مصطفیٰ رضا عطّاری (درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ
اولیا احمدآباد، ہند)
ایک انسان کی زندگی میں نیکی
اور گناہ کا ارتکاب جس طرح ظاہری اعضاء سے ہوتا ہے جیسے ہاتھ ، پاؤں، آنکھ، کان، زبان، وغیرہ اسی طرح دل بھی نیکی اور گناہ کے ارتکاب
میں برابر شریک ہوتا ہے جیسے انسان کسی سے
حسد کرے یا، بغض و کینہ، یا کسی کے بارے
میں اچھا یا برا گمان رکھے، وغیرہ بہت سے کام اسے ہیں جو دل سے سرزد ہوتے ہیں کچھ اچھے ہوتے ہیں اور کچھ بُرے دل سے جو برے
کام سرزد ہوتے ہیں انہی برے کام میں سے بد گمانی بھی ہے ۔ اللہ پاک قراٰن میں ارشاد
فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ
الظَّنِّ اِثْمٌ ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو بہت گمانوں سے بچو بیشک
کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے۔(پ 26،الحجرات:12 ) آیت کریمہ میں کثرتِ گمان سے منع کیا
گیا کیوں کہ زیادہ گمان کی وجہ سے انسان حسد ، بغض و عداوت ، غیبت جیسی خطرناک
بیماریوں میں جا پڑتا ہے۔
نوٹ! یاد رہے جس گمان کی وجہ
سے انسان گناہ میں کے دلدل میں دھنستا ہے اُس گمان سے مراد بد(برا) گمان ہے۔
بد گُمانی کی تعریف: شیخِ طریقت امیرِ اہلسنّت حضرت علامہ مولانا ابو
بلال محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ بد گُمانی کی تعریف کرتے ہوئے
فرماتے ہیں: بد گُمانی سے مراد یہ ہے کہ
بلا دلیل دوسرے کے بُرے ہونے كا دل میں اعتقادِ جازم ( یعنی یقین) کرنا۔ (فیض القدیر، 3/122،تحت الحدیث:2901 وغیرہ)
بد گُمانی کی مذمت اور اس سے
بچنے کے متعلق احادیثِ مبارکہ پڑھئے:
(1)نبی مکرم شافع اُمم نورِ مجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کا فرمان عبرت نشان ہے: بد گُمانی سے بچو بیشک بد گُمانی بدترین جھوٹ ہے ۔ (صحیح
البخاری،کتاب النکاح،باب ما یخطب علی خطبۃ اخیہ،3/446، حدیث: 5143)
(2) پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مسلمان کا خون مال اور اس سے بد گُمانی (دوسرے مسلمان) پر حرام ہے۔(شعب
الایمان ،باب فی تحریم اعراض الناس،5/297،حدیث :6706)
(3) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مرفوعاً مروی ہے جس نے اپنے مسلمان بھائی سے برا گمان رکھا ،
بیشک اس نے اپنے ربّ سے برا گمان رکھا۔(الدر المنثور ،پارہ 26،الحجرات،
تحت الآیۃ 12 ، 7/566)
احادیث کی روشنی میں بدگُمانی
کی مذمت بیان ہوئی پیارے پیارے اسلامی بھائیو! ہمیں چاہئے کہ اس باطنی بیماری سے
بچتے رہیں اور اس دل کی بیماری کا علاج
کرنے کی کوشش کرتے رہیں۔
بد گُمانی کے چند علاج:(1)ہم اپنے مسلمان
بھائی کی خوبیوں پر نظر رکھے اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ اگر کسی کے بارے میں برا خیال
آیا بھی تو ہم اس کی کوئی اچھائی کو سامنے رکھ کر بد گُمانی کو دور کر سکتے ہیں۔(2)جب
بھی کسی مسلمان کے بارے میں بد گُمانی پیدا ہو تو اسے جھٹکنے کی کوشش کرے اور اس کے بارے میں حسن ظن رکھے کیونکہ حسن ظن
(اچھا گمان) عبادت ہے حضور نبی کریم رؤف الرحیم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا
فرمان عالیشان ہے ۔ اچھا گمان اچھی عبادت
سے ہے۔(سنن ابی داؤد،کتاب الادب ،4/387،حدیث: 4993)(3)نیکوں کی صحبت اختیار کرے ۔(4)دل
کا محاسبہ کرتے رہے ۔ دل کے محاسبے کا بہترین ذریعہ امیرِ اہلسنّت بانی دعوت اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال
محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم
العالیہ کا عطا کردہ ′نیک اعمال′ نامی رسالہ بھی ہے اس کے مطابق عمل کرکے دل کے محاسبے میں کئی حد تک آسانی
ہوگی۔ (5)اپنی اصلاح
کی کوشش کرتے رہیں کیونکہ جو خود نیک ہوگا وہ دوسروں کے بارے میں بھی اچھا گمان
رکھے گا اور جو خود برا ہوگا وہ دوسروں کے بارے میں بھی برا ہی گمان رکھے گا عربی کا مقولہ ہے : إذا ساءَ
فِعلُ المرءِ ساءتْ ظنونُهُ ( یعنی جب کسی
کے کام برے ہو جاتے ہیں تو اس کے گمان بھی برے ہو جاتے ہیں )
پیارے پیارے اسلامی بھائیو!
جب بھی کسی کے بارے میں بد گُمانی دل میں آئے تو اسے جھٹکیں اور اس کے بارے میں
حسنِ ظن رکھنے کی کوشش کرے کیونکہ اگر وہ صحیح ہوگا تو آپ کو حسنِ ظن کا ثواب مل جائے گا اور اگر وہ غلط بھی ہوا تو آپ اس پر
حسنِ ظن رکھنے کی برکت سے گناہ میں مبتلا ہونے سے بچ جائیں گے ۔
امامِ اہل سنت مجدد دین و ملت
الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃُ اللہ علیہ فتاویٰ رضویہ شریف میں لکھتے
ہیں : مسلمان کا حال حتی الامکان صلاح (یعنی اچھائی) پر حمل کرنا ( یعنی گمان
کرنا) واجب ہے ۔ ( فتاویٰ رضویہ شریف، 9/691)
امیرِ اہلسنّت حضرت علامہ
مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری
دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں :حسنِ ظن میں کوئی نقصان نہیں اور بد گُمانی میں
کوئی فائدہ نہیں۔
اللہ پاک ہمیں بد گُمانی جیسی
خطرناک بیماری سے نجات عطا فرمائے اور حسن ظن رکھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ
طٰہٰ و يٰسٓ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
اصغر علی عطّاری مدنی (مدرس جامعۃُ المدینہ فیضان عمر
بن عبدالعزیز بروڈا گجرات، ہند)
اللہ پاک نے انسانوں پر فضل
فرمایا اور اسے کثیر نعمتوں سے سرفراز فرمایا انہی میں سے ایک نعمت حسن ظن بھی ہے
جس کا حصول کثیر فضائل و فوائد کا مجموعہ ہے اسی کے بر عکس ایک وصف قبیح(برا) بھی
پایا جاتا ہے جسے بد گمانی سے موسوم کیا جاتا ہے ۔
آئیے اس کے متعلق کچھ باتیں
سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اللہ پاک ہم سب کو بری خصلتوں سے بچا کر اچھی خصلتوں کا
خوگر بنائے۔ اٰمین
بد گمانی کیا ہے؟ بد گمانی مطلقاً برے گمان کو کہتے ہیں ۔ مسلمانوں سے اچھا گمان
رکھنا واجب اور بد گمانی سے بچنا لازم ۔ اللہ پاک نے قراٰنِ پاک میں اِرشاد فرمایا : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا
كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو بہت گمانوں سے بچو بیشک کوئی گمان گناہ
ہوجاتا ہے۔(پ 26،الحجرات:12 )
حضرت علّامہ عبداللہ ابو عُمَر بن محمد
شیرازی بیضاوی رحمۃُ اللہ علیہ (المتوفی791ھ) تفسیر بیضاوی میں لکھتے ہیں : تاکہ مسلمان ہر ُگمان کے بارے
میں مُحْتَاط ہوجائے اور غور وفکر کرے کہ
یہ ُگمان کس قبیل سے ہے۔ (تفسیر بیضاوی ،
پ26 ، الحجرات ، تحت الآیۃ12 ، 5/218)
اس آیت ِکریمہ کے تحت حضرت سیدنا
اِمام فخر الدین رازِی رحمۃُ اللہ علیہ (المتوفی606ھ) تفسیر ِکبیر میں لکھتے ہیں : کیونکہ کسی شخص کا کام دیکھنے
میں تو بُرا لگتا ہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا کیونکہ ممکن ہے کہ کرنے والا اسے بھول کر کررہا ہو یا دیکھنے والا ہی
غَلَطی پر ہو ۔ (التفسیر الکبیر ، پ26 ،
الحجرٰت ، تحت الآیۃ 12 ، 10/110)
معلوم ہوا کہ بد گمانی کا
ثبوت قراٰن کریم سے بھی ہے ۔ آئیے مزید احادیث مصطفیٰ علیہ التحیۃ والثناء کی
روشنی میں اس وصفِ قبیح کے بارے میں جانتے ہیں:۔
حضرت سیدنا حارثہ بن نعمان رضی
اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ نور کے پیکر ، تمام نبیوں کے سَرْوَر ، دو جہاں کے تاجْوَر ، سلطانِ بَحرو بَر صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : میری امت میں تین چیزیں لازِماً رہیں گی : بدفالی ، حَسَد اور بد ُگمانی۔ ‘‘ ایک
صحابی رضی اللہُ عنہ نے عرض کی : ’’یارسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم !
جس شخص میں یہ تین خصلتیں ہوں وہ ان کا کس طرح تدارُک کرے ؟‘‘ارشاد فرمایا : ’’جب تم حَسَد کرو تو اللہ
پاک سے اِسْتِغْفار کرو اور جب تم کوئی بد ُگمانی کرو تو اس پر جمے نہ رہو اور جب
تم بدفالی نکالو تو اس کام کو کر لو۔ ‘‘ (المعجم الکبیر ، 3/228،حدیث: 3227)
مزید تین فرامینِ مصطفیٰ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ملاحظہ ہوں:۔
(1) نبی مکرّم،نورِ مجسّم،رسولِ اکرم،شہنشاہِ بنی آدم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: بد گمانی سے بچو بے شک بد گُمانی
بد ترین جھوٹ ہے۔( صحیح البخاری،کتاب النکاح،باب مایخطب علی خطبۃ اخیہ،3/446،حدیث:
5143)
(2) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا
: مسلمان کا خون مال اور اس سے بد گُمانی (دوسرے مسلمان) پر حرام ہے۔(شعب الایمان
،باب فی تحریم اعراض الناس،5/297،حدیث :6706)
(3) حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا سے مرفوعاً مروی ہے : جس نے اپنے مسلمان بھائی سے
بُرا گُمان رکھا ، بے شک اس نے اپنے ربّ سے
بُرا گُمان رکھا۔ (الدرالمنثور ، پ26 ، الحجرات ، تحت الآیۃ12 ، 7/566)
یاد رہے بد گمانی اسی صورت
میں موجب گناہ ہوگی جبکہ دل میں اس گمان کا یقین پایا جائے محض کسی شخص کے متعلق
دل میں غلط خیال آجانے کا نام بد گمانی نہیں ہے وگرنہ اس سے بچنا انتہائی دشوار
امر ہوجائے گا۔
اس کی پہچان یہ ہے کہ اگر اس
شخص کے ساتھ آپ کا رویہ مختلف ہوجائے یا اس کی نفرت دل میں پائی جائے یا اس کی اہمیت
جو دل میں تھی اس میں کمی واقع ہوجائے یا اس کی طرف سے آپ لا پروا ہوجائیں جو فکر
اس کی دل میں تھی ختم ہوجائے، تو ان صورتوں میں ممکن ہے کہ آپ فرد مقابل کہ متعلق
گمانِ بد میں مبتلا ہوں۔
مذکورہ بالا آیات قراٰنی اور
احادیث کریمہ سے واضح ہو گیا کہ بد گمانی ایک ایسا وصف ہے کہ جس کا مرتکب گنہگار
اور عذابِ نار کا حقدار ہے نیز یہ بھی ثابت ہو گیا کہ اس سے بچنا از حد ضروری ہے
کیونکہ اس گناہ کا شمار بھی کبیرہ گناہوں میں ہوتا ہے۔
اللہ رب العزت ہمیں اس سے
بچنے کی اس کے واسطے کوشش کرنے نیز اس سے دوسروں کو بچانے والا بنائے۔ اٰمین یارب العالمین بجاہ سید المرسلین صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
دین اسلام وہ عظیم دین ہے جس
میں انسانوں کے با ہمی حقوق اور معاشرتی آداب کو خاص اہمیت دی گئی ہے یوں تو تمام رذائل اخلاق انسانی شخصیت اور
معاشرے کے لیے نقصان دہ ہیں اور اسلام ان
سے کلیتاً اجتناب کا حکم دیتا ہے لیکن بدگمانی ایسی متعدی بیماری ہے جو انسان کی ذاتی
زندگی سے لے کر معاشرے کی اجتماعی زندگی تک بگاڑ کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کر
دیتی ہے۔ بدگمانی سے مراد ایسی بات دل میں لانا ہے جس کا نہ یقین ہو اور نہ ہی اس
کے متعلق دو عادل گواہ ہوں۔ آئیے ! بد گمانی کی مذمت کے سلسلے میں احادیث کریمہ
ملاحظہ فر مائیں :
(1)حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اپنے آپ کو بدگمانی سے بچائو کہ
بدگمانی بدترین جھوٹ ہے، ایک دوسرے کے ظاہری اور باطنی عیب مت تلاش کرو، حرص نہ
کرو، حسد نہ کرو، بغض نہ کرو، ایک دوسرے سے رُوگَردانی نہ کرو اور اے اللہ کے بندو
بھائی بھائی ہو جائو۔( مسلم، کتاب البرّ والصّلۃ والآداب، باب تحریم الظّنّ
والتّجسّس... الخ، ص1386، حدیث: 2563)
(2) حضرت ابن عباس رضی اللہُ عنہما روایت کر تے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کے عیب کو چھپایا، اللہ
پاک قیامت کے دن اس کے عیب چھپائے گا اور جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کے عیب ظاہر
کیے، اللہ پاک اس کے عیب کا پردہ چاک کر دے گا اور اس شخص کو اس کے گھر میں رسوا
کر دے گا۔ (کشف الخفاء، 2/133)
(3)حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہُ
عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:
کیا تمہیں بدترین انسان کے متعلق آگاہ نہ کروں؟
صحابہ کرام نے عرض کیا: جی یارسولُ اللہ، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا: وہ چغل خور لوگ ہیں جو اچھے دوستوں کے درمیان تفرقہ ڈال دیتے ہیں۔ (علل حدیث،2/392،
حدیث: 7832)
(4) اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدتُنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا
سے روایت ہے کہ خاتم المرسلین، رحمۃ للعالمین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا: جس نے اپنے بھائی کے متعلق بدگمانی کی بے شک اس نے اپنے رب سے بد گمانی
کی، کیونکہ اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:( اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘) ترجمۂ کنزالایمان: بہت گمانوں سے بچو۔(کنزالعمال، کتاب
الاخلاق،ظن السوء ، 2/199، حدیث : 7582)
بدگمانی کے نُقصانات: بدگمانی کے بہت
سے نُقصانات ہیں۔ ان میں سے چند یہ ہیں:
(1) اگر سامنے والے پر اپنی بدگمانی کرنے کااظہار
کِیا تو اُس کی دِل آزاری کا قوی اندیشہ ہے اور بغیر اِجازتِ شرعی مسلمان کی دِل
آزاری حرام ہے ۔
(2) اگر اس کی غیر موجودگی میں کسی دوسرے پر
اِظہار کِیا تو غِیبت ہوجائے گی اور مُسَلمان کی غیبت کرنا حرام ہے ۔
(3) بدگُمانی کے نتیجے میں تَجَسُّس پیدا ہوتا
ہے، کیونکہ دِل محض گُمان پر صَبْر نہیں کرتا، بلکہ تَحْقِیْق طَلَب کرتا ہے، جس
کی وجہ سے اِنسان تَجَسُّس میں جا پڑتا ہے اور تَجَسُّس یعنی اپنے مُسَلمان
بھائیوں کے گُناہوں کی ٹَوہ میں رہنا یہ بھی ممنوع ہے ۔
(4) بدگمانی سے بُغض،حَسَد، کینہ، نَفْرت اور
عَداوت جیسے باطِنی اَمراض بھی پیدا ہوتے ہیں۔(فتح الباری ،10/ 410، حدیث:6066)
(5) بات بات پر بدگمانی کرنے والے شَخْص سے لوگ کَتراتے ہیں اور ایسا شَخْص لوگوں کی نگاہوں
میں ذَلیل ہو کر رہ جاتا ہے۔
بد گمانی سے بچنے کی تر غیب: بد گمانی کی روک
تھام کے لیے ہمیں چاہئے کہ اپنے مسلمان
بھائیوں کی خوبیوں پر نظر رکھیں۔ جو اپنے مسلمان بھائیوں کے بارے میں حسن ِظن رکھتا ہے اسے سکونِ قلب نصیب ہوتا اور جو بد ُگمانی کی بُری عادت
میں مبتلا ہو اس کے دِل میں وحشتوں کا بسیرا رہتا ہے۔
اپنی اِصلاح کی کوشش جاری
رکھئے کیونکہ جو خود نیک ہوتا ہے وہ دوسروں کے بارے میں بھی اچھے ُگمان رکھتا
ہے۔ بُری صحبت سے بچتے ہوئے نیک صحبت
اِختِیار کیجئے ، جہاں دوسری بَرَکتیں ملیں گی وہیں بد ُگمانی سے بچنے
میں بھی مدد ملے گی۔
جب بھی کسی مسلمان کے بارے
میں دِل میں بُرا گُمان آئے تو اسے جھٹکنے کی کوشش
کریں اور اس کے عمل پر اچھا گُمان قائم
کرنے کی کوشش کریں ۔ جب بھی دِل میں کسی مسلمان کے بارے میں بد ُگمانی پیدا ہو تو اپنی توجہ اس کی طرف
