ایک انسان کبھی بھی سو فیصد درست نہیں ہو سکتا ہے انسان سے کوئی نہ کوئی غلطی کا صدور ہو جاتا ہے اور انسان کو چاہئے کہ اس غلطی کو مانے اس غلطی پر ڈٹا نہ رہے کیونکہ غلطی پر اڑ جانے سے بہت سی لڑائیاں، فساد اور بہت سی برائیوں کو فروغ ملتا ہے اس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی غلطی کو مانے کیونکہ غلطی ماننے سے کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہوتا۔

آئیے جانتی ہیں غلطی پر اڑ جانا کسے کہتے ہیں۔ نصیحت قبول نہ کرنا، اہل حق سے بغض رکھنا اورناحق یعنی باطل اور غلط بات پر ڈٹ کر اہل حق کو اذیت دینے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہ جانے دینا اِصرار باطل کہلاتا ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 157)

ارشاد ہوتا ہے: وَیْلٌ لِّكُلِّ اَفَّاكٍ اَثِیْمٍۙ(۷) یَّسْمَعُ اٰیٰتِ اللّٰهِ تُتْلٰى عَلَیْهِ ثُمَّ یُصِرُّ مُسْتَكْبِرًا كَاَنْ لَّمْ یَسْمَعْهَاۚ-فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ(۸) (پ 25، الجاثیۃ: 7، 8) ترجمہ کنز العرفان: ہر بڑے بہتان باندھنے والے گنہگار کے لیے خرابی ہے جو اللہ کی آیتوں کو سنتا ہے کہ اس کے سامنے پڑھی جاتی ہیں پھر تکبر کرتے ہوئے ضد پر ڈٹ جاتا ہے گویا اس نے ان آیتوں کو سننا ہی نہیں تو ایسوں کو دردناک عذاب کی خوشخبری سناؤ۔

مفسر شہیر حکیم الامت مولانا مفتی احمد یار خان نعیمی فرماتے ہیں: معلوم ہوا کہ تکبر وہٹ دھرمی ایمان سے روکنے والی آڑ ہیں۔ (تفسیر نور العرفان، ص 796)

حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہلاکت و بربادی ہے ان کے لئے جو نیکی کی بات سن کراُسے جھٹلا دیتے ہیں اور اُس پر عمل نہیں کرتے اور ہلاکت وبربادی ہے اُن کے لئے جو جان بوجھ کرگناہوں پر ڈٹے رہتے ہيں۔ (مسند امام احمد، 2/682، حدیث: 7062)

اصرار باطل کے پانچ اسباب وعلاج:

اصرار باطل کاپہلا سبب تکبر ہے کہ اکثر تکبر کے سبب ہی بندہ اصرار باطل جیسی آفت میں مبتلا ہوجاتا ہے، اسی سبب کی وجہ سے شیطان اصرار باطل میں مبتلا ہو کر دائمی ذلت وخواری کا حق دار قرار پایا۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ شیطان کے انجام پر غور کرے،تکبر کا علاج کرےاور اپنے اند ر عاجزی پیدا کرے۔تکبر کی تباہ کاریوں، اس کے علاج اوراس سےمتعلق مزید معلومات کے لیے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ کتاب تکبرکا مطالعہ نہایت مفید ہے۔

اصرارِ باطل کادوسراسبب بغض و کینہ ہے۔اسی سبب کی وجہ سے بندہ حق قبول کرنے میں پس و پیش سے کام لیتا ہے اور اپنی غلطی کو تسیلم نہیں کرتا اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ بزرگان دین کی سیرت طیبہ کے اس پہلو کو مد نظر رکھے کہ بزرگان دین یہ نہیں دیکھتے تھے کہ کون کہہ رہا ہے بلکہ یہ دیکھتے تھے کہ کیا کہہ رہا ہے نیز اپنے سینے کو مسلمانوں کے بعض وکینے سے پاک رکھنے کی کوشش کرے۔

اصرار باطل کا تیسرا سبب ذاتی مفادات کی حفاظت ہے کیوں کہ جب بندہ یہ محسوس کرتا ہے کہ حق کی تائید کرنے سے ذاتی مفادات خطرے میں پڑ جائیں گے جب کہ غلط کام پر اڑے رہنے سے میری ذات کو خاطر خواہ فائدہ ہوگا یہ ذہن میں رکھ کر بندہ اس غلط کام کے لیے اپنی تمام تر توانائی صرف کرنے پر تیار ہو جاتا ہے اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اللہ کی رضا اور حق کی تائید کو ذاتی مفادات پر مقدم رکھے اور یہ ذہن بناے کہ ذاتی فائدے کے لیے غلط غلط بات پر ڈاٹے رہنے سے عارضی نفع تو حاصل کرنا ممکن ہے لیکن اللہ کی ناراضگی کے سبب رحمت الٰہی اور اس کی دیگر نعمتوں سے محروم کر دیا گیا تو میرا کیا بنےگا۔

اصرار باطل کا چوتھا سبب طلب شہرت و ناموری ہے بعض لوگ بدنامی کے ذریعے نام کما کر سستی شہرت حاصل کرتے ہیں چونکہ اصرار باطل بھی سستی شہرت حاصل کرنے کا ذریعہ ہے لہذا اس میں رغبت پائی جاتی ہے اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ سوچے کہ غلط بات پر ڈٹے رہنے سے لوگوں میں وقتی شہرت تو مل جاے گی لیکن ان کے دلوں سے قدر ومنزلت بالکل ختم ہو جاے گی کیا یہ بہتر نہیں کہ آپنی غلطی تسلیم کر کے اور حق بات کو تسلیم کر کے اللہ کی رضا حاصل کی جائے اس طرح اللہ مجھے دنیا و آخرت میں سرخرو فرمائے گا۔

اصرار باطل کا پانچواں سبب ہاں میں ہاں ملانے اور چاپلوسی کرنے کی عادت ہے اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ تملق یعنی چاپلوسی کے نقصانات پیشں نظر رکھے کہ چاپلوسی ایک قبیح اور معیوب کام ہے چاپلوس شخص کی کوئی بھی دل سے عزت نہیں کرتا چاپلوسی کا انجام ذلت ورسوائی ہے چاپلوسی کی وجہ سے بسا اوقات کسی مسلمان کا شدید نقصان بھی ہوجاتا ہے چاپلوسی میں اکثر اوقات بندہ جھوٹ جیسے کبیرہ گناہ میں مبتلا ہو جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔

اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں ہر کام شریعت کے مطابق کرنے کی توفیق عطا فرمائے ہماری ہمارے والدین پیرومرشد اساتذہ کرام اور ساری امت محمدیہ ﷺ کی بے حساب مغفرت فرمائے۔ آمین

قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے: وَیْلٌ لِّكُلِّ اَفَّاكٍ اَثِیْمٍۙ(۷) یَّسْمَعُ اٰیٰتِ اللّٰهِ تُتْلٰى عَلَیْهِ ثُمَّ یُصِرُّ مُسْتَكْبِرًا كَاَنْ لَّمْ یَسْمَعْهَاۚ-فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ(۸) (پ 25، الجاثیۃ: 7، 8) ترجمہ کنز العرفان: ہر بڑے بہتان باندھنے والے گنہگار کے لیے خرابی ہے جو اللہ کی آیتوں کو سنتا ہے کہ اس کے سامنے پڑھی جاتی ہیں پھر تکبر کرتے ہوئے ضد پر ڈٹ جاتا ہے گویا اس نے ان آیتوں کو سننا ہی نہیں تو ایسوں کو دردناک عذاب کی خوشخبری سناؤ۔

مفسر شہیر حکیم الامت مولانا مفتی احمد یار خان نعیمی فرماتے ہیں: معلوم ہوا کہ تکبر وہٹ دھرمی ایمان سے روکنے والی آڑ ہیں۔ (تفسیر نور العرفان، ص 796)

ہر گناہ کے کوئی اسباب ہوتے ہیں اگر ہم ان اسباب کا علاج کریں تو اس گناہ سے بچنا آسان ہو جاتا ہے اسی طرح غلطی پر اڑ جانے کہ کچھ اسباب ہیں اور ان کا علاج بھی آئیے ملاحظہ ہو:

1 ۔ اصرارِ باطل کاپہلا سبب ذاتی مفادات کی حفاظت ہے۔کیوں کہ جب بندہ یہ محسوس کرتا ہے کہ حق کی تائید کرنے سے ذاتی مفادات خطر ے میں پڑ جائیں گے جب کہ غلط کام پر اڑے رہنے سے میری ذات کو خاطر خواہ فائدہ ہوگا۔ یہ ذہن میں رکھ کربندہ اس غلط کام کے لیے اپنی تمام تر توانائی صرف کرنے پر تیار ہو جاتا ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اللہ کی رضا اور حق کی تائید کو ذاتی مفادات پر مقدم رکھے اور یہ ذہن بنائے کہ ذاتی فائدے کے لیے غلط بات پر ڈٹے رہنے سے عارضی نفع تو حاصل کرنا ممکن ہے لیکن اللہ کی ناراضگی کے سبب رحمت الٰہی اوراس کی دیگر نعمتوں سے محروم کردیا گیا تو میرا کیا بنے گا؟

2۔ اصرارِ باطل کا دوسرا سبب طلب شہرت و ناموری ہے۔بعض لوگ بدنامی کے ذریعے نام کما کر سستی شہرت حاصل کرتے ہیں چونکہ اصرارِ باطل بھی سستی شہرت حاصل کرنے کا ذریعہ ہے لہٰذااس میں زیادہ رغبت پائی جاتی ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ یہ سوچےکہ غلط بات پر ڈٹے رہنے سےلوگوں میں وقتی شہرت تو مل جائے گی لیکن اُن کے دلوں سےمیر ی قدر ومنزلت بالکل ختم ہوجائے گی،کیا یہ بہتر نہیں کہ اپنی غلطی تسلیم کرکے اورحق بات کو تسلیم کرکے اللہ کی رضا حاصل کی جائے،اس طرح اللہ مجھے دنیاوآخرت میں سُرخُرو فرمائے گا۔

3۔ اصرارِ باطل کا تیسرا سبب ہاں میں ہاں ملانے اور چاپلوسی کرنےکی عادت ہے۔اِس کا علاج یہ ہے کہ بندہ تَمَلُّقْ (یعنی چاپلوسی) کے نقصانات پیش نظر رکھے کہ چاپلوسی ایک قبیح اور معیوب کام ہے، چاپلوس شخص کی کوئی بھی دل سے عزت نہیں کرتا، چاپلوسی کا انجام ذلت ورسوائی ہے، چاپلوسی کی وجہ سے بسا اوقات کسی مسلمان کا شدید نقصان بھی ہوجاتا ہے، چاپلوسی میں اکثر اوقات بندہ جھوٹ جیسے کبیرہ گناہ میں مبتلا ہوجاتاہے۔ وغیرہ وغیرہ

4۔ اصرارِ باطل کاچوتھا سبب اطاعت الٰہی کو ترک کردینا ہے۔اس کاعلاج ہے کہ بندہ اطاعت الٰہی کومقدم رکھےکیوں کہ بعض صورتوں میں اس سبب کا نتیجہ ایمان کی بربادی کی صورت میں ظاہر ہوتا۔

5۔اصرارِ باطل ایک سبب اتباعِ نفس ہے کیوں کہ بعض اوقا ت بندہ اپنی انانیت کی وجہ سے غلط بات پر جم جاتا ہے اور کسی طرح بھی اس سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ نفس کی اس چال کو ناکام بناتے ہوئے حق بات کی تائید کرے اوراس حوالے سے اپنے نفس کی تربیت بھی کرے اور وقتاً فوقتاً نفس کا محاسبہ بھی کرتا رہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 161 تا 163)

اللہ کریم سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہر کام شریعت کے مطابق کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری ہمارے والدین پیرومرشد اساتذہ کرام اور ساری امت محمدیہ ﷺ کی بے حساب مغفرت فرمائے۔ آمین

اصرار باطل کی تعریف: نصیحت قبول نہ کرنا، اہل حق سے بغض رکھنا اورناحق یعنی باطل اور غلط بات پر ڈٹ کر اہل حق کو اذیت دینے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہ جانے دینا اِصرار باطل کہلاتا ہے۔

آیت مبارکہ: اللہ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَیْلٌ لِّكُلِّ اَفَّاكٍ اَثِیْمٍۙ(۷) یَّسْمَعُ اٰیٰتِ اللّٰهِ تُتْلٰى عَلَیْهِ ثُمَّ یُصِرُّ مُسْتَكْبِرًا كَاَنْ لَّمْ یَسْمَعْهَاۚ-فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ(۸) (پ 25، الجاثیۃ: 7، 8) ترجمہ کنز العرفان: ہر بڑے بہتان باندھنے والے گنہگار کے لیے خرابی ہے جو اللہ کی آیتوں کو سنتا ہے کہ اس کے سامنے پڑھی جاتی ہیں پھر تکبر کرتے ہوئے ضد پر ڈٹ جاتا ہے گویا اس نے ان آیتوں کو سننا ہی نہیں تو ایسوں کو دردناک عذاب کی خوشخبری سناؤ۔

