۂ کنزالایمان: بہت گمانوں سے بچو۔(کنزالعمال، کتاب الاخلاق،ظن السوء ، 2/199، حدیث : 7582)

حدیثِ ثالث : نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عبرت نشان ہے: بد گُمانی سے بچو بیشک بد گُمانی بدترین جھوٹ ہے ۔ (صحیح البخاری،3/446، حدیث: 5143)

بد گمانی بہت بری چیز ہے۔ اکثر طور پر نعت شریف یا بیان و غیره سن کر کسی کو روتا دیکھا تو اس کے بارے میں یہ خیال جما لینا کہ یہ لوگوں کو دکھانے کے لئے رورہا ہے۔ الامان والحفیظ ۔اللہ پاک ہم سب کو اس بری بیماری سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین 


دین اسلام وہ عظیم دین ہے جس میں انسانوں کے باہمی حقوقی اور معاشرتی آداب کو خاص اہمیت دی گئی اور ان چیزوں کا خصوصی لحاظ رکھا گیا ہے اس لئے جو چیز انسانی حقوق کو ضائع کرنے کا سبب بناتی ہے اور جو چیز معاشرتی آداب کے بر خلاف ہے اس سے دین اسلام نے منع فرمایا اور اس سے بچنے کا تاکید کے ساتھ حکم دیا ہے۔ جیسے ان اشیاء میں سے ایک چیز بد گمانی بھی ہے جو کہ انسانی حقوق کے پامالی کا بہت بڑا سبب اور معاشرتی آداب کے ابتدائی بر خلاف ہے، اس سے دین اسلام میں خاص طور پر منع کیا گیا ہے، چنانچہ قراٰن مجید میں ایک اور مقام پر اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌؕ-اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا (۳۶) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں بےشک کان اور آنکھ اور دل ان سب سے سوال ہونا ہے۔(پ15، بنی ٓ اسرآءیل:36)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اپنے آپ کو بدگمانی سے بچاؤ کہ بدگمانی بد ترین جھوٹ ہے، ایک دوسرے کے ظاہری اور باطنی عیب مت تلاش کرو، حرص نہ کرو، حسد نہ کرو، بغض نہ کرو، ایک دوسرے سے رُو گَردانی نہ کرو اور اے اللہ کے بندو بھائی بھائی ہو جاؤ۔(مسلم، کتاب البرّ والصلۃ والاٰداب، باب تحریم الظّنّ والتّجسّس...الخ، ص1386، حدیث: 2563)

اللہ پاک ہمیں ایک دوسرے کے بارے میں بدگمانی کرنے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (اٰمین)

بد گمانی کی تعریف : بد گمانی سے مراد یہ ہے کہ بلا دلیل دوسرے کے برے ہونے کا دل سے اعتقاد جازم (یعنی یقین) کرنا۔(فیض القدیر، 3/122،تحت الحدیث:2901 وغیرہ)

بد گمانی سے بغض اور حسد جیسے باطنی امراض بھی پیدا ہوتے ہیں۔

بد گمانی حرام ہے: بدگمانی کے بارے میں 2 فرامینِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: (1) بد گمانی سے بچو بے شک بد گُمانی بد ترین جھوٹ ہے۔(صحیح البخاری،کتاب النکاح،باب مایخطب علی خطبۃ اخیہ،3/446،حدیث:5143)

(2) مسلمان کا خون مال اور اس سے بد گُمانی (دوسرے مسلمان) پر حرام ہے۔(شعب الایمان ،باب فی تحریم اعراض الناس،5/297،حدیث :6706)

(3)مؤمن کی بدگمانی اللہ سے بدگمانی: اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدتُنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے اپنے بھائی کے متعلق بدگمانی کی بے شک اس نے اپنے رب سے بد گمانی کی، کیونکہ اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:( اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘) ترجمۂ کنزالایمان: بہت گمانوں سے بچو۔(کنزالعمال، کتاب الاخلاق،ظن السوء ، 2/199، حدیث : 7582)


قراٰن مجید میں مسلمانوں کو بدگمانی سے بچنے کا حکم دیاگیا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو بہت گمانوں سے بچو بیشک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے۔(پ 26،الحجرات:12 )

(1) اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدتُنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ خاتم المرسلین، رحمۃ للعالمین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے اپنے بھائی کے متعلق بدگمانی کی بے شک اس نے اپنے رب سے بد گمانی کی، کیونکہ اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:( اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘) ترجمۂ کنزالایمان: بہت گمانوں سے بچو۔ (کنزالعمال، کتاب الاخلاق،ظن السوء ، 2/199، حدیث : 7582)

