دوستی ، بھائی چارہ اور ملاقات الفت و محبت کا باعث ہیں اور الفت قوت کا سبب ہے اور قوت تقویٰ کا سبب ہے اور تقویٰ ممنوعہ چیزوں سے بچاتا ہے۔ بری چیزوں سے روکتا ہے، مرغوب چیزوں کی طرف مائل کرتا ہے اور مقاصد میں کامیابی عطا کرتا ہے۔( دین ودنیا کی انوکھی باتیں ،1/ 276 )

فرمان امیر المومنین حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کرم الله وجہہ الکریم ہے کہ بندہ بغیر دوست کے ایسا ہے جیسے الٹی جانب سیدھی جانب کے بغیر (دین دنیا کی انوکھی باتیں ، 1/ 277)

اچھا نیک اور مخلص دوست اس چھتری کی طرح ہوتا ہے۔ جو تیز بارش میں سائبان بن کر انسان کو بھیگنے سے بچاتی ہے مصیبتوں کی یلغار ، غموں کی آندھی اور طوفانِ رنج والم میں دوست جائے قرار ، سکونِ قلب ہوتا ہے۔

دین اسلام میں جہاں دیگر حقوقُ العباد کو بڑے حسن و خوبی سے بیان کیا گیا ہے۔ وہیں "دوستوں کے حقوق " کے بارے میں بھی تعلیمات اسلامیہ بیان کی گئیں ہیں۔ جن پر عمل کر کے انسان دوستوں کے حقوق صحیح و درست طریقے سے ادا کر سکتا ہے۔ ان میں سے چند حقوق درج ذیل ہیں:

(1) بری بات سے گریز کرنا: یہ حق اپنے بھائی کے سامنے بری بات سے گریز کرنے کے بارے میں ہے۔ لہٰذا اس کے سامنے ایسی بات نہ کہے جو اسے ناپسند ہو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:'' حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کسی کے منہ پر ایسی بات نہ کہتے جو اسے ناپسند ہو۔(الشمائل المحمدیۃ للترمذی ،باب ماجاء فی خلق رسول اللہ ،ص 197،حدیث329)

پس جان لو! اگر تم ہر عیب سے پاک شخص تلاش کرو گے تو اپنے لئے کوئی دوست نہ پاؤ گے۔ حضرت سیِّدُناامام شافعی علیہ رحمۃُ اللہ الکافی ارشاد فرماتے ہیں: کوئی مسلمان ایسا نہیں جو اللہ پاک کی اطاعت کرتا ہوا ور اس کی نافرمانی نہ کرتا ہو اور کوئی مسلمان ایسا نہیں جواس کی نافرمانی کرتا ہو لیکن فرمانبرداری نہ کرے، جس کی اطاعت اس کی نافرمانیوں پر غالب ہو تو یہ عدل ہے۔(لباب الاحیاء،ص 157)

(2) تعریف کرنا: اس کا مطلب یہ ہے کہ اُس کی ایسی تعریف کرے جس سے وہ خوش ہوتا ہو لیکن حق سے تجاوز نہ ہو۔ اللہ کے مَحبوب، صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کافرمانِ اُخُوت نشان ہے: اِذَا اَحَبَّ اَحَدُکُمْ اَخَاہُ فَلْیُخْبِرْہُ ترجمہ: جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے محبت کرے تواسے بتادے ۔(لباب الاحیاء،ص 158)

آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یہ اس لئے فرمایا کیونکہ یہ چیز محبت میں اضافے کا باعث ہے اور اس معنی میں بڑی اچھی بات کہی گئی ہے:

خُذْ مِنْ خَلِیْلِکَ مَا صَفَاوَدَعِ الَّذِیْ فِیْہِ الْکَدَرُ فَا لْعُمْرُ اَقْصَرُ مِنْ مُّعَاتَبَۃِ الْخَلِیْلِ عَلَی الْغَیَرُ

ترجمہ: اپنے دوست سے اچھی باتوں کو قبول کرو اور اس میں جو بری باتیں ہوں انہیں چھوڑ دو کیونکہ زندگی اتنی نہیں کہ تم دوسری باتوں پر دوستوں کو ملامت کرتے رہو۔

(3) وفا اور خلوص: یعنی اپنے بھائی سے اخلاص اور وفا کے ساتھ پیش آنا اور اس سے مراد یہ ہے کہ اس کی محبت پر ثابت قدم رہے اور اس کے مرنے تک اس پر مداومت اختیار کرے اور اس کی وفات کے بعد اس کی اولاد اور دوستوں سے دوستی رکھے ۔

حدیث ِپاک میں ہے کہ نبئ اَکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں ایک بوڑھی عورت حاضر ہو ئی تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس کی تکریم کی۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے اس بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اِنَّھَا کَانَتْ تَأْتِیْنَا اَیَّامَ خَدِیْجَۃَ ترجمہ: یہ عورت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی زندگی میں ہمارے پاس آیا کرتی تھی۔


بچہ جب پیدا ہوتا ہے۔ آنکھیں کھولنے کے بعد اپنے ماں باپ کو پہچانتا ہے ان کے ساتھ انسیت رکھتا ہے پھر جب تھوڑا سا بڑا ہوتا تو مزید انسیت کے لیے اپنے دوست بناتا ہے۔ اگر یہ دوستی رضائے الٰہی کے لیے ہو تو اس پر بھی عظیم ثواب دیا جائے گا کیونکہ دینِ اسلام میں دوستی کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ جس طرح کہ حدیث مبارکہ ہے: جو شخص اللہ پاک کی رضا کے لیے کسی کو اپنا بھائی بنائے تو الله پاک اسے جنت میں بلند درجہ عطا فرمائے گا جس تک وہ اپنے کسی عمل کی بدولت نہیں پہنچ سکتا (مسند الشامیین للطبرانی، 1/105، حدیث:157) یہ درجہ اسے ملے گا جس کی دوستی صرف رضائے الٰہی کے لیے ہو مثلاً کسی کا اپنے استاد اور شیخ سے اس لیے محبت کرنا کہ ان کے ذ ریعے وہ علم حاصل کر کے اچھے اعمال کر سکے اور علم و عمل سے اس کا ارادہ آخرت میں کامیابی پانا تو یہ محبت رضائے الٰہی والی ہے۔

ہمارے معاشر میں ہر طبقے کے کچھ نہ کچھ حقوق ہوتے ہیں اسی طرح دستوں کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں۔ آئیے ان میں سے بعض کا مطالعہ کرتے ہیں:

(1) مالی معاونت: دوست کی مالی معاونت بھی ہم پر ضروری ہوتی ہے جیسا کہ رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : دو بھائیوں کی مثال دو ہاتھوں کی طرح کہ ایک دوسرے کو دھوتا ہے۔ (الترغیب فی فضائل الاعمال لابن شاہین ، 1 / 493 حدیث : 433 ) یعنی جس طرح دونوں ہاتھ ایک مقصد میں تعاون کرتے ہیں اسی طرح دو مسلمان بھائی بھی ایک مقصد میں موافقت کرتے ہیں۔