مفسر شہیر حکیم الامت مولانا مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر نور العرفان میں فرماتے ہیں: معلوم ہوا کہ تکبر وہٹ دھرمی ایمان سے روکنے والی آڑ ہیں۔ (تفسیر نور العرفان، ص 796)

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہلاکت و بربادی ہے ان کے لئے جو نیکی کی بات سن کراُسے جھٹلا دیتے ہیں اور اُس پر عمل نہیں کرتے اور ہلاکت وبربادی ہے اُن کے لئے جو جان بوجھ کرگناہوں پر ڈٹے رہتے ہيں۔ (مسند امام احمد، 2/682، حدیث: 7062) یہ نہایت ہی مذموم، قبیح اور حرام فعل ہے اس سے ہر مسلمان کو بچنا لازم ہے۔

ایک بات یہ بھی ذہن نشین رکھنی چاہیے کی جب غلطی ثابت ہو جائے تو عقلمند اپنے آپکو درست کر لیتا یعنی اِصلاح کر لیتا ہے اور جاہل ضد پہ اڑ جااتاہے۔

اصرارِ باطل کا ایک سبب بغض و کینہ ہے اسی سبب سے بندہ حق قبول کرنےمیں پس و پیش سے کام لیتا ہے اور اپنی غلطی کو تسلیم نہیں کرتا۔

اسکا علاج یہ ہے کہ بندہ بزرگانِ دین کی سیرتِ طیبہ کے اِس پہلو کو مدِنظر رکھے کی بزرگانِ دین یہ نہیں دیکھتے تھے کہ کون کہہ رہا ہے؟ بلکہ یہ دیکھتے تھے کہ کیا کہہ رہا ہے ؟

نیز اپنے سینے کو مسلمانوں کے بغض و کینے سے پاک رکھنے کی کوشش کرتے۔

ہمیں بھی چاہیے کہ اگر ہم سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو اپنی غلطی قبول کر کے اپنی اصلاح کر لیں نہ کہ اپنی غلطی پر ڈٹ جائیں۔

اللہ پاک ہم سب کی گناہوں سے حفاظت فرمائے اور نیکیاں کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


بے شک غلطیاں انسان سے ہوتی ہیں لیکن غلطی کرنے کے بعد اس کو تسلیم کرنے والے بہت کم خوش نصیب شخصیات ہوتی ہیں کچھ لوگ تو اپنی غلطی کو مان کر حق کو تسلیم کر لیتے ہیں لیکن کچھ تکبر کی وجہ سے لوگ غلط بات پر ڈٹ جاتے ہیں آئیے سنتے ہیں کہ غلط بات پر ڈٹنا (اصرارِ باطل) کسے کہتے ہیں۔

اصرار باطل کی تعریف: نصیحت قبول نہ کرنا، اہل حق سے بغض رکھنا اورناحق یعنی باطل اور غلط بات پر ڈٹ کر اہل حق کو اذیت دینے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہ جانے دینا اِصرار باطل کہلاتا ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 157)

اللہ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَیْلٌ لِّكُلِّ اَفَّاكٍ اَثِیْمٍۙ(۷) یَّسْمَعُ اٰیٰتِ اللّٰهِ تُتْلٰى عَلَیْهِ ثُمَّ یُصِرُّ مُسْتَكْبِرًا كَاَنْ لَّمْ یَسْمَعْهَاۚ-فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ(۸) (پ 25، الجاثیۃ: 7، 8) ترجمہ کنز العرفان: ہر بڑے بہتان باندھنے والے گنہگار کے لیے خرابی ہے جو اللہ کی آیتوں کو سنتا ہے کہ اس کے سامنے پڑھی جاتی ہیں پھر تکبر کرتے ہوئے ضد پر ڈٹ جاتا ہے گویا اس نے ان آیتوں کو سننا ہی نہیں تو ایسوں کو دردناک عذاب کی خوشخبری سناؤ۔

حدیث شریف میں بھی اسکی ہلاکت بیان کی گئی ہے، جیسا کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہلاکت و بربادی ہے ان کے لئے جو نیکی کی بات سن کراُسے جھٹلا دیتے ہیں اور اُس پر عمل نہیں کرتے اور ہلاکت وبربادی ہے اُن کے لئے جو جان بوجھ کرگناہوں پر ڈٹے رہتے ہيں۔ (مسند امام احمد، 2/682، حدیث: 7062)

غلطی کا علم ہوتے ہوئے بھی غلطی پر ڈٹ جانا جہالت کی بات ہے اور گناہوں پر جان بوجھ کر ڈٹ جانا ہلاکت و بربادی کا سبب ہے۔

اِصرار باطل یعنی نصیحت قبول نہ کرنا، اہل حق سے بغض رکھنا اورناحق یعنی باطل اور غلط بات پر ڈٹ کر اہل حق کو اذیت دینے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہ جانے دینانہایت ہی مذموم، قبیح یعنی برا اور حرام فعل ہے،اس سے ہرمسلمان کو بچنا لازم ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 159)

اللہ ہمیں بھی شریعت پر عمل کرتے ہوئے غلطیوں کو تسلیم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


توبہ کی اہمیت: قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ توبہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ غلطی کا اعتراف اور اللہ سے معافی مانگنا ایک مومن کی صفت ہے۔

گناہوں پر اصرار کرنا: قرآن میں ان لوگوں کی مذمت کی گئی ہے جو اپنی غلطیوں پر ڈٹے رہتے ہیں اور توبہ نہیں کرتے۔

جب انسان اپنی غلطی پر قائم رہتا ہے تو وہ ہدایت کا انکار کرتا ہے اور دل پر مہر لگ جاتی ہے۔

شیطانی رویہ: غلطی پر اڑنا ایک شیطانی صفت ہے، کیونکہ شیطان نے بھی اللہ کے حکم کو ماننے سے انکار کر کے اپنی ضد پر قائم رہا۔

انسانیت کی عاجزی: ایک مومن کا فرض ہے کہ وہ عاجزی اختیار کرے اور اپنی غلطیوں کا اعتراف کرے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تمام ابن آدم خطا کار ہیں اور بہترین خطا کار وہ ہیں جو توبہ کرتے ہیں۔ (ترمذی، 4/224، حدیث: 2507)

اصلاح کی ضرورت: قرآن مجید میں اصلاح کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ غلطی کو درست کرنے کی کوشش نہ کرنا ہدایت سے روگردانی ہے۔

معافی مانگنے کا ثواب: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنی غلطی کا اعتراف کر کے معافی مانگتا ہے، وہ اللہ کے ہاں بلند مقام پاتا ہے۔

دل کی صفائی: غلطی پر اڑے رہنا دل کی سختی کا سبب بنتا ہے جبکہ دل کی نرمی اور توبہ مومن کی نشانی ہے۔