(2) اور بدگمانی کرنا چھوٹی بات ہے اور جھوٹ بولنا گناہ ہے۔ اس کے بارے میں حدیث پاک آئی ہے جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بد گمانی سے بچو بے شک بد گُمانی بد ترین جھوٹ ہے۔(صحیح البخاری،کتاب النکاح،باب مایخطب علی خطبۃ اخیہ،3/446،حدیث:5143)

(3) جب تم اپنے بھائی کے منہ سے کوئی بات سنو تو اس کا اچھا گمان رکھو پر اخیال نہ کرو اس کے بارے میں حدیث پاک میں فرمایا گیا ہے۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں : تم اپنے بھائی کے منہ سے نکلنے والی کسی بات کا اچھا مَحمل پاتے ہو تو اس کے بارے میں بد ُگمانی نہ کرو۔(در منثور، الحجرات، تحت الآیۃ: 12 ، 7/ 566)

(4) اور برے گمان کرنے سے غیبت ، حسد اور بغض جیسی بیماریاں پیدا ہوتی ہے۔ جیسے کہ حدیث پاک میں ان باتوں سے منع فرمایا ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اپنے آپ کو بدگمانی سے بچاؤ کہ بدگمانی بد ترین جھوٹ ہے، ایک دوسرے کے ظاہری اور باطنی عیب مت تلاش کرو، حرص نہ کرو، حسد نہ کرو، بغض نہ کرو، ایک دوسرے سے رُو گَردانی نہ کرو اور اے اللہ کے بندو بھائی بھائی ہو جاؤ۔(مسلم، کتاب البرّ والصلۃ والاٰداب، باب تحریم الظّنّ والتّجسّس...الخ، ص1386، حدیث: 2563)

الله پاک ہمیں بدگمانی کرنے سے بچنے اور اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ اچھا گمان رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (اٰمین)

بدگمانی کے سات علاج: (1) مسلمان کی خوبیوں پر نظر رکھئے۔(2) بدگمانی سے توجہ ہٹا دیجئے۔ (3) خود نیک بنئے تاکہ دوسرے بھی نیک نظر آئیں ، (4) بری صحبت برے گمان پیدا کرتی ہے۔(5) کسی سے بدگمانی ہو تو عذاب الٰہی سے خود کو ڈرائیے۔ (6) کسی کے بارے میں بدگمانی پیدا ہو تو اپنے لئے دعا کیجئے ۔ (7) جس کے لیے بدگمانی ہو اس کے لیے دعائے خیر کیجئے ۔


گمان کسے کہتے ہیں: ہر وہ خیال جو کسی ظاہری نشانی سے حاصل ہوتا ہے گمان کہلاتا ہے، اس کو ظن بھی کہتے ہیں۔

گمان کی اقسام: بنیادی طور پر گمان کی دو قسمیں ہیں: (۱) حسن ظن (2) اور سوئے ظن (یعنی برا گمان)۔

کثرت گمان کی ممانعت: الله پاک قراٰن ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو بہت گمانوں سے بچو بیشک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے۔(پ 26،الحجرات:12 )

بدگمانی کے بارے میں احادیث: (1) نبی مکرّم،نورِ مجسّم،رسولِ اکرم،شہنشاہِ بنی آدم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: بد گمانی سے بچو بے شک بد گُمانی بد ترین جھوٹ ہے۔( صحیح البخاری،کتاب النکاح،باب مایخطب علی خطبۃ اخیہ،3/446،حدیث:5143)

(2) اللہ پاک کے محبوب، صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : مسلمان کا خون مال اور اس سے بد گُمانی (دوسرے مسلمان) پر حرام ہے۔(شعب الایمان ،باب فی تحریم اعراض الناس،5/297،حدیث :6706)

(3)حضرت سیدنا حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: میری امت میں تین چیزیں لازماً رہیں گی: بدفالی، حسد اور بد گمانی۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کی: یا رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! جس شخص میں یہ تین خصلتیں ہوں وہ ان کا کس طرح تدارک کرے؟ ارشاد فرمایا: جب تم حسد کرو تو اللہ پاک سے استغفار کرو اور جب تم کوئی بد گمانی کرو تو اس پر جمے نہ رہو اور جب تم بد فالی نکالو تو اس کام کو کر لو۔(المعجم الكبير ،3/258،حديث: 3227)

(4) نبی پاک پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کا فرمان نصیحت نشان ہے : جب تین آدمی ہوں تو تیسرے کو چھوڑ کر دو آدمی سرگوشی نہ کریں۔(صحیح البخاری ،کتاب الاستئذان،4/185،حدیث: 6288)

حضرت سیدنا ملّاعلی قاری علیہ رحمۃا للہ الباری (المتوفی1014ھ)اس حدیث کے تَحَت لکھتے ہیں : تاکہ وہ یہ گُمان نہ کرے کہ یہ دونوں اس کے خلاف سرگوشی کر رہے ہیں۔ (مرقاۃ المفاتیح ،کتاب الآ داب ، 8/699)