(2) بدنی معاونت: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ حضور علیہ السّلام نے فرمایا: جو اپنے کسی اسلامی بھائی کی حاجت روائی کے لئے چلتا ہے اللہ عزوجل اس کے اپنی جگہ واپس آنے تک اس کے ہر قدم پراس کے لئے ستر نیکیاں لکھتاہے اور اس کے ستر گناہوں کو مٹا دیتاہے ۔ پھر اگر اس کے ہاتھو ں وہ حاجت پوری ہوگئی تو وہ اپنے گناہوں سے ایسے نکل جاتا ہے جیسے اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا اور اگر اس دوران اس کا انتقال ہو گیا تو وہ بغیر حساب جنت میں داخل ہوگا ۔(التر غیب والترھیب )

(3)خاموش رہنا : دوست کے عیوب اور نا پسندیدہ باتیں بیان کرنے سے خاموش رہنا۔

(4) خوبیاں بیان کرنا: جس طرح دوستی دوست کے عیوب بیان کرنے پر خاموش رہنے کا تقاضا کرتی ہے ایسے ہی اس کی خوبیاں بیان کرنے کا بھی تقاضا کرتی ہے کیونکہ کسی کی تعریف کو چھپانا خالص حسد ہے۔

(5) دعا کرنا: دوست کی غیر موجودگی میں اس کے لیے دعا کی جائے مروی ہے کہ آدمی کی اپنے بھائی کے حق میں اس کی غیر موجودگی میں کی گئی دعا رد نہیں ہوتی ۔(صحیح مسلم، کتاب الذكر و الدعا، حديث: 2733 )

پیارے پیارے اسلامی بھائیو! ہمیں بھی دوستی صرف اور صرف رضائے الٰہی کی خاطر کرنی چاہیے۔ کیونکہ اس میں دین و دنیا کی کامیابی ہے۔


تمام تعریفیں اللہ پاک کے لیے ہیں جو حکمت والا بادشاہ ، جواد و کریم ، غالب اور رحم فرمانے والا ہے جس نے اپنی قدرت سے آسمان و زمین کو پیدا فرمایا۔ اُسی نے انسان کو اچھی صورت پر بنایا۔ پھر انسان کو آدابِ زندگی سے آشنا فرمایا ،پھر انسان کو ایسی فطرت پر پیدا فرمایا کہ اس کا تنہا زندگی گزارنا محال ہو گیا اور انسانی ضروریات کو دوسروں کے ساتھ یوں مربوط فرمایا کہ دوسروں کے ساتھ مل جل کر رہنا اس کے لیے لازم ہو گیا۔ اور انسان کو ایسی طبیعت پر پیدا فرمایا کہ وہ جس کی صحبت میں رہتا ہے اس سے اثر انداز ہوتا ہے۔ لہذا انسان کو چاہیے کہ وہ نیک اور متقی لوگوں سے دوستی کرے اور انہیں کی صحبت اختیار کرے کیونکہ بروزِ قیامت بری دوستی دشمنی میں بدل جائے گی۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالٰی ہے: ﴿اَلْاَخِلَّآءُ یَوْمَىٕذٍۭ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَؕ۠(۶۷) ﴾ ترجمہ کنزالایمان : گہرے دوست اس دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے مگر پرہیزگار ۔ (پ25، الزخرف: 67)

اس آیت کے متعلق تفسیر کبیر میں ہے کہ دنیا میں جو دوستی کفر اور معصیت (یعنی گناہ) کی بنیاد پر تھی وہ قیامت کے دن دشمنی میں بدل جائے گی۔ جبکہ دینی دوستی اور وہ محبت جو اللہ پاک کے لیے تھی دشمنی میں تبدیل نہ ہوگی۔ ( تفسیر کبیر،9/641، سورہ زخرف، تحت الآیۃ : 67 )

معلوم ہوا کہ برے لوگوں کے ساتھ دوستی لگانا شرعاً ممنوع ہے۔ خصوصاً کفار کو دوست بنانے کی مذمت میں اللہ پاک نے قراٰنِ مجید میں ارشاد فرمایا: ﴿ لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَۚ-وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰهِ فِیْ شَیْءٍ اِلَّاۤ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْهُمْ تُقٰىةًؕ-وَ یُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهٗؕ-وَ اِلَى اللّٰهِ الْمَصِیْرُترجمۂ کنزُالعِرفان: مسلمان مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں اور جو کوئی ایسا کرے گاتو اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں مگر یہ کہ تمہیں ان سے کوئی ڈر ہو اور اللہ تمہیں اپنے غضب سے ڈراتا ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے۔ ( پ 3 ، اٰل عمرٰن:28)

برے دوست کی مذمت میں کئی احادیث بھی مروی ہیں۔ چنانچہ سرورِ کونین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : برے ساتھی سے بچو کیونکہ وہ جہنم کا ایک ٹکڑا ہے۔ اس کی محبت تمہیں فائدہ نہیں پہنچائے گی اور وہ تم سے اپنا وعدہ پورا نہیں کرے گا۔(فردوس الاخبار، 1/ 224 ، حدیث : 1573)

پیارے اسلامی بھائیو! دوست کی صحبت اس قدر اثر انداز ہوتی ہے کہ حدیث مبارکہ میں فرمایا گیا: الرجُل عَلَی دینِ خَلِيلہ ، فَلْيَنظُرُ أَحَدُكُمْ مَنْ يُخَالِلُ ترجمہ آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے لہذا تم میں سے ہر ایک کو چاہیے کہ وہ دیکھے کسی سے دوستی کر رہا ہے ۔(ترمذی ، کتاب الزہد ، ص : 566 حدیث :2378)

یعنی عموماً انسان اپنے دوسنت کی سیرت اور اخلاق اختیار کر لیتا ہے اور کبھی اس کا مذہب بھی اختیار کر لیتا ہے۔ لہذا اچھوں سے دوستی رکھیں تاکہ آپ بھی اچھے بن جائیں اور کسی سے دوستی کرنے سے پہلے اسے اچھی طرح جانچ لیں کہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرما نبردار ہے یا نہیں۔

صوفیائے کرام فرماتے ہیں: انسان کی طبیعت میں اخذ (یعنی لینے) کی خاصیت ہے، حریص کی صحبت سے حرص اور زاہد کی صحبت سے زہد و تقوی ملے گا ( لہذا ہر ایک کو چاہیے کہ کسی کو دوست بنانے سے پہلے خوب غور و فکر کرے اور جانچ لے کہ میں کسے دوست بنا رہا ہوں)۔( مرآة المناجیح، 6/ 599 بتغير قلیل)

اچھے دوست کی مثال مشک اٹھانے والے کی سی ہے۔ جیسا کہ سرورِ دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اچھے اور برے دوست کی مثال مشک اٹھانے والے اور بھٹی دھونکنے والے کی طرح ہے ، مشك اٹھانے والا تمہیں تحفہ دے گا یا تم اس سے خریدو گے یا تمہیں اس سے عمدہ خوشبو آئے گی جبکہ بھٹی جھونکنے والا یا تمہارے کپڑے جلائے گا یا تمہیں اس سے ناگوار بو آئے گی ۔ (بخاری ، کتاب الذبائح والصیدوالتسمیۃ علی الصید ، باب المسک ، 3 / 567 ، حدیث : 5534 )

اس لیے ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ نیک بندوں سے تعلقات بنائے اور ان کی محبت اختیار کرے۔

دین دار دوست کی تلاش کی ترغیب دیتے ہوئے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرما نے فرمایا : سچے دوست تلاش کرو اور ان کی پناہ میں زندگی گزارو کیونکہ وہ خوشی کی حالت میں زینت اور آزمائش کے وقت سامان ہیں اور کسی گنہگار کی صحبت اختیار نہ کرو ور نہ اس سے گناہ کرنا ہی سیکھو گے ۔(احیاء العلوم، کتاب آداب الافتہ الخ ، باب اول، 2/ 212 ملتقطًا )

اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں برے دوستوں سے بچنے اور نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


جس طرح حقوقُ اللہ کی ادائیگی ہم پر ضروری ہے اسی طرح حقوقُ العباد بھی ہم پر ضروری ہیں حقوقُ العباد میں سے دوستوں کے حقوق بھی ہے جن میں سے چند درج ذیل ہے:

(1) دوست کے حقوق میں سے یہ ہے کہ جب وہ مصیبت میں ہو تو ہمیں اس کی مدد کرنی چاہئے ۔ اس بارے میں حدیث ہے کہ ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :جو کسی مسلمان کو دنیاوی تکلیف سے رہائی دے تو اللہ اس سے روزِ قیامت کی مصیبت دور کرے گا۔تشریح : یعنی تم کسی کی فانی مصیبت دفع کرو اللہ تم سے باقی مصیبت دفع فرمائے گا ، تم مومن کو فانی دنیوی آرام پہنچاؤ اللہ تمہیں باقی اخروی آرام دے گا۔( مرأة المناجيح شرح مشكوة المصابيح ،جلد : 1 ،حدیث: 204)

(2)دوستوں کے حقوق میں سے یہ ہے کہ دوست کو کوئی طعنہ نہ دیں یا ایسی بات نہ کریں جس سے دوستی متاثر ہو ۔ اس بارے میں حدیث یہ ہے کہ ابن مسعود سے روایت ہے رسول ُاللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مؤمن نہ تو طعنہ باز ہوتا ہے اور نہ لعنت باز نہ فحش گو نہ بے حیا ۔ تشریح: یعنی یہ عیوب سچے مسلمان میں نہیں ہوتے، اپنے عیب نہ دیکھنا دوسرے مسلمان کے عیب ڈھونڈنا، ہر ایک کو لعن طعن کرنا اسلامی شان کے خلاف ہے ۔ (مرآۃ المناجيح شرح مشكوة المصابيح، جلد : 6 حدیث : 4847)

(3) دوستوں کے حقوق میں سے یہ ہے کہ اس کے بارے میں بد گمانی نہیں کرنی چاہئے اس بارے میں حدیث ہے کہ ابوہریرہ سے روایت ہے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : اپنے آپ کو بد گمانی سے بچاؤ کہ بد گمانی بد ترین جھوٹ ہے۔تشریح : بدگمانی شیطان کی طرف سے ہوتی ہے۔ شیطان بڑا جھوٹا ہوتا ہے اس کے جھوٹ بھی بڑے ہوتے ہیں ۔ (مرآۃ المناجیح ،1/10)

(4)دوستوں کے حقوق میں سے یہ ہے کہ اپنے دوست کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے۔ اس بارے میں حدیث ہے کہ انس بن مالک سے روایت ہے کہ میں نے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے ہوئے سنا: جس شخص کو یہ اچھا لگے کہ اس کی روزی میں برکت ہو اور عمر درازی ہو اس کو چاہئے کہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے۔تشریح : یعنی جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کے رزق میں برکت ہو اور لمبی عمر ہو تو وہ لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے ۔ (مرأۃ المناجیح ،جلد 1 حدیث: 36)

(5) دوستوں کے حقوق میں سے یہ ہے کہ ہمیں اپنے دوست کی نیک کاموں میں مدد کرنی چاہیے۔ اللہ پاک قراٰن میں ارشاد فرماتا ہے : ﴿وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪ ﴾ترجمہ ٔکنزُالعرفان : اور نیکی اور پرہیز گاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو ۔(پ 6 ،المآئدۃ : 3 )

تفسیر صراط الجنان میں مفتی قاسم صاحب اس آیت کے تحت فرماتے ہیں کہ اس آیت میں اللہ پاک نے نیکی اور پرہیز گاری پر مدد کرنے کا حکم دیا ہے ۔ تقوی سے مراد ہر اس کام سے بچنا ہے جس سے شریعت نے روکا ہے۔ (تفسیر صراط الجنان، جلد : 2 )


﴿اَلْاَخِلَّآءُ یَوْمَىٕذٍۭ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَؕ۠(۶۷) ترجمہ کنزالایمان : گہرے دوست اس دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے مگر پرہیزگار ۔ (پ25، الزخرف: 67)تفسیر صراط الجنان میں اس آیت کے تحت لکھا ہے کہ دنیا میں جو دوستی کفر اور مَعصِیَت کی بنا پر تھی وہ قیامت کے دن دشمنی میں بدل جائے گی جبکہ دینی دوستی اور وہ محبت جو اللہ پاک کے لئے تھی دشمنی میں تبدیل نہ ہو گی بلکہ باقی رہے گی۔

(1) اچھے اور برے دوست کی مثال : حضرتِ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : اچھے اور برے دوست کی مثال مشک اٹھانے والے اور بھٹی دھونکنے والے کی طرح ہے ، مشك اٹھانے والا تمہیں تحفہ دے گا یا تم اس سے خریدو گے یا تمہیں اس سے عمدہ خوشبو آئے گی جبکہ بھٹی جھونکنے والا یا تمہارے کپڑے جلائے گا یا تمہیں اس سے ناگوار بو آئے گی ۔ (بخاری ، کتاب الذبائح والصیدوالتسمیۃ علی الصید ، باب المسک ، 3 / 567 ، حدیث : 5534 )

(2) آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے : آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، لہٰذا تم میں سے ہر ایک کو چاہئے کہ وہ دیکھے کس سے دوستی کررہا ہے۔ (ترمذی، کتاب الزہد،باب45، 4/167، حدیث:2385)

(3) کسی کو پرکھنا : حضرت عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ کسی کو پرکھنا ہو تو اس کے دستوں سے پرکھو کیونکہ آدمی اسی سے دوستی کرتا ہے، جسے وہ اپنے جیسا جان کر اچھا سمجھتا ہے ۔(موسوعہ ابن ابی الدنیا ، کتاب الاخوان، جلد 8 /161، حدیث : 38)

(4) نیک دوست کی شفاعت : حضرت جابر بن عبد الله رضی اللہ عنہ سے مروی ہے حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :جنتی کہے گا، میرے فلاں دوست کا کیا حال ہے؟ اور وہ دوست گناہوں کی وجہ سے جہنم میں ہوگا، الله پاک فرمائے گا، اس کے دوست کو نکالو اور جنت میں داخل کر دو۔ تو جو لوگ جہنم میں باقی رہ جائیں گے وہ کہیں گے کہ ہمارا کوئی سفارشی نہیں ہے اور نہ کوئی غم خوار دوست ۔ ( تفسیر بغوی، 3/364)

