دوستی ، بھائی چارہ اور ملاقات الفت و محبت کا باعث ہیں اور
الفت قوت کا سبب ہے اور قوت تقویٰ کا سبب ہے اور تقویٰ ممنوعہ چیزوں سے بچاتا ہے۔
بری چیزوں سے روکتا ہے، مرغوب چیزوں کی طرف مائل کرتا ہے اور مقاصد میں کامیابی
عطا کرتا ہے۔( دین ودنیا کی انوکھی باتیں ،1/ 276 )
فرمان امیر المومنین حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کرم الله وجہہ
الکریم ہے کہ بندہ بغیر دوست کے ایسا ہے جیسے الٹی جانب سیدھی جانب کے بغیر (دین
دنیا کی انوکھی باتیں ، 1/ 277)
اچھا نیک اور مخلص دوست اس چھتری کی طرح ہوتا ہے۔ جو تیز
بارش میں سائبان بن کر انسان کو بھیگنے سے بچاتی ہے مصیبتوں کی یلغار ، غموں کی آندھی
اور طوفانِ رنج والم میں دوست جائے قرار ، سکونِ قلب ہوتا ہے۔
دین اسلام میں جہاں دیگر حقوقُ العباد کو بڑے حسن و خوبی سے
بیان کیا گیا ہے۔ وہیں "دوستوں کے حقوق " کے بارے میں بھی تعلیمات اسلامیہ
بیان کی گئیں ہیں۔ جن پر عمل کر کے انسان دوستوں کے حقوق صحیح و درست طریقے سے ادا
کر سکتا ہے۔ ان میں سے چند حقوق درج ذیل ہیں:
(1) بری بات سے گریز
کرنا: یہ حق اپنے بھائی کے سامنے بری بات سے گریز کرنے کے بارے میں ہے۔ لہٰذا اس
کے سامنے ایسی بات نہ کہے جو اسے ناپسند ہو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:''
حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کسی کے منہ پر ایسی بات نہ کہتے جو اسے ناپسند ہو۔(الشمائل
المحمدیۃ للترمذی ،باب ماجاء فی خلق رسول اللہ ،ص 197،حدیث329)
پس جان لو! اگر تم
ہر عیب سے پاک شخص تلاش کرو گے تو اپنے لئے کوئی دوست نہ پاؤ گے۔ حضرت سیِّدُناامام
شافعی علیہ رحمۃُ اللہ الکافی ارشاد فرماتے ہیں: کوئی مسلمان ایسا نہیں جو اللہ پاک
کی اطاعت کرتا ہوا ور اس کی نافرمانی نہ کرتا ہو اور کوئی مسلمان ایسا نہیں جواس کی
نافرمانی کرتا ہو لیکن فرمانبرداری نہ کرے، جس کی اطاعت اس کی نافرمانیوں پر غالب
ہو تو یہ عدل ہے۔(لباب الاحیاء،ص 157)
(2) تعریف کرنا: اس
کا مطلب یہ ہے کہ اُس کی ایسی تعریف کرے جس سے وہ خوش ہوتا ہو لیکن حق سے تجاوز نہ
ہو۔ اللہ کے مَحبوب، صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کافرمانِ اُخُوت نشان ہے: اِذَا
اَحَبَّ اَحَدُکُمْ اَخَاہُ فَلْیُخْبِرْہُ ترجمہ: جب
تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے محبت کرے تواسے بتادے ۔(لباب الاحیاء،ص 158)
آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یہ اس لئے
فرمایا کیونکہ یہ چیز محبت میں اضافے کا باعث ہے اور اس معنی میں بڑی اچھی بات کہی
گئی ہے:
خُذْ
مِنْ خَلِیْلِکَ مَا صَفَاوَدَعِ الَّذِیْ فِیْہِ الْکَدَرُ فَا
لْعُمْرُ اَقْصَرُ مِنْ مُّعَاتَبَۃِ الْخَلِیْلِ عَلَی الْغَیَرُ
ترجمہ: اپنے دوست
سے اچھی باتوں کو قبول کرو اور اس میں جو بری باتیں ہوں انہیں چھوڑ دو کیونکہ زندگی
اتنی نہیں کہ تم دوسری باتوں پر دوستوں کو ملامت کرتے رہو۔
(3) وفا اور خلوص: یعنی اپنے بھائی سے اخلاص اور وفا کے ساتھ پیش آنا اور اس سے
مراد یہ ہے کہ اس کی محبت پر ثابت قدم رہے اور اس کے مرنے تک اس پر مداومت اختیار کرے
اور اس کی وفات کے بعد اس کی اولاد اور دوستوں سے دوستی رکھے ۔
حدیث ِپاک میں ہے
کہ نبئ اَکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں ایک بوڑھی عورت حاضر ہو ئی تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس کی تکریم کی۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے اس بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اِنَّھَا
کَانَتْ تَأْتِیْنَا اَیَّامَ خَدِیْجَۃَ ترجمہ: یہ
عورت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی زندگی میں ہمارے پاس آیا کرتی تھی۔