کرنے کے بجائے بد ُگمانی کے شرعی اَحکام کو پیش ِنظر رکھئے اور بد ُگمانی کے انجام
پر نگاہ رکھتے ہوئے خود کو عذابِ الٰہی سے ڈرائیے ۔ دِل کے مُحَاسَبے میں کبھی غفلت نہ کیجئے ورنہ شیطان مسلسل کوشش کے
ذریعے بالآخر بد ُگمانی میں مبتلا کروا
سکتا ہے۔
شفیع ُالمذنبین ، انیس
ُالغریبین ، سراج ُالسالکین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے کہ لوگوں سے منہ پھیر لو کیا تم نہیں جانتے
کہ اگر تم لوگوں میں شک کے پیچھے چلو گے تو انہیں فساد میں ڈال دو گے۔
اللہ پاک امت مسلمہ کو ایسے
فتنوں سے محفوظ فر مائے اور اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فضل خاص عطا فرمائے ۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم
محمد ساجد رضا عطّاری (درجہ اولیٰ جامعۃُ المدینہ
فیضانِ مولیٰ علی کرنیل گنج گونڈہ اُتر پردیش ، ہند )
انسان کی باطنی بیماریوں میں سے ایک بیماری
کا نام بد گُمانی بھی ہے، ایک تعداد ہے
جو اس بیماری میں مبتلا نظر آتی ہے بلکہ انسانوں کی اکثر تعداد اس بیماری میں
مبتلا ہے۔
بد گُمانی کی تعریف: امیرِ اہلسنّت بانِی دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو
بلال محمد الیاس عطار قادری رضوی دامت برکاتہم العالیہ بد گمانی کی تعریف کرتے
ہوئے فرماتے ہیں: بد گُمانی سے مُراد یہ ہے: بلا دلیل دوسرے کے برے ہونے کا دل سے
اعتقاد جازم یعنی يقین کرنا۔( شیطان کے بعض ہتھیار ،ص 32) بد گُمانی کو سوئے ظن اور برا گمان بھی کہا
جاتا ہے۔
بد گُمانی کے متعلق 5 فرامینِ
مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم:
(1)اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدتُنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا
سے روایت ہے کہ خاتم المرسلین، رحمۃ للعالمین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا: جس نے اپنے بھائی کے متعلق بدگمانی کی بے شک اس نے اپنے رب سے بد گمانی
کی، کیونکہ اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:( اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘) ترجمۂ کنزالایمان: بہت گمانوں سے بچو۔(کنزالعمال، کتاب
الاخلاق،ظن السوء ، 2/199، حدیث : 7582)
(2)نبی مکرّم،نورِ مجسّم،رسولِ اکرم،شہنشاہِ بنی آدم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: بد گمانی سے بچو بے شک بد گُمانی
بد ترین جھوٹ ہے۔( صحیح البخاری،کتاب النکاح،باب مایخطب علی خطبۃ اخیہ،3/446، حدیث:
5143)
(3)آقائے نامدار، مدینے کے
تاجدار، دونوں عالم کے مالک و مختار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا : مسلمان کا خون مال اور اس سے بد گُمانی (دوسرے مسلمان) پر حرام ہے۔(شعب
الایمان ،باب فی تحریم اعراض الناس،5/297،حدیث :6706)
(4) ہمارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جب
تم حسد کرو تو زیادتی نہ کرو، جب تمہیں بد گُمانی پیدا ہو تو اُس پر یقین نہ کرو
اور جب تمہیں بد شگونی پیدا ہو تو اسے کر گزرو اور اللہ پاک پر بھروسہ کرو۔(الکامل
فی ضعفاءالرجال،عبدالرحمن بن سعد،5/509)
(5)فرمان مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: میری اُمت میں تین چیزیں لازماً
رہیں گی: بدفالی،حسد اور بد گُمانی۔ ایک صحابی رضی اللہُ عنہ نے عرض کی: یا رسولُ
اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! جس شخص میں یہ تین خصلتیں(Traits) ہوں وہ اُن کا
تدارک(علاج) کس طرح کرے؟ ارشاد فرمایا: جب تم حسد کرو تو اللہ پاک سے استغفار کرو
اور جب تم بد گُمانی کرو تو اُس پر جمے نہ رہو اور جب تم بد فالی نکالو تو اُس کام
کو کر لو۔ (معجم کبیر،3/228،حدیث:3227)
تو تمام احادیثِ مبارکہ اور آیت مبارکہ کی
روشنی میں معلوم یہ چلا کہ بد گُمانی حرام اور جہنّم میں لے جانے والا كام ہے۔
بد گُمانی کے نقصانات: پیارے
اسلامی بھائیو! والدین اولاد ، بھائی بہن، ساس بہو، شوہر و بيوی بلکہ تمام اہلِ
خاندان نیز اُستاد و شاگرد،سیٹھ و نوکر،راجا و پرجا،افسر و مزدور الغرض ایسا لگتا
ہے کہ تمام دینی و دنیوی شعبوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی اکثریت اس وقت بد
گُمانی کی خوفناک آفت کی لپیٹ میں ہے کسی کو موبائل پر فون کرو اور وہ Receive نہ کرے تو بد گُمانی۔ کاروبار میں نقصان ہو گیا تو قریبی کاروباری
حریف سے بد گُمانی، کسی فیکٹری سے اچھی نوکری سے فارغ ہو گئے تو دفتر کے کسی فرد
سے بد گُمانی، تنظیمی طور پر خلافِ توقع بات ہو گئی تو ذمّہ داران سے بد گُمانی،
اجتماعی ذکر و نعت کے انتظامات میں کمزوری ہوئی تو فوراً منتظمین سے بد گُمانی،
اجتماعی ذکر و نعت میں کوئی شخص جھوم رہا ہے یا رو رہا ہے تو بد گُمانی، جس نے قرض
لیا اور وہ رابطے میں نہیں آ رہا تو بد گُمانی، جس سے مال بُک کروا لیا وہ مل نہیں
رہا تو بد گُمانی، کسی نے وقت دیا آنے میں تاخیر ہو گئی تو بد گُمانی، کسی کے پاس
اچانک مختصر وقت میں گاڑی، پیسہ، مکان، زمین، مال اور دیگر سہولیات آ گئی تو بد
گُمانی، کسی کو شہرت مل گئی تو بد گُمانی، اور گھر کی بات کریں تو گھر میں ایک
دوسرے کے متعلق بد گمانیا ہی بد گمانیاں ، یوں ہر طرف لوگ بد گُمانی کے شکار ہیں۔
ہم غور کرتے جائیں تو شب و روز نہ جانے کتنی
بار ہم بد گُمانی کا شکار ہوتے ہوں گے پہلے تو ہم کسی شخص کے متعلق بد گمانی کرتے
ہیں پھر شیطان اس شخص کے عیبوں پر ٹوہ لگاتا، حسد پر ابھارتا ، غیبت اور بہتان پر
اکساتا اور پھر آخرت برباد کر دیتا ہے۔
اس بد گُمانی کی وجہ سے بھائی بھائی میں
دشمنی،ساس بہو میں ،میاں بیوی میں جھگڑا،بھائی بہن میں، راجا و پرجا میں، استاد و
شاگرد میں، سیٹھ و نوکر میں، افسر و مزدور میں، پیر و مرید میں اختلاف قائم ہو
جاتے ہیں اور يوں ایک اچھا خاصا گھر، اچھا خاصا قبیلہ، آپس میں ایک دوسرے پر اعتماد، ایک دوسرے سے
محبت پل بھر میں ختم ہو جاتی ہے اور اس کی وجہ سے ہم کو نا قابلِ بیان نقصان
اٹھانا پڑتا ہے۔
بد گُمانی سے بچنے کے لیے بد
گُمانی کے علاج: پیارے پیارے
اسلامی بھائیو! بد گُمانی کے نقصانات سے بچنے کے لیے درج ذیل باتوں کا خیال رکھتے ہوئے
عمل کی کوشش کرے۔
پہلا علاج: سب سے پہلے
ہم اپنے مسلمان بھائیوں کے متعلق اپنے دل اور ذہن میں اچھے خیالات رکھیں کیونکہ جو
اپنے مسلمان بھائیوں کے متعلق اپنے دل میں اچھے خیالات رکھتا ہے تو اُسے سکونِ قلب
نصیب ہوتا ہے اور جو برے خیالات رکھتا ہے تو وہ شیطانی وسوسوں میں مبتلا رہتا ہے۔
دوسرا علاج: برے صحبت سے بچتے ہوئے نیک صحبت اختیار
کیجئے جب اچھی صحبت میں رہینگے تو جہاں بد گُمانی جیسے گناہ سے بچیں گے وہیں نیک
صحبت کی برکت بھی ملےگی کیونکہ نیک صحبت انسان کو نیک بنا دیتی ہے اور بری صحبت
انسان کو بُرا بنا دیتی ہے۔
تیسرا علاج: اپنے کام سے
کام رکھيں دوسرے کے کاموں میں اپنی عقل کے گھوڑے نہ دوڑائےتو انشاء اللہ دل میں
برے خیالات آئیں گے ہی نہیں۔
چوتھا علاج: جب بھی کسی مسلمان کے بارے میں بد گُمانی آئے تو اُس کے لئے
دعائے خیر کریں اور اُس کی عزت میں اضافہ کریں تو اس سے شیطان اپنے مقصد میں نا
کامیاب ہو جائے گا۔
پانچواں علاج:
اپنے دل اور نفس کا محاسبہ کرتے رہیے اور اس کی عادت بنا
لیجئے ورنہ شیطان اپنے کوششوں کے ذریعے بلآخر بد گُمانی میں مبتلا کروا سکتا ہے۔
چھٹا علاج: اپنے دل اور دماغ کو ہمیشہ پاک اور صاف رکھئے اور موت اور
آخرت کو ياد کرتے رہیے۔
ساتواں علاج: جب بھی کسی مسلمان کے بارے میں بد گُمانی آئے تو بد گُمانی
کے شرعی احکام کو مدّ نظر رکھتے ہوئے عذابِ الٰہی کو یاد کریئے اور سوچیئے کہ دنیا
کی آگ برداشت نہیں تو جہنّم کی آگ کیسے برداشت کرینگے۔
آٹھواں علاج: اللہ پاک سے دعائیں کرتے رہیئے دعا یوں کیجئے: اے میرے
پروردگار! تیرا یہ ناتواں کمزور بندہ شیطان کو ہرانے کے لیے، دنیا اور آخرت کی
کامیابی کے لیے اس بد گُمانی سے بچنا چاہتا ہے یا ربِ کریم! میری مدد فرما اور
مجھے اس سے بچنے میں کامیابی عطا فرما۔ اے میرے مالک و مولا! مجھے تیرے خوف سے
کانپنے والا دل، رونے والی آنکھیں اور لرزنے والا بدن عطا فرما۔ اٰمین بجاہ النبی
الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ،
نواں علاج: پیارے اسلامی بھائیو! بد گُمانی سے بچنے کے لئے ان تمام باتوں پر عمل کرتے ہوئے کچھ روحانی علاج
کو بھی اپنائیے ۔
بد گُمانی سے بچنے کے لئے
تین روحانی علاج: (1)جب بھی کسی
کے متعلق بد گُمانی ہو تو فوراً "اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم" ایک بار پڑھیے اور اپنے بائیں طرف تین بار تھو تھو
کریئے۔ ( 2) هُوَ
الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ۖ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ پڑھ لینے سے فوراً
وسوسہ دور ہو جاتا ہے۔(3) سورہ اخلاص گیارہ بار صبح ( آدھی رات ڈھلے سے سورج کی
پہلی کرن چمکنے تک صبح ہے) پڑھنے والے پر اگر شیطان لشکر کے ساتھ کوشش کرے کہ اس
سے گناہ کرائے تو نہ کرا سکے جب تک کہ یہ خود نہ کرے۔ (4)روزانہ دس بار "اعوذ باللہ
من الشیطٰن الرجیم" پڑھنے والے پر شیطان سے حفاظت کرنے کے لئے اللہ پاک
ایک فرشتہ مقرر کر دیتا ہے۔ (5)
سورۃ الناس پڑھ لینے سے بھی وسوسہ دور ہو جاتا ہے۔
کوشش جاری رکھئے: پیارے اسلامی
بھائیو! یاد رکھئے کہ اگر کوئی ان سب باتوں پر عمل کرنے کے باوجود بد گُمانی سے
نہیں بچ پا رہے تو ہار نہ مانیے بلکہ کوشش جاری رکھیے کیونکہ ہمارے اُستاد صاحب
فرماتے ہیں : جس نے کوشش کی اُس نے کامیابی پائی۔
دوسروں کو بھی بد گُمانی سے بچائیے: یاد رکھئیے!
خود تو بد گُمانی سے بچیے ہی نیز دوسروں کو بھی بد گُمانی سے بچائیے ایسے کام کرنے
سے پرہیز کیجئے کہ جس کی وجہ سے کسی دوسرے کو بد گُمانی میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہو۔
دُعا: اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے، بد
گُمانی اور دیگر گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ خاتم النبی سید المرسلین صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
خدا! بد گُمانی کی عادت مٹا دے
مجھے حُسنِ ظن کا تو
عادی بنا دے
میرا تن صفا ہو میرا من صفا ہو
خدا! حُسنِ ظن کا خزانہ عطا ہو
سمیع اللہ (درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ حیدرآباد فیضانِ
امام احمد رضا خان، ہند)
بدگمانی کی تعریف بیان کرتے
ہوئے امیر اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں: بدگمانی سے مراد یہ ہے کہ بلا
دلیل دوسرے کے برے ہونے کا دل سے اِعتقادِ جازِم(یعنی یقین) کرنا۔(شیطان کے بعض
ہتھیار،ص32)
بدگمانی ایک ایسی بری چیز ہے
کہ اس کے متعلق قراٰن کریم میں ایمان والوں سے فرمایا گیا ہے: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ
الظَّنِّ اِثْمٌ ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو بہت گمانوں سے بچو بیشک
کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے۔(پ 26،الحجرات:12 )
اسی طرح کثیر احادیث میں بھی
بدگمانی سے بچنے اور اچھا گمان رکھنے کا فرمایا گیا ہے، ان میں سے پانچ احادیث درج
ذیل ہیں۔
(2)رب سے بدگمانی: اُمُّ المؤمنین حضرت
سیِّدتُنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ خاتم المرسلین، رحمۃ للعالمین
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے اپنے بھائی کے متعلق بدگمانی کی
بے شک اس نے اپنے رب سے بد گمانی کی، کیونکہ اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا
ہے:( اجْتَنِبُوْا
كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘) ترجمۂ
کنزالایمان: بہت گمانوں سے بچو۔(کنزالعمال، کتاب الاخلاق،ظن السوء ، 2/199، حدیث : 7582)
(3)سب سے جھوٹی بات: حضرت ابو ہریرہ
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: بدگمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے۔(بخاری، کتاب الفرائض،
باب تعلیم الفرائض، 4/313، حدیث:6724)
(4)منہ سے نکلنے والی بات: حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: تم اپنے بھائی کے منہ سے نکلنے
والی کسی بات کا اچھا مَحمل پاتے ہو تو اس کے بارے میں بدگمانی نہ کرو۔(در منثور،
الحجرات، تحت الاٰيۃ:12، 7/566)
(5)عمدہ عبادت: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ
سے روایت ہے، رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: حُسنِ
ظن عمدہ عبادت ہے۔(ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی حسن الظنّ،4/387، حدیث:4993)
بدگمانی سے متعلق مزید
معلومات حاصل کرنے کے لئے کتاب [بدگمانی] (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ کرنا
مفید ثابت ہوگا۔ ان شاء اللہ الکریم۔
اللہ پاک ہمیں بدگمانی سے
بچنے اور اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ اچھا گمان رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین
بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔
مجھے غیبت و چغلی و بدگمانی
کی آفات سے تو بچا یا الٰہی (وسائلِ
بخشش، ص80)
محمد صابر عطّاری(درجہ ثانیہ جامعۃُ المدینہ فیضان فتح
شاہ ولی ہبلی کرناٹک ، ہند)
پیارے پیارے اسلامی بھائیو!