(5) بر اسا تھی جہنم کا ٹکڑا ہے :تاجدار رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : برے ساتھی سے بچو کیونکہ وہ جہنم کا ایک ٹکڑا ہے ، اسکی محبت تمہیں فائدہ نہیں پہنچائے گی اور وہ تم سے اپنا وعدہ پورا نہیں کرے گا۔( فردوس الاخبار ، 1/ 224 ، حدیث : 1573)

خلاصہ: دوستی کرنے میں میانہ روی اختیار کرنا ۔ بھائی چارگی اور دوستی کو ہمیشہ باقی رکھنا اور نیک آدمی کو دوست بنانا نہایت ضروری ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: دنیا کا امیر شخص وہ ہے جس کے دوست مخلص ہوں۔ایک اور فرمان ہے کہ تمہار ابدترین دوست وہ ہے جو تمہیں غلط بات پر راضی کرے۔اللہ پاک ہمارے حال پر رحم فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


کسی بھی معاشرے میں بسنے والے انسان خاندانی تعلقات اور رشتہ داریوں کو نبھانے کے ساتھ ساتھ دیگر افراد کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو بھی استوار رکھتے ہیں ۔ اللہ پاک نے بہت رشتے بنائے ہیں۔ جیسے : شوہر اور بیوی کا رشتہ ، ماں باپ کا رشتہ ، بہن بھائی کا رشتہ اور استاد و شاگرد کا رشتہ وغیرہ اس کے علاوہ ایک اور بھی رشتہ ہے جسے اللہ پاک نے بنایا ہے اور وہ دوستی کا رشتہ، اس کی تفصیل درج ذیل ہے :

آج کل دوست تو بہت ملتے ہیں مگر وہ حقیقی دوست نہیں ہوتے۔ حقیقی دوست کیوں نہیں ہوتے کیونکہ وہ لفظ "دوست" کے حقیقی معنی کو نہیں جانتے۔ آج کل ہم صرف اپنے مفاد کیلئے دوست بناتے ہیں کہ فلاں تو پولیس میں ہے اگر میرا کوئی ایسا معاملہ ہوا کہ جس میں پولیس شامل ہوئی تو میں اپنے دوست سے کہتاثر معاملے کو حل کر ڈالوں گا۔ یہ سرا سر غلط ہے آج کل ہم نے اس مطلبی کے رشتہ کو دوست جیسے مقدس لفظ کے سائے تلے ڈالا ہوا ہے ۔

لہذا جس میں مذکور دوست کے معنی پائے جائیں وہی آپ کا سچا دوست ہے ۔ جب یہ دوستی کا رشتہ قائم ہوتا ہے تو ہم پر کچھ حقوق بھی لا گو ہوتے ہیں ۔ جیسے : آپ کا کوئی دوست راہِ راست سے جدا ہو کے راہِ بد پر چل پڑا تو اب آپ اس کو یہ کہہ کر چھوڑ نہ دیں کہ وہ غلط کام کرتا ہے یا اب وہ جوا وغیرہ کھیلتا ہے وغیرہ وغیرہ بلکہ آپ پر یہ ہے کہ آپ اپنی دوستی کا حق نبھائیں اسے سیدھی راہ پر لائیں اور اپنی طرف سے انتھک کوشش کریں اگر تو وہ راہِ راست پر آجائے تو (ما شاء اللہ) اور اگر نہیں تو پھر اس صورت میں آپ اسے چھوڑ دیں کیونکہ دوستی بھی راہِ راست سے بھٹکنے کا سبب بن سکتا۔

حدیث مبارک : حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: نیک اور بُرے ہم نشین کی مثال ایسی ہے جیسے ایک کے پاس مشک ہے اور دوسرا دھونکنی دھونک رہا ہے مشک والا یا تو تمہیں مشک ویسے ہی دے گا یا تو اس سے خرید لے گا اور کچھ نہ سہی تو خوشبو تو آئے گی اور وہ دوسرا تمہارا بدن یا کپڑے جلا دے گا یا تو اس سے بدبو پائے گا۔ ( بخاری ، 2 / 20 ، حدیث : 2101)ایک مشہور مقولہ ہے :

صحبت صالح ترا صالح کند صحبت طالح ترا طالح کند

یعنی نیک صحبت تجھے نیک اور بری صحبت تجھے برا بنائے گی ۔

اس لئے برے ساتھیوں کا ساتھ چھوڑ کر اچھے ہم نشینوں کی رفاقت اپنانی چاہیئے۔ برے لوگوں کی محفل ترک کر کے نیک لوگوں کی محفل اختیار کرنی چاہئے ۔ اچھے اور صالح دوست بنانے چاہئیں تاکہ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے تحت ہماری بہترین تربیت کریں اور ہم دنیا و آخرت میں سرخرو ہوں ۔

سنن ابی داؤد میں حدیث ہے کہ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : تو صرف مؤمن سے دوستی رکھ اور تیرا کھانا صرف متقی کھائے ۔( سنن ابی داؤد،حدیث:4832)

اسی طرح آپ نے فرمایا : آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے پس تم میں سے ہر شخص دیکھے کہ وہ کس سے دوستی کرتا ہے ۔ (سنن ابی داؤد،حدیث:4833)

یادر ہے کہ اچھی صحبت اختیار کرنا ایمان اور اعمال صالح کی مضبوطی اور بری صحبت، ایمان اور اعمال صالح کی بربادی کا ذریعہ ہے ،

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں دوستی کے حقوق کو ادا کر نے اور سچا دوست بننے کی توفیق عطا فر مائے اور دوست کے معنی کو سمجھنے اور اس اس معنی کی لاج رکھنے اور اس کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فر مائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


معاشرتی زندگی گزارنے کیلئے جہاں الله پاک انسانوں کو مختلف رشتوں سے قدرتی طور پر جوڑا ہے، وہیں دوستی کا رشتہ عطا فرما کر اسے اپنے ہم خیال لوگوں سے تعلق جوڑنے کا اختیار عطا فرمایا ہے اور ساتھ ساتھ اچھی اور بری صحبت اپنانے کا اختیار اور اس کی تعریف و مذمت بھی بیان فرمائی ۔چنانچہ الله پاک اپنے پیارے کلام میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿اَلْاَخِلَّآءُ یَوْمَىٕذٍۭ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَؕ۠(۶۷) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اس دن گہرے دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیں گے سوائے پرہیزگاروں کے۔ (پ25، الزخرف: 67)اور بری دوستی کی مذمت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿ یٰوَیْلَتٰى لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیْلًا(۲۸) ﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: ہائے میری بربادی! اے کاش کہ میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا۔ (پ19،الفرقان :28)

