غلطی پر اڑ جانا از بنت ذوالفقار علی، جامعۃ
المدینہ پوران سرائے عالمگیر
غلطی پر اڑ جانا ایک نفسیاتی اور سماجی رویہ ہے جو اکثر
ضد، انا، یا خود اعتمادی کی کمی کی علامت ہوتا ہے۔ یہ رویہ نہ صرف فرد کی ذاتی ترقی
کو روکتا ہے بلکہ اس کے تعلقات اور کامیابی کی راہوں کو بھی متاثر کرتا ہے۔ جب انسان
اپنی غلطی پر اصرار کرتا ہے اور اسے تسلیم نہیں کرتا تو وہ خود کو سیکھنے اور بہتر
ہونے کے مواقع سے محروم کر لیتا ہے۔
غلطی کو ماننے میں عار محسوس کرنے والے افراد عموماً
دوسروں کے سامنے کمزور دکھائی دینے سے ڈرتے ہیں۔ یہ خوف ان کی شخصیت میں غیر لچکداری
پیدا کر دیتا ہے، جس سے وہ دوسروں کے خیالات یا مشوروں کو قبول کرنے میں مشکل محسوس
کرتے ہیں۔ نتیجتاً ان کا رویہ سخت اور غیر دوستانہ ہو سکتا ہے، جو ان کے ارد گرد کے
لوگوں کو بھی متاثر کرتا ہے۔
سماجی طور پر، غلطی پر اڑے رہنے والے افراد تعلقات میں
مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ ان کی ضد اور اپنے مؤقف پر سختی سے قائم رہنے کا رویہ دوسروں
کے ساتھ تصادم اور کشیدگی پیدا کرتا ہے۔ ایسے افراد اکثر اختلافات کو حل کرنے کے بجائے
ان کو بڑھاوا دیتے ہیں، جس سے ان کے تعلقات کمزور ہو جاتے ہیں۔ تعلقات میں لچک اور
معافی کا عمل اہم ہوتا ہے، اور جو افراد اس صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں، وہ اپنے رشتے
اور دوستی میں گہرائی پیدا نہیں کر پاتے۔
پیشہ ورانہ زندگی میں بھی یہ رویہ نقصان دہ ہو سکتا
ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی غلطیوں سے سبق نہیں لیتا اور ان پر اصرار کرتا رہتا ہے، تو وہ
اپنی کارکردگی میں بہتری نہیں لا سکتا۔ اس سے نہ صرف اس کی پیشہ ورانہ ترقی رک جاتی
ہے بلکہ وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ بھی غیر مؤثر تعلقات بنا سکتا ہے۔ کامیابی کے لیے
ضروری ہے کہ انسان اپنی غلطیوں کو پہچانے اور ان سے سیکھے، تاکہ وہ مستقبل میں بہتر
کارکردگی کا مظاہرہ کر سکے۔
غلطی کا اعتراف کرنا کسی بھی فرد کی شخصیت کی مضبوطی
کی علامت ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ انسان اپنی خامیوں کو تسلیم کرنے اور انہیں درست
کرنے کے لیے تیار ہے۔ اس سے نہ صرف فرد کو اپنی ذات پر اعتماد بڑھتا ہے بلکہ وہ دوسروں
کی نظروں میں بھی قابلِ احترام بن جاتا ہے۔ غلطی پر اڑ جانے سے بچنے کے لیے ضروری ہے
کہ انسان اپنی انا کو پیچھے چھوڑے اور حقیقت کا سامنا کرے۔
قرآن کی تعلیمات:
1۔ توبہ اور اصلاح کی تلقین: قرآن
مجید بار بار انسانوں کو اپنی غلطیوں سے باز آنے اور توبہ کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ اللہ
تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ الَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْۤا
اَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِهِمْ۫- (پ
4، آل عمران: 135) ترجمہ: اور وہ لوگ کہ جب کوئی کھلا گناہ یا اپنے اوپر ظلم کر بیٹھیں
تو فوراً اللہ کو یاد کرتے ہیں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں۔ اس آیت سے واضح
ہوتا ہے کہ اسلام انسان کو اپنی غلطی کا اعتراف کرنے اور اللہ سے معافی مانگنے کی تعلیم
دیتا ہے۔
2۔ غرور اور تکبر کی مذمت: قرآن
میں متعدد مقامات پر تکبر اور ضد کی مذمت کی گئی ہے، کیونکہ یہ رویہ شیطانی صفت ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَ لَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًاؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا
یُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍۚ(۱۸) (پ 21، لقمان: 18) ترجمہ: اور زمین میں اکڑ کر نہ
چل، بے شک اللہ کسی اترانے والے شیخی خورے کو پسند نہیں کرتا۔ اس آیت میں غرور اور
ضد کے رویے کو ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔
احادیث نبوی ﷺ کی روشنی میں:
1۔ اپنی غلطی ماننا عظمت کی علامت: رسول
اللہ ﷺ نے فرمایا: ہر ابن آدم خطاکار ہے اور بہترین خطاکار وہ ہیں جو توبہ کرتے ہیں۔
(ترمذی، 4/224، حدیث: 2507)
2۔ کبر اور ضد کی مذمت: نبی
کریم ﷺ نے فرمایا: وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر
ہو۔ (مسلم، ص 61، حدیث: 267)
اس حدیث میں تکبر اور ضد کے رویے کو سختی سے ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔
صحابہ کرام کی زندگیوں میں بھی ہمیں اس بات کی واضح
مثالیں ملتی ہیں کہ وہ اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے اور اصلاح کی طرف رجوع کرنے میں کیسے
پیش پیش رہتے تھے۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ایک مضبوط اور عادل خلیفہ تھے، لیکن
جب انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوتا تو وہ فوراً اپنی رائے سے رجوع کرتے اور حق کو تسلیم
کرتے تھے۔
اسلام کی نظر میں ضد اور اصرار کے نقصانات:
1۔ دل کی سختی: ضد اور غلطی پر
اصرار انسان کے دل کو سخت کر دیتا ہے اور وہ سچائی اور اصلاح سے دور ہو جاتا ہے۔
2۔ تعلقات میں دراڑ: غلطی پر اڑے رہنے
سے رشتے اور تعلقات متاثر ہوتے ہیں، چاہے وہ خاندانی ہوں یا سماجی۔ انسان کی ضد اور
انا دوسروں کے ساتھ اس کے تعلقات میں بگاڑ پیدا کر سکتی ہے۔