(5) اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدتُنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ خاتم المرسلین، رحمۃُ للعالمین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے اپنے بھائی کے متعلق بدگمانی کی بے شک اس نے اپنے رب سے بد گمانی کی، کیونکہ اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:( اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘) ترجمۂ کنزالایمان: بہت گمانوں سے بچو۔ (کنزالعمال، کتاب الاخلاق،ظن السوء ، 2/199، حدیث : 7582)


پیارے پیارے اسلامی بھائیو !  گناہ یا نیکی کے ارتکاب میں جسم کے ظاہری اعضاء مثلا ہاتھ، پاؤں، آنکھ کا کردار تو سب پر واضح ہے ‏مگر اس طرف عموماً ہماری توجہ نہیں ہوتی کہ سینے میں دھڑکنے والا دل بھی ہمارے نامۂ اعمال میں نیکیوں یا گناہوں کے اضافے میں ‏ان کے ساتھ برابر کا شریک ہے چنانچہ زیرِ نظر تحریر میں دل کو عارض ہونے والی ایک صفت بدگمانی کے متعلق احادیث میں بیان ‏کردہ مذمت کو پڑھیے اور ظاہر کے ساتھ باطن کی اصلاح کی طرف بھی بھرپور توجہ کیجیے چنانچہ فرمانِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے ‏کہ بدگمانی سے بچو بےشک بدگمانی بدترین جھوٹ ہے۔(صحیح البخاری ،حدیث 5143)ایک اور مقام پر ہمارے آخری نبی ‏صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ مسلمان کو خون، مال، اور اس سے بدگمانی(دوسرے مسلمان پر) حرام ہے۔(شعب الایمان،5/298،حدیث:6806) بدگمانی کے متعلق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مرفوعاً مروی ہے کہ جس نے اپنے ‏مسلمان بھائی سے برا گمان رکھا، بےشک اس نے اپنے رب سے برا گمان رکھا ۔(الدرالمنثور ،پ26،الحجرات،تحت الآیۃ ‏‏12 ،7/566)‏

گمان کی تعریف:‏‏ پیارے اسلامی بھائیو! ہر اس خیال کو گمان کہتے ہیں جو ظاہری نشانی سے حاصل ہوتا ہے اس کو عربی میں "ظن" بھی ہے مثلاً دھواں ‏دیکھ کر خیال کرنا کہ آگ لگی ہے یہ ایک گمان ہے اس لئے ہمارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ اچھا گمان اچھی عبادت سے ہے۔(سنن ‏ابی داؤد، 4/387،حدیث:4993)‏

بدگمانی کا علاج:‏‏ احادیث کریمہ میں جہاں پر بدگمانی جیسی بیماری کی مذمت ذکر ہوئی ہے وہی پر طبیبوں کے طبیب اپنے رب کے پیارے ‏حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس (بدگمانی) کے علاج کے متعلق اپنے بیمار امتیوں کی تربیت فرمائی ہے چنانچہ حضرت سیدنا حارثہ بن نعمان رضی اللہ ‏ عنہ مروی ہے کہ نور کے پیکر تمام نبیوں کے سرور دو جہاں کے تاجور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :میری امت میں تین چیزیں لازماً رہیں ‏گی بدفالی، حسد اور بدگمانی۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے ارض کی کہ یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جس شخص میں یہ تین خصلتیں ہوں وہ ان کا ‏کس طرح تدارک(تلافی) کرے ؟ ارشاد فرمایا: جب تم حسد کرو تو اللہ پاک سے استغفار کرو اور جب تم بدگمانی کرو تو اس پر جمے نہ ‏رہو اور جب تم بدفالی نکالو تو اس کام کو کر لو۔(المعجم الکبیر ، 3/228،حدیث: 3227)‏

‏ سبحان اللہ! پیارے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے کس طرح ہمیں بدگمانی سے بچنے کا مدنی ذہن حدیث پاک سے حاصل ہوا۔ ‏اللہ کریم سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں قراٰن و حدیث کا فہم عطا کرے۔ قراٰن و حدیث کا فہم حاصل کرنے اور ‏اس کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے دعوت اسلامی کے مدنی ماحول سے ہر دم وابسطہ رہنے کی توفیق عطا کرے۔( اٰمین بجاہ خاتم ‏النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم )‏


دورِ حاضر میں انسان اپنے ارد گرد متوجہ ہو تو اس کے سامنے ایسی بہت سی خصلتیں رُونماں ہوں گی جو اس کے ظاہر و باطن دونوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے ان خصلتوں میں سے ایک خصلت بدگمانی ہے جس کو اختیار کرنے کے ساتھ انسان اپنے قریبی رشتہ داروں سے بے تعلق ہو کر دنیا میں فردِ واحد کی مثل بن جاتا ہے اور یوں وہ ذلت و رسوائی کا سامنا کرتے کرتے شرمندگی سے مر جاتا ہے اور یہی وہ خصلت ہے جس کے سبب ایک انسان دوسرے انسان کے لیے اپنے دل میں نفرت، بُغض، حسد اور ان جیسی دیگر بیماریوں کو جنم دے کر دوسرے مسلمان بھائی کے لیے بُرا سوچنا شروع کر دیتا ہے۔