مذکورہ دونوں آیتوں سے یہ بات واضع ہو جاتی ہے کہ اچھی دوستی بھی آخرت میں کامیابی کا ایک ذریعہ ہے۔لہذا ہمیں دوستی کرتے وقت بہت احتیاط سے کام لینا چاہتے۔ جیسا کہ رسولُ الله (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) نے فرمایا: آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے۔ لہذا تم میں سے ہر ایک کو چاہیے کہ وہ دیکھے کس سے دوستی کر رہا ہے۔ (ترمذی، کتاب الزهد، حدیث: 2385)مذکورہ تمام باتیں یہ واضح کرتی ہیں کہ دوستی ایک اہم رشتہ ہے اور اس کے کچھ حقوق ہیں جن کو ذکر کرتے ہیں۔

(1)نیکی کے کاموں میں تعاون : ارشاد باری تعالیٰ ہے: ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور نیکی اور پرہیز گاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو۔ 6 ، المآئدة : 2)تفسیر صراط الجنان میں اس آیت کے تحت ہے: نیکی اور تقوی میں ان کی تمام انواع و اقسام شامل ہیں (مزید تھوڑا آگے ہے) مثلاً علمِ دین کی اشاعت میں وقت ، مال ، درس و تدریس سے ایک دوسرے کی مدد کرنا ، نیکی کی دعوت دینا، برائی سے منع کرنا ، سماجی خدمات سب اس میں داخل ہیں۔ (صراط الجنان، 2/ 424)

(2)برائی کے کاموں میں مدد نہ کرو، اللہ پاک اپنے پیارے قراٰن میں فرماتا ہے: ترجمۂ کنزُالعِرفان :اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو ۔ 6 ، المائدة : 2)صراط الجنان شریف میں ہے: اِثْم اور عُدْوَان میں ہر وہ چیز شامل ہے جو گناہ اور زیادتی کے زُمرے میں آتی ہو۔ مثلاً حق مارنے میں دوسرے کا تعاون کرنا، مسلمان کو پھنسانا ، بدی کے اڈوں میں نوکری کرنا ایک طرح سے برائی کے ساتھ تعاون اور نا جائز ہے۔ (صراط الجنان، 2/ 425)

(3)دوست کے لئے اچھی چیز پسند کرنا: حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی اس وقت کامل مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے مسلمان بھائی کیلئے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے کرتا ہے۔ (اربعین نووی ، ص:45)

(4)دکھ سکھ میں مدد : دوستی کا رشتہ بھی ایک اہم ترین رشتہ جب کبھی دوست پر کوئی مشکل یا پریشانی آئے تو اس کا ساتھ دینا چاہئے۔ ہجرت مدینہ میں انصار صحابہ کرام رضی الله عنہم کا مہاجرین صحابہ کرام کی مدد اس کی بہت بڑی مثال ہے۔

الله پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ہمیں ایسے دوست عطا فرمائے جن کو دیکھ کر ہمیں خدا یاد آجائے۔


جس طرح ہم پر حقوقُ اللہ ہیں اسی طرح حقوقُ العباد بھی ہیں۔ جس کو ادا کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ جس طرح ماں باپ، رشتے دار، پڑوسیوں ، بڑے چھوٹوں کے حقوق ہوتے ہیں۔ اسی طرح دوستوں کے بھی بہت سے حقوق ہوتے ہیں تو کچھ درج ذیل ہیں :

دوست کے حقوق میں سے ہے کہ وہ جب بھی پریشان ہو تو اس کی پریشانی کو دور کیا جائے ، جیسا کہ حدیث مبارک میں بھی آیا، فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:جو کسی مسلمان کی پریشانی دور کریں اللہ پاک قیامت کے پریشانیوں میں سے ایک پریشانی دور فرمائے گا۔ (مسلم ،ص 1069 ،حدیث:6578)

دوست کے حقوق میں سے ہے کہ جب دو دوست ساتھ ہوں تو آپس میں کوئی ایسی بات، کوئی طعنہ نا دیا جائے کہ وہ آپس میں نا اتفاقی دوستی میں کمی اور دوری کا سبب بنے ۔جس سے آپسی معاملات میں خرابی پیدا ہوں۔ جس طرح اللہ رب العزت نے قراٰنِ مجید میں ارشاد فرمایا: ترجمۂ کنزالایمان : اور آپس میں طعنہ نہ کرو۔ اور ایک دوسرے کے بڑے نام نہ رکھو ۔(پ 26،الحجرات:11 )

دوستی کے حقوق میں سے ہے دوستی فقط دنیاوی معاملات تک محدود نہیں رکھنی چاہیے بلکہ دینی و اخروی فوائد کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے جس طرح حدیث مبارکہ میں آیا ہے کہ ، سر کار والا تبار، بے کسوں کے مدد گار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالیشان ہے :آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے لہذا تم میں سے ہر ایک کو چاہئے وہ دیکھے کس سے دوستی کر رہا ہے (ترمذی ، کتاب الزهد، حدیث: 2385)

اور دوستی کے حقوق میں سے ہے اگر ایک دوست دوسرے دوست کے کسی دکھ و تکلیف میں کام آئے تو اس کو احسان نہیں جتا نا چاہیے احسان کرنا بڑی نیکی ہے مگر احسان کر کے کسی پر احسان جتلانا گندی صفت ہے ایسے لوگوں کو عربی میں منان اور اردو میں احسان جتلانے والا کہتے ہیں ۔

دوستی کے حقوق میں سے ہے کہ دوستی اللہ رب العزت کے لیے ہونی چاہئے جس طرح حدیث مبارکہ میں آیا ہے کہ اللہ پاک کے کچھ ایسے بندے ہیں کہ وہ نہ انبیا ہیں نہ شہدا اور خدا کے نزدیک ان کا ایسا مرتبہ ہوگا کہ قیامت کے دن انبیا اور شہدا ان پر غبطہ کریں گے ، لوگوں نے عرض کی: یا رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرمائیے یہ کون لوگ ہیں؟ فرمایا :یہ وہ لوگ ہیں جو محض رحمتِ الٰہی کی وجہ سے آپس میں محبت رکھتے ہیں، نہ ان کے آپس میں رشتہ ہے، نہ مال کا لینا دینا ہے۔ خدا کی قسم! ان کے چہرے نور ہیں اور وہ خود نور پر ہیں ان کو خوف نہیں، جبکہ لوگ خوف میں ہوں گے اور نہ وہ غمگین ہوں گے، جب دوسرے غم میں ہوں گے اور حضور (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم)نے یہ آیت پڑھی: ﴿اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَۚۖ(۶۲) ﴾(سنن ابی داؤد، حدیث:3527)

دوستی کے حقوق میں سے ہے اگر کبھی دوست سے کوئی غلطی ہو جائے یا وہ بری صحبت میں پڑ جائے تو یک لخت (فوراً) اس سے دوری اختیار کرنے کے بجائے اسے سمجھانا چاہئے کیونکہ اچھے دوست کے اوصاف میں سے اہم ترین وصف (خوبی ) یہ بھی ہے کہ وہ اپنے دوست کو بری صحبت میں نہیں چھوڑتا، بلکہ اسے برائی سے نکالنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کے لئے بارگاہ الٰہی میں دعا کرتا ہے، اس کی عملی صورت حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہُ عنہ کے مبارک عمل سے ملاحظہ کیجئے۔ چنانچہ منقول ہے کہ ملک شام کا رہنے والا ایک بہادر شخص امیر المومنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہُ عنہ کی بارگاہ میں آیا کرتا تھا ایک بار وہ کافی عرصے تک نہ آیا آپ نے اس کے متعلق پوچھا ، آپ کو بتایا گیا کہ وہ شراب کے نشے میں رہنے لگا ہے ، آپ رضی اللہُ عنہ نے اسے خط بھیجا جس میں لکھا تھا ، عمر بن خطاب کے جانب سے فلاں کی طرف ، تم پر سلام ہوں ، میں تمہارے ساتھ اس اللہ کے نعمت کا شکر ادا کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ گناہوں کو بخشنے والا ہے ، توبہ قبول کرنے والا ہے شدید پکر کرنے والا اور خوب مہربان بھی ہے اس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں اسی کی طرف لوٹنا ہے۔ پھر آپ رضی اللہُ عنہ نے ساتھیوں سے فرمایا: اپنے بھائی کے لیے الله سے دعا کرو کہ اللہ کریم اس کے دل کو پھیر دے اس کی توبہ قبول کرے جب وہ مکتوب اس شخص کو پہنچا تو اس نے پڑھنا شروع کی اور بار بار کہتا جاتا : گناہوں کو بخشنے والا ! توبہ قبول کرنے والا ! میرے رب نے مجھے اپنی پکڑ سے ڈرایا اور میری بخشش کا وعدہ کیا۔ (تفسیر ابن ابی حاتم ، پ 24، 10/3263،حدیث: (18416


الحمد لله دین اسلام بہت پیارا دین ہے کہ جب بندہ گناہ کا ارادہ کرے تو اسے گناہ نہیں ملتا کہ جب تک کر نہ لے مگر جب وہ نیکی کا ارادہ کرے تو اسے ثواب مل جاتا ہے ، اسی طرح اس دین نے دوست کو بھی بڑا مقام عطا فرمایا ہے اس دین نے اس محبت کو بڑی عزت بخشی ہے جو خا لصتاً اللہ کے لئے ہو ۔الله پاک قراٰن میں فرماتا ہے: ﴿وَ لَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَهٗ عَنْ ذِكْرِنَا وَ اتَّبَعَ هَوٰىهُ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اس کا کہا نہ مانو جس کا دل ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا اور وہ اپنی خواہش کے پیچھے چلا۔(پ15،الکہف:28)

لہذا ایسے شخص سے دوستی کرو جو تمہیں اللہ کا پیرو کا ربنائے نہ کے نفسانی خواہشات میں مشغول کرکے اللہ کی راہ سے غافل کردے۔

حضور علیہ السلام نے اللہ کی رضا کے لئے محبت کرنے والوں کو خوشخبری عطا فرمائی۔ فرمایا: کہاں ہیں وہ لوگ جو الله کے لئے آپس میں پیار و دوستی کرتے تھے تاکہ جب کہی بھی سائے کا نام و نشان نہیں ہے کہ وہ پناہ لیں میں انہیں پناہ دوں۔

ہمارے پیارے دین نے جب دوست کو اتنی عزت بخشی ہے تو اس کے حقوق بھی ہیں۔ (دوستی تو وفا کا رشتہ ہے، دوستی پیار و محبت کا رشتہ ہے ،دوستی تو ہمدردی کا رشتہ ہے ، جو دلوں سے نبھایا جاتا ہے۔ دوستی تو ہر برے وقت میں کام آنے کا نام ہے۔ )

(1) مال سے تعلق : جب بھی دوست کو ضرورت پڑے تو اپنے مال ہے اس کی مدد کرے ۔ دوست پر مال کو فوقیت نہ دے۔

(2)جب کبھی دوست کو کوئی حاجت پیش آئے تو اس کے طلب کئے بغیر اپنے آپ کو پیش کرے۔

(3) جب کبھی کہے تو اپنے دوست کے حق میں بھلائی ہی کہیں، اس کی عیب کو چھپائے اور اپنی زبان سے اپنے دوست کو بھی تکلف نہ دے۔

(4) زبان سے اظہارِ محبت کیجئے ۔ اپنے دوست کو اپنی دائرہ محبت میں گرفتار رکھے۔

(5) اگر اسے علم کی ضرورت ہو تو اسے سکھائے، علم کی کمی اکثر بے عزتی کا سبب بنتی ہے اور دوست کو دوست کی عزت بڑھانی چاہئے۔

(6) جو غلطی صادر ہو جائے اسے معاف کرئے، دوست کو اس کی غلطی پر مطلع کرئے۔ اسے غلطی سے بجائے۔

( 7) اپنے دوست کے لیے ہمیشہ دعائے خیر کرئے ۔ اس کے لئے خوشیاں مانگے، اپنے تعلق کی مضبوطی مانگے۔

(8) وفائے دوستی کی حفاظت کرئے، ہمیشہ احتیاط کرئے کہ کبھی تعلق میں بے وفائی نہ آئے، ہمیشہ وفادار ہونے کا ثبوت دیجئے۔

(9) دوستی میں تکلف اور بناوٹ کو قریب نہ آنے دے۔ کبھی کوئی غلط فہمی پیدا ہو جائے تو اسے حل کرئے۔

(10) اپنے آپ کو اپنے دوستوں سے کمتر جانے ۔

اللہ کریم سب کی دوستی کو سلامت رکھے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


معاشرے میں رہنے والے انسان خاندانی تعلقات اور رشتہ داریوں کو نبھانے کے لیے دیگر افراد کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو بھی استوار رکھتے ہیں۔ دوستی کی بنیاد عام طور پر انسان کا دوسرے انسان کے ساتھ گزرا ہوا وقت یکساں مفادات اور مسرت و فکر کا اشتراک ہوتا ہے ۔ چنانچہ ہم ذہن لوگ ایک دوسرے کے ساتھ قربت رکھنے والے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ دوری محسوس کرتے ہیں چنانچہ دنیا میں دوستوں کے اچھے اور بڑے واقعات منظر عام پر آتے رہتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں دیکھا گیا ہے کہ بہت سے۔ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ دوستی نبھانے کے دوران ہر حد کو عبور کر جاتے ہیں ۔ کئی لوگ شراب نوشی ، قتل و غارت گری اور بد کرداری کے حوالے سے بھی اپنے دوستوں کو اس طرح کے کام پر لگانے سے گریز نہیں کرتے۔اس کے مد مقابل بہت سے لوگ روحانی اور نظریاتی اعتبار سے بھی دوستی کے بندھن میں بندھے ہوتے ہیں اسلام نے اس حوالے سے اپنے جاننے والوں کی بہت ہی خوبصورت انداز میں رہنمائی کی ہے اور دوستی کے اصول وضوابط کو اہل ایمان کے سامنے رکھا ہے۔ چنانچہ

سورہ توبہ کی آیت نمبر 71 میں اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے : اور مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے منع کریں اور نماز قائم رکھیں اور زکوٰۃ دیں اور اللہ و رسول کا حکم مانیں یہ ہیں جن پر عنقریب اللہ رحم کرے گا بےشک اللہ غالب حکمت والا ہے۔

آیت مذکورہ سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ ایمان والے مرد اور امان والی عورتیں آپ دوسرے کے دوست ہیں ۔ اور وہ نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہیں ۔ اسی طرح وہ نمازوں کو قائم کرتے اور ز کوٰ ۃ ادا کرتے ہیں۔ اور وہ اللہ اور اس کے سول کی اطاعت کرتے ہیں۔ گویا وہ نیکی کے تمام کاموں میں ایک دوسرے کے معاون ہوتے ہیں۔ کلام پاک سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ کل قیامت کے دن صرف تقویٰ کی بنیاد پر استوار ہونے والی دوستی کام آئے گی اور شرکی بنیاد پر قائم ہونے والی دوستی قیامت کے دن دشمنی اور نفرت پر منتج ہوگی۔ اللہ کا قرآن ہمیں یہ بات بھی سمجھاتا ہے کہ دنیا میں بسا اوقات غلط دوستی کی چناؤ کی وجہ سے انسان کل کلاں جسم کی آگ میں چلا جائے گا اور سیدھے راستے سے بھٹکنے کی ایک بہت بڑی وجہ اس کی غلط صحبت ہوتی ہے ۔

چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے: اور جس دن ظالم اپنے ہاتھ چبا چبا لے گا کہ ہائے کسی طرح سے میں نے رسول کے ساتھ راہ لی ہوتی۔ وائے خرابی میری ہائے کسی طرح میں نے فلانے کو دوست نہ بنایا ہوتا بےشک اس نے مجھے بہکادیا میرے پاس آئی ہوئی نصیحت سے اور شیطان آدمی کو بے مدد چھوڑ دیتا ہے ۔ (پ19، الفرقان:27)

چنانچہ ہمیں ان لوگوں سے دوستی کرنی چاہیے کہ جن کی محبت سے ہمیں ایمانی اور اسلامی معاملات کو تقویت حاصل ہو اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دوستی کی بنیاد درست صحبت ہونی چاہئے ۔ اور اللہ تعالی کے نافرمانوں سے اہل ایمان کو اعراض کرنا چاہیے ہم سب کو دوستی کے حوالے سے بعض اہم باتوں کو ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے۔

(1) اپنے دوست کے لیے وہ پسند کرنا ، جو انسان اپنے لیے پسند کرے۔انسان کو ہمیشہ مادی اخلاقی اور نباتی اعتبار سے اپنے دوست کے لیے اسی چیز کو پسند کرنا چاہئے جو اپنی ذات کے لیے پسند کرتا ہے۔ اگر وہ چاہتا ہے کہ اس کی عزت کی جائے تو اس کو اپنے دوست کی بھی عزت کرنی چاہیے، حدیث پاک میں اس حوالے سے نبی علیہ السلام کا فرمان ہے: کہ تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مؤمن نہیں ہوسکتا جب وہ اپنے مسلمان بھائی کے لیے وہی چیز پسند نہ کرے جووہ اپنے لئے پسند کرتا ہے ۔

(2) نیکی اور بھلائی کے کاموں میں تعاون: اللہ تعالٰی سورہ مائدہ میں ارشاد فرماتا ہے: ترجَمۂ کنزُالایمان: اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو۔ (پ6، المآئدۃ:2) ایک دوست کو دوسرے دوست کے ساتھ بھلائی کے تمام کاموں میں تعاون کرنا چاہئے۔

(3 ) گنا ہ کے کاموں سے اجتناب: اللہ تعالی سورہ مائدہے میں ارشاد فرماتا ہے: ترجمۂ کنزالایمان: اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ دو۔ (پ6، المآئدۃ:2) چنانچہ اہل ایمان کودوستی کے باوجود بھی اپنے دوست کے ان معاملات میں اس کا معاون نہیں بننا چاہئے جن کا تعلق اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے ساتھ ہو ، اگر مخلص دوست بھی کسی مخلوط مجلس میں جانے کے لیے کیہے تو اس کا ساتھ دینے سے انکار کر دینا چاہئے۔

(4) دکھ دور اور مشکل میں دوست کے کام آنا: انسان کو دکھ تکلیف مشکل میں اپنے دوستوں کے ضرور کام آنا چاہئے ۔ دوست کی بیمار پرسی کرنا، ان کے عزیر واقارب کے جنازوں میں شرکت کرنا، مالی نقصانات کی صورت میں ان کے ازالے کی کوشش کرنا کیونکہ اس صورت میں ان کے گھر خوراک پہنچانا مخلصوں کی نشاہوں میں سے ہے۔

(5) موت کے بعد بھی انسان کو خیر خواہی کرتے ہوئے دوستوں کے جنازوں میں شریک ہونا چاہئے اور ان کے اہل و عیال کی جس حد تک ممکن ہو خبر گیری کرتے کرنا چاہئے۔ ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ دوستی کے حوالے سے عائد ہونے والی ذمہ داریوں کا احساس نہیں کرتے اور اپنے دوستوں کو مشکل وقت میں اکیلا چھوڑ جاتے ہیں ۔ اللہ تبارک وتعالی تمہیں صحیح معنوں میں دوستی کے فرائض اور حقوق کو سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فر مائے۔ امین


انسان زندگی کے سفر کے دوران مختلف سکولوں، کالجوں ، یونیورسٹیوں اور درسگاہوں سے گزرتے ہوئے پیشہ ورانہ زندگی میں داخل ہو جاتا ہے اس دوران اس کی ملاقات قسم قسم کے لوگوں سے ہوتی ہے بعض لوگوں کی طرف اس کی طبیعت مائل ہوتی ہے جبکہ وہ بعض سے احتراز کرنا شروع کر دیتا ہے۔ سوچ وفکر، مزاج ، مشاغل، اور مقاصد کی ہم آہنگی کی وجہ سے انسان ایک لڑی میں پرو دیا ہے اسی طرح طبیعتوں ، نظریات اور اہداف کے اختلاف کی وجہ سے انسان لوگوں سے دور ہوتا ہے۔ معاشرے میں جہاں انسان کے اعزہ واقارب اہل خانہ بیوی بچے اور بہن بھائی اس کی شخصیت کی تعمیر اور ترقی ہیں استخدام کا ذریعہ ہیں، وہیں اس کی تعمیر اور ترقی میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں ۔ اچھے اور مخلص دوستوں کا مل جانا یقیناً کسی نعمت سے کم نہیں، خود غرض اور مفاد پرست دوست یقیناً انسان کے لیے ہر اعتبار سے خسارے کا سبب ہے۔یہاں دوستوں کے چند حقوق ذکر کئے جا رہے ہیں ملاحظہ کیجئے:

(1) دوست کو نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا: انسان کو ہمیشہ اپنے دوست کو نیکی کا حکم دیتے رہنا چاہئے بہت سے لوگ اس حوالے سے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہیں یہ دوست کو بگڑتا ہوا دیکھنے کے باوجود اس کو نصحیت نہیں کرتے

(2) نیکی کے کاموں میں معاونت اور برائی کے کاموں میں عدم معاونت : دوستی کا تقاضہ جہاں پر اچھی بات کرنا ہے اس پر بھلائی کے کاموں میں معاونت کرنا بھی دوست کی اہم ذمہ داریوں میں شامل ہے ۔