صبر اور عفو: قرآن میں اللہ تعالیٰ نے معاف کرنے اور درگزر کرنے کی تعلیم دی ہے۔ غلطی پر اڑے رہنا معاف نہ کرنے کی ضد اور انتقام کی طرف لے جا سکتا ہے۔

نبی کریم ﷺ کا اسوہ: آپ ﷺ کا اسوہ یہ تھا کہ آپ ہمیشہ اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے اور دوسروں کو بھی اصلاح کی طرف راغب کرتے، بہترین مسلمان وہ ہے جو خود کو غلطیوں سے پاک کرنے کی کوشش کرے۔

کسی غلطی پر متوجہ ہونے کا مطلب ہے کہ انسان اپنی غلطی کو تسلیم کرے اور اسے درست کرنے کی کوشش کرے۔ اس کے لیے چند اہم نکات یہ ہیں:

1۔ تسلیم کرنا: سب سے پہلے اپنی غلطی کو قبول کرنا ضروری ہے۔ یہ ایک طاقتور قدم ہے جو بہت سی مثبت تبدیلیوں کی طرف لے جا سکتا ہے۔

2۔ سیکھنا: غلطی سے سیکھنے کی کوشش کریں۔ یہ جانیں کہ آپ نے کیا غلط کیا اور اس سے کیا سبق حاصل کر سکتے ہیں۔

3۔ معافی مانگنا: اگر آپ کی غلطی سے دوسروں کو تکلیف پہنچی ہے تو ان سے معافی مانگنا اہم ہے۔

4۔ اصلاح کرنا: اپنی غلطی کو درست کرنے کے لیے عملی اقدامات کریں۔ یہ آپ کی نیت اور عمل کی صداقت کو ظاہر کرتا ہے۔

5۔ آگے بڑھنا: غلطیوں سے سیکھنے کے بعد آگے بڑھیں اور اپنی زندگی میں بہتری لانے کی کوشش کریں۔

غلطیوں کو تسلیم کرنا ایک انسانی خوبی ہے اور یہ ہمیں بہتر انسان بننے میں مدد دیتی ہے۔ غلطی پر اقرار کرنے اور اصلاح کی اہمیت کے بارے میں کچھ احادیث یہ ہیں:

1۔ توبہ کی فضیلت: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے گناہوں کا اقرار کر کے اللہ کی طرف لوٹتا ہے، اللہ اس کی توبہ قبول کرتا ہے۔ یہ اس بات کی اہمیت کو بیان کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

2۔ غلطی تسلیم کرنے کی اہمیت: آپ ﷺ نے فرمایا: تمام بنی آدم خطا کار ہیں، اور بہترین خطا کار وہ ہیں جو توبہ کرتے ہیں۔ (ترمذی، 4/224، حدیث: 2507)اس سے معلوم ہوتا ہے کہ غلطی کرنا انسانی فطرت ہے، مگر اس کا اعتراف اور توبہ کرنا اہم ہے۔

3۔ معافی کی ترغیب: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر کوئی تم میں سے اپنی غلطی پر اقرار کرے تو وہ اپنے گناہ کو چھپائے نہیں، بلکہ اسے معاف کیا جائے گا۔ یہ بتاتا ہے کہ معافی طلب کرنا اور اقرار کرنا ایک نیک عمل ہے۔

4۔ اصلاح کا طریقہ: ایک حدیث میں آیا ہے: جو شخص اپنی اصلاح کی کوشش کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو معاف فرماتا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اصلاح کی کوشش کرنے والے کا مقام بلند ہوتا ہے۔

یہ احادیث ہمیں یہ سمجھاتی ہیں کہ غلطی کا اقرار کرنا اور اس کی اصلاح کرنا نہ صرف ایک اخلاقی ذمہ داری ہے، بلکہ یہ اللہ کی رحمت کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔

فی زمانہ جیسے کہ ہمیں بہت سی برائیاں دیکھنے کو مِل رہی ہیں اُن ہی میں سے ایک بہت بڑی خرابی جسے ہم باطنی بیماری بھی کہہ سکتے ہیں وہ ہے اصرارِ باطل یعنی کہ غلطی پر اڑ جانا۔ پہلے ہم اسکی تعریف دیکھ لیتے ہیں:

اصرارِ باطل کی تعریف: نصیحت قبول نہ کرنا اہل حق سے بغض رکھنا اور ناحق یعنی باطل اور غلط بات پر ڈٹ کر اہل حق کو اذیت دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دینا اصرارِ باطل کہلاتا ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 157)

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: وَیْلٌ لِّكُلِّ اَفَّاكٍ اَثِیْمٍۙ(۷) یَّسْمَعُ اٰیٰتِ اللّٰهِ تُتْلٰى عَلَیْهِ ثُمَّ یُصِرُّ مُسْتَكْبِرًا كَاَنْ لَّمْ یَسْمَعْهَاۚ-فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ(۸) (پ 25، الجاثیۃ: 7، 8) ترجمہ کنز العرفان: ہر بڑے بہتان باندھنے والے گنہگار کے لیے خرابی ہے جو اللہ کی آیتوں کو سنتا ہے کہ اس کے سامنے پڑھی جاتی ہیں پھر تکبر کرتے ہوئے ضد پر ڈٹ جاتا ہے گویا اس نے ان آیتوں کو سننا ہی نہیں تو ایسوں کو دردناک عذاب کی خوشخبری سناؤ۔

مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر نور العرفان میں فرماتے ہیں: معلوم ہوا کہ تکبر و ہٹ دھرمی ایمان سے روکنے والی آڑ ہے۔ (تفسیر نور العرفان، ص 796)

حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ خاتم النبیین ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہلاکت و بربادی ہے ان کے لیے جو نیکی کی بات سن کر اُسے جھٹلادیتے ہیں اور اس پر عمل نہیں کرتے اور ہلاکت و بربادی ہے ان کے لیے جو جان بوجھ کر گناہوں پر ڈٹے رہتے ہیں۔ (مسند امام احمد، 2/682، حدیث: 7062)

اصرارِ باطل یعنی نصیحت قبول نہ کرنا، اہلِ حق سے بغض رکھنا اور ناحق یعنی باطل اور غلط بات پر ڈٹ کر اہل حق کو اذیت دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دینا نہایت ہی مذموم، قبیح یعنی برا اور حرام فعل ہے، اس سے ہر مسلمان کو بچنا لازم ہے۔

اصرارِ باطل کے سات اسباب و علاج:

