فیضانِ
مدینہ عباسیہ ٹاؤن بہاولپور میں قاری
صاحبان و ناظمین میں ٹریننگ سیشن
مدنی مرکز دعوتِ اسلامی فیضان مدینہ عباسیہ ٹاؤن
بہاولپور میں بہاولپور ڈویژن کے تمام قاری صاحبان و ناظمین کا ٹریننگ سیشن ہوا جس میں نگران مجلس قاری لیاقت عطاری و
نگران بہاولپور ڈویژن ڈاکٹر حافظ عبدالرؤف عطاری سمیت دیگر ذمہ داران نے دینی کاموں میں مزید بہتری لانے کے حوالے سے مدنی پھول دیئے اور 12دینی کاموں میں حصہ لینے کا ذہن دیا۔( کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)
دعوتِ
اسلامی کے شعبہ رابطہ برائے شخصیات کے ذمہ داران نے یوسی 7 گلشن اقبال ٹاؤن میں سکندر بلوچ سے ملاقات کی۔
دوران ملاقات ذمہ دار اسلامی بھائی نے انکو دعوتِ اسلامی کے دینی کاموں
کے حوالے سے بریفنگ دی اور مدنی مرکز فیضانِ
مدینہ کا وزٹ کرنے کے ساتھ ہفتہ کی رات
کو ہونے والے مدنی مذاکرے میں شرکت کرنے کی دعوت دی جس پر انھوں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے وزٹ کرنے کی اچھی نیت کا اظہار کیا۔
اس ملاقات میں یوسی 7 گلشن اقبال کے نگران و
امام ستارہ مسجد رضا عطاری اور شعبہ رابطہ برائے شخصیات گلشن اقبال ٹاؤن ذمہ دار نور بابا عطاری ہمراہ تھے۔(رپورٹ :محمد ذکی عطاری ،شعبہ رابطہ برائے شخصیات ڈسٹرکٹ ایسٹ کراچی،کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)
20
مئی 2023ء کو اسپیشل پرسنز ڈیپارٹمنٹ دعوت اسلامی کے تحت ملتان کے علاقے شجاع آباد کی جامع مسجد غوثیہ میں گونگے بہرے اسلامی بھائیوں میں سیکھنے سکھانے کاحلقہ منعقد ہوا جس میں ڈویژن ذمہ دار عابد حسین عطاری
(بہاولپور)نے
اشاروں کی زبان میں’’ نیک اعمال‘‘کے موضوع پر سنتوں بھرا بیان کیا ۔
دوران بیان ڈویژن ذمہ دار نے گونگے بہرے اسلامی
بھائیوں کو امیر اہل سنت مولانا محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ کے
عطا کردہ 27نیک اعمال پر عمل کرنے کے کی ترغیب دلائی جس پر انھوں نے نیک خیالات کا اظہار
کیا۔ شہر ذمہ دار محمد عامر عطاری(ملتان) اور
مقامی گونگے بہرے اسلامی بھائیوں نے بھی شرکت
کی۔(رپورٹ:محمد
رضوان عطاری مدنی اسپیشل پرسنز ڈیپارٹمنٹ پاکستان آفس،کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)
مسلمانوں
کے عقائد و ایمان کی حفاظت کرنے والی عاشقانِ
رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کی جانب سے انڈونیشیا میں وہاں کے ملکی سطح کے ذمہ داران کا آن لائن مدنی
مشورہ ہوا جس میں ملکی نگران شریک ہوئے۔
مرکزی
مجلسِ شوریٰ کے رکن حاجی قاری ایاز عطاری نے مدنی مشورے میں دعوت اسلامی کے دینی کاموں کو
بڑھانے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے شرکا کو آئندہ دنوں میں شعبے کی جانب سے منعقد ہونے والے تربیتی اجتماع میں شرکت کرنے اور دیگر کو اس
کی دعوت دیگر ساتھ لانے کے اہداف دیئے۔( کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)
دنیا
بھر میں دینی کام کرنے والی عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے تحت انٹرنیشنل مبلغ کورس کے شرکا میں ٹریننگ
سیشن ہوا جس میں رکن شوریٰ حاجی محمد امین عطاری نے کولمبو
سری لنکا سےبذریعہ ویڈیو لنک بیان کیا جس میں شرکا کی دینی و اخلاقی اعتبار سے تربیت کرتے ہوئے انھیں 12 دینی کاموں کو کرنے کا انداز سمجھایا۔(کانٹینٹ:رمضان
رضا عطاری)
دعوتِ
اسلامی کے شعبہ محبتیں بڑھاؤ کے تحت 4 جون
2023ء بروز اتوار عالمی مدنی مرکز فیضان
مدینہ کراچی میں مدنی مشورے کا انعقاد ہوا جس میں
پاکستان بھر سے صوبائی ذمہ داران نے شرکت کی ۔
ابتداءً
نگرانِ مجلس شاہد عطاری نے شعبے کے دینی
کاموں کے متعلق اسلامی بھائیوں کی تربیت کی۔ بعدازاں رکن شوریٰ حاجی اظہر عطاری نےسابقہ دینی کاموں کی کارکردگی کاجائزہ لیا نیز
شرکا کی شعبے کے بنیادی کاموں کے حوالے سے رہنمائی کی جس میں تعزیت و
عیادت کے اہداف دیئے نیز آنے والے دنوں میں بزرگانِ دین کے اعراس پر پاکستان بھر میں ایصالِ ثواب اجتماعات منعقد کرنے اور ان
میں ذمہ داران و اراکین شوریٰ کے بیانات کروانے کے
بارے میں گفتگو ہوئی ۔ (کانٹینٹ:رمضان
رضا عطاری)
محمد وقار یونس عطاری (درجہ سادسہ جامعۃُ المدینہ فیضان
غوثِ اعظم سائٹ ایریا کراچی، پاکستان)
مسجد کے امام کو امامتِ صغریٰ کا درجہ حاصل ہے اور اس امامت (یعنی مسجد کے امام ) کا مطلب یہ
ہے کہ ”دوسرے کی نماز کا اس کے ساتھ وابستہ ہونا“ (بہارِ شریعت ج۱ ص 560 ) بے شک امامت ایک بڑی سعادت ہے کہ خود مدنی سرکار ہم بے کسوں کے مددگار، حضورِ اکرم سرورِ عالم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے اس امامت کو سر انجام دیا ۔ اس کی چھ شرائط ہیں
:اسلام ،بلوغ ،عاقل ہونا ،مرد ہونا ، قرائت،معذورِ (شرعی) نہ ہونا (بہارِ شریعت ج۱،ص561 ) اگر کسی مسجد میں امام
معین (مقرر)ہے تو امامِ معین امامت کا حق
دا رہے اگرچہ حاضرین میں کوئی اس سے زیادہ
علم والا اور زیادہ تجوید والا ہو(بہارِشریعت ج۱،ص567) جہاں امامِ معین (مسجد
کے امام )کے اتنے مسائل اور اہمیت ہے وہیں اس کے کچھ حقوق بھی ہیں جو کہ مقتدیوں پر لازم ہیں ۔آئیے ! اِن
میں سے دس (10)حقوق کو ہم سنتے ہیں :
پہلا حق : امام کا پہلا حق یہ ہے کہ اس کو امام تسلیم کیا جائے اگر کسی میں امامت کی جامع شرائط پائی جا رہی ہیں اور مسجد انتظامیہ
متفقہ فیصلے سے اس کو امام منتخب کرچکی ہے تو اس کو امام تسلیم کر لینا چاہیے خواہ مخواہ اس کی ذات پر کیچڑ نہ اُچھالا جائے جب تک
شریعت اس کی اجازت نہ دے۔
دوسرا حق : امام کا دوسر احق یہ ہے کہ امام کی غیبت،چغلی وغیرہ سے بچا
جائے کیونکہ غیبت کرنا ویسے ہی بُرا کام
ہے کہ غیبت کرنے والا گویا اپنے مردار
بھائی گوشت کھاتا ہے اور اس سے بھی بڑھ کر اپنے پیش امام کی غیبت کرنا کس
قدر بُرا ہوگا لہذا اپنے مسجد کے امام
کی غیبت وغیرہ کرنے سے بچنا چاہیے۔
تیسرا حق :امام کا حق ہے کہ
اس کی عزّت کی جائے اور ہونی بھی چاہئے کیونکہ ہماری نمازیں اس امام کے ساتھ وابستہ ہیں جب تک امام نماز شروع نہ کرے ہم نماز شروع
نہیں کر سکتے۔ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے پیش امام کی عزّت کریں اور طعنہ زنی کا نشانہ نہ بنیں ۔
چوتھا حق: جہاں امام کا یہ حق ہے کہ اس کی عزت کی جائے وہیں امام کا یہ بھی حق ہے کہ اس کی عزت افزائی اور حوصلہ
افزائی بھی کی جائے امام کو پریشان دیکھ
کر اسکی پریشانی دور کرنے کی کوشش کی جائے اور ہمت بڑھائی جائے حوصلہ دیا
جائے۔
پانچواں حق: مسجد کمیٹی پر یہ لازم ہے کہ امام کی معقول تنحواہ مقرر کی جائے اور اس کی ضروریات کا پورا پورا لحاظ رکھا جائے ۔جس
طرح ہمارے دیگر طبقے کے ملازمین کی تنخوائیں( Salary) ہوتی ہیں اسی طرح مسجد کے امام کی بھی معقول تنخواہ ہونی چاہئے کیونکہ یہ امام مسجد کا حق ہے ۔
چھٹا حق : مقتدیوں کو چاہئے کہ جہاں امام
مسجد کی تنخواہ مقرر ہوتی ہے اسی کے ساتھ
اس کی ذاتی طور پر بھی مالی خدمت (خیر خواہی ) کرتے رہنا چاہئے۔ امیرِ اہلِسنت
دامت برکاتہم العالیہ (اپنے تصنیف کردہ) نیک اعمال نامی رسالے میں فرماتے ہیں :کیا
آپ نے اس ماہ مسجد کے امام کو 112 روپے یا کم از کم 12 روپے بطورِ نزرانہ پیش کیے؟
ساتواں حق: امام مسجد کا حق ہے کہ اہلِ محلّہ اس کو اپنی خو شی غمی کے معاملات میں یاد رکھیں ہمارے ہاں غمی کے مواقع پر تو امام صاحب کو فاتحہ وغیرہ کے لئے بلایا جاتا ہے لیکن خوشی(
مثلاً شادی بیاہ ) کے مواقع میں امام کو
نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
آٹھواں حق : جس طرح کئی یا تقریباً تمام ہی نوکری کرنے والے افراد کے لئے ہفتے میں ایک دن چھٹی مقرر ہوتی ہے اسی طرح مسجد کا امام جب چھٹی پر جائے تو ا س کا یہ حق ہے کہ اسکی غیر موجودگی میں مسجد کمیٹی خوش الحان قاری صاحب کو بطورِ نائب مقرر کرے ۔
نواں حق : امام صاحب اگر کسی نماز میں لیٹ ہوجائیں تو اس کا یہ حق ہے کہ اس کو سُست ،کاہل ،کام چور وغیرہ کہہ کر
اس کی دل آزاری نہ کی جائے کہیں یہ دل
آزاری کرنے والے کو آخرت میں رسواء نہ کر
دے ۔
دسواں حق: جن مساجد میں امام صاحب اپنی فیملی کو ساتھ رہائش پزیر
ہیں اُس علاقے کے اہلِ محلہ کو چاہئے کہ
وہ امام صاحب کے اہلِ خانہ کا بطورِ خاص خیال رکھیں ، ان کو
احساسِ محرومی کا شکار نہ ہونے دیا جائے ۔
ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ پاک ہمیں امام مسجد کے
جملہ حقوق جاننے اور ان کو اچھے طریقے سے ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمین
بجاہِ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
امام مسجد کا مقام مرتبہ بہت
زیادہ ہوتا ہے۔ امام مسجد اپنے علاقے کا وہ معزز شخص ہوتا ہے جس کی اقتدا میں ہر
بڑے سے بڑا عہدے والا بھی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوتا
ہے اور امام کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں
اپنا ضامن تسلیم کرتا ہے ۔ امامت کا منصب کوئی عام منصب نہیں یہ وہ خاص و اعلیٰ
منصب ہے جس پر انبیا علیہم السلام اور اصحابِ رسول و اہلِ بیتِ اطہار علیہم
الرضوان فائز رہے۔ اور شبِ معراج محبوبِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
تمام انبیا علیہم السّلام کے درمیان امامت کروائی ۔ اس منصب کا حق ادا کرنا بہت
ضروری ہے اور امام مسجد کو سنتوں کا ایسا عامل ہونا چاہیے کہ عوام امام کو دیکھ
کر سنتوں کے عامل بن جائیں ۔
امامِ مسجد کا کردار ، رہن
سہن ، بول چال اور عادات ایسی ہونی چاہیے کہ لوگ اس سے متاثر ہو کر دینِ اسلام کی
طرف آئیں ۔ ہمارے معاشرے میں امام مسجد کو بہت عزت و احترام دیا جاتا ہے۔ اور
امام مسجد کو علم فقہ پر اور خصوصاً نماز
روزہ زکوٰۃ وغیرہ کے مسائل بھرپور مہارت ہونی چاہیے کہ یہ روز مرہ کے معاملات میں
پیش آنے والے مسائل ہیں۔امام مسجد کے بہت حقوق ہیں اگر سب کو زینت قرطاس بنایا
جائے تو وقت کے قلیل ہونے کے سبب سب کو یکجا جمع کرنا مشکل ہو جائے گا۔ اس لیے
چند حقوق کو تحریر کئے جا رہے ہیں:
(1) امام مسجد کو متقی و پرہیز گار ہونا چاہیے۔ تاکہ
امام صاحب کو دیکھ کر لوگوں کو خوف خدا یاد آئے ۔
(2) شریعت کا پابند ہونا چاہیے ۔ تاکہ لوگ امام مسجد
کو دیکھ کر شریعت پر عمل کرنا شروع کردیں۔
(3) امام مسجد کو اپنے منصب
کا غلط استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ یعنی ایسی دکان پر جانا جہاں لوگ امام کو اس کے
منصب کی وجہ سے سامان فری مل جائے تو یہ غلط فعل ہے۔
(4) عوام کو چاہیے کے امام
صاحبان کی انفرادی طور پر لازمی مدد کریں۔ کیوں کہ عموماً امام صاحبان کی تنخواہیں
بہت کم ہوتی جس سے انکا گزر بسر بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس لیے اہلِ علاقہ پر لازم ہے
کہ وہ امام صاحبان کی انفرادی طور پر لازمی مدد کریں۔
(5) امام صاحب پر طعن و تشنیع
نہیں کرنی چاہیے ، اگر کبھی نماز میں تاخیر ہو جائے تو امام صاحب کی ذلت کرنے کے
بجائے اس کے عذر کو سنا جائے۔ اور بلاوجہ امام صاحب کے خلاف باتیں کرنے سے بچا
جائے کہ یہ اخلاقی طور اور شرعی طور دونوں طرح سے درست نہیں ۔
(6) امام صاحب اصلاح معاشرہ
اور اصلاح امت کے لیے مسجد میں شارٹ کورسز کا سلسلہ جاری رکھے۔
(7) امام مسجد کی قراءت کا
خوبصورت ہونا چاہیے ۔ اگر امام مسجد عالم دین اور حافظ قراٰن ہو تو زیادہ حسن پیدا
ہو جائے گا۔
(8) نمازیوں کو بلاوجہ امام
مسجد کی تنقید نہیں کرنی چاہیے۔
(9) امام مسجد معاشرے کا عظیم
شخص ہوتا ہے اسلیے اس کو ایسے کاموں سے بچنا چاہیے جو اس کی تذلیل کا باعث بنیں ،
اور ایسی جگہ جانے سے بھی بچیں جو محل تہمت ہو۔
(10) امام مسجد اپنے اہل
علاقہ کے عقائد کو درست کرے اور علاقے کی ابھرتی نسل کے عقائد درست کرے تاکہ وہ دین
اسلام کی خدمت کر سکیں۔
امام صاحب کے ساتھ تعاون کرنے
کی وجہ یہی ہے کہ ہم امام صاحب سے یہ نہ پوچھیں کہ "حالات
کیسے ہیں ، کسی چیز کی حاجت" ، امام
صاحب کبھی یہ نہیں کہیں گے کہ مجھے فلاں فلاں شے کی حاجت ہے بالکل وہ سکوت اختیار
کرکے نفی کا اشارہ کریں گے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم بغیر پوچھے امام صاحب کی خدمت میں
رقم راشن پیش کردیں ، ایسا کرنے کے بعد اس کو جتایا نہ جائے بلکہ ہونا تو یوں چاہیے