(3) دوست کی خوشی اور غمی میں شریک: دوستی کے تقاضوں میں سے ایک اہم تقاضا یہ بھی ہے کہ انسان اپنے دوست کی خوشیوں میں شریک ہو اور اس کی خوشی کے موقع پر اس کی حوصلہ افزائی کرے اور جب اس پر کوئی غم بیماری یا آزمائش آئے تو ایسی صورت میں اس کے ساتھ بھر پور تعاون کرے اور اس کو دلاسہ دے۔

(4) دوست کا دفاع اور ذکر خیر : اپنے دوست کا جائز بات پر دفاع کرنا اور اس پر لگنے والے غلط الزام کو دھونے کی کوشش کرنا بھی ایک اچھے دوست کی نشانی ہے۔

(6) دوست کے جنازے میں شرکت ۔یا ساتھی کا انتقال ہو جانے کی صورت میں دوسرے دوست کو اس کے جنازے میں شرکت کرنی چاہئے اور اس کے لیے خلوص دل کے ساتھ دعائے مغفرت کرنی چاہئے اور اس کے اہل خانہ کو دلاسہ دینا چاہئے۔

( 6) دوست کے لیے دعائے خیر اور اس کے لواحقین کا خیال: انسان کو دوست کے لیے دعائے خیر کرتے رہنا چاہئے اور اس کے لواحقین کے ساتھ بھی خیر والا معاملہ جاری رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے جو لوگ اپنے دوستوں کے لیے دعائے خیر کرتے اور ان کے لواحقین کا خیال کرتے ہیں یقیناً وہ لوگ اپنے لیے بھی بھلائیوں کو جمع کر لیتے ہیں۔ الله تعالٰی ان کے عمل کو ضائع نہیں کرتا بلکہ ان کے مرنے کے بعد بھی ایسا انتظام فرماتا ہے کہ لوگ اس کے مرجانے کے بعد اس کو اچھا اچھے الفاظ میں یاد کرتے ہیں اور اس کے اہل خانہ اور لواحقین کے ساتھ بھلائی سے پیش آتے ہیں ۔

دعا ہے الله تعالٰی ہمیں اپنے دوستوں کے حقوق ادا کرتے کی توفیق دے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


حقوق دو طرح کے ہوتے ہیں ایک حقوق اللہ اور دوسرے حقوق العباد، اور جو دوستوں کے حقوق ہیں اس کا تعلق حقوق العباد سے ہے۔ اور حقوق العباد وہ حقوق ہیں کہ جب تک بندہ ان حقوق کو معاف نہ کر دے تب تک وہ حقوق معاف نہیں ہوتے۔ لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم حقوق العباد ادا کریں اور ایک دوسرے کے شریعت نے جو حقوق ہمیں عطا فرمائے ہیں اس پر عمل پیرا ہوں۔

نیک دوست ملنے کی فضیلت : من اراد الله به خیر ارزَقَهُ خَلِيلاً صَالِحاً إِنْ شَيَ ذَكَرَهُ وَإِنْ ذكر أغانه ، الله پاک جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے نیک دوست عطا فرماتا ہے کہ اگر یہ بھولے تو وہ اسے یاد دلائے اور اگر اسے یاد ہو تو وہ اس کی مدد کر یہ تو(نسائی، ص4210حدیث : 685)

دوست کے دین پر ہونا :فرمان آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے اس لیے تم میں سے ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ کس سے دوستی کر رہا ہے۔ (سنن ابی داؤد، حدیث : 4833)

دوست کی دل سے خیر خواہی :دوستوں کے حقوق میں سے دوست کا ایک حق یہ بھی ہے کہ ان کی دل سے خیر خواہی کی جائے۔ ان کے راز کی حفاظت کی جائے اور صحیح مشورہ دیا جائے اور ان کی اجازت کے بغیر ان کی کوئی چیز استعمال نہ کی جائے۔مؤمن و کافر دوست : حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے دو دوست مؤمن ہیں اور دو دوست کافر ہیں مؤمن دوستوں میں سے ایک مر جاتا ہے تو بارگاہ الہی میں عرض کرتا ہے یا رب فلاں مجھے تیری اور تیرے رسول کی فرمانبرداری کرنے کا اور نیکی کرنے کا حکم کرتا تھا مجھے برائیوں سے روکتا تھا اور یہ خبر دیتا تھا کہ مجھے تیرے حضور حاضر ہونا ہے اے رب میرے اسے گمراہ نہ کرنا اسے ایسی ہدایت عطا فرما جیسی مجھے عطا فرمائی اور اس کا ایسااکرام کر جیسا میرا اکرام فرمایا اور جب اس کا مؤمن دوست مر جاتا ہے اللہ تعالٰی دونوں کو جمع کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ تم میں سے ہر ایک دوسرے کی تعریف کرے تو ہر ایک کہتا ہے یہ اچھا بھائی ہے، اچھا دوست ہے، اچھا رفیق ہے اور دو کا فر دوستوں میں سے ایک مرتا ہے تو دعا کرتا ہے کہ فلاں مجھے تیری فرمانبرداری سے منع کرتا تھا، بدی کا حکم دیتا تھا تو الله پاک فرماتا تم میں سے ہر ایک دوسرے کی تعریف کرے تو ان میں سے ہر ایک کہتا ہے یہ بڑا بھائی بُرا دوست ہے۔ ( خازن، الزخرف تحت الآیۃ : 46)

صحبت صالح تُر ا صالح کند صحبت صالح تُر ا طالح کند

مصیبت کے وقت دوست کے کام آنا :دوست کی ایک صفت یہ بھی ہونی چاہیے کہ وہ مصیبت میں کام آئے ایک بزرگ رحمتہ اللہ علیہ کے پاس ان کا دوست آیا گھر پر دستک دی اور کہا کہ مجھے اتنی رقم کی ضرورت پڑ گئی ہے۔ وہ بزرگ رحمۃ اللہ علیہ اندر گئے، بیگم صاحبہ رقم وصول کی اور یہ پیسے اُسے دے دیئے اور پھر رونے بیٹھ گئے ۔ بیگم صاحبہ نے کہا اگر ایسا ہی تھا تو آپ نے رقم اسے کیوں دی؟ ان بزرگ رحمۃ اللہ نے فرمایا: میں اس لیے نہیں رو رہا کہ مجھے پیسے دینا پڑے بلکہ میں تو اس لیے رو رہا ہوں کہ اسے میرے دروازے پر آنا ہی کیوں پڑا؟ میں نے اس بات کی پہلے سے خبر کیوں نہیں رکھی کہ وہ ضرورت مند ہے اگر خبر ہوتی تو اس سے پہلے کہ وہ میرے گھر پر آتا میں چپکے سے اس کی مدد کر دیتا ۔( احیاء العلوم ، 3/258)

راہ جنت کی طرف لے جانے والا دوست :دوست وہ ہو کہ جس کی دوستی جنت کی طرف لے جائے وہ اچھی ہے اور جو دوستی جہنم کی طرف لے جائے وہ بری دوستی ہے اسے چھوڑنا ضروری ہے۔

الله عزوجل ہمیں نیک صالح اور مخلص ساتھی عطا فرمائے اور ہمیں دوست کے تمام حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم