تمام تعریفیں اللہ پاک کے لیے ہیں جو حکمت والا بادشاہ ،
جواد و کریم ، غالب اور رحم فرمانے والا ہے جس نے اپنی قدرت سے آسمان و زمین کو پیدا
فرمایا۔ اُسی نے انسان کو اچھی صورت پر بنایا۔ پھر انسان کو آدابِ زندگی سے آشنا
فرمایا ،پھر انسان کو ایسی فطرت پر پیدا فرمایا کہ اس کا تنہا زندگی گزارنا محال
ہو گیا اور انسانی ضروریات کو دوسروں کے ساتھ یوں مربوط فرمایا کہ دوسروں کے ساتھ
مل جل کر رہنا اس کے لیے لازم ہو گیا۔ اور انسان کو ایسی طبیعت پر پیدا فرمایا کہ
وہ جس کی صحبت میں رہتا ہے اس سے اثر انداز ہوتا ہے۔ لہذا انسان کو چاہیے کہ وہ نیک
اور متقی لوگوں سے دوستی کرے اور انہیں کی صحبت اختیار کرے کیونکہ بروزِ قیامت بری
دوستی دشمنی میں بدل جائے گی۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالٰی ہے: ﴿اَلْاَخِلَّآءُ یَوْمَىٕذٍۭ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ
عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَؕ۠(۶۷) ﴾ ترجمہ کنزالایمان : گہرے دوست اس دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں
گے مگر پرہیزگار ۔ (پ25، الزخرف: 67)
اس آیت کے متعلق تفسیر کبیر
میں ہے کہ دنیا میں جو دوستی کفر اور معصیت (یعنی گناہ) کی بنیاد پر تھی وہ قیامت کے
دن دشمنی میں بدل جائے گی۔ جبکہ دینی دوستی اور وہ محبت جو اللہ پاک کے لیے تھی
دشمنی میں تبدیل نہ ہوگی۔ ( تفسیر کبیر،9/641، سورہ زخرف، تحت الآیۃ : 67 )
معلوم ہوا کہ برے لوگوں کے ساتھ دوستی لگانا شرعاً ممنوع ہے۔
خصوصاً کفار کو دوست بنانے کی مذمت میں اللہ پاک نے قراٰنِ مجید میں ارشاد فرمایا:
﴿ لَا یَتَّخِذِ
الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَۚ-وَ مَنْ
یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰهِ فِیْ شَیْءٍ اِلَّاۤ اَنْ تَتَّقُوْا
مِنْهُمْ تُقٰىةًؕ-وَ یُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهٗؕ-وَ اِلَى اللّٰهِ
الْمَصِیْرُ﴾ترجمۂ
کنزُالعِرفان: مسلمان مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں اور جو
کوئی ایسا کرے گاتو اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں مگر یہ کہ تمہیں ان سے کوئی ڈر
ہو اور اللہ تمہیں اپنے غضب سے ڈراتا ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے۔ ( پ 3 ، اٰل
عمرٰن:28)
برے دوست کی مذمت میں کئی احادیث بھی مروی ہیں۔ چنانچہ
سرورِ کونین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : برے ساتھی سے بچو کیونکہ
وہ جہنم کا ایک ٹکڑا ہے۔ اس کی محبت تمہیں فائدہ نہیں پہنچائے گی اور وہ تم سے
اپنا وعدہ پورا نہیں کرے گا۔(فردوس الاخبار، 1/ 224 ، حدیث : 1573)
پیارے اسلامی بھائیو! دوست کی صحبت اس قدر اثر انداز ہوتی
ہے کہ حدیث مبارکہ میں فرمایا گیا: الرجُل عَلَی دینِ خَلِيلہ ،
فَلْيَنظُرُ أَحَدُكُمْ مَنْ يُخَالِلُ ترجمہ
آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے لہذا تم میں سے ہر ایک کو چاہیے کہ وہ دیکھے کسی
سے دوستی کر رہا ہے ۔(ترمذی ، کتاب الزہد ، ص : 566 حدیث :2378)
یعنی عموماً انسان اپنے دوسنت کی سیرت اور اخلاق اختیار کر
لیتا ہے اور کبھی اس کا مذہب بھی اختیار کر لیتا ہے۔ لہذا اچھوں سے دوستی رکھیں
تاکہ آپ بھی اچھے بن جائیں اور کسی سے دوستی کرنے سے پہلے اسے اچھی طرح جانچ لیں
کہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرما نبردار ہے یا نہیں۔
صوفیائے کرام فرماتے ہیں: انسان کی طبیعت میں اخذ (یعنی لینے)
کی خاصیت ہے، حریص کی صحبت سے حرص اور زاہد کی صحبت سے زہد و تقوی ملے گا ( لہذا
ہر ایک کو چاہیے کہ کسی کو دوست بنانے سے پہلے خوب غور و فکر کرے اور جانچ لے کہ میں
کسے دوست بنا رہا ہوں)۔( مرآة المناجیح، 6/ 599 بتغير قلیل)
اچھے دوست کی مثال مشک اٹھانے والے کی سی ہے۔ جیسا کہ سرورِ
دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اچھے اور برے دوست کی
مثال مشک اٹھانے والے اور بھٹی دھونکنے والے کی طرح ہے ، مشك اٹھانے والا تمہیں
تحفہ دے گا یا تم اس سے خریدو گے یا تمہیں اس سے عمدہ خوشبو آئے گی جبکہ بھٹی
جھونکنے والا یا تمہارے کپڑے جلائے گا یا تمہیں اس سے ناگوار بو آئے گی ۔ (بخاری ،
کتاب الذبائح والصیدوالتسمیۃ علی الصید ، باب المسک ، 3 / 567 ، حدیث : 5534 )
اس لیے ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ نیک بندوں سے تعلقات بنائے
اور ان کی محبت اختیار کرے۔
دین دار دوست کی تلاش کی ترغیب دیتے ہوئے حضرت عمر فاروق رضی
اللہ عنہ فرما نے فرمایا : سچے دوست تلاش کرو اور ان کی پناہ میں زندگی گزارو کیونکہ
وہ خوشی کی حالت میں زینت اور آزمائش کے وقت سامان ہیں اور کسی گنہگار کی صحبت اختیار
نہ کرو ور نہ اس سے گناہ کرنا ہی سیکھو گے ۔(احیاء العلوم، کتاب آداب الافتہ الخ ،
باب اول، 2/ 212 ملتقطًا )
اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں برے دوستوں سے بچنے
اور نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن
بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم