محمد عظیم عطاری (درجۂ ثالثہ ، جامعۃُ
المدینہ فیضان امام غزالی ، فیصل آباد، پاکستان)
کسی بھی معاشرے میں بسنے والے انسان خاندانی تعلقات اور
رشتہ داریوں کو نبھانے کے ساتھ ساتھ دیگر افراد کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو مضبوط و
مستحکم رکھتے ہیں۔ دوستی کی بنیاد عام طور پر انسان کا دوسرے انسان کے ساتھ گزارا
ہوا وقت، یکساں مفادات اور سوچ و فکر کا اشتراک ہوتا ہے ۔ہمارے معاشرے میں دیکھا
گیا ہے کہ بہت سے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ دوستی نبھانے کے دوران بعض اوقات حد شرعی کو
عبور کر جاتے ہیں جیسے شراب نوشی، قتل و غارت وغیرہ اور اس کے مد مقابل بہت سے لوگ
دینی، روحانی اعتبار سے بھی دوستی کے بندھن میں بندھے ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے دین
اسلام ہماری رہنمائی کرتا ہے ؟چنانچہ اللہ پاک سورہ ٔ توبہ آیت نمبر 71 میں ارشاد
فرماتا ہے: ترجمۂ کنزالایمان: اور مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے
رفیق ہیں بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے منع کریں اور نماز قائم رکھیں اور زکوٰۃ
دیں اور اللہ و رسول کا حکم مانیں یہ ہیں جن پر عنقریب اللہ رحم کرے گا بےشک اللہ
غالب حکمت والا ہے۔ (پ10، التوبۃ: 71)
اس آیت سے واضح طور پر ثابت ہوا کہ مسلمان مرد اور عورتیں ایک
دوسرے کے رفیق (دوست) ہیں اور وہ نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے منع فرماتے اسی
طرح وہ نمازوں کو قائم کرتے اور زکوۃ ادا کرتے اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت و
فرما برداری کرتے ہیں۔
اس آیت سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ کل قیامت کے دن صرف
تقویٰ کی بنیاد پر مضبوط ہونے والی دوستی ہی کام آئے گی اور شر کی بنیاد پر استوار
( مضبوط) ہونے والی دوستی قیامت کے دن دشمنی اور عداوت اور عذاب نار پر منتج ہوگی
دوستی کے متعلق چند اہم بائیں: (1) اپنے دوست کیلئے وہ پسند کرنا چاہیے جو انسان اپنے لیے
پسند کرے اس کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان ذیل میں پیش کیا جاتا
ہے: حضرت انس سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک
کامل مؤمن نہیں ہو سکتا جب وہ اپنے مسلمان بھائی کیلئے وہی چیز پسند نہ کرے جو وہ
اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ (2) نیکی اور بھلائی کے کاموں میں تعاون کرنا چاہیے (3)
برائی اور گناہوں کے کاموں سے اجتناب کرنا چاہیے (4) دکھ اور مشکل میں دوست کے کام
آنا چاہیے(5) اپنے دوست بلکہ ہر ایک مسلمان کے عیب چھپانے کی عادت ڈالنی چاہیے۔
صحابہ
کرام کا طرز عمل : صحابہ کرام میں یہ بات بہت نمایاں تھی کہ وہ اپنے دوست
احباب کی نسبت سے ان کے اہل خانہ کے ساتھ بھی حسن سلوک کیا کرتے تھے اور ان کی خبر
گیری میں کبھی بھی کو تاہی نہ کرتے تھے ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ دوستی کے حوالے
سے عائد ہونے والی ذمہ داریوں کا احساس نہیں کرتے۔ اور اپنے دوستوں کو مشکل وقت
میں تنہا چھوڑ جاتے ہیں اللہ پاک ہمیں صحیح معنوں میں دوستی کے فرائض و حقوق کو
سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ
الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
سید بلال حسن عطاری(درجۂ ثانیہ جامعۃُ
المدینہ فیضان میلاد کامرہ تحصیل حضرو ضلع اٹک، پاکستان)
اسلام میں دوستی کی بہت اہمیت ہے۔ہر انسان کو دوسرے سے تعلق
واسطہ پڑتا رہتا ہے مثلا رشتہ دار،پڑوسی،استاد شاگرد وغیرہ۔اس طرح ایک رشتہ ہے
دوستی کا جس طرح اسلام زندگی کے ہر معاملہ میں ہماری رہنمائی کرتا ہے اس طرح دوستی
کے بارے میں بھی ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں:آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے اس
لیے تم میں سے ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ کس سے دوستی کر رہا ہے۔ (سنن
ترمذی،ابواب الذہد،باب،حدیث:2378)اسلام کی روشنی میں دوستی کے حقوق بیان کرتا ہوں۔
(1)اپنے لیے جو پسند
کرے دوست کے لیے بھی پسند کرے: انسان ہمیشہ اخلاقی و نفسیاتی اعتبار سے دوست کے
لیے ان چیزوں کو پسند کرے جو خود پسند کرتا ہو۔اگر وہ چاہتا ہے کی اس کی عزت کی
جائے تو اسے اپنے دوست کی بھی عزت کرنی چاہیے اور جو چیزیں خود کے لیے ناپسند کرے
وہ اپنے دوست کے لیے بھی ناپسند کرے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا:کوئی شخص کامل مؤمن نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کے لئے
وہی پسند کرے جو اپنی ذات کے لیے کرتا ہے۔(سنن ترمذی،ابواب الصفۃ القیامۃ و
الرقائق،باب،حدیث :2515)
(2) نیکی اور بھلائی کے کاموں میں تعاون: اللہ پاک قراٰنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے: ترجَمۂ
کنزُالایمان: اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو۔ (پ6، المآئدۃ:2)چنانچہ ایک دوست کو دوسرے دوست کے ساتھ
بھلائی کے کاموں میں تعاون کرنا چاہیے ایک دوسرے کی نیکی کے کاموں میں مدد کرنی
چاہیے۔ان کاموں میں بھی جن کا تعلق دنیاوی امور سے ہو مگر وہ جائز ہوں تو اس کام
میں بھی اپنے دوست کی مدد کرنی چاہیے۔
(3) برائی اور گناہ کے کاموں سے اجتناب: سورہ مائدہ کی اس آیت میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ترجمہ
کنزالایمان:"اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ دو۔(پ6،المآئدۃ:2)اس آیت
کریمہ میں واضح طور پر یہ بتایا گیا ہے کہ اہل ایمان کو دوستی کے باوجود بھی ان
کاموں میں اپنے دوست کا معاون نہیں بننا چاہیے جن کا تعلق اللہ پاک اور اس کے
پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کی نافرمانی کے ساتھ ہو،ناجائز اور حرام کاموں میں اپنے دوست کا تعاون نہیں کرنا
چاہیے بلکہ اسے اس کام سے روکنا اور منع کرنا چاہیے۔
(4)دکھ اور مشکل میں کام آنا: انسان کو دکھ اور تکلیف میں اپنے دوست کے کام آنا
چاہیے۔اگر اس کے گھر میں یا اس کے کسی رشتہ دار کی وفات ہوجائے تو اپنے دوست سے
تعزیت کرنا،ایسے موقع پر اس کا معاون بننا اس کی مدد کرنا اور اسے حوصلہ دینا
چاہیے۔اور اگر اس پر کوئی مشکل آجائے تو اس کی مدد کرنا،مثلا اگر وہ مقروض ہو اور
پریشان ہو تو اس کی مدد کرنا اپنی استطاعت کے مطابق۔
(5)موت کے بعد دوست کی مدد: اگر دوست فوت ہوجائے تو اس کے خاندان اور اگر اس کی اولاد
ہو تو ان سے تعزیت کریں، اپنے دوست کو کثرت سے ایصال ثواب کرنا چاہیے۔دوست کی
اولاد اگر مالی لحاظ سے کمزور ہے تو اگر استطاعت ہو تو ان کی مدد کی جائے۔دوست کے
لیے کثرت سے مغفرت کی دعا کرنی چاہیے۔
ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ دوستی کے حوالے سے حقوق کا
احساس نہیں کرتے اور اپنے دوست کو مشکل وقت میں تنہا چھوڑ دیتے ہیں۔اللہ پاک ہمیں
صحیح معنوں میں دوستی کے حقوق کو سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا
فرمائے۔نیک لوگوں سے دوستی کرنے اور بدمذہبوں اور برے لوگوں کی صحبت سے دور رہنے
کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ابو ثوبان عبدالرحمن عطّاری (درجۂ
سابعہ مرکزی جامعۃُ المدینہ فیضان مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور، پاکستان)
دوستی بہت ہی قیمتی اور اہم رشتہ ہے ۔انسان کے پاس دنیا کی
ساری آسائشیں اور سہولتیں ہوں مگر ایک مخلص دوست کی کمی ہو تو ایسا شخص زندگی میں
خوش نہیں رہ سکتا اور جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو اور صرف ایک سچا دوست ہو تو وہ اپنی
زندگی کو بہتر طریقے سے یوں بسر کرسکتا ہے کہ اپنی خوشی اور غم اپنے دوست کے ساتھ
بانٹ لیتا ہے،جو بات ماں باپ ، بہن بھائی سے شئیر نہیں کرسکتا دوست سے بلا جھجک
کہہ سکتا ہے ۔ دوست کوئی بھی ہوسکتا ہے کیونکہ سچی دوستی نہ تو شکل وصورت دیکھتی
ہے نہ عمر،نہ مال و دولت دیکھتی ہے نہ غربت بلکہ سچی دوستی ایک ایسا بندھن ہے جو
کسی بھی مقصد و لالچ کے بغیر ہوتی ہے۔
جہاں اسلام میں والدین،استاد،شاگر،زوجین وغیرہ کے حقوق بیان
کیے ہیں وہاں دوستوں کے حقوق بھی بیان کیے ہیں جن میں سے چند یہ ہیں:
(1) اصلاح کرے: اپنے دوست کو گناہ کرتایا بری عادت والا پائے تو اس کی اصلاح کرے۔﴿وَ ذَكِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ(۵۵) ﴾ترجمۂ کنزالایمان: اور سمجھاؤ کہ سمجھانا مسلمانوں کو
فائدہ دیتا ہے
(2) آخرت کی فکر کرے: ایک دوست کو چاہیے کہ و ہ اپنے ساتھ ساتھ اپنے دوست کی آخرت کی فکر کرے اگر
وہ فرائض و واجبات میں کوتاہی کرتا ہے تو اس کو اسکی ادائیگی کا ذہن دے بلکہ ان
کاموں میں اپنے ساتھ رکھے رسولِ پاک صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تم میں سے کوئی بُرائی دیکھے تو اُسے
اپنے ہاتھ سے بَدَل دے اور اگر وہ اِس کی قوّت نہیں رکھتا تو اپنی زَبان سے (روک
دے) پھر اگر وہ اس کی بھی طاقت نہیں رکھتا تو دل سے (بُرا جانے) اور یہ سب سے
کمزور ایمان کادَرَجہ ہے۔(مسلم،ص 48، حدیث: 177)
(3)مصیبت میں مدد کرے:ایک دوست،جب دوسرے دوست کو مصیبت میں پائے تو اس کی مدد کرے کہ فرمانِ مصطفےٰصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : جوکسی
مسلمان کی پریشانی دور کرے گا اللہ پاک قیامت کی پریشانیوں میں سے اس کی ایک
پریشانی دورفرمائے گا ۔(مسلم، ص1069، حدیث:6578)
(4)بیمار ہونے پر عیادت:اگر دوست بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت کرے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم
سے روایت ہے کہ سرور کونین صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :جو مسلمان کسی مسلمان کی عیادت کے لیے صبح کو
جائے تو شام تک اس کے لیے ستر ہزار فرشتے استغفار کرتے ہیں اور شام کو جائے تو صبح
تک ستر ہزار فرشتے استغفار کرتے ہیں اور اس کے لیے جنت میں ایک باغ ہوگا ۔ (سنن
الترمذی، رقم الحدیث:1971، 2، ص290 )
(5)دوست کی غم خواری: اگر دوست کے ساتھ کوئی سانحہ پیش آجائے مثلاً اس کے حقیقی والد یا کسی عزیز
کی وفات ہو جائے یا گھر والوں کی طرف سے اس کی دل آزاری کی گئی ہو یا اس کا مالی
نقصان ہو گیا ہو تو اس کی غم خواری کرے جیسا کہ حضرت جابر ہ سے روایت ہے کہ رسولُ
اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے فرمایا: جو کسی غم زدہ شخص سے تعزیت (یعنی اس کی غم خواری) کرے گا اللہ عز وجل
اسے تقوی کالباس پہنائے گا اور روحوں کے درمیان اس کی روح پر رحمت فرمائے گا اور
جو کسی مصیبت زدہ سے تعزیت کرے گا اللہ عزوجل اسے جنت کے جوڑوں میں سے دو ایسے
جوڑے پہنائے گا جن کی قیمت دنیا بھی نہیں ہوسکتی۔ (معجم الاوسط، ج 4، ص429، حدیث:
9392 )
(6)بیمار ہونے پر عیادت:اگر دوست بیمار ہو جائے تو سنت کے مطابق اس کی عیادت کرے اور بیمار کی عیادت