(1) اصرارِ باطل کا پہلا سبب تکبر ہے کہ اکثر تکبر کے سبب ہی بندہ اصرارِ باطل جیسی آفت میں مبتلا ہو جاتا ہے، اسی سبب کی وجہ سے شیطان اصرارِ باطل میں مبتلا ہو کر دائمی ذلت وخواری کا حق دار قرار پایا۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ شیطان کے انجام پر غور کرے، تکبر کا علاج کرے اور اپنے اندر عاجزی پیدا کرے۔ تکبر کی تباہ کاریوں، اس کے علاج اور اس سے متعلق مزید معلومات کے لیے مکتبہ المدینہ کی مطبوعہ کتاب تکبر کا مطالعہ نہایت مفید ہے۔

(2) اصرارِ باطل کا دوسرا سبب بغض و کینہ ہے۔ اسی سبب کی وجہ سے بندہ حق قبول کرنے میں پس و پیش سے کام لیتا ہے اور اپنی غلطی کو تسلیم نہیں کرتا۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ سوچے کہ بزرگانِ دین یہ نہیں دیکھتے تھے کہ کون کہہ رہا ہے ؟ بلکہ یہ دیکھتے تھے کہ کیا کہہ رہا ہے نیز اپنے سینے کو مسلمانوں کے بغض و کینے سے پاک رکھنے کی کوشش کرے۔

(3) اصرارِ باطل کا تیسرا سبب ذاتی مفادات کی حفاظت ہے۔ کیوں کہ جب بندہ یہ محسوس کرتا ہے کہ حق کی تائید کرنے سے ذاتی مفادات خطرے میں پڑ جائیں گے جب کہ غلط کام پر اڑے رہنے سے میری ذات کو خاطر خواہ فائدہ ہوگا۔ یہ ذہن میں رکھ کر بندہ اس غلط کام کے لیے اپنی تمام تر توانائی صرف کرنے پر تیار ہو جاتا ہے۔ اس کا علاج یہ کہ بندہ اللہ پاک کی رضا اور حق کی تائید کو ذاتی مفادات پر مقدم رکھے اور یہ ذہن بنائے کہ ذاتی فائدے کے لیے غلط بات پر ڈٹے رہنے سے عارضی نفع تو حاصل کرنا ممکن ہے لیکن اللہ پاک کی ناراضگی کے سبب رحمت الٰہی اور اس کی دیگر نعمتوں سے محروم کردیا گیا تو میرا کیا بنے گا ؟

اصرارِ باطل کا ایک سبب اتباع نفس ہے کیونکہ بعض اوقات بندہ اپنی انانیت کی وجہ سے غلط بات پر جم جاتا ہے اور کسی طرح بھی اس سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ اس کا علاج یہ کہ بندہ نفس کی اس چال کو ناکام بناتے ہوئے حق بات کی تائید کرے اور اس حوالے سے اپنے نفس کی تربیت بھی کرے اور وقتاً فوقتاً نفس کا محاسبہ بھی کرتا رہے۔

اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں اس باطنی بیماری سے نجات عطا فرمائے اور اپنی اصلاح کو قبول کرنے والا بنائے۔ آمین


غلطی پر اڑ جانا ایک نفسیاتی اور سماجی رویہ ہے جو اکثر ضد، انا، یا خود اعتمادی کی کمی کی علامت ہوتا ہے۔ یہ رویہ نہ صرف فرد کی ذاتی ترقی کو روکتا ہے بلکہ اس کے تعلقات اور کامیابی کی راہوں کو بھی متاثر کرتا ہے۔ جب انسان اپنی غلطی پر اصرار کرتا ہے اور اسے تسلیم نہیں کرتا تو وہ خود کو سیکھنے اور بہتر ہونے کے مواقع سے محروم کر لیتا ہے۔

غلطی کو ماننے میں عار محسوس کرنے والے افراد عموماً دوسروں کے سامنے کمزور دکھائی دینے سے ڈرتے ہیں۔ یہ خوف ان کی شخصیت میں غیر لچکداری پیدا کر دیتا ہے، جس سے وہ دوسروں کے خیالات یا مشوروں کو قبول کرنے میں مشکل محسوس کرتے ہیں۔ نتیجتاً ان کا رویہ سخت اور غیر دوستانہ ہو سکتا ہے، جو ان کے ارد گرد کے لوگوں کو بھی متاثر کرتا ہے۔

سماجی طور پر، غلطی پر اڑے رہنے والے افراد تعلقات میں مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ ان کی ضد اور اپنے مؤقف پر سختی سے قائم رہنے کا رویہ دوسروں کے ساتھ تصادم اور کشیدگی پیدا کرتا ہے۔ ایسے افراد اکثر اختلافات کو حل کرنے کے بجائے ان کو بڑھاوا دیتے ہیں، جس سے ان کے تعلقات کمزور ہو جاتے ہیں۔ تعلقات میں لچک اور معافی کا عمل اہم ہوتا ہے، اور جو افراد اس صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں، وہ اپنے رشتے اور دوستی میں گہرائی پیدا نہیں کر پاتے۔

پیشہ ورانہ زندگی میں بھی یہ رویہ نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی غلطیوں سے سبق نہیں لیتا اور ان پر اصرار کرتا رہتا ہے، تو وہ اپنی کارکردگی میں بہتری نہیں لا سکتا۔ اس سے نہ صرف اس کی پیشہ ورانہ ترقی رک جاتی ہے بلکہ وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ بھی غیر مؤثر تعلقات بنا سکتا ہے۔ کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنی غلطیوں کو پہچانے اور ان سے سیکھے، تاکہ وہ مستقبل میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکے۔

غلطی کا اعتراف کرنا کسی بھی فرد کی شخصیت کی مضبوطی کی علامت ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ انسان اپنی خامیوں کو تسلیم کرنے اور انہیں درست کرنے کے لیے تیار ہے۔ اس سے نہ صرف فرد کو اپنی ذات پر اعتماد بڑھتا ہے بلکہ وہ دوسروں کی نظروں میں بھی قابلِ احترام بن جاتا ہے۔ غلطی پر اڑ جانے سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنی انا کو پیچھے چھوڑے اور حقیقت کا سامنا کرے۔

قرآن کی تعلیمات:

1۔ توبہ اور اصلاح کی تلقین: قرآن مجید بار بار انسانوں کو اپنی غلطیوں سے باز آنے اور توبہ کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ الَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِهِمْ۫- (پ 4، آل عمران: 135) ترجمہ: اور وہ لوگ کہ جب کوئی کھلا گناہ یا اپنے اوپر ظلم کر بیٹھیں تو فوراً اللہ کو یاد کرتے ہیں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں۔ اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام انسان کو اپنی غلطی کا اعتراف کرنے اور اللہ سے معافی مانگنے کی تعلیم دیتا ہے۔

2۔ غرور اور تکبر کی مذمت: قرآن میں متعدد مقامات پر تکبر اور ضد کی مذمت کی گئی ہے، کیونکہ یہ رویہ شیطانی صفت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَ لَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًاؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍۚ(۱۸) (پ 21، لقمان: 18) ترجمہ: اور زمین میں اکڑ کر نہ چل، بے شک اللہ کسی اترانے والے شیخی خورے کو پسند نہیں کرتا۔ اس آیت میں غرور اور ضد کے رویے کو ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔

احادیث نبوی ﷺ کی روشنی میں:

1۔ اپنی غلطی ماننا عظمت کی علامت: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہر ابن آدم خطاکار ہے اور بہترین خطاکار وہ ہیں جو توبہ کرتے ہیں۔ (ترمذی، 4/224، حدیث: 2507)

2۔ کبر اور ضد کی مذمت: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہو۔ (مسلم، ص 61، حدیث: 267) اس حدیث میں تکبر اور ضد کے رویے کو سختی سے ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔

صحابہ کرام کی زندگیوں میں بھی ہمیں اس بات کی واضح مثالیں ملتی ہیں کہ وہ اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے اور اصلاح کی طرف رجوع کرنے میں کیسے پیش پیش رہتے تھے۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ایک مضبوط اور عادل خلیفہ تھے، لیکن جب انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوتا تو وہ فوراً اپنی رائے سے رجوع کرتے اور حق کو تسلیم کرتے تھے۔

اسلام کی نظر میں ضد اور اصرار کے نقصانات:

1۔ دل کی سختی: ضد اور غلطی پر اصرار انسان کے دل کو سخت کر دیتا ہے اور وہ سچائی اور اصلاح سے دور ہو جاتا ہے۔

2۔ تعلقات میں دراڑ: غلطی پر اڑے رہنے سے رشتے اور تعلقات متاثر ہوتے ہیں، چاہے وہ خاندانی ہوں یا سماجی۔ انسان کی ضد اور انا دوسروں کے ساتھ اس کے تعلقات میں بگاڑ پیدا کر سکتی ہے۔

3۔ اللہ کی ناراضگی: غلطی پر اصرار اللہ کی ناراضگی کا سبب بنتا ہے، کیونکہ یہ ضد دراصل اللہ کے سامنے عاجزی اختیار نہ کرنے کے مترادف ہے۔

انسان کا اپنی غلطی کو تسلیم کیے بغیر اس پر اصرار کرنا یا اس کی اصلاح کی بجائے خود کو ہی درست سمجھنا غلطی پر اڑ جانا کہلاتا ہے۔ یہ رویہ نہ صرف ذاتی ترقی کی راہ میں بلکہ معاشرتی اور پیشہ ورانہ زندگی میں بھی رکاوٹ اور مسائل پیدا کرتا ہے۔

قرآن پاک میں ہے: قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًاؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ(۵۳) (پ 24، الزمر: 53) ترجمہ: تم فرماؤ!اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی! اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، بیشک اللہ سب گناہ بخش دیتا ہے،بیشک وہی بخشنے والا مہربان ہے۔

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ پاک ہر قسم کی خطا کو معاف فرمانے والا ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اپنے گناہوں کا اعتراف کیا جائے۔

غلطی پر اڑے رہنے کی ایک وجہ علم کا نہ ہونا ہے۔ عقل مند ہمیشہ اپنے اعمال پر نظر رکھتا ہے جہاں غلطی پاتا ہے فوراً اصلاح کرتا ہے۔ نادان احساس کی کمی کی وجہ سے اپنی اصلاح نہیں کرسکتا اسی طرح ثعلبہ نامی منافق کو جب حضور ﷺ نے الله سے مالدار ہونے کی دعا کرنے سے منع فرمایا کہ ایسا کرنے سے وہ دین سے غافل ہو جاتا مگر اس نے آپ ﷺ کی بات نہ مانی اور اپنی غلطی پر اڑا رہا اور بالآخر خلافت عثمانی میں ہلاک ہوگیا۔ (تفسیر صراط الجنان، ص 446 ملتقطا)

غلطی پر اڑ جانے کے کئی نقصانات ہیں ان میں سے 3 درج ذیل ہیں:

1۔ رشتے داروں میں کشیدگی: دوسروں کی تنقید کو نظر انداز کرنا یا اپنی غلطی کو نہ ماننا رشتہ داریوں میں تناؤ پیدا کر سکتا ہے خاندان دوست یا ساتھی اکثر ایسے افراد کے ساتھ مشکل محسوس کرتے ہیں جنہیں اپنی غلطیوں کا احساس نہیں ہوتا۔

2۔ پیشہ ورانہ ترقی میں رکاوٹ: کام کے ماحول میں یہ عادت ترقی کا اور افراد کے سیکھنے کا موقع ضائع کر دیتی ہے۔ جو شخص اپنی غلطیوں کو تسلیم کرتا ہے اور ان کی اصلاح کی کوشش کرتا ہے، اللہ اس کی مدد کرتا ہے۔

3۔ اعتماد کی کمی: انسان جب اپنی غلطیوں کا اعتراف نہیں کرتا تو خود پر اعتماد کی کمی کا شکار ہو جاتا ہے کیونکہ اسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کب صحیح راستے پر ہے۔ جو شخص اپنے عیبوں کی طرف توجہ دیتا ہے، اللہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے۔

لہذا اگر خود سے بھی غلطی ہو جائے تو الٹے سیدھے دلائل دے کر خود کو درست ثابت کرنے کے بجائے اپنی غلطی مان کر اصلاح کی جائے۔

اللہ کریم ہمیں اپنی غلطی کو تسلیم کرکے اسے درست کرنے کی سعادت نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین

غلطی پر اڑ جانا منافقین کی صفات میں سے ایک صفت ہے یہ صفت انتہائی بری صفت ہے کیونکہ بعض اوقات اس پر جھوٹی قسمیں کھانے تک معاملہ پہنچ جاتا ہے یہ بھی منافقین کی ہی صفت ہے کہ وہ اپنی غلط باتوں پر اللہ پاک کو گواہ بناتے ہیں اسی کو اصرار باطل بھی کہتے ہیں۔

اصرار باطل کی تعریف: نصیحت قبول نہ کرنا اہل حق سے بغض رکھنا باطل اور غلط بات پر ڈٹ کر اہل حق کو اذیت دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دینا اس اصرار باطل کہلاتا ہے۔ (گناہوں کی معلومات، ص 157)

آیت مبارکہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَیْلٌ لِّكُلِّ اَفَّاكٍ اَثِیْمٍۙ(۷) یَّسْمَعُ اٰیٰتِ اللّٰهِ تُتْلٰى عَلَیْهِ ثُمَّ یُصِرُّ مُسْتَكْبِرًا كَاَنْ لَّمْ یَسْمَعْهَاۚ-فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ(۸) (پ 25، الجاثیۃ: 7، 8) ترجمہ کنز العرفان: ہر بڑے بہتان باندھنے والے گنہگار کے لیے خرابی ہے جو اللہ کی آیتوں کو سنتا ہے کہ اس کے سامنے پڑھی جاتی ہیں پھر تکبر کرتے ہوئے ضد پر ڈٹ جاتا ہے گویا اس نے ان آیتوں کو سننا ہی نہیں تو ایسوں کو دردناک عذاب کی خوشخبری سناؤ۔

مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ نور العرفان میں فرماتے ہیں: معلوم ہوا کہ تکبر و ہٹ دھرمی ایمان سے روکنے والی آڑ ہے۔ (تفسیر نور العرفان، ص 796)

غلطی پر اڑ جانے کی مذمت پر ہمیں نبی کریم ﷺ کے بہت ارشاد ملتے ہیں ان میں سے ایک ملاحظہ کیجیے۔

فرمان مصطفیٰ ﷺ: ہلاکت و بربادی ہے ان کے لیے جو نیکی کی بات سن کر اسے جھٹلا دیتے ہیں اور اس پر عمل نہیں کرتے اور ہلاکت و بربادی ہے ان کے لیے جو جان بوجھ کر گناہوں پر ڈٹے رہتے ہیں۔ (مسند امام احمد، 2/682، حدیث: 7062)

اصرار باطل یعنی نصیحت قبول نہ کرنا اہل حق سے بغض رکھنا اور ناحق یعنی باطل اور غلط بات پر ڈٹ کر اہل حق کو اذیت دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دینا نہایت ہی مذموم قبیح یعنی برا اور حرام فعل ہے اس سے مسلمانوں کو بچنا چاہیے۔

اصرار باطل کے 5 اسباب اور ان کا علاج:

پہلا سبب: تکبر کہ اکثر تکبر کے سبب ہی بندہ اصرار باطل جیسی آفت میں مبتلا ہو جاتا ہے اسی سبب کی وجہ سے شیطان اصرار باطل میں مبتلا ہو کر دائمی ذلت و خواری کا حقدار قرار پایا۔

علاج: بندہ شیطان کے انجام پر غور کرے تکبر کا علاج کرے اور اپنے اندر عاجزی پیدا کرے تکبر رسالے کا مطالعہ نہایت مفید ہے۔

دوسرا سبب: بغض و کینہ اس کی وجہ سے بندہ حق قبول کرنے میں پس و پیش سے کام لیتا ہے اور غلطی کو تسلیم نہیں کرتا۔

علاج: بندہ بزرگان دین کی سیرت طیبہ کے اس پہلو کو مدنظر رکھے نماز پڑھے کہ بزرگان دین یہ نہیں دیکھتے تھے کہ کون کہہ رہا ہے یہ کیا ہے بلکہ یہ دیکھتے تھے کہ کیا کہہ رہا ہے نیز اپنے سینے کو مسلمانوں کے بغض و کینہ سے پاک رکھنے کی کوشش کرے۔

ایسے بزرگ بھی گزرے کہ اگر انہیں ایک چھوٹا بچہ بھی نصیحت کی کوئی بات کہہ دیتا تو اس کی بھی نصیحت کو قبول کر لیتے تھے۔

تیسرا سبب: ہاں میں ہاں ملانے اور چاپلوسی کرنے کی عادت۔

علاج: بندہ تملق (یعنی چاپلوسی) کے نقصانات پیش نظر رکھے کہ چاپلوسی ایک قبیح اور معیوب کام ہے چاپلوس شخص کی کوئی بھی دل سے عزت نہیں کرتا، چاپلوسی کا انجام ذلت و رسوائی ہے چاپلوسی کی وجہ سے بسا اوقات کسی مسلمان کا شدید نقصان ہو جاتا ہے، چاپلوسی میں اکثر اوقات بندہ جھوٹ جیسے کبیرہ گناہ میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

چوتھا سبب: اطاعت الہی کو ترک کر دینا۔

علاج: بندہ اللہ پاک کی اطاعت کو مقدم رکھے کیونکہ بعض صورتوں میں اس سبب کا نتیجہ ایمان کی بربادی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔

پانچواں سبب: اتباعِ نفس بعض اوقات بندہ اپنی انانیت کی وجہ سے غلط بات پر جم جاتا ہے اور کسی طرح بھی اس سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔

علاج: بندہ نفس کی اس چال کو ناکام بناتے ہوئے حق بات کی تائید کرے اور اس حوالے سے اپنے نفس کی تربیت بھی کرے اور وقتاً فوقتاً نفس کا محاسبہ بھی کرتا رہے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ مجھے اور تمام مسلمانوں کو اصرار باطل جیسے حرام و قبیح فعل سے بچائے۔ آمین


نصیحت کو قبول نہ کرنا اہل حق سے بغض رکھنا اور ناحق اور غلط بات پر ڈٹ جانا اور اہل حق کو غلط بات اور اپنے فعل سے تکلیف پہنچانا یہ اصرار باطل کہلاتا ہے انسان کو خطا کا پتلا کہا گیا ہے اس سے غلطی سرزد نہ ہو یہ ایک ناممکن سی بات ہے کچھ غلطیاں بڑی ہوتی ہیں اور کچھ معمولی سی ہوتی ہیں جن سے کسی کا کوئی نقصان نہیں ہوتا لیکن جو غلطیاں بڑی ہوتی ہیں اور ان سے دوسروں کو نقصان پہنچتا ہے اس کا ازالہ نہایت ضروری ہے مگر کچھ لوگ غلطیاں تو کر لیتے ہیں لیکن اس کا ازالہ کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں اور اس کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں اس طرح وہ اپنے رشتے بھی داؤ پر لگا دیتے ہیں اور اپنے ساتھ ساتھ اپنے رشتوں کو بھی بے سکون کر دیتے ہیں۔

اپنی غلطی پر اڑ جانا اور اس کا اعتراف نہ کرنا انسان کو دنیا اور آخرت دونوں میں ذلیل و رسوا کر دیتا ہے ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد ہے: وَیْلٌ لِّكُلِّ اَفَّاكٍ اَثِیْمٍۙ(۷) یَّسْمَعُ اٰیٰتِ اللّٰهِ تُتْلٰى عَلَیْهِ ثُمَّ یُصِرُّ مُسْتَكْبِرًا كَاَنْ لَّمْ یَسْمَعْهَاۚ-فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ(۸) (پ 25، الجاثیۃ: 7، 8) ترجمہ کنز العرفان: ہر بڑے بہتان باندھنے والے گنہگار کے لیے خرابی ہے جو اللہ کی آیتوں کو سنتا ہے کہ اس کے سامنے پڑھی جاتی ہیں پھر تکبر کرتے ہوئے ضد پر ڈٹ جاتا ہے گویا اس نے ان آیتوں کو سننا ہی نہیں تو ایسوں کو دردناک عذاب کی خوشخبری سناؤ۔

کچھ لوگوں کو نصیحت کرنا ایسا ہے جیسے بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف نہ وہ سمجھتے ہیں نہ عمل کرتے ہیں اور اگر سن لیتے ہیں تو اس کا ہنسی مذاق بنا لیتے ہیں ایسوں کے بارے میں اللہ پاک نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا: وَ اِذَا عَلِمَ مِنْ اٰیٰتِنَا شَیْــٴَـاﰳ اتَّخَذَهَا هُزُوًاؕ-اُولٰٓىٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِیْنٌؕ(۹) (پ 25، الجاثیۃ: 9) ترجمہ کنز العرفان: اور جب اسے ہماری آیتوں میں سے کسی کا علم ہوتا ہے تو اسے ہنسی بنا لیتا ہے ان کے لیے ذلیل کر دینے والا عذاب ہے۔

اپنی غلطی پر ڈٹ جانے کے اسباب: تکبر،بغض، کینہ، انا پرستی،ہٹ دھرمی، حسد،طلب شہرت اور نفس کی پیروی کرنا جیسے عناصر ہیں جو انسان کے ایمان کو تباہ کر دیتے ہیں۔

مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تکبر اور ہٹ دھرمی ایمان سے روکنے والی آڑ ہے۔ (تفسیر نور العرفان، ص 796)

آقا ﷺ نے غلطی پر اڑ جانے اور نیکی کے حکم کو جھٹلانے والوں کے بارے میں ارشاد فرمایا: ہلاکت و بربادی ہےان کے لیے جو نیکی کی بات سن کر اسے جھٹلا دیتے ہیں اور اس پر عمل نہیں کرتے اور ہلاکت و بربادی ہے ان کے لیے جو جان بوجھ کر گناہوں پر ڈٹے رہتے ہیں۔ (مسند امام احمد، 2/682، حدیث: 7062)

اصرار باطل کی سب سے بڑی وجہ شیطان کی پیروی کرنا ہے جو خود تو ازل سے ابد تک دھتکارا جا چکا ہے مگر انسان کو بھی نیکی کے راستے سے ہٹا کر اس کو بھی دنیا اور آخرت میں دھتکارا ہوا پانا چاہتا ہے۔

ان سب نفسانی بیماریوں کا خاتمہ سوائے اپنی ذات کے اور کوئی نہیں کر سکتا۔ اپنی باطنی بیماریوں کی پہچان کریں اور دوسروں کی اچھی خصلتوں کو دیکھیں اور ان کو اپنائیں۔ اپنا محاسبہ کریں کہ میرے اندر کون سی ایسی بری خصلت ہے جو میری شخصیت کو نکھار نے سے روک رہی ہے۔

ان سب بیماریوں کا ایک علاج عالم دین کی صحبت میں بیٹھنا ہے ان کی صحبت کو اختیار کریں ان کی اچھی عادتوں کو اپنائیں اور اللہ کے دین سے اس طرح جڑ جائیں کہ کوئی آپ کو اس راہ سے ہٹا نہ سکے۔

غلطی پر اڑے رہنے کی تعریف: غلطی پر اڑے رہنا ایک ایسا رویہ ہے جس میں انسان اپنی غلطی کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے، حالانکہ اسے اس غلطی کے نقصان دہ اثرات کا علم ہوتا ہے۔ یہ ضدی طرز عمل نہ صرف ذاتی نقصان کا باعث بنتا ہے بلکہ آس پاس کے لوگوں اور معاشرتی تعلقات پر بھی منفی اثر ڈالتا ہے۔ اکثر افراد اپنی غلطیوں کو اس لیے نہیں مانتے کیونکہ وہ اسے اپنی شخصیت پر حملہ سمجھتے ہیں۔ اس رویے کا بنیادی مقصد خود کو محفوظ رکھنا اور خود اعتمادی کو برقرار رکھنا ہوتا ہے، مگر درحقیقت یہ خود فریبی اور نفسیاتی دباؤ کا سبب بن سکتا ہے۔

نفسیاتی اثرات: غلطیوں کو تسلیم نہ کرنا انسان کی نفسیات پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ یہ رویہ اکثر خود فریبی، کم خود اعتمادی، اور بار بار کی ناکامیوں کی بنیاد بنتا ہے۔ ماہرین نفسیات کے مطابق، اپنی غلطیوں پر اصرار کرنا ایک دفاعی طرز عمل ہے، جو انسان کو حقیقت کا سامنا کرنے سے روکتا ہے۔ یہ رویہ انسان کی شخصیت کو نقصان پہنچاتا ہے اور اس کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔

اسلام میں غلطیوں کا اعتراف: اسلام میں غلطیوں کا اعتراف اور ان سے سیکھنے کی بہت زیادہ ترغیب دی گئی ہے۔ قرآن مجید اور احادیث میں بار بار معافی، توبہ، اور اصلاح کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔

حضور ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے بھائی کے عیب چھپائے گا، اللہ قیامت کے دن اس کے عیب چھپائے گا۔ (مسلم، ص 1069، حدیث: 6578) اس سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ دوسروں کی غلطیوں کو معاف کرنا اور ان کی اصلاح میں مدد کرنا ضروری ہے۔

سماجی اثرات: تاریخی اور موجودہ معاشرتی واقعات میں بھی ہمیں غلطیوں پر اڑے رہنے کی متعدد مثالیں ملتی ہیں۔ سیاست، معاشرت اور کاروباری دنیا میں غلط فیصلے صرف افراد کے لیے نہیں بلکہ پورے معاشرے کے لیے نقصاندہ ثابت ہوتے ہیں۔ ان واقعات نے بارہا یہ ثابت کیا کہ اپنی غلطیوں کو تسلیم نہ کرنا نہ صرف ذاتی بلکہ اجتماعی سطح پر بھی نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔

نتیجہ: غلطی پر اڑے رہنا انسان کے لیے ذاتی اور معاشرتی سطح پر مضر ثابت ہوتا ہے۔ بہتر فیصلے اور آگے بڑھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی غلطیوں کو تسلیم کریں، ان سے سیکھیں اور اپنے تعلقات کو بہتر بنائیں۔ ہر غلطی ایک سبق ہے اور ان سے سیکھنے کا عمل ہمیں زندگی میں کامیاب اور خوشحال بنا سکتا ہے۔