یقیناً دلوں کے حالات اللہ پاک کے علاوہ
کوئی اور نہیں جانتا اور وہی ہر غیب کو جاننے والا ہے بیشک ہمارے دلوں میں جو کچھ
ہم لوگوں کے بارے میں سوچ رہے ہیں اللہ پاک اس کو جانتا ہے کوئی اچھا سوچتا ہے تو کوئی برا سوچتا ہے۔ اچھا سوچنا (گمان کرنا) کبھی واجب ہوتا ہے تو کبھی مستحب اور برا گمان کبھی جائز تو کبھی ممنوع لیکن کسی نیک
شخص کے بارے بدگمانی (برا گمان) کرنا حرام ہے۔ ہمیں ان سب کاموں سے بچنا بےحد
ضروری جن امور کو اللہ پاک نے ہم حرام کیا ہے
بدگمانی کی تعریف: کسی واضح قرینے کے بغیر کسی مسلمان کے بارے میں برائی کو دل میں جما لینا کہ وہ ایسا ہی ہے بد
گمانی کہلاتا ہے۔(غیبت کی تباہ کاریاں،ص343)
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا
مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو بہت گمانوں سے بچو بیشک
کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے۔(پ 26،الحجرات:12 )
آیت کے اس حصے میں اللہ پاک نے اپنے مؤمن بندوں کو بہت زیادہ گمان کرنے سے منع فرمایا کیونکہ
بعض گمان ایسے ہیں جو محض گناہ ہیں لہٰذا احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ گمان کی کثرت
سے بچا جائے۔( ابن کثیر، الحجرات، تحت الآیۃ: 12، 7 / 352)
(1) حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی
اللہ عنہا سے مرفوعاً مروی ہے جس نے اپنے مسلمان بھائی سے بدگمانی کی بیشک اس نے
اپنے رب سے بدگمانی کی۔ (بدگمانی کی تباہ کاریاں، ص5)
(2)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ
عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:بد
گمانی سے بچو کیونکہ بد گمانی سب سے جھوٹی بات ہے۔(بخاری، کتاب الفراءض، باب تعلیم
الفرائض، 4 / 313، حدیث: 6724)
(3) ارشاد فرمایا حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بیشک اللہ پاک نے مسلمان کا خون، مال حرام قرار دیا ہے
اور یہ بھی حرام ٹھہرایا ہے کہ کسی مسلمان کے بارے میں بدگمانی یعنی برا گمان کیا
جائے۔ (شعب الایمان، 5/297، حدیث:6706)
(4)حضرت عمر بن خطاب رضی
اللہُ عنہ فرماتے ہیں :تم اپنے بھائی کے
منہ سے نکلنے والی کسی بات کا اچھا مَحمل پاتے ہو تو اس کے بارے میں بدگمانی نہ کرو۔(در منثور، الحجرات، تحت
الآیۃ: 12، 7/ 566)
(5)حضرت عبداللہ بن عمر رضی
اللہُ عنہما سے روایت ہے، رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: اللہ پاک کے ساتھ برا گمان رکھنا بڑے کبیرہ گناہوں میں سے
ہے۔( مسند الفردوس، باب الالف، 1 / 364، حدیث: 1469)
بد گمانی کے دینی اور دُنْیَوی نقصانات: یہاں بدگمانی کے دینی اور دُنْیَوی نقصانات بھی
ملاحظہ ہوں تاکہ بد گمانی سے بچنے کی
ترغیب ملے، چنانچہ اس کے 3دینی نقصانات یہ ہیں: (1) جس کے بارے میں بد گمانی کی ،اگر اُس کے سامنے اِس کا اظہار کر
دیا تو اُس کی دل آزاری ہو سکتی ہے اور شرعی اجازت کے بغیر مسلمان کی دل آزاری
حرام ہے ۔ (2)اگر ا س کی غیر موجودگی میں دوسرے کے سامنے اپنے برے گمان کا اظہار کیا تو یہ غیبت ہو جائے گی اور
مسلمان کی غیبت کرنا حرام ہے ۔ (3)بد گمانی کرنے سے بغض اور حسد جیسے خطرناک
اَمراض پیدا ہوتے ہیں ۔
اور اس کے دو بڑے دُنْیَوی نقصانات
یہ ہیں :۔(1) بد گمانی کرنے سے دو بھائیوں میں دشمنی پیدا ہو جاتی ہے، ساس اور بہو ایک دوسرے کے خلاف ہو جاتے ہیں ، شوہر
اور بیوی میں ایک دوسرے پر اعتماد ختم
ہوجاتا اور بات بات پر آپس میں لڑائی
رہنے لگتی ہے اور آخر کار ان میں طلاق
اور جدائی کی نوبت آجاتی ہے ،بھائی اور بہن کے درمیان تعلقات ٹوٹ جاتے ہیں اور یوں ایک ہنستا بستا گھر اجڑ کر رہ جاتا ہے۔(2) دوسروں کے لئے برے خیالات رکھنے والے افراد پر فالج
اور دل کی بیماریوں کا خطرہ زیادہ ہو جاتا
ہے جیسا کہ حال ہی میں امریکن ہارٹ ایسوسی
ایشن کی جانب سے جاری کردہ ایک تحقیقی رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ وہ افراد جو دوسروں کے لئے مخالفانہ سوچ رکھتے ہیں اور اس کی وجہ سے ذہنی دباؤ کا شکار اور غصے
میں رہتے ہیں ان میں دل کی بیماریوں اور فالج کا خطرہ%86بڑھ
جاتا ہے۔
بد گمانی کا علاج: امام محمد غزالی رحمۃُ
اللہ علیہ فرماتے ہیں : شیطان آدمی کے دل
میں بدگمانی ڈالتا ہے تو مسلمان کو چاہیے
کہ وہ شیطان کی تصدیق نہ کرے اور اس کو خوش
نہ کرے حتّٰی کہ اگر کسی کے منہ سے شراب کی بو آرہی ہو تو پھر بھی اس پر حد لگانا جائز نہیں کیونکہ ہو سکتا ہے اس نے شراب کا ایک گھونٹ پی
کر کلی کردی ہو یا کسی نے اس کو جَبراً
شراب پلادی ہو اور اس کااِحتمال ہے تو وہ دل سے بدگمانی کی تصدیق کر کے شیطان کو خوش
نہ کرے (اگرچہ مذکورہ صورت میں بدگمانی کا
گناہ نہیں ہوگا لیکن بچنے میں پھر بھی بھلائی ہی ہے)۔ (احیاء العلوم ، کتاب
آفات اللسان، بیان تحریم الغیبۃ بالقلب، 3 / 186ملخصاً)
پیارے پیارے اسلامی بھائیو!
بدگمانی کی ہلاکت سے بچنے کے لئے اور اس باطنی بیماری کو دور کرنے کے لئے ہمیں
عملی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ مسلمان بھائیوں کی خوبیوں پر نظر رکھیں اور بری صحبت
سے بچیں اور اچھی صحبت اختیار کیجئے کیونکہ بری صحبت سے برے گمان پیدا ہوتے ہیں
اگر پیدا ہو تو اس کے انجام پر غور و فکر کریں اور اپنے آپ کو عذابِ الٰہی سے ڈرائیں
اور مالک و مولا کی بارگاہ میں دعا کرتے رہیں ۔
اللہ پاک ہمیں بد ُگمانی سے بچنے اور اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ اچھا گمان رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اٰمین
محمد اویس نعیم قادری (درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ
گوجرخان ضلع روالپنڈی پاکستان )
حضرت زکریا علیہ
السّلام اللہ پاک کے برگزیدہ نبی، حضرت یحیی (علیہ السّلام) کے والد اور مریم رضی
اللہ عنہا کے خالو تھے۔ آپ علیہ السّلام حضرت مریم رضی الله عنہا کی کفالت و پرورش
فرمائی ، ان کے پاس بے موسمی پھلوں کی آمد دیکھ کر بارگاہ الہی میں اولاد کی دعا
مانگی جو قبول ہوئی اور آپ کو حضرت یحیی (علیہ السّلام) کی صورت میں عظیم فرزند
عطا ہوئے۔ یہودیوں نے سازش کر کے آپ علیہ
السّلام کو شہید کروادیا۔ یہاں 2 ابواب میں آپ علیہ السّلام کی سیرتِ مبارکہ بیان
کی گئی ہے جس کی تفصیل ذیلی سطور میں ملاحظہ ہو۔
باب (1) حضرت زکریا ( علیہ السّلام)
کے واقعات کے قراٰنی مقامات: قراٰنِ پاک
میں آپ علیہ السلام کا مختصر تذکرہ سورۂ
انعام آیت نمبر 85 میں اور تفصیلی ذکرِ خیر درجہ ذیل 3 سورتوں میں کیا گیا ہے: (1)سورۂ
آل عمران، آیت 37 تا 44 (2) سورۂ مریم، آیت1 تا 11 (3) سورۂ انبیاء، آیت: 89
، 90
حضرت زکریا ( علیہ السّلام) کا تعارف نام و نسب : آپ علیہ السلام کا مبارک
نام زکریا اور ایک قول کے مطابق نسب نامہ یہ ہے: زکریا بن لدن بن مسلم بن صدوق بن حشبان بن داؤد
بن سلیمان بن مسلم بن صدیقہ بن برخیا بن بلعاطۃ بن ناحور بن شلوم بن بہفا شاط بن اینا
من بن رحبعام بن حضرت سلیمان علیہ السّلام بن حضرت داؤد علیہ السّلام۔
پیشہ: اپنی محنت سے کما کر کھانا انبیاء کرام علیہم السلام کی پاکیزہ
سیرت رہی ہے۔ اس لیے حضرت زکریا علیہ السلام بھی اپنے ہاتھ کی کمائی ہی سے کھاتے
تھے ، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: حضرت زکریا علیہ السلام لکڑی سے اشیاء بنانے کا کام کیا کرتے تھے۔
یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم
السّلام میں سے کسی نبی علیہ السلام نے اپنی نبوت کو ذریعہ معاش نہیں بنایا بلکہ
کائنات کے یہ معزز ترین حضرات مختلف پیشے اختیار کر کے اپنا گزر بسر کیا کرتے تھے۔
تقوی: آپ علیہ السلام انتہائی پر ہیز گار تھے۔ مروی ہے کہ آپ علیہ
السلام اجرت پر کسی کی دیوار گارے سے بنا رہے تھے اور اس کے بدلے میں وہ آپ علیہ
السلام کو ایک روٹی پیش کرتے کیونکہ آپ علیہ السلام صرف اپنے ہاتھ کی کمائی سے ہی
کھانا تناول فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ (کھانے کے دوران ) کچھ لوگ آپ علیہ السلام کی
بارگاہ میں حاضر ہوئے تو آپ نے کھانے کی دعوت نہ دی یہاں تک کہ خود کھانا کھا کر
فارغ ہو گئے۔ یہ دیکھ کر ان لوگوں کو آپ علیہ السلام کے طرز عمل پر تعجب ہوا کہ
انتہائی سخی اور زاہد ہونے کے باوجود آپ نے ہمیں اپنے کھانے میں شریک کیوں نہیں کیا
اور یہ گمان کیا کہ اگر ہم ہی پہل کرتے ہوئے کھانا مانگ لیتے تو اچھا رہتا۔ آپ علیہ
السلام نے (اپنے طرز عمل کی حکمت بیان کرتے ہوئے) ان سے ارشاد فرمایا: میں ایک قوم
کے ہاں اجرت پر کام کرتا ہوں اور وہ مجھے ایک روٹی اس لیے دیتے ہیں تاکہ میرے اندر
ان کا کام کرنے کی طاقت پیدا ہو ، اب اگر میں تمہیں اپنے حصے کی روٹی میں سے کچھ
کھلاتا ہوں تو یقیناً یہ نہ تمہیں کفایت کرتی نہ مجھے، مزید یہ کہ میرے اندر ان کا
کام کرنے کی طاقت کم ہو جاتی۔
اس واقعے میں نصیحت ہے کہ جب
اجرت پر کسی کا کام کریں تو اس کے تمام تر تقاضوں کو بھی پورا کریں۔
فرزند پر اظہارِ شفقت: آپ علیہ السلام کے فرزند حضرت یحیٰ علیہ
السلام پر اللہ پاک کا خوف بہت غالب تھا جس کے سبب وہ بکثرت گریہ وزاری کرتے تھے ، ایک دن آپ علیہ السلام نے
ان سے فرمایا: اے پیارے بیٹے ! میں نے تو اللہ پاک سے یہ دعا مانگی تھی کہ وہ تجھے
میری آنکھوں کی ٹھنڈک بنادے۔ حضرت یحیٰ علیہ السلام نے عرض کی: اے ابا جان ! حضرت
جبریل علیہ السلام نے مجھے بتایا ہے کہ جنت اور دوزخ کے درمیان ایک جنگل ہے ، جسے
وہی طے کر سکتا ہے جو (اللہ پاک کے خوف سے ) بہت رونے والا ہو۔ اس پر حضرت زکریا
علیہ السلام نے فرمایا: اے میرے فرزند : ٹھیک ہے تم روتے رہو۔
اللہ اکبر! حضرت یحیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے
برگزیدہ نبی، ہر طرح کے گناہ سے پاک اور یقینی حتمی، قطعی طور پر بخشش و مغفرت و
نجات اور جنت میں اعلیٰ ترین مقامات کا پروانہ حاصل کیے ہوئے ہیں ، اس کے باوجود
خوفِ خدا سے گریہ وزاری کا یہ حال ہے تو ہم گناہگاروں کو رب قہار سے کس قدر ڈرنا
اور اس کے خوف سے کس قدر رونا چاہئے۔
اوصاف: دیگر انبیائے کرام علیہم السلام کی طرح آپ علیہ السلام بھی
نیکیوں میں جلدی کرنے والے، اللہ پاک کو بڑی رغبت اور بڑے ڈر سے پکارنے والے اور
اللہ پاک کے حضور دل سے جھکنے والے تھے۔ ارشاد باری ہے: اِنَّهُمْ كَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَ
یَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّ رَهَبًاؕ-وَ كَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَ(۹۰) ترجمۂ
کنزُالعِرفان: بیشک وہ نیکیوں میں جلدی
کرتے تھے اور ہمیں بڑی رغبت سے اور بڑے ڈر
سے پکارتے تھے اور ہمارے حضور دل سے جھکنے والے تھے۔ (پ17، الانبیآ:90)
انعاماتِ الہی: اللہ پاک نے حضرت زکریا علیہ
السلام پر بہت سے انعامات فرمائے ، ان میں سے 6 انعامات یہ ہیں :
(1تا3) اللہ پاک آپ علیہ السلام کو بطورِ خاص ان
انبیاء علیہم السلام کے گروہ میں نام کے ساتھ ذکر کیا جنہیں اللہ کریم نے نعمتِ
ہدایت سے نوازا، صالحین میں شمار فرمایا اور جنہیں ان کے زمانے میں سب جہان والوں
پر فضیلت عطا کی۔ فرمانِ باری ہے : وَ زَكَرِیَّا وَ یَحْیٰى وَ عِیْسٰى وَ اِلْیَاسَؕ-كُلٌّ
مِّنَ الصّٰلِحِیْنَۙ(۸۵) وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ
الْیَسَعَ وَ یُوْنُسَ وَ لُوْطًاؕ-وَ كُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعٰلَمِیْنَۙ(۸۶) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور زکریا اور یحییٰ اور عیسیٰ اور
الیاس کو (ہدایت یافتہ بنایا) یہ سب ہمارے خاص بندوں میں سے ہیں۔ اور اسماعیل اور یَسَع
اور یونس اور لوط کو (ہدایت دی)اور ہم نے سب کو تمام جہان والوں پر فضیلت عطا
فرمائی۔ (پ 7 ،الانعام:86،85)
(4 تا 6 ) آپ علیہ السّلام نے فرزند کی دعا مانگی تو رب کریم نے اسے
قبول فرمایا، آپ علیہ السّلام کے لیے آپ کی زوجہ کا بانجھ پن ختم کر کے اسے اولاد
پیدا کرنے کے قابل بنا دیا اور انہیں سعادت مند فرزند حضرت یحیٰ علیہ السلام عطا فرمائے۔ فرمانِ باری ہے: وَ زَكَرِیَّاۤ اِذْ
نَادٰى رَبَّهٗ رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًا وَّ اَنْتَ خَیْرُ الْوٰرِثِیْنَۚۖ(۸۹) فَاسْتَجَبْنَا
لَهٗ٘-وَ وَهَبْنَا لَهٗ یَحْیٰى وَ اَصْلَحْنَا لَهٗ زَوْجَهٗؕ ترجمۂ
کنزُالعِرفان: اور زکریا کو (یاد کرو) جب اس نے اپنے رب کو پکارا ، اے میرے رب!
مجھے اکیلا نہ چھوڑ اور تو سب سے بہتر وارث ہے۔ تو ہم نے اس کی
دعا قبول کی اور اسے یحییٰ عطا فرمایا اور اس کے لیے اس کی بیوی کو قابل بنا دیا۔(پ17،
الانبیآء:90،89)
اس سے معلوم ہوا کہ دین کی
خدمت کے لئے بیٹے کی دعا اور فرزند کی تمنا کرنا سنتِ نبی ہے۔ یہ بھی پتا چلا کہ جیسی
دعا مانگے ، اسی قسم کے نام سے اللہ پاک کو یاد کرے۔ چونکہ حضرت زکریا علیہ السّلام
کے فرزند نے اُن کے کمال کا وارث ہونا تھا، اس لیے آپ علیہ السّلام نے رب کو وارث
کی صفت سے یاد فرمایا۔
علی رضا اشفاق احمد (درجہ خاصہ سال اول ، جامعۃُ المدینہ
فیضان جمال مصطفی کراچی، پاکستان)
پہلی صفات : غیب کی خبریں ہونا۔ حضرت زکریا علیہ السّلام کو غیب کی
خبروں کی وحی کی جاتی تھی چناچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْهِ اِلَیْكَؕترجَمۂ کنزُالایمان: یہ غیب کی خبریں ہیں
کہ ہم خفیہ طور پر تمہیں بتاتے ہیں۔(پ3،آلِ عمرٰن:44) یہ آیت مبارکہ اس بات پر
دلالت کرتی ہے کہ حضرت زکریا علیہ السّلام کو غیب کی خبریں تھیں۔
دوسری صفت : صالحین میں شمار ہونا۔حضرت زکریا علیہ السّلام صالحین میں
سے تھے چنانچہ اللہ پاک قراٰن میں خود فرماتا ہے: وَ زَكَرِیَّا وَ یَحْیٰى وَ عِیْسٰى وَ
اِلْیَاسَؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَۙ(۸۵) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور
زکریا اور یحییٰ اور عیسیٰ اور الیاس کو (ہدایت یافتہ بنایا) یہ سب ہمارے خاص
بندوں میں سے ہیں۔ (پ 7 ،الانعام: 85)
تیسری صفت : اللہ کی
تسبیح کا درس دینا۔ حضرت زکریا علیہ السّلام
لوگوں صبح و شام اللہ کی تسبیح بیان کرنے کا درس دیتے تھے۔ چنانچہ اللہ پاک فرماتا
ہے : فَخَرَ جَ عَلٰى
قَوْمِهٖ مِنَ الْمِحْرَابِ فَاَوْحٰۤى اِلَیْهِمْ اَنْ سَبِّحُوْا بُكْرَةً وَّ
عَشِیًّا(۱۱) ترجمۂ
کنزُالعِرفان:پس وہ اپنی قوم کی طرف مسجد سے باہر نکلے تو انہیں اشارہ سے کہا کہ صبح و شام تسبیح کرتے رہو۔(پ16،مریم:11)
چوتھی صفت : نیک کاموں میں جلدی کرنا اور ڈر سے اور رغبت سے اللہ کو
پکارنا۔ حضرت زکریا علیہ السّلام نیک کاموں میں جلدی کرتے اور ڈر اور بڑی رغبت سے
اللہ کو پکارتے تھے ۔ چنانچہ اللہ پاک کا فرماتا ہے : اِنَّهُمْ كَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَ
یَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّ رَهَبًاؕ-وَ كَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَ(۹۰) ترجمۂ
کنزُالعِرفان: بیشک وہ نیکیوں میں جلدی
کرتے تھے اور ہمیں بڑی رغبت سے اور بڑے ڈر
سے پکارتے تھے اور ہمارے حضور دل سے جھکنے والے تھے۔
(پ17، الانبیآ:90)
تفسیر مدارک میں اس آیت کے
تحت لکھا ہے یعنی جن انبیائے کرام علیہم
السلام کا ذکر ہوا ان کی دعائیں اس وجہ سے قبول ہوئیں کہ وہ نیکیوں میں جلدی کرتے
تھے اور اللہ پاک کو بڑی رغبت سے بڑے ڈر سے پکارتے تھے اور اللہ کے حضور دل سے
جھکنے والے تھے ۔ (تفسیر مدارک بحوالہ صراط الحنان)
محمد اسماعیل عطّاری (درجہ سادسہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ
بخاری کھارادر کراچی، پاکستان)
اللہ پاک نے ہدایتِ خلق کے
لئے انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام کو بھیجا جن میں سے حضرت زکریا علیہ
السّلام بھی ہیں آپ علیہ السّلام اللہ پاک کے برگزیدہ نبی، حضرت یحییٰ علیہ
السّلام کے والد اور حضرت مریم رضی اللہ عنہا کے خالو تھے۔
آپ علیہ السّلام کے چند اوصاف ملاحظہ
فرمائیں :۔
(1) آپ علیہ السّلام نے حضرت
مریم رضی اللہ عنہا کی کفالت و پرورش فرمائی، ان کے پاس بے موسم پھلوں کی آمد دیکھ
کر بارگاہ الہی میں اولاد کی دعا مانگی جو قبول ہوئی اور آپ کو حضرت یحییٰ علیہ
السّلام کی صورت میں عظیم فرزند عطا ہوئے۔
(2) اپنی محنت سے کما کر
کھانا انبیائے کرام علیہم السّلام کی پاکیزہ سیرت رہی ہے۔ اسی لئے حضرت زکریا علیہ
السّلام بھی اپنے ہاتھ کی کمائی ہی سے کھاتے تھے، چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: حضرت
زکریا علیہ السّلام لکڑی سے اشیاء بنانے کا کام کیا کرتے تھے۔(مسلم، كتاب الفضائل،
باب من فضائل زكريا علیہ السلام، ص 994، حديث: 2379)
(3) آپ علیہ السّلام انتہائی
پرہیزگار تھے۔ مروی ہے کہ آپ علیہ السّلام اجرت پر کسی کی دیوار گارے سے بنا رہے
تھے اور اس کے بدلے میں وہ آپ علیہ السّلام کو ایک روٹی پیش کرتے کیونکہ آپ علیہ
السّلام صرف اپنے ہاتھ کی کمائی سے ہی کھانا تناول فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ (کھانے
کے دوران) کچھ لوگ آپ علیہ السّلام کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو آپ نے کھانے کی
دعوت نہ دی یہاں تک کہ خود کھانا کھا کر فارغ ہو گئے۔ یہ دیکھ کر ان لوگوں کو آپ علیہ
السّلام کے طرزِ عمل پر تعجب ہوا کہ انتہائی سخی اور زاہد ہونے کے باوجود آپ نے ہمیں
اپنے کھانے میں شریک کیوں نہیں کیا اور یہ گمان کیا کہ اگر ہم ہی پہل کرتے ہوئے
کھانا مانگ لیتے تو اچھا رہتا۔ آپ علیہ السّلام نے (اپنے طرز عمل کی حکمت بیان
کرتے ہوئے) ان سے ارشاد فرمایا: میں ایک قوم کے ہاں اجرت پر کام کرتا ہوں اور وہ
مجھے ایک روٹی اس لیے دیتے ہیں تاکہ میرے اندر ان کا کام کرنے کی طاقت پیدا ہو، اب
اگر میں تمہیں اپنے حصے کی روٹی میں سے کچھ کھلاتا ہوں تو یقیناً یہ نہ تمہیں کفایت
کرتی نہ مجھے ، مزید یہ کہ میرے اندر ان کا کام کرنے کی طاقت کم ہو جاتی۔ (احياء وعلوم الدين، كتاب النیۃ والاخلاص
والصدق، الباب الاول في النیۃ، بيان تفصيل الاعمال المتعلقۃ بالنیۃ، 5/100)
اس واقعے میں نصیحت ہے کہ جب اجرت پر کسی کا کام
کریں تو اس کے تمام تر تقاضوں کو بھی پورا کریں۔
(4) آپ علیہ السّلام کے فرزند
حضرت یحییٰ علیہ السّلام پر اللہ پاک کا خوف بہت غالب تھا جس کے سبب وہ بکثرت گریہ و زاری کرتے تھے ، ایک دن آپ علیہ السّلام
نے ان سے فرمایا: اے پیارے بیٹے! میں نے تو اللہ پاک سے یہ دعا مانگی تھی کہ وہ
تجھے میری آنکھوں کی ٹھنڈک بنادے۔ حضرت یحییٰ علیہ السّلام نے عرض کی: اے ابا جان
!حضرت جبریل علیہ السّلام نے مجھے بتایا ہے کہ جنت اور دوزخ کے درمیان ایک جنگل
ہے، جسے وہی طے کر سکتا ہے جو اللہ پاک کے خوف سے بہت رونے والا ہو۔ اس پر حضرت
زکریا علیہ السّلام نے فرمایا: اے میرے فرزند : ٹھیک ہے تم روتے رہو۔ (احياء علوم الدين، كتاب الخوف والرجاء، بيان
احوال الانبياء...الخ، 4/226)
اللہ اکبر! حضرت یحییٰ علیہ السّلام
اللہ پاک کے برگزیدہ نبی، ہر طرح کے گناہ سے پاک اور یقینی، حتمی قطعی طور پر بخشش
و مغفرت و نجات اور جنت میں اعلیٰ ترین مقامات کا پروانہ حاصل کیے ہوئے ہیں، اس کے
باوجود خوف خدا سے گریہ وزاری کا یہ حال ہے تو ہم گناہگاروں کو رب قہار سے کس قدر
ڈرنا اور اس کے خوف سے کس قدر رونا چاہئے۔
(5) اللہ پاک نے حضرت زکریا علیہ السّلام پر بہت سے
انعامات فرمائے ، ان میں سے چند یہ ہیں: اللہ پاک نے آپ علیہ السّلام کو بطورِ خاص
ان انبیاء علیہم السّلام کے گروہ میں نام کے ساتھ ذکر کیا جنہیں اللہ کریم نے
نعمتِ ہدایت سے نوازا، صالحین میں شمار فرمایا اور جنہیں ان کے زمانے میں سب جہان
والوں پر فضیلت عطا فرمائی۔
اللہ پاک ہمیں ان کی سیرت پر
عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم
محمد حسان رضا عطاری
(درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضان مشتاق باب المدینہ کراچی، پاکستان)
تعارف: حضرت زكريا علیہ السّلام اللہ پاک کے مقرب نبی اور برگزیدہ
بندے ہیں جو حضرت یحییٰ علیہ السّلام کے والد ماجد ہیں آپ نہایت زاہد و عابد اور
تقویٰ و پرہیز گاری اختیار کرنے والے تھے اور مستجاب الدعوات تھے ۔ قراٰنِ پاک میں
حضرت زکریا علیہ السّلام کا ذکر دو مقامات پر آیا ہے ۔ سوره آل عمران اور سورۃ
الانبيآء۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے : هُنَالِكَ دَعَا
زَكَرِیَّا رَبَّهٗۚ-قَالَ رَبِّ هَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْكَ ذُرِّیَّةً
طَیِّبَةًۚ-اِنَّكَ سَمِیْعُ الدُّعَآءِ(۳۸) ترجَمۂ کنزُالایمان: یہاں پکارا زکریا اپنے رب کو بولا اے
رب میرے مجھے اپنے پاس سے دے ستھری اولاد بے شک تو ہی ہے دعا سننے والا۔(پ3،آلِ
عمرٰن:38)
جب حضرت زکریا علیہ السّلام
نے حضرت مریم بنت عمران رضی الله عنہا کو اپنے زیر کفالت لیا تو دیکھا کے اُن کے
پاس بے موسم کے پھل موجود ہیں ، استفسار پر حضرت مریم نے جواباً کہا کہ یہ من
عند اللہ ہیں اور اس ہی کی کرم نوازی ہے۔ یہ تمام ماجرا سننے کے بعد حضرت زکریا نے اسی محراب کے پاس تبرکاً دعا مانگی اس عقیدے
کے ساتھ جو رب حضرت مریم کو بے پھل موسم دینے پر قادر ہے وہ رب مجھے میرے بڑھاپے اور میری بیوی کے بانجھ ہونے کے باوجود اولاد دینے پر بھی قادر ہے ۔(ماخوذ تفسیر صراط الجنان)
تفسیر سے معلوم ہونے والی صفات:
(1) حضرت زکریا علیہ السّلام اپنے رب کی رحمت سے
پر امید رہنے والے تھے ۔
(2) آپ علیہ السّلام بہت ہی
صابر و شاکر انسان تھے ۔
(3)آپ علیہ السّلام اپنے رب کی
طرف رغبت رکھنے والے اور دعا گو تھے ۔
(4)آپ علیہ السّلام دور اندیش
بھی تھے کیوں کے اپنے وارث کا طلب کرنا تا کہ وہ وارث انکے انتقال کے بعد بھی تبلیغ
توحید جاری رکھے اس بات پر دلالت کرتا ہے ۔
اسی کا ذکر سورۃُ الانبیآء میں
بھی ہے ۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: وَ زَكَرِیَّاۤ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗ رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ
فَرْدًا وَّ اَنْتَ خَیْرُ الْوٰرِثِیْنَۚۖ(۸۹) ترجمۂ کنزالایمان: اور زکریا
کو جب اس نے اپنے رب کو پکارا اے میرے رب مجھے اکیلا نہ چھوڑ اور تو سب سے بہتر
وارث۔
حضرت زكريا علیہ السّلام نے یہ
دعا فرمائی کہ اے اللہ مجھے اکیلا نہ چھوڑ اور میرے لئے کوئی وارث(اولاد) بنادے
اور تو سب سے بہتر وارث ہے ۔ یعنی اگر تو اپنی مشیت سے میرا کوئی وارث یعنی اولاد
نہ بھی بنائے تب بھی میں تیری رضا پر راضی ہوں کیوں کے تو سب سے بہتر وارث ہے۔
(ماخوذ تفسیر نعیمی )
اس آیت سے یہ بھی معلوم
ہوا کہ حضرت زکریا علیہ السّلام راضی
برضائے رب تھے ۔ سورۃُ الانبیآء میں اللہ
کریم نے حضرت سلیمان، لوط، نوح، ابراہیم،
اسماعیل، ایوب، ادریس، ذوالکفل اور ذوالنون علیہم السّلام کا ذکر فرمانے کے بعد
حضرت زكريا علیہ السّلام کا بھی ذکر فرمایا اور ان تمام انبیآء کے متعلق ارشاد
فرمایا : اِنَّهُمْ كَانُوْا
یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَ یَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّ رَهَبًاؕ-وَ كَانُوْا
لَنَا خٰشِعِیْنَ(۹۰) ترجَمۂ کنزُالایمان: تو ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اُسے یحیی عطا فرمایا اور
اس کے لیے اس کی بی بی سنواری بےشک وہ بھلے کاموں میں جلدی کرتے تھے اور ہمیں پکارتے تھے امید اور خوف سے اور
ہمارے حضور گڑگڑاتے ہیں۔(پ17، الانبیآ:90)
مذکورہ آیت میں جنابِ زکریا علیہ
السّلام کی چند صفات مذکور ہیں۔ (1) وہ نیکی کے کاموں میں جلدی کرنے والے تھے۔(2)
امید اور خوف سے اللہ کو پکارنے والے تھے۔
(3) اللہ کے حضور عاجزی کرنے والے تھے۔
اللہ پاک ہمیں حضرت زکریا علیہ
السّلام کی ان با برکت صفات کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے ان پر بے شمار رحمتیں
نازل فرمائے اور انکے صدقے میں ہماری بے حساب مغفرت فرمائے۔ اٰمین بجاه خاتم النبیین
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
خوشبولگانا
ہمارے پیارے آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم
کی سنت ہے۔ دینِ اسلام نے بھی پاکیزگی و نفاست اختیار کرنے پر زور دیا ہے۔ اچھی
خوشبو بھی پاکیزگی کا حصہ ہے۔
خلیفۂ
امیر اہلسنت مولانا حاجی عبید رضا عطاری مدنی مُدَّ ظِلُّہُ العالی نے خوشبو کی معلومات سے متعلق 14 صفحات کا رسالہ
”امیر
اہلسنت سے خوشبو کے بارے میں سوال جواب“ پڑھنے /سننے
کی ترغیب دلائی ہے اور پڑھنے/سننے والوں کو اپنی دعاؤں بھی نوازا ہے۔
دعائے
جانشینِ امیر اہلسنت
یااللہ
پاک جو کوئی 14 صفحات کا رسالہ ”امیر اہلسنت سے خوشبو کے بارے میں سوال جواب“ پڑھ
یا سن لے اس کے ظاہر کے ساتھ ساتھ باطن کو بھی مُعطر فرما اور بے حساب بخش دے۔
یہ
رسالہ دعوتِ اسلامی کی ویب سائٹ سے ابھی مفت ڈاؤن لوڈ کیجئے
دو دن
کے اجتماع میں پروفیشنلز حضرات کے در میان شیخ طریقت امیر اہلسنت علامہ محمد الیاس
عطار قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ مدنی مذاکرے
میں مدنی پھول ارشاد فرمائیں گے۔ اس کے علاوہ مرکزی مجلس شوریٰ کے نگران مولانا
حاجی محمد عمران عطاری مُدَّ ظِلُّہُ العالی و اراکین، استاذ الحدیث مفتی محمد حسان عطاری
مدنی مُدَّ ظِلُّہُ العالی ، نگران ویلز یوکے حاجی سید فضیل رضا
عطاری، نگران شعبہ پروفیشنلز فورم محمد ثوبان عطاری اور دیگر مبلغین دعوت اسلامی
وقتاً فوقتاً سنتوں بھرے بیانات فرمائیں گے۔
تمام
پروفیشنلز حضرات سے اس اجتماع میں شرکت کی درخواست ہے۔