نصیحت کو قبول نہ کرنا اہل حق سے بغض رکھنا اور ناحق اور غلط بات پر ڈٹ جانا اور اہل حق کو غلط بات اور اپنے فعل سے تکلیف پہنچانا یہ اصرار باطل کہلاتا ہے انسان کو خطا کا پتلا کہا گیا ہے اس سے غلطی سرزد نہ ہو یہ ایک ناممکن سی بات ہے کچھ غلطیاں بڑی ہوتی ہیں اور کچھ معمولی سی ہوتی ہیں جن سے کسی کا کوئی نقصان نہیں ہوتا لیکن جو غلطیاں بڑی ہوتی ہیں اور ان سے دوسروں کو نقصان پہنچتا ہے اس کا ازالہ نہایت ضروری ہے مگر کچھ لوگ غلطیاں تو کر لیتے ہیں لیکن اس کا ازالہ کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں اور اس کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں اس طرح وہ اپنے رشتے بھی داؤ پر لگا دیتے ہیں اور اپنے ساتھ ساتھ اپنے رشتوں کو بھی بے سکون کر دیتے ہیں۔

اپنی غلطی پر اڑ جانا اور اس کا اعتراف نہ کرنا انسان کو دنیا اور آخرت دونوں میں ذلیل و رسوا کر دیتا ہے ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد ہے: وَیْلٌ لِّكُلِّ اَفَّاكٍ اَثِیْمٍۙ(۷) یَّسْمَعُ اٰیٰتِ اللّٰهِ تُتْلٰى عَلَیْهِ ثُمَّ یُصِرُّ مُسْتَكْبِرًا كَاَنْ لَّمْ یَسْمَعْهَاۚ-فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ(۸) (پ 25، الجاثیۃ: 7، 8) ترجمہ کنز العرفان: ہر بڑے بہتان باندھنے والے گنہگار کے لیے خرابی ہے جو اللہ کی آیتوں کو سنتا ہے کہ اس کے سامنے پڑھی جاتی ہیں پھر تکبر کرتے ہوئے ضد پر ڈٹ جاتا ہے گویا اس نے ان آیتوں کو سننا ہی نہیں تو ایسوں کو دردناک عذاب کی خوشخبری سناؤ۔

کچھ لوگوں کو نصیحت کرنا ایسا ہے جیسے بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف نہ وہ سمجھتے ہیں نہ عمل کرتے ہیں اور اگر سن لیتے ہیں تو اس کا ہنسی مذاق بنا لیتے ہیں ایسوں کے بارے میں اللہ پاک نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا: وَ اِذَا عَلِمَ مِنْ اٰیٰتِنَا شَیْــٴَـاﰳ اتَّخَذَهَا هُزُوًاؕ-اُولٰٓىٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِیْنٌؕ(۹) (پ 25، الجاثیۃ: 9) ترجمہ کنز العرفان: اور جب اسے ہماری آیتوں میں سے کسی کا علم ہوتا ہے تو اسے ہنسی بنا لیتا ہے ان کے لیے ذلیل کر دینے والا عذاب ہے۔

اپنی غلطی پر ڈٹ جانے کے اسباب: تکبر،بغض، کینہ، انا پرستی،ہٹ دھرمی، حسد،طلب شہرت اور نفس کی پیروی کرنا جیسے عناصر ہیں جو انسان کے ایمان کو تباہ کر دیتے ہیں۔

مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تکبر اور ہٹ دھرمی ایمان سے روکنے والی آڑ ہے۔ (تفسیر نور العرفان، ص 796)

آقا ﷺ نے غلطی پر اڑ جانے اور نیکی کے حکم کو جھٹلانے والوں کے بارے میں ارشاد فرمایا: ہلاکت و بربادی ہےان کے لیے جو نیکی کی بات سن کر اسے جھٹلا دیتے ہیں اور اس پر عمل نہیں کرتے اور ہلاکت و بربادی ہے ان کے لیے جو جان بوجھ کر گناہوں پر ڈٹے رہتے ہیں۔ (مسند امام احمد، 2/682، حدیث: 7062)

اصرار باطل کی سب سے بڑی وجہ شیطان کی پیروی کرنا ہے جو خود تو ازل سے ابد تک دھتکارا جا چکا ہے مگر انسان کو بھی نیکی کے راستے سے ہٹا کر اس کو بھی دنیا اور آخرت میں دھتکارا ہوا پانا چاہتا ہے۔

ان سب نفسانی بیماریوں کا خاتمہ سوائے اپنی ذات کے اور کوئی نہیں کر سکتا۔ اپنی باطنی بیماریوں کی پہچان کریں اور دوسروں کی اچھی خصلتوں کو دیکھیں اور ان کو اپنائیں۔ اپنا محاسبہ کریں کہ میرے اندر کون سی ایسی بری خصلت ہے جو میری شخصیت کو نکھار نے سے روک رہی ہے۔

ان سب بیماریوں کا ایک علاج عالم دین کی صحبت میں بیٹھنا ہے ان کی صحبت کو اختیار کریں ان کی اچھی عادتوں کو اپنائیں اور اللہ کے دین سے اس طرح جڑ جائیں کہ کوئی آپ کو اس راہ سے ہٹا نہ سکے۔