کہ دائیں ہاتھ سے دیں اور بائیں کو معلوم نہ ہو۔ تبھی آپ کو دیے ہوئے مال راشن کا
فائدہ ہوگا۔
امام صاحبان کی تنخواہوں میں
بغیر امام صاحب کے کہے ہی اضافہ کرنا چاہیے۔ اتنی تنخواہ ضرور ہونی چاہیے کہ وہ
اپنا پورا ماہ سکون سے گزار سکیں۔
کاش ہم منصبِ امامت کی اہمیت
کو جان لیں اور فضیلت امام کو پہنچان لیں تو یقیناً ہمارا معاشرہ بہترین معاشرہ بن
جائے گا۔
یہ منبر و محراب کے وارث سنتِ
رسول کو عام کرنے میں کوشاں ہوتے ہیں ہمیں ان مبارک لوگوں کا ساتھ دے کر دینِ
اسلام کی خدمت میں حصہ ملانا چاہیے۔ یہی ہمارے
لیے ذریعۂ نجات بن سکتا ہے۔
رب العالمین ہمیں امام الانبیا
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے برکتیں عطا فرمائے۔ اٰمین ثم اٰمین ۔
خالد حسین عطّاری مدنی(مدرس جامعۃ المدینہ فیضانِ ابو
عطار ماڈل کالونی کراچی، پاکستان)
مسجد کو آباد کرنا بڑا عظیم
کام ہے۔ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا : اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ
وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَى الزَّكٰوةَ وَ لَمْ یَخْشَ
اِلَّا اللّٰهَ فَعَسٰۤى اُولٰٓىٕكَ اَنْ یَّكُوْنُوْا مِنَ الْمُهْتَدِیْنَ(۱۸) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اللہ
کی مسجدوں کو وہی آباد کرتے ہیں جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان لاتے ہیں اور
نما ز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تو عنقریب
یہ لوگ ہدایت والوں میں سے ہوں گے۔(پ 10،التوبۃ:18) اور ایسے لوگوں کو ہدایت یافتہ
قرار دیا ۔
مسجد کی آباد کاری میں سب سے
بڑا کردار امام مسجد کا ہے اور امامت ایسا عظیم منصب ہے کہ خود حضور صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم ،صحابۂ کرام،اولیائے کرام ،علمائے کرام،بزگانِ دین نے امامت
فرمائی ۔حدیث مبارکہ میں فرمایا: ثلاثةٌ على كُثبانٍ من المسك يوم القيامة” ، و ذُكر أنّ منهم رجلا أم قومًا و هم به راضون ترجمہ : آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: روزِقیامت تین قسم کے آدمی کستوری
کے ٹیلوں پر ہوں گے ان میں سے ایک وہ شخص ہو گا جس نے قوم کی امامت کی اور وہ اس
(امام )سے خوش تھے۔ (جامع الترمذی البروالصلۃ باب ماجاء فی فضل المملوک الصلح، حدیث
:1986)
اور خود حضورِ اکرم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے امام کے لیے دعا فرمائی (الإمام ضامن
، والمؤذِّنُ مؤتَمنٌ، اللہمَّ أرشِدِ الأئمَّةَ واغفِر للمؤذِّنينَ) رسولُ اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: امام ضامن ہے اور مؤذن امین ہے، اے اللہ! تو اماموں کو راہِ راست پر رکھ اور مؤذنوں کی
مغفرت فرما۔(مسند احمد بن حنبل، حدیث : 6996)
اس سے امامِ مسجد کی اہمیت
و مقام و مرتبہ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے لیکن فی زمانہ ائمہ و علما کی تعظیم و
توقیر کے بجائے ایک ملازم کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ اسی
کے پیشِ نظر امام کے چند حقوق پیشِ خدمت ہیں تاکہ ہم ان پر عمل کرکے بہتری لا سکیں
۔
(1) امام کی عزت کرنا: عن
ابن عمر : أكرموا حملة القراٰن ، فمن أكرمهم فقد أكرم اللّٰہ ترجمہ حاملین قراٰن
(حفاظ و علمائے کرام) کا اکرام کرو، جس نے ان کا اکرام کیا، اس نے اللہ کا اکرام کیا۔(كنز
العمال، 1/523 ،حديث:2343)
عن أبي أمامة : حامل القراٰن حامل راية الإسلام ،
من أكرمه فقد أكرم الله ، ومن أهانه فعليه لعنة الله ترجمہ: حاملین قراٰن
اسلام کا جھنڈا اٹھانے والے ہیں، جس نے ان کی تعظیم کی، اس نے اللہ کی تعظیم کی
اور جس نے ان کی تذلیل کی،اس پر اللہ تعالی کی لعنت ہے۔ (كنز العمال، 1/523،حديث:2344)
آج کے اس پرفتن دور میں کچھ
لوگ امام کو حقیر و ذلیل سمجھ کر ان کی توہین کرتے ہیں ، بلا وجہ چھوٹی چھوٹی
باتوں پر ٹوکتے رہتے ہیں اور کبھی کبھی نازیبا کلمات کہہ کر دل شکنی کرتے ہیں ایسے