سیَّدی امیر اہلسنت مولانا الیاس دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں : بدگمانی سے مراد یہ ہے کہ بلا دلیل دوسرے کے برے ہونے کا دل سے اِعتقادِ جازِم (یعنی یقین) کرنا۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات،ص140)

آئیے احادیث میں بیان کردہ بد گمانی کی مذمت ملاحظہ کیجئے اور اس سے بچنے کا سامان کیجئے۔

(1) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اپنے آپ کو بدگمانی سے بچاؤ کہ بدگمانی بدترین جھوٹ ہے، ایک دوسرے کے ظاہری اور باطنی عیب مت تلاش کرو، حرص نہ کرو،حسد نہ کرو، بغض نہ کرو، ایک دوسرے سے رُوگَردانی نہ کرو اور اے اللہ کے بندوں بھائی بھائی ہو جائو۔(مسلم، کتاب البرّ والصّلۃ والآداب، باب تحریم الظّنّ والتّجسّس... الخ، ص1386، حدیث: 2563)

(2) رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جس نے اپنے بھائی سے بدگمانی کی بے شک اس نے اپنے رب سے بدگمانی کی، کیونکہ اللہ پاک فرماتا ہے ’’ اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘ ‘‘ ترجمۂ کنزُالعِرفان: بہت زیادہ گمان کرنے سے بچو۔( در منثور، الحجرات، تحت الآیۃ: 12 ، 7 / 566)

(3) حضرت سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو وفات سے تین دن پہلے یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص اس حال میں نہ مرے کہ وہ اللہ پاک کے ساتھ نیک گمان رکھتا ہو ۔ (مسلم کتاب ، حدیث : 1581)

(4) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشاد گرامی ہے: مسلمان کا خون مال اور اس سے بد گُمانی (دوسرے مسلمان) پر حرام ہے۔(شعب الایمان ،باب فی تحریم اعراض الناس،5/297،حدیث :6706)

(5) حضرت عمر بن خطاب رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں : تم اپنے بھائی کے منہ سے نکلنے والی کسی بات کا اچھا مَحمل پاتے ہو تو اس کے بارے میں بد ُگمانی نہ کرو۔(در منثور، الحجرات، تحت الآیۃ: 12 ، 7/ 566)

بدگمانی سے بچنے کا طریقہ: حضرت سیدنا حارثہ بن نعمان رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے آپ علیہ السّلام نے فرمایا: میری امت پر تین چیزیں لازماً رہیں گی: بدفالی، حسد، اور بدگمانی۔ ایک صحابی نے عرض کی یارسولُ اللہ جس شخص میں یہ تین خصلتیں ہو وہ ان کا تدارک کس طرح کرے?“ ارشاد فرمایا: جب تم حسد کرو تو اللہ پاک سے استغفار کرو اور جب تم کوئی بدگمانی کرو تو اس پر جمے نہ رہو اور جب تم بدفالی نکالو تو اس کام کو کرلو۔

علامہ عبد الرؤوف مناوی علیہ رحمہ فیض القدیر میں لکھتے ہیں اس حدیث میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ تینوں خصلتیں امراضِ قلب میں سے ہیں جن کا علاج ضروری ہے جو کہ حدیث میں بیان کر دیا گیا ہے بدگمانی سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کے دل یا اعضاء سے اس کی تصدیق نا کرے۔

بد گمانی، جھوٹ، غیبت، چغلیاں

چھوڑ دے تُو رب کی نافرمانیاں

پیارے اسلامی بھائیو! ہمیں چاہیئے کہ ہم اپنے گمان کو صاف رکھیں اور سوچ کو پاکیزہ بنائیں اس بات کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے کہ ہم امتحان میں ہیں، ہم سے نہ صرف اعضاء و جوارح سے صادر ہونے والے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا، بلکہ بلا دلیل دل میں راسخ ہونے والے خیالات پر بھی مؤاخذہ ہوگا۔ اگر ہم زندگی کے ہر موڑ پر اس احساس کو تازہ رکھیں تو اللہ پاک کی ذات سے امید ہے کہ ہماری سوچ مثبت اور درست ہو جائے گی اور ہمارے اعمال بھی صحیح رخ پر گامزن ہوجائیں گے۔

اللہ کریم سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بدگمانی کرنے اور اس تک پہچانے والے اسباب سے محفوظ فرمائے۔ اٰمین