کرنے کا ثواب لوٹے جیسا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے روایت ہے کہ سرور
کونین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے فرمایا: جو مسلمان کسی مسلمان کی عیادت کے لیے صبح کو جائے تو شام تک اس کے لیے
ستر ہزار فرشتے استغفار کرتے ہیں اور شام کو جائے تو صبح تک ستر ہزار فرشتے
استغفار کرتے ہیں اور اس کے لیے جنت میں ایک باغ ہوگا ۔ (سنن الترمذی، رقم الحدیث :
1971،ج2، ص290)س
اللہ پاک سے دعا ہے ہمیں حقوق العباد کو بجا لانے کی توفیق
عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
دوستی انسانوں کے درمیان ایک رشتے اور تعلق کا نام ہے یہ
رشتہ محض عام تعلق نہیں بلکہ ایک ایسا تعلق ہے جو دو یا دو سے زیادہ انسانوں کو
محبت، سچائی ،تعاون ،اخلاص، باہمی تفاہم اور اعتماد کے رشتے میں ایک دوسرے سے
منسلک کرتا ہے۔ جب کسی سے دوستی اور بھائی چارے کا تعلق قائم ہو جائے تو کچھ حقوق
کا خیال رکھنا چاہیے۔چند زینت قرطاس کئے جا رہے ہیں ملاحظہ کیجئے:
(1) دوست تنگدست
ہو یا اسے مال کی ضرورت ہو تو اس پر ایثار کرے جیسا کہ اللہ تبارک و تعالی قراٰنِ
پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿ وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى
اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ﳴ﴾ ترجمۂ کنزالایمان:اور اپنی جانوں پر
ان کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ اُنہیں شدید محتاجی ہو (پ 28، الحشر : 9)
(2) نیکی اور بھلائی
کے کاموں میں تعاون کہ ایک دوست کو دوسرے دوست کے ساتھ بھلائی کے تمام کاموں میں
تعاون کرنا چاہیے اُن کاموں کا تعلق اگر دینی امور سے ہو تو اس صورت میں بھی اسے
اپنے دوست کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔اور اگر ان معاملات کا تعلق دنیاوی امور سے ہو
اور وہ کام شریعت کی رو سے جائز بھی ہوں تو ایسی صورت میں بھی اپنے دوست کے کام
آنا چاہیے۔ کہ اللہ پاک قرآن عظیم میں فرماتا ہے : ﴿وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى
الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى۪ ﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے
کی مدد کرو۔(پ6، المآئدۃ:2)
(3) معافی
اختیار کرنا کہ اگر دوست سے کوئی بھول چوک صادر ہو جائے تو اسے معاف کر دینا چاہیے
کہ بزرگان دین فرماتے ہیں کہ اگر تیرا کوئی بھائی قصور کر بیٹھے تو اس کی طرف سے
70 قسم کی عذر خواہی قبول کر۔
(4) علم دین
سکھانا کہ اگر دوست کو علم دین کی ضرورت ہو تو اسے علم دین سکھایا جائے تاکہ وہ اس
کے ذریعے گناہوں سے محفوظ رہے اور جہنم میں جانے سے بچ سکے کہ اپنے بھائی کو دوزخ
کی آگ سے بچانا بے حد ضروری ہے اور جو کچھ سکھائے اس پر عمل کرنے کی نصیحت بھی کرتا
رہے ۔
(5) دوست کو
تکلفات میں نہ ڈالا جائے کہ یہ دوستی ختم ہو جانے کا سبب بن جاتا ہے ایک دانا کا
قول ہے اگر تکلفات ساقط ہو جائیں تو الفت اور دوستی میں دوام پیدا ہوگا۔
(6) دوست کو
اسکی غلطیوں پر آگاہ کرنا کہ بہترین دوست وہی ہے جو اپنے دوست کو اس دنیا کی تاریک
اور بدصورت حقیقتوں سے بہاروں کی طرح نبرد آزما ہونا سکھائے، دوست کی غلطی کو غلط
اور اچھائی کو صحیح طریقے سے شناخت کرنے اور اسکے رویے کو بہتر بنانے کی غرض سے
پرخلوص ہو کر نصیحت کی جائے۔
(7) دوست کے
اہل خانہ کی عزت کرنا کہ ان پر بری نظر نہ رکھی جائے اور اگر کوئی دوسرا شخص ان پر
بری نظر رکھے ہوئے ہو تو اسے بھی مناسب انداز میں سمجھانے کی کوشش کرے کہ یہ دوست
کا اہم ترین حق ہے۔
اللہ کریم ہم سب کو بہترین دوست عطا فرمائے اور ہمیں اپنے
دوستوں کے لیے بہترین دوست بننے کی ہمت دے اور ہمارے دوستوں کی حفاظت فرمائے۔آمین
بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
غلام نبی عطّاری مدنی ( مرکزی جامعۃُ
المدینہ آفندی ٹاؤن حیدرآباد، پاکستان)
دوستی بہت
ہی اہم اور قیمتی رشتہ ہے، سارے رشتے قابل احترام ہیں لیکن دوستی کے رشتے میں الگ
ہی مروت و لحاظ پایا جاتا ہے، انسان کے پاس دنیا کی ساری سہولتیں ہوں مگر ایک سچے
وفادار دوست کی کمی ہو تو ایسا شخص زندگی خوشی سے گزار نہیں سکتا اور اگر کسی کے
پاس دنیا کی سہولتیں نہ ہوں مگر ایک اچھا دوست ہو تو وہ اپنی زندگی کو خوشی سے گزار
سکتاہےکیونکہ بہت سے لوگ اچھے دوستوں کی وجہ سے دنیا میں کامیاب رہے ہیں اور بعض
اوقات انسان خوشی غمی پریشانی مشکل وقت اور اس کے علاوہ جو باتیں ماں باپ بھائی بہن
سے بیان نہیں کرسکتا وہ اپنے دوست سے بلا جھجک شیئر کردیتا ہے، دوست کوئی بھی ہوسکتا
ے سچی دوستی میں شکل و صورت مال و دولت عمر و غربت نہیں دیکھی جاتی اور دوستی بغیر
لالچ و مقصد کے ہوتی ہے اور اچھے دوست کی صحبت دنیا و آخرت میں بھلائی کا سبب ہے
جبکہ برے دوست کی صحبت دنیا و آخرت میں تباہی کا سبب بن سکتی ہے، دوستی اور صحبت ہمیشہ
نیک، صالح اور قراٰن و حدیث پر عمل کرنے والوں سے کی جائے ، کیونکہ صحبت اثر رکھتی
ہے۔
اچھے اور بُرے دوست کی مثال اس حدیث پاک سے سمجھیے چنانچہ حضور
نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا ہے: اچھے برے ساتھی کی
مثال مُشک کے اٹھانے اور بھٹی دھونکنے(آگ بھڑکانے) والے کی طرح ہے، مُشک اٹھانے
والا یا تجھے ویسے ہی دے گا یا تُو اس سے کچھ خرید لے گا یا اس سے اچھی خوشبو پائے
گا اور بھٹی دھونکنے والا یا تیرے کپڑے جلادے گا یا تُو اس سے بدبو پائے گا۔(مسلم،
ص1084،حدیث 6692)لہٰذا ہمیں اچھے دوست کی صحبت اختیار کرنی چاہئے اور دوستوں کے
حقوق کا بھی خیال رکھنا چاہئے جن میں سے کچھ درج ذیل ملاحظہ فرمائیں:
(1) انسان جو اپنے
لیے پسند کرے وہ اپنے مسلمان بھائی (دوست) کے لئے پسند کرے : حضرت انس رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کوئی شخص کامل مؤمن نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ وہ
اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کرے جو اپنی ذات کے لیے پسند کرتا ہے۔
(2) نیک کاموں میں
مدد کرے گناہ کے کاموں مدد نہ کرے : اللہ پاک نے قراٰنِ پاک میں فرمایا ہے: نیکی اور
پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو اور اللہ
سے ڈرتے رہو بیشک اللہ کا عذاب سخت ہے۔(پ 6 ، المآئدۃ:2)لہٰذا ایک دوست کو دوسرے
دوست کے ساتھ بھلائی کے کاموں میں مدد کرنی چاہئے اور گناہ کے کاموں پر ایک دوسرے
کی مدد نہ کریں۔
(3) مشکل وقت میں
ساتھ دینا: دوستوں کو دکھ،تکلیف، پریشانی، مشکل حالات ، ایثار میں ایک دوسرے کا
ساتھ دینا جس طرح انصار نے مہاجرین کی ہرحال میں مدد کی اور ان کا ساتھ دیا۔ حضرت
علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں: بدترین دوست وہ ہے جس سے تجھے معذرت اور تکلف کرنے
کی ضرورت پڑے (کیمیائے سعادت، ص 301)
(4)وفائے دوستی کی
حفاظت کی جائے: وفاداری کا ایک معنی یہ ے کہ اپنے دوست کے ساتھ اچھے انداز سے کلام
کرنا نیک کاموں میں مدد کرنا اور اگر غلطی ہو جائے تو اسے معاف کردینا اس کی زندگی
اور وفات کے بعد دعا میں یاد رکھنا اور اس کی اولاد اور گھر والوں سے بھی حسن سلوک
کرنا اس میں غفلت نہ کرنا ہے ۔
ایک بوڑھی عورت حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوئی آپ نے اس کی
بڑی عزت کی لوگ اس عزت افزائی پر متعجب ہوئےآپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا یہ عورت میری زوجہ خدیجہ کے
زمانے میں ہمارے پاس آیا کرتی تھی کرم نوازی کا سلوک ایمان میں سے ہے۔(کیمیائے سعادت،
ص 301)
(5) دوستوں کو خود
سے بہتر جانے: حضرت ابو معاویہ الاسود نے فرمایا: میں اپنے تمام دوستوں کو اپنے سے
بہتر جانتا ہوں کیونکہ وہ ہر معاملے میں مجھے مقدم رکھتے ہیں اور میری فضیلت کا
اعتراف کرتے ہیں ( کیمیائےسعادت، 302)
دوستی کس سے کریں: امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کیمیائے سعادت میں لکھتے ہیں: ایسے شخص سے دوستی کی
جائے جس میں یہ 3 باتیں موجود ہو ں۔۱۔ عقلمند ہو کیونکہ احمق کی دوستی اور صحبت سے
کچھ فائدہ نہیں بلکہ انجام کار ندامت اور نقصان لاحق ہوتا ہے۔ ۲۔2 اچھے اخلاق والا
ہو کیونکہ بداخلاق سے سلامتی کی امید نہیں ہے اور جب اس کی بداخلاقی جوش پر آئے گی
تو تیرا حق اور مرتبہ ضائع کردے گا اور اسے کچھ پرواہ نہ ہوگی ۔ ۳۔ نیک ہو کیونکہ
جو گناہ پر اڑا ہوا ہوگا اس کو اللہ پاک کا خوف نہ ہوگا جو خوف خدا سے خالی ہو اس
پر بھروسہ کرنا ٹھیک نہیں ہے۔(کیمیائے سعادت،ص290 پروگریسوبکس)
اللہ پاک ہم سب کو دین و دنیا کی بھلائیاں نصیب کرے اور ہمارے
تمام دوستوں کو شادوآباد رکھے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد حمزہ اسلم(دورۂ حدیث جامعۃُ المدینہ
فیضان کنزالایمان کراچی، پاکستان)
اﷲ قراٰنِ مجید کی سورۂ انفال ایت نمبر 63 میں فرماتا ہے :اور
اس نے مسلمانوں کے دلوں میں الفت پیدا کردی۔ (پ10، الانفال:63)یعنی اگر انسان کسی
سے انسیت پاتا ہے تو اس میں اسکا کمال نہیں بلکہ یہ اللہ کا فضل ہے کہ اس نے ہماری
محبت لوگوں کے دلوں میں ڈال دی۔ انسان عموماً جن لوگوں سے مانوس ہوتا ہے اس میں
سرفہرست اس کے والدین ، اساتذہ، اپنی زوجہ و اولاد اور دوست ہیں۔
دوستی کے متعلق حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ جو شخص اللہ عزوجل کی رضا کے لئے کسی
کو اپنا بھائی بنائے تو اللہ عزوجل اسے جنت میں بلند درجہ عطا فرمائے گا جس تک وہ
اپنے کسی عمل کی بدولت نہیں پہنچ سکتا۔(مسند الشامیین للطبرانی،حدیث: 157)امام
غزالی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ ایک دوست کے دوسرے دوست پر کئی حقوق ہوتے ہیں جن
میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں:
پہلا حق مالی معاونت:مسلمان بھائی کی اپنے مال کے ذریعے مدد کی جائے اور اس کا سب سے کم در جہ یہ
ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کو غلام یا خادم کا مرتبہ دیں اور اس کی ضروریات اپنے بچے
ہوئے مال سے پوری کریں۔ مثلاً اگر اسے کوئی ضرورت پیش آئے اورضرورت سے زائد مال ہو
تو اس مال سے اس کی ضرورت پوری کریں۔ جب کہ اس کا سب سے بلند درجہ یہ ہے کہ اپنے
مسلمان بھائی کو خود پر ترجیح دی جائے اور اس کی حاجت کو اپنی حاجت پر مقدم جانیں۔
جیسا کہ حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما نے فرمایا: رسول اللہ صلی
اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کے اصحاب میں سے کسی کو بکری کا سر ہدیہ دیا گیا تو
انہوں نے یہ کہہ کر کہ ”میر افلاں بھائی اس کا مجھ سے زیادہ ضرورت مند ہے “ وہ سری
ان کی طرف بھیج دی، انہوں نے بھی یہی خیال کر کے آگے بھیج دی، اس طرح وہ سری ایک
سے دوسرے کو بھیجی جاتی رہی حتی کہ سات ہاتھوں سے گزر کر واپس پہلے صحابی کی طرف
لوٹ آئی۔
دوسرا حق بدنی معاونت:مالی معاونت کے ساتھ ساتھ مسلمان دوست کا حق یہ بھی ہے کہ خود اپنے ہاتھ پاؤں
کے ذریعے اس کے سوال سے پہلے اس کی حاجت پوری کی جائے۔ مروی ہے کہ حضرت سیدنا
عبداللہ بن عمر رضی الله تعالى عنهما سرکار صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی
بارگاہ میں حاضر تھے اور دائیں بائیں دیکھ رہے تھے ، رسول اللہ صلی اللہ تعالی
علیہ والہ وسلم نے اس کا سبب دریافت فرمایا تو عرض کی:میں ایک شخص کو محبوب رکھتا
ہوں ، اسے دیکھ رہاہوں نظر نہیں آرہا۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد
فرمایا: جب تمہیں کوئی اچھا لگے تو اس کا اور اس کے باپ کا نام پوچھ لو اور اس کے
گھر کا پتا معلوم کر لو، اگر وہ ببمار ہو تو اس کی عیادت کرو اور اگر کسی کام میں
مصروف ہو تو اس کی مدد کرو۔( شعب الایمان للبہیقی، حدیث:726)حضرت سید نا امام شعبی
رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: کسی کے
پاس بیٹھ کر یہ کہنا کہ میں اس کا چہرہ پہچا نتاہوں اس کا نام نہیں جانتا“ بیوقوفی
کی علامت ہے۔
تيسراحق خاموش رہنا:تیسرا حق دوست کا یہ ہے کہ کے اپنے دوست کے عیوب اور وہ باتیں جو اسے ناپسند
ہوں ان سے اجتناب کرنا اور خاموش رہنا مثلا دوست کے عیوب بیان کرنے سے زبان کو
روکے بلکہ مصنوعی ناواقفیت کا اظہار کرنا جب وہ گفتگو کر رہا ہو تو در میان میں
اپنی بات شروع نہ کی جائے۔ جب اسے راستے میں دیکھے یا کسی کام میں مشغول پائے تو
اس کی مشغولیت کے بارے میں سوال نہ کرے حتی کہ وہ خود بیان کر دے کیونکہ بعض اوقات
اپنی مصروفیت بیان کرنا دشوار ہوتا ہے اور انسان جھوٹ بولنے پر مجبور ہوجاتا ہے
وغیرہ ۔امام غزالی علیہ الرحمۃ احیاء العلوم میں فرماتے ہیں کہ مومن ہمیشہ اپنے
دوست کی خوبیوں کو سامنے رکھتا ہے تاکہ اس کے دل میں اپنے دوست کے لیے عزت، محبت
اور احترام پیدا ہو جبکہ منافق ہمیشہ برائیاں اور عیوب دیکھتا ہے۔
چوتھاحق خوبیاں بیان کرنا:انسان کو چاہئے کہ دوست کے سامنے اپنی دوستی و محبت کا اظہار کرے، حتی المقدور
اس کے معاملات سے باخبر رہے ۔ مثلاً اسے کوئی معاملہ درپیش ہو یا کسی سبب سے اس کا
دل بے چین ہو تو اسے دور کرنے کی کوشش کرے اور وقتاً فوقتاً اس کی خیریت معلوم
کرتا رہے۔حضرت سیدنا ابو سعید سفیان ثوری علیہ رحمۃ اللہ القوی فرمایا کرتے کہ جب
تم کسی سے بھائی چارہ قائم کرنا چاہو تو اسے غصہ دلاؤ پھر اس پر ایک شخص مقرر کرو
جو اس سے تمہارے اور تمہارے راز کے بارے میں پوچھے اگر وہ تمہارے بارے میں اچھے
کلمات کہے اور تمہارے راز چھپائے تو اسے دوست بنالو۔
اسی طرح اس کے اہل و عیال، ہنر، افعال حتی کہ اس کے اخلاق ،
شکل و صورت، تحریر اور اس کی ہر اس چیز کی تعریف کرنی چاہئے جس سے وہ خوش ہوتا ہے
لیکن یہ سب جھوٹ اور مبالغہ کے بغیر ہو جو تعریف کی جائے وہ بخوشی اور اس کے سامنے
بیان کریں کیونکہ تعریف چھپانا خالص حسد ہے۔ مزید یہ کہ اگر وہ کوئی بھلائی کرے یا
بھلائی کا ارادہ ہی کرے تو بھی اس کا شکر یہ ادا کریں اگر چہ کام مکمل نہ ہوا ہو۔
خلیفہ چہارم امیر المؤمنین حضرت سیدنا علی المرتضی کرم الله تعالی وجهہ الکریم نے
فرمایا: جو اچھا ارادہ کرنے پر اپنے مسلمان بھائی کی تعریف نہیں کرتا وہ اس کے
اچھے کام پر بھی اس کی تعریف نہیں کرتا۔
پانچواں حق دعا کرنا:دوستوں کے حقوق میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ اس کے لیے اس کی زندگی اور مرنے کے
بعد دعا کی جائے اورساتھ ہی اس کے اہل وعیال اور متعلقین کے لئے بھی دعا کا اہتمام
کیا جائے۔ اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ دعا اس طرح کی جائے کہ جس طرح اپنے لئے
کرتے ہیں کیونکہ اس کے لئے دعا کرنا حقیقت میں اپنے لئے دعا کرنا ہے۔ تاجدار
رسالت، شہنشاہ نبوت صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب آدمی اپنے
بھائی کے لئے اس کی غیر موجودگی میں دعا کرتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے کہ تیرے لئے بھی
اس کی مثل ہو ایک روایت میں ہے : اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے: اے میرے بندے میں
تجھ سے شروع کروں گا (یعنی پہلے تجھے عطا کروں گا)۔ لہذا اپنے دوست کے لیے خوب اور
خاص دعا کا اہتمام کیا جائے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ جب بھی دوستی کی جائے تو مقدم رضا الہی
ہو اور ایک مرتبہ جب کسی کو اپنا بھائی بنالے توپھر حتی الامکان دوستوں کے حقوق ادا
کرنے میں لگ جائے۔ مال اور بدن کے ذریعے اس کی مدد کی جاِئے۔ عیوب و غیبت کرنے سے
اپنی زبان کو روکے رکھے بلکہ اس کی تعریف کرے اور پھر اس کے لیے سچے دل سے دعا
کرے۔ اگر کوئی ان حقوق کو ادا کرنے میں کامیاب ہوگیا تو ان شاء ﷲ حدیث پاک میں جو
خوشخبری دی گئ ہے جنت میں بلند مقام کی، اسے حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
اللہ عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ خاتم النبیین
اعتصام شہزاد عطّاری (درجۂ ثالثہ مرکزی
جامعۃُ المدینہ فیضان عطار اٹک، پاکستان)
انسان زندگی کے سفر کے دوران مختلف سکولوں ، کالجوں ،
یونیورسٹیوں اور درسگاہوں سے گزرتے ہوئے پیشہ ورانہ زندگی میں داخل ہوتا ہے۔ اس
دوران اس کی ملاقات قسم قسم کے لوگوں سے ہوتی ہے ۔ بعض لوگوں کی طرف تو اس کی
طبیعت مائل ہوتی ہے اور بعض سے وہ احتراز کرنا شروع کر دیتا ہے۔ معاشرے میں جہاں
انسان کے اعزہ و اقارب اور اہل خانہ اس کی شخصیت کی تعمیر اور استحکام کا ذریعہ
ہیں ، وہیں اس کے دوست احباب بھی اس کی شخصیت کی تعمیر اور ترقی میں نمایاں کردار
ادا کرتے ہیں۔ اچھے اور مخلص دوستوں کا مل جانا یقیناً کسی نعمت سے کم نہیں اور
برے اور مفاد پرست دوستوں کا میسر آ جانا یقیناً انسان کےلئے ہر اعتبار سے خسارے
کا سبب ہے۔ لہذا جو لوگ اچھے اور مخلص دوستوں کو اختیار کرتے ہیں یقیناً وہ دنیا
اور آخرت کی بھلائیوں کو اپنے لیے سمیٹ لیتے ہیں۔ دنیا میں رہتے ہوئے جب انسان کسی
سے دوستی کرتا ہے تو اس حوالے سے اس پر بعض اہم ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں جن
میں سے چند زینتِ قرطاس کئے جا رہے ہیں توجہ سے پڑھئے:
(1)پہلا حق تو یہ ہے
کہ دوست کو جب بھی مال کی ضرورت ہو تو اس پر ایثار کرے۔ جیسے قرآنِ مجید میں
فرمایا: ﴿ وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ﳴ﴾ ترجمۂ
کنزالایمان:اور اپنی جانوں پر ان کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ اُنہیں شدید محتاجی ہو (پ
28، الحشر : 9)
(2) دوست اور ساتھی کی حاجات و ضروریات میں اس کے کہنے سے پہلے
اس کی مدد کرے اور خوش دلی اور کشادہ پیشانی کے ساتھ اس کی خدمت کرے۔ سلف صالحین
میں سے ایک بزرگ تھے جنہوں نے اپنے دینی بھائی کی موت کے بعد چالیس سال تک اس کے
بال بچوں کی خبر داری کا فریضہ ادا کیا۔
(3) دوستوں کے حقوق
میں ایک اہم حق زبان کا بھی ہے کہ وہ یہ کہ اپنے بھائیوں کے حق میں نیک بات کہے ان
کے عیب چھپائے۔ اگر کوئی پس پشت ان کی بد گوئی کرے تو اس کا جواب دے اور ایسا خیال
کرے کہ وہ دیوار کے پیچھے سن رہا ہے اور جس طرح یہ خود چاہتا ہے کہ وہ پس پشت اس کے
ساتھ وفادار رہے اس کے پس پشت یہ خود بھی اس کا وفادار رہے۔
(4) زبان سے شفقت
اور دوستی کا اظہار کرے، حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں:
إِذَا أَحَبَّ أحَدُكُمْ أَخَاهُ فَلْيُعْلِمُهُ ایاہ ترجمہ : جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے دوستی رکھتا ہو تو اس کو اس سے آگاہ
کر دے، یہ آپ نے اس لیے فرمایا ہے کہ اس کے دل میں بھی محبت پیدا ہو۔
(5) اگر اسے علم دین
کی ضرورت ہو تو سکھائے کہ اپنے بھائی کو دوزخ کی آگ سے بچاناد نیا کے رنج و الم سے
نجات دینے سے زیادہ اہم وضروری ہے۔ اگر اسے سکھایا پھر اس نے اس پر عمل نہ کیا تو
اسے سمجھائے نصیحت کرے اور خدائے تعالیٰ کا خوف دلائے۔
(6) اپنے دوست کو
دعائے خیر میں یاد رکھے اس کی زندگی میں بھی اور اس کی موت کے بعد بھی نیز اس کے
بال بچوں کے لیے بھی دعا کرتا رہے۔ جس طرح اپنے لیے دعا کرتا ہے۔ کیونکہ یہ دعا
حقیقتاً تو خود اپنے لیے کرے گا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے
ہیں: جو شخص اپنے بھائی کی عدم موجودگی میں اس کے لیے دعا کرتا ہے تو فرشتہ اس کی
دعا پر کہتا ہے خدا تجھے بھی ایسا ہی عطا کرے اور ایک روایت میں ہے کہ خدا تعالیٰ
فرماتا ہے میں اس دعا کے جواب میں عطا کرنے میں تجھ سے ابتدا کرتا ہوں۔( صحیح مسلم
، کتاب الدعوات ،حدیث: 2228)
(7) وفائے دوستی کی
حفاظت کی جائے، وفاداری کا ایک معنی یہ ہے کہ اس کے مرنے کے بعد اس کے اہل و عیال
اور دوستوں سے غفلت نہ برتے۔ ایک بوڑھی عورت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ
وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ آپ نے اس کی بڑی عزت کی لوگ اس عزت افزائی پر متعجب
ہوئے۔ آپ نے فرمایا یہ عورت میری زوجہ خدیجہ کے زمانے میں ہمارے پاس آیا کرتی تھی۔
کرم نوازی کا ایسا سلوک ایمان میں سے ہے۔
(8) دوست کے حق میں
تکلیف و بناوٹ کو قریب نہ آنے دے اور دوستوں کے درمیان بھی اسی طرح رہے جیسے اکیلے
رہتا ہے۔ اگر ایک دوسرے سے رعب و دبدبے سے پیش آئیں تو وہ دوستی ناقص ہے۔
(9) اپنے آپ کو اپنے
دوستوں سے کمتر خیال کرے اور ان کے ساتھ کسی معاملے میں رعب و تحکم کے ساتھ پیش نہ
آئے اور رعایت کی بات ان سے پوشیدہ نہ رکھے اور ان کے تمام حقوق ادا کرے۔
اللہ پاک ہمیں بھی اپنی رضا کے لیے دوستی اور بھائی چارہ
قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ سمجھدار، با اخلاق اور نیک مسلمانوں کے ساتھ دوستی
کرنے والا بنائے ۔ ہمارے ایمان، اخلاق اور نیک اعمال میں خرابی کا باعث بننے والے
دوستوں سے بچائے۔ کافروں، نافرمانوں، ظالموں اور فاسقوں کے ساتھ دوستی سے محفوظ
رکھے۔ دوستی اور بھائی چارے کے تمام حقوق کا خیال رکھنے کی سعادت دے۔ اٰمِیْن
بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
دوستی ایک اہم اور غیر معمولی طبعی تعلق ہے جو دوستوں کے
درمیان محبت، احترام اور وفاداری پر مبنی ہوتا ہے۔ دوستی کے حقوق اور واجبات کو
سمجھنا اور ان کو پورا کرنا ایک صحیح دوستی تعلق کے لئے بہت اہم ہے۔ یہاں کچھ اہم
دوستی کے حقوق درج کئے جا رہے ہیں ملاحظہ کیجئے:
احترام کا حق: دوستی کااہم ترین بنیادی حق ہے کہ آپ دوست کی عزت کریں اور ان کی توقعات کو
اہمیت دیں ان کے خیالات کو احترام سے سنیں اور مختلف نقطہ نظر کو قبول کریں۔
دوستانہ معاونت کا حق: دوستی میں ایک دوسرے کا ساتھ دینا اور مدد کرنا اہم ہے، دوست کی مشکلات میں
ان کا ساتھ دینا، ان کے ساتھ خوشیاں منانا اور ان کی مدد کرنا ایک دوست کا فرض ہے۔
وفاداری کا حق: دوستی میں ایک دوسرے کے ساتھ وفادار ہونا بہت اہم ہے، آپ کو دوست کے ساتھ
حقیقت میں ایک اچھا دوست ہونا چاہیے اور ان کے ساتھ کسی بھی حالت میں وفادار رہنا
ہے۔
خصوصی وقت دینے کا حق: دوستی میں دوست کے لئے وقت نکالنا اور ان کے ساتھ خصوصی وقت گزارنا بہت اہم
ہے۔ اپنے دوست کو احساس دلانا کہ آپ انہیں اہم سمجھتے ہیں اور ان کے لئے وقت نکال
سکتے ہیں۔
رازداری کا حق: دوستی میں رازداری ایک اہم اصول ہے، اپنے دوست کے ساتھ ان کا اعتماد رکھنا
اور ان کے راز کو محفوظ رکھنا ضروری ہے۔
اخلاص کا حق: دوستی میں اخلاص بہت اہم ہے، اپنے دوست کے ساتھ صرف نہیں دکھانا چاہئے بلکہ
اخلاص اور سچائی سے ان کے ساتھ رہنا ہے۔
بد دعا سے باز رہنے کا حق: دوستی میں اگر کبھی آپ کے دوست نے غلطی کی ہو، تو بد دعا کے بجائے ان کو معاف
کر دینا اور ان کے خوبصورت اور بہتر مستقبل کی دعا کرنا چاہئے۔
یہ دوستی کے حقوق مختلف معاشرتی تعلقات کے لئے مشترک ہیں،
دوستی ایک متبادل معاشرتی رشتہ ہے جس کو احترام، وفاداری، اخلاص اور محبت کے ساتھ
نبھانا چاہئے۔اللہ پاک عمل کی توفیق
عطا فرمائے۔ امین
حنین رضا
(درجۂ سادسہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ حسن و جمالِ مصطفیٰ کراچی، پاکستان)
اچھا دوست اللہ پاک کی دی ہوئی نعمتوں میں سے ایک ہے ،
دوستی کے چند حقوق بھی ہیں ملاحظہ کیجئے:
(1) ہر شخص کو اپنا اچھا دوست بنانا چاہئےیہ دوستوں کے حقوق
میں سے ہے ، اسی ضمن میں ایک حدیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں۔ ایک دوست کا دوسرے دوست
پر یہ حق ہے کہ وہ اپنے دوست کے دین کی حفاظت کرے،حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے
روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے : آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، لہٰذا
تم میں سے ہر ایک کو چاہئے کہ وہ دیکھے کس سے دوستی کررہا ہے۔ (ترمذی، کتاب الزہد،باب45،
4/167، حدیث:2385)
(2) دوست کا حق ہے کہ اسکی صحبت کی بھی حفاظت کرےکیونکہ اگر
دوست کی ہی صحبت درست نہیں ہو گی تو بندہ اپنی صحبت کیسے درست کرے گا، حضرت امام
جعفر صادق رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں : پانچ قسم کے آدمیوں کی صحبت اختیار نہ
کرو:(۱) بہت جھوٹ بولنے والا، کیونکہ تم اس سے صرف دھوکا کھاؤ گے (۲) بے وقوف
آدمی، کیونکہ اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا (۳) بخیل شخص، کیونکہ جب تمہیں اس کی زیادہ
ضرورت ہو گی تو وہ دوستی ختم کر دے گا(۴) بزدل شخص، کیونکہ یہ تم کو مصائب میں
چھوڑ دے گا(۵) فاسق شخص، کیونکہ وہ تم کو ایک لقمہ سے بھی کم قیمت میں بیچ دے گا (احیاء
علوم الدین، کتاب آداب الالفۃ والاخوۃ۔۔۔ الخ، الباب الاول فی فضیلۃ الالفۃ
والاخوۃ۔۔۔ الخ، بیان الصفات المشروطۃ فیمن تختار صحبتہ ،2/214، 215) اسی کے متعلق
حضرت مولانا معنوی قدّس سرّہ فرماتے ہیں :
صحبت صالح تُرا صالح کُنَد
صحبت طالح تُرا طالح کند
یعنی اچھے آدمی کی صحبت تجھے اچھا کر دے گی اور برے آدمی
کی صحبت تجھے برا بنا دے گی۔(صراط الجنان،پ5، النسآء:140، ج2)
(3)دوست کو اپنا
دوست سچا اور دیندار بنانا چاہئے نہ کہ ایسا دوست بنائے جو اسکے دین و دنیا کی
بربادی کا سب بنےاور دیندار دوست تلاش کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے حضرت عمر فاروق رضی
اللہُ عنہ فرماتے ہیں ’’سچے دوست تلاش کرو اور ان کی پناہ میں زندگی گزارو کیونکہ
وہ خوشی کی حالت میں زینت اور آزمائش کے وقت سامان ہیں اور کسی گناہگار کی صحبت
اختیار نہ کرو ورنہ اس سے گناہ کرنا ہی سیکھو گے (احیاء علوم الدین، کتاب آداب
الالفۃ والاخوۃ۔۔۔ الخ، الباب الاول فی فضیلۃ الالفۃ والاخوۃ۔۔۔ الخ، بیان الصفات
المشروطۃ فیمن تختار صحبتہ،2/214)
(4) اپنا دوست ایسا بنائیں جو کہ اپنے ساتھ ساتھ آپکو بھی
محبتِ الٰہی کی طرف راغب کرےیہ بھی دوستوں کے حقوق میں سے ہے ، اسی کے ساتھ ، دوست
کو ایسا ہونا چاہیے کہ وہ دوست اپنے دوست کے دنیا و آخرت دونوں میں کام آئے قیامت
کے دن نفسانی دوستی فائدہ نہ دے گی، یاد رہے کہ اس آیت میں نفسانی اورطبعی دوستی
کی نفی ہے اور ایمانی دوستی جومحبتِ الٰہی کے سبب سے ہو وہ باقی رہے گی جیسا کہ
سورہ زخرف کی آیت نمبر 67 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿اَلْاَخِلَّآءُ یَوْمَىٕذٍۭ بَعْضُهُمْ
لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَؕ۠(۶۷)﴾ ترجمۂ
کنزالایمان:گہرے دوست اس دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے مگر پرہیزگار۔
(پ25، الزخرف:67)
اللہ تعالیٰ کے نیک
بندوں سے محبت و دوستی ہی قیامت کے دن کام آئے گی اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ
تعالیٰ کی رضا کی خاطر ایمان والوں کی آپس میں محبت اور دوستی قیامت کے دن کام
آئے گی۔
(5) ہر مسلمان کو
چاہئے کہ وہ نیک اور پرہیز گار بندوں کو اپنا دوست بنائے اور ان سے محبت رکھے تاکہ
آخرت میں ان کی دوستی اور محبت کام آئے۔ (صراط الجنان، پارہ 25)﴿اَلْاَخِلَّآءُ یَوْمَىٕذٍۭ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا
الْمُتَّقِیْنَؕ۠(۶۷)﴾ ترجمۂ
کنزالایمان:گہرے دوست اس دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے مگر پرہیزگار۔
(پ25، الزخرف:67)
(6) پنے دوست کے ساتھ وفادار رہیں اور ان کی مدد اور حمایت
کریں، چاہے وہ خوشی کے وقت ہو یا مشکلات کے وقت ہو ۔
پولیس ٹریننگ اسکول سرگودھا میں جشنِ ولادت کے
سلسلے میں اجتماعِ میلاد کا انعقاد
شعبہ رابطہ برائے شخصیات دعوتِ اسلامی کے تحت 16
اکتوبر 2023ء بروز پیر پولیس ٹریننگ اسکول سرگودھا میں جشنِ ولادت کے سلسلے میں
اجتماعِ میلاد کا انعقاد کیا گیا جس میں ڈپٹی سپریڈنٹ آف پولیس PTS مہر
ناصر محمود خان، چیف لاء انسٹرکٹر محمد سلیم خانود، پولیس ٹریننگ اسکول کے ٹرینرز،
اسٹاف اور انڈر ٹریننگ کثیر سینئر کورس و جونیئر کورس
کے افسران نے شرکت کی۔
نگرانِ ڈویژن سرگودھا محمد عادل عطاری نے سنتوں بھرا بیان کیا جس میں انہوں نے ماہِ میلاد کی مناسبت سے چند واقعات بتائے
اور شرکا اسلامی بھائیوں کو سیرتِ رسولِ عربی کو اپنانے کا ذہن دیا۔
اس دوران نگرانِ ڈویژن مشاورت نے تمام شرکا کو
دعوتِ اسلامی کے مختلف دینی کاموں میں
شمولیت اختیار کرنے کی ترغیب دلائی جس پر انہوں نے اچھی اچھی نیتیں کیں۔
بعدازاں ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹس کے درمیان سیکھنے
سکھانے کا حلقہ لگایا گیا جس میں مبلغِ دعوتِ اسلامی نے شرکا کو مدنی مرکز فیضانِ
مدینہ کا وزٹ کرنے کی دعوت دی۔
اس موقع پر شان حسنین عطاری( شعبہ رابطہ برائے شخصیات سرگودھا ڈویژن ذمہ دار) سمیت دیگر اہم ذمہ دار اسلامی بھائی بھی موجود تھے۔(رپورٹ: شہزاد عطاری شعبہ رابطہ برائے شخصیات پنجاب آفس ،
کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)
عاشقانِ
رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے تحت 28 ربیع الاول 1445ھ بمطابق 14 اکتوبر
2023ء ہفتہ کی شب عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ کراچی میں مدنی مذاکرے کا انعقاد کیا
گیا۔
مدنی
مذاکرے کا آغاز معمول کے مطابق تلاوتِ قراٰن اور نعتِ رسولِ مقبول صلی
اللہ علیہ و سلم
سے ہوا جبکہ شیخ طریقت امیر اہلسنت علامہ محمد الیاس عطار قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ نے عاشقانِ رسول کی جانب سے ہونے والے سوالات کے
جوابات دیئے۔
مدنی مذاکرے کے چند مدنی پھول ملاحظہ کیجئے:
سوال: مایوسی
کا کیامطلب ہے ؟
جواب: مایوسی کئی قسم کی ہوتی ہے ،بعض
اوقات بندہ کوئی کام باربارکرتاہے مگراس کام کو نہیں کرپاتاجس سے وہ مایوس
ہوجاتاہے کہ یہ کام مجھ سے نہیں ہوگا ۔یہ مایوسی خطرناک نہیں ۔جو مایوسی خطرناک ہے
وہ اللہ پاک کی رحمت سے مایوس ہونا ہے ۔اللہ پاک کی رحمت سے کبھی بھی مایوس نہیں ہوناچاہئے۔ اللہ پاک سے توبہ کرتے
رہناچاہئے،اس کی رحمت اُس کے غضب پر حاوی ہے ۔
سوال:حدیثِ
قدسی کسے کہتے ہیں؟
جواب:حدیث ِقدسی سے مرادیہ ہے کہ وہ کلمات جو زبان ِمصطفیٰ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم )سے اداہوں
مگروہ فرمان اللہ
پاک کا ہو۔
سوال : بات بات پر قسم کھانا
کیساہے ؟
جواب : قسم کی کثرت نہیں کرنی چاہئے ،امام شافعی رحمۃ
اللہ علیہ نے کبھی سچی قسم بھی نہیں کھائی ۔سچی قسم بھی
بِلاضرورت نہ کھائی جائے ۔زیادہ قسمیں کھانے سے عزت میں بھی کمی واقع ہوتی ہے ۔بہت
ڈرڈر کربڑی احتیاط کے ساتھ گفتگوکی جائے
۔زیادہ گفتگوکرنے والاہوسکتاہے زبان سے کئی گناہ کر ڈالتاہو۔آجکل حالات
اتنے بگڑگئے ہیں کہ گویا لوگ مٹھیاں بند کرکے جہنم کی طرف بھاگے چلے جارہے ہیں ۔
سوال: کیا
بزرگی
کا تعلق عمراورمالداری کا تعلق مال سے
ہے ؟
جواب: نہیں
،بزرگی علم وعقل سے ہوتی ہے عمرسے نہیں ،مالداری
دل سے ہوتی ہے مال سے نہیں ہوتی ۔
سوال: سمجھانے کا اندازکیساہونا چاہئے ؟
جواب: مُصْلِح (سمجھانے والے )تو بہت ملیں گے مگردرست سمجھانے
والے کم ہیں ،ہربیماری کاعلاج آپریشن نہیں ہوتا،عموماًسمجھانے والے کا اندازجارحانہ ہوتاہے۔ مصلحانہ وحکیمانہ اورنرم
نہیں ہوتا۔مدنی قافلے میں سفر، نیک اعمال کے رسالے پر عمل اورامام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی
کتابیں پڑھتےرہنے سے سمجھانے کا درست اندازآسکتاہے ۔
سوال: بڑی گیارہویں شریف کے مہینے( ربیع الاخر )میں نفل روزے رکھنے
والوں کے لیےآپ کیا فرماتے ہیں؟
جواب: بڑی گیارہویں شریف کے مہینے میں نفل روزے رکھنے والوں کے لیے ایک پیکج (Package)بنایا گیاہے جس میں
11 روزے رکھنے والاممتازکیفیت ،6 والابہتر کیفیت اور4 والا مناسب کیفیت کے
درجے میں شمار ہوگا ۔
سوال : کراچی شہر کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں ؟
جواب :
کراچی پاکستان کےلیے عُروسُ الْبِلاَد(شہروں کی دُلہن)ہے ۔مدارس المدینہ( کراچی) سے سورۂ خلاص ،درودشریف وغیرہ کی کارکردگی فوراًآنا
شروع ہوجاتی ہے ،جامعۃ المدینہ( کراچی) سےبھی کارکردگی آتی ہے ۔
سوال: چاندگہن کے وقت کیا کسی چیز کے کاٹنے سے
کوئی نقصان ہوتاہے ؟
جواب: نہیں
، ایسی کوئی بات نہیں ۔
سوال: کیا ہر
ماہ مدنی قافلے میں سفرکے لیے تاریخ
فکس کر لینی چاہئے؟
جواب: جی
ہاں ! ہرکسی کو چاہئے کہ کوئی جمعہ(جمعہ،ہفتہ،اتوار) مدنی قافلے میں سفرکے لیے فکس کرلے
،اس طرح نہ کیا تو پھر سفرکرنا بُھول بھی
سکتاہے ۔
سوال: اِس ہفتے کارِسالہ ” واہ کیا بات غوثِ اعظم کی “ پڑھنے یاسُننے والوں کوامیراہل سنت دامت برکاتہم العالیہ نے کیا دُعا دی ؟
جواب: یاربَّ المصطفٰے! جو کوئی 28 صفحات کا رسالہ ”واہ کیا
بات غوثِ اعظم کی “ پڑھ یا سُن
لے، اُسے بد عقیدگی اور بڑے خاتمے سے بچااور اُس کی ماں باپ سمیت بے حساب مغفرت فرما۔اٰمِیْن بِجَاہِ خاتم النَّبِیِّین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ۔
پنجاب پاکستان کی تحصیل منکیرہ، ضلع بھکر میں
قائم میونسپل کمیٹی آفس میں 14 اکتوبر
2023ء بروز ہفتہ دعوتِ اسلامی کے تحت اجتماعِ میلاد کا انعقاد ہوا جس میں سرکاری
افسران بالخصوص چیف آفیسر منکیرہ محمد عمر ریاض سمیت دیگر اسٹاف نے شرکت کی۔