لوگوں کو چاہیے کہ امام کو اپنا پیشوا ، دین کا رہبر ، نائبِ انبیا سمجھے اور ادب
و احترام کے دائرے میں رہ کر ان سے کلام کرے۔
(2) امام کی ٹوہ میں پڑنا : بلاوجہ شرعی کسی
مسلمان کے پیچھے پڑنا ، اس کی خامیوں اور کمیوں کی تلاش میں لگا رہنا اور برا بھلا
کہنا گناہ ہے ۔ حدیث شریف میں ہے قَالَ رسولُ
اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم :
لَيْسَ الْمُؤْمِنُ بِالطَّعَّانِ، وَلَا اللَّعَّانِ، وَلَا الْفَاحِشِ،
وَلَا الْبَذِيءِ یعنی مسلمان لعن
طعن کرنے والا ، فحش گو اور بے ہودہ گو نہیں ہوتا۔ (ترمذی شریف: باب ما جاء فی
اللعنۃ،حدیث : 1977)
(3) امام کی تنخواہ : امام کی تنخواہ مقرر کرتے وقت امام کے منصب اور معاشرے میں
موجود مہنگائی کا لحاظ کرتے ہوئے مقرر کرنی چاہیے جائزہ لیجیے کہ ایک شخص 15/20
ہزار میں کیا کر سکے گا فیملی کے خرچے،دودھ،راشن،شادی بیاہ میں جانا ،عید کی
شاپنگ،بیماری میں دوائیاں لینا اور کئی ضروریات ہیں جنکو پورا کیے بغیر انسان بڑی
مشکل سے زندگی گذارے گا کم از کم اتنی تنخواہ رکھیں جو آپ اپنی اولاد کے لیے
چاہتے ہیں ایک واقعہ ہے ایک شخص امام صاحب کے پاس آیا اور دعا کے لیے کہا کہ میرے
بیٹے کے لیے دعا کریں کہ جاب اچھی لگے امام صاحب نے کہا کیا یہ دعا کروں کہ اتنی
تنخواہ والی جاب ملے جتنی میری تنخواہ ہے وہ کہنے لگے امام صاحب یہ کیسی دعا ہے۔ لہٰذا
مساجد سے منسلک افراد کے مشاہرہ و تنخواہ مقرر کرتے ہوئے ان وظائف کو محض ایک ملازم و نوکر کی حیثیت سے نہ دیکھا جائے بلکہ یہ بنیاد سامنے رکھی جائے
کہ یہ افراد معاشرے کی ایک اہم دینی ضرورت
کو پوراکررہےہیں ،گرمی ،سردی،طوفان و آندھی اس طرح موسم کی تبدیلی کی پرواہ کیے
بغیر اپنی ذمہ داری کو نبھانے کی بھرپورکوشش کرتے ہیں ، لہذا ان امام و مؤذن و
خادم کا معقول وظائف مقرر کرنا اور ان میں
اضافہ کرنا یہ اشاعت دین میں حصہ ڈالنے کے مترادف ہے ۔
(5،4)امام کو تحفہ ،تحائف دینا
اور اچھے کاموں کی تعریف: تحفہ دینے سے آپس میں محبت بڑھتی ہے اور حدیث مبارکہ میں
بھی تحفہ دینے کی ترغیب دی گئی ہے۔
روایت ہے حضرت عائشہ سے وہ نبی
کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
سے راوی کہ فرمایا: ہدیہ کا لین دین کرو ہدیہ عداوتوں کو مٹا دیتا ہے۔(مرآۃ
المناجیح، 4، حدیث : 2327)
اسی طرح اگر امام صاحب کی قرأت
یا بیان اچھا لگے یا کوئی خوبی نظر آئے تو اس کو انکے سامنے بیان کیا جائے اس سے
بھی آپس میں محبت بڑھے گی دوریاں ختم ہونگی۔
(6) امام کی ذمہ داری کا احساس ہونا ۔ بظاہر تو یہ لگتا ہے کہ امام صاحب کا کام صرف نماز پڑھانا ہے پھر تو 24
گھنٹہ فارغ ہی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ سب سے زیادہ سخت ڈیوٹی امام مسجد کی ہے کیونکہ
امام صاحب کسی بھی جگہ کام سے جائیں تو ٹینشن یہی انکو رہتی ہے کہ واپس جاکر اسی
مسجد میں نماز پڑھانے جانا ہے یوں وہ دور دراز سفر کرنے سے پرہیز کرتا ہے اور بھی
اپنے کئی پرسنل کام ایسے وقت میں کرتا ہے کہ واپس آکر اسی مسجد میں نماز پڑھانے
جانا ہے یہ بہت بڑی قربانی ہے ورنہ کچھ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ امام صاحب کو صرف
نماز ہی تو پڑھانی ہے جو اس پر فرض ہے پھر تنخواہ کیوں لیتا ہے تو ایسے شخص کو یہی
جواب دیا جائے کہ ٹھیک ہے نماز پڑھنا فرض ہے لیکن اسی مسجد میں تو پڑھنا فرض نہیں
پھر تو امام صاحب کسی بھی مسجد ،کہیں بھی پڑھ سکتا ہے پھر ایک ہی مسجد میں نماز
پڑھانے کا پابند کیوں ؟
(7) امام کی بات بری لگے تو درگذر کرنا اور
مناسب حل نکالنا : اگر امام صاحب کا
کوئی رویہ نامناسب ہے تو یا کوئی غلطی ہوگئی تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپس میں
گروپ بندی کرکے ہجوم بناکر امام کی غیبتیں کی جائیں بلکہ الگ سے اخلاقی دائرے میں رہتے ہوئے امام صاحب
کو غلطیوں کی نشاندھی کروائی جائے کیونکہ شور مچانے سے ،غیبتیں کرنے سے مسئلہ کا
حل نہیں نکلے گا بلکہ ہم کئی گناہوں میں ملوث ہوجائیں گے ۔
(9،8) امام کی ضروریات کا خیال کرنا اور اچھی رہائش کا
انتظام کرنا ۔ عام معاشرے میں ایک
انسان کے لیے جو ضروری سہولیات ہوتی ہیں وہ سب اچھے انداز میں امام صاحب کو بھی
سہولیات دی جائیں عموماً مساجد کی تعمیرات و رنگ و روغن وغیرہ میں تو کثیر خرچ کیا
جاتا ہے حالانکہ بسا اوقات اس کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن امام صاحب کا ہجرہ خستہ حالت
میں ہوتا ہے کہیں کہیں تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس کمرے میں مسجد کی دریاں،پنکھے، اسپیکر
وغیرہ سامان ہوتا وہیں امام صاحب کی رہائش ہوتی ہے۔ یہ بھی بالکل نامناسب کام ہے اسی طرح عرف کے
مطابق کھانا وغیرہ کا اہتمام کرنا اور اگر امام صاحب بیمار ہو جائیں تو حسب حیثیت
مالی تعاون کرنا اور تعزیت کے لیے انکے پاس جانا ۔
(10) امام کو مقرر کرنے میں خیال
کرنا : امام کو مقرر کرنے سے پہلے مستقبل کے اعتبار سے خوب سوچ کر پلاننگ کی جائے
، یہ مناسب نہیں کہ ابھی اگر مسجد زیرِ تعمیر ہے یا مسجد کی آمدن
کم ہے تو گزارہ کرنے کے لئے کسی غریب ،مالی
اعتبار سے حاجت مند کو رکھ کر گزارہ کرلیا جائے اور جب مسجد عالیشان تعمیر ہوجائے
تو اس بےچارے کو نکال دیں ، اگر مسجد تعمیر ہونے کے بعد کسی بڑے عالمِ دین ہی کو
لانا ہے تو شروع ہی سے طے کرلیں اور ابتداءً رکھے جانے والے امام صاحب کو بتادیں
کہ ہم مسجد کی تعمیر تک آپ کی خدمات حاصل کریں گے اس طرح ایک مسلمان کی دل آزاری
سے ہم بچ جائیں گے۔
اللہ پاک ہمیں ائمہ کرام کی
عزت و خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم
یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ
الظَّنِّ اِثْمٌ ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو بہت گمانوں سے بچو بیشک
کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے۔(پ 26،الحجرات:12 )
حضرت علّامہ عبداللہ ابو عُمَر بن محمد
شیرازی بیضاوی رحمۃُ اللہ علیہ (المتوفی791ھ) تفسیر بیضاوی میں لکھتے ہیں : تاکہ مسلمان ہر ُگمان کے بارے
میں مُحْتَاط ہوجائے اور غور وفکر کرے کہ
یہ ُگمان کس قبیل سے ہے۔ (تفسیر بیضاوی ،
پ26 ، الحجرات ، تحت الآیۃ12 ، 5/218)
اس آیت ِکریمہ کے تحت حضرت سیدنا
اِمام فخر الدین رازِی رحمۃُ اللہ علیہ (المتوفی606ھ) تفسیر ِکبیر میں لکھتے ہیں : کیونکہ کسی شخص کا کام دیکھنے
میں تو بُرا لگتا ہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا کیونکہ ممکن ہے کہ کرنے والا اسے بھول کر کررہا ہو یا دیکھنے والا ہی
غَلَطی پر ہو ۔ (التفسیر الکبیر ، پ26 ،
الحجرٰت ، تحت الآیۃ 12 ، 10/110)
گمان کی تعریف: ہر وہ خیال جو ظاہری نشانی سے
حاصل ہوتا ہے گمان کہلاتا ہے۔ اس کو "ظن" بھی کہتے ہیں۔ مثلاً دھواں اٹھتا دیکھ کر آگ کی موجودگی کا خیال آنا ۔
(1) بد ُگمانی سے بچو
بے شک بد ُگمانی بدترین جھوٹ ہے۔ (بخاری ،
3/446 ،حدیث: 5143) (2)فرمان
آخری نبی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : مسلمان کا خون مال اور اس سے بد گُمانی
(دوسرے مسلمان) پر حرام ہے۔(شعب الایمان ،باب فی تحریم اعراض الناس،5/297،حدیث :6706)
(3) حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا سے مرفوعاً مروی ہے : جس نے
اپنے مسلمان بھائی سے بُرا گُمان رکھا ، بے شک اس نے اپنے ربّ سے بُرا گُمان رکھا۔ (الدرالمنثور ، پ26 ، الحجرات ، تحت الآیۃ12 ، 7/566)
قرینہ سے اس سے ایسا ہونا
ثابت ہوتا ہو تو اب حرام نہیں مثلاً کسی کو بھٹی (یعنی شراب خانے) میں آتے جاتے دیکھ
کر اُسے شراب خور (شراب پینے والو) گمان کیا تو اس بد گمانی کرنے والے کا تصور۔انہیں
(اس یعنی شراب خانے میں آنے جانے والے) نے موضع تہمت یعنی ( تہمت لگنے کی جگہ) سے
کیوں اجتناب (یعنی پرہیز) نہ کیا۔
امیرالمؤمنین خلیفۂ دوم
حضور سیدنا فاروقِ اعظم فرماتے ہیں: جو اپنے آپ کو خود تہمت کے لئے پیش کردے تو وہ
اپنے بارے میں بدگُمانی کرنے والے کو مَلَامت نہ کرے ۔(الدرالمنثور، الحجرات )
بد گمانی ممنوع ہے۔ جیسے اللہ پاک کے ساتھ بدگمانی
رکھنا اور نیک مؤمن کے ساتھ بدگمانی رکھنا۔(تفسیر خزائن العرفان) اللہ پاک سے بدگمانی کا مطلب یہ ہے کہ یہ گمان
رکھنا کہ اللہ مجھے رزق نہیں دے گا یا میری حفاظت نہیں فرمائے گا یا میری مدد نہیں
کرے گا۔ (الحديقۃ الندیۃ، 2/7)
(4) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جب تمہیں بد گمانی پیداہو تو اس پریقین نہ کرو،
جب تم حسد کرو تو حد سے نہ بڑھا کرو، جب تمہیں کسی کام کے بارے میں بدشگونی پیداہو
تو اسے کر گزرو اور اللہ پاک پربھروسہ رکھو اور جب کوئی چیز تولو تو زیادہ تول دیا
کرو۔
(5) لوگوں سے منہ پھیر لو کیا تم نہیں جانتے کہ
اگرتم لوگوں میں شک کو تلاش کرو گے تو انہیں خراب کر دوگے یافسادمیں ڈال دو گے۔
(6) لالچ ایسی پھسلانے والی چٹان ہے جس پرعلما ء بھی
ثابت قدم نہیں رہتے۔
(7) نبی کریم صلَّی اللہ تعالیٰ
علیہ وآلہ وسلَّم نے فرمایا :اللہ پاک کی تین چیزوں سے پناہ مانگو: (1)ایسی خواہش
سے جس کا کوئی فائدہ نہ ہو (2)ایسی خواہش سے جو عیب دار کر دے (3)ایسے عیب سے جس کی
خواہش کی جاتی ہو، ایسی خواہش سے اللہ پاک کی پناہ مانگوجوعیب بن جائے اور ایسے عیب
سے جو خواہش بن جائے۔
(8) اللہ پاک کی پناہ مانگو ایسی
خواہش سے جو عیب میں ڈال دے اور ایسی خواہش سے جو دوسری خواہش میں ڈال دے اور بے
فائدہ چیزکی خواہش سے۔
(9) خواہشات سے بچتے
رہوکیونکہ یہ بہت بری تنگدستی ہے اور ایسے کاموں سے بچو جن پر عذر پیش کرنا پڑے۔
کچھ وضاحت : صدر الشریعہ بدر الطریقہ حضرت علامہ مفتی محمد امجد علی
اعظمی رحمۃُ اللہ علیہ (متوفی 1376 ھ) لکھتے ہیں: بےشک مسلمانوں پر بد گمانی حرام ہے مگر جبکہ کسی
کے بارے میں بدگمانی کو دل پر جما لینا ہے تو شیطان اس کو ابھارتا ہے کہ وہ زبان
سے اس کا اظہار کرے۔ اس طرح وہ شخص غیبت کا مرتکب ہو کر ہلاکت کا سامان کر لیتا ہے
یا پھر وہ اس کے حقوق پورے کرنے میں کوتاہی کرتا ہے یا پھر اُسے حقیر اور خود کو
اس سے بہتر سمجھتا ہے۔ یہ تمام تر چیزیں ہلاک
کرنے والی ہیں۔ (الحدیقۃ الندیۃ،2/8)
محمد عدنان سیالوی عطّاری (جامعۃُ المدینہ فیضان امام
غزالی، گلستان کالونی، فیصل آباد، پاکستان )
دینِ اسلام وہ عظیم دین ہے جس
میں انسانوں کے باہمی حقوق اور معاشرتی آداب کو خاص اہمیت دی گئی ہے اور ان چیزوں
کا خاص خیال (لحاظ) رکھا گیا ہے۔ اسی لئے جو چیز انسانی حقوق کو ضائع کرنے کا سبب
بنتی ہے اور جو چیز معاشرتی آداب کے برخلاف ہے اس سے دین اسلام نے منع فرمایا ہے
اور اس سے بچنے کا تاکید کے ساتھ حکم دیا ہے۔ انہی اشیاء میں سے ایک چیز بدگمانی
ہے جو کہ انسانی حقوق کی پامالی کا بہت بڑا سبب اور معاشرتی آداب کے انتہائی بر
خلاف ہے۔ اس (بدگمانی) سے دینِ اسلام میں خاص طور پر منع کیا گیا ہے۔ آئیے اس کے
بارے میں مزید جانتے ہیں : فرمان باری ہے : یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ
الظَّنِّ اِثْمٌ ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو بہت گمانوں سے بچو بیشک
کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے۔(پ 26،الحجرات:12 )
بدگمانی کی تعریف: بد گُمانی سے مراد یہ ہے کہ بلا دلیل دوسرے کے بُرے ہونے کا
دل میں اعتقادِ جازم ( یعنی یقین) کرنا۔ (فیض القدیر، 3/122،تحت الحدیث:2901
وغیرہ)
دو فرامینِ مصطفے صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم: (1) بدگمانی سے بچو سے شک بد گمانی بدترین جھوٹ ہے۔ (صحیح البخاری،3/446، حدیث: 5143)
(2) مسلمان کا خون مال اور اس سے بد گُمانی (دوسرے مسلمان) پر حرام ہے۔(شعب
الایمان ،باب فی تحریم اعراض الناس،5/297،حدیث :6706)
(3) مؤمن کی بدگمانی اللہ سے بدگمانی
: اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدتُنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا
سے روایت ہے کہ خاتم المرسلین، رحمۃ للعالمین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا: جس نے اپنے بھائی کے متعلق بدگمانی کی بے شک اس نے اپنے رب سے بد گمانی
کی، کیونکہ اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:( اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘) ترجمۂ کنزالایمان: بہت گمانوں سے بچو۔(کنزالعمال، کتاب
الاخلاق،ظن السوء ، 2/199، حدیث : 7582)
(4) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اپنے آپ کو بدگمانی سے بچاؤ کہ بدگمانی
بد ترین جھوٹ ہے، ایک دوسرے کے ظاہری اور باطنی عیب مت تلاش کرو، حرص نہ کرو، حسد
نہ کرو، بغض نہ کرو، ایک دوسرے سے رُو گَردانی نہ کرو اور اے اللہ کے بندو بھائی
بھائی ہو جاؤ۔(مسلم، کتاب البرّ والصلۃ والاٰداب، باب تحریم الظّنّ
والتّجسّس...الخ، ص1386، حدیث: 2563)
اللہ پاک ہمیں ایک دوسرے کے
بارے میں بدگمانی کرنے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین
محمد عبد المین عطّاری (درجہ اولی جامعۃُ المدينہ فیضان
امام غزالی گلستان کالونی فیصل آباد ، پاکستان)
بدگمانی کی تعریف: بدگمانی کی تعریف بیان کرتے
ہوئے شیخ طریقت امیر اہلسنت بانی دعوت اسلامی حضرت علامہ مولانا
ابو بلال محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دامت بر کاتہم العالیہ فرماتے ہیں: بدگمانی سے مراد یہ ہے کہ بلا دلیل دوسرے کے
برے ہونے کا دل سے اِعتقادِ جازِم(یعنی یقین) کرنا۔(شیطان کے بعض ہتھیار،ص32)
پیارے اسلامی بھائیو! بدگمانی ایک بڑی برائی ہے۔ جس کی مذمت قراٰن و احادیث مبارکہ میں آئی
ہے ۔ چنانچہ پارہ 26 سورہ الحجرات آیت 12 میں ارشاد باری ہے: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ
الظَّنِّ اِثْمٌ ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو بہت گمانوں سے بچو بیشک
کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے۔(پ 26،الحجرات:12 )
تفسیر خزائن العرفان میں ہے: مؤمنِ صالح کے
ساتھ برا گمان ممنوع ہے ، اسی طرح اس کا کوئی کلام سن کر فاسد معنی مراد لینا
باوجود یکہ اس کے دوسرے صحیح معنی موجود ہوں اور مسلمان کا حال ان کے موافق ہو ، یہ بھی گمانِ بد میں داخل ہے ۔
بدگمانی کا گناہ ہماری دنیا و
آخرت برباد کر دینے والا کام ہے۔ آئیے اس سلسلے میں احادیث مبارکہ میں بیان کردہ
چند و عیدیں پڑھنے اور خوف خدا سے لرزیئے :
(1) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے
اپنے بھائی کے متعلق بدگمانی کی بے شک اس نے اپنے رب سے بد گمانی کی، کیونکہ اللہ
پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:( اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘) ترجمۂ کنزالایمان: بہت گمانوں سے بچو۔(باطنی بیماریوں کی
معلومات، ص142)
(2)فرمانِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: بدگمانی سے بچو بیشک بدگمانی
بدتریں جھوٹ ہے۔(بخاری،3/446، حدیث:5143)
(3) اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :مسلمان
کا خون، مال اور اس سے بدگمانی (دوسرے مسلمان ) پر حرام ہے۔(شعب الایمان ، 5/297،حدیث :6706)
(4) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اپنے آپ کو بدگمانی سے بچاؤ کہ بدگمانی
بد ترین جھوٹ ہے، ایک دوسرے کے ظاہری اور باطنی عیب مت تلاش کرو، حرص نہ کرو، حسد
نہ کرو، بغض نہ کرو، ایک دوسرے سے رُو گَردانی نہ کرو اور اے اللہ کے بندو بھائی
بھائی ہو جاؤ۔(مسلم، کتاب البرّ والصلۃ والاٰداب، باب تحریم الظّنّ
والتّجسّس...الخ، ص1386، حدیث: 2563)
محترم قارئین! دینِ اسلام وہ
عظیم دین ہے جس میں انسانوں کے باہمی حقوق اور معاشرتی آداب کو خاص اہمیت دی گئی
ہے اور ان چیزوں کا خاص خیال (لحاظ) رکھا گیا ہے۔ اسی لئے جو چیز انسانی حقوق کو ضائع
کرنے کا سبب بنتی ہے اور جو چیز معاشرتی آداب کے برخلاف ہے اس سے دین اسلام نے منع
فرمایا ہے اور اس سے بچنے کا تاکید کے ساتھ حکم دیا ہے۔
پیارے اسلامی بھائیو! اپنی دنیا و آخرت بہتر
بنانے اور بدگمانی سے بچنے کیلئے دنوں اسلامی کا دینی ماحول اختیار کر لیجئے۔ ان شاء
الله گنا ہوں سے بچنے ، نیکیاں کرنے اور سنتوں پر عمل کرنے کا ذہن بنے گا ۔ اللہ
پاک ہمیں دیگر گناہوں کے ساتھ ساتھ بدگمانی سے بھی بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین