﴿اَلْاَخِلَّآءُ
یَوْمَىٕذٍۭ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَؕ۠(۶۷) ﴾ ترجمہ کنزالایمان
: گہرے دوست اس دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے مگر پرہیزگار ۔ (پ25، الزخرف: 67)تفسیر
صراط الجنان میں اس آیت کے تحت لکھا ہے کہ دنیا میں جو دوستی کفر اور مَعصِیَت کی
بنا پر تھی وہ قیامت کے دن دشمنی میں بدل جائے گی جبکہ دینی دوستی اور وہ محبت جو اللہ پاک کے
لئے تھی دشمنی میں تبدیل نہ ہو گی بلکہ باقی رہے گی۔
(1) اچھے اور برے دوست کی مثال : حضرتِ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا
: اچھے اور برے دوست کی مثال مشک اٹھانے والے اور بھٹی دھونکنے والے کی طرح ہے ،
مشك اٹھانے والا تمہیں تحفہ دے گا یا تم اس سے خریدو گے یا تمہیں اس سے عمدہ خوشبو
آئے گی جبکہ بھٹی جھونکنے والا یا تمہارے کپڑے جلائے گا یا تمہیں اس سے ناگوار بو
آئے گی ۔ (بخاری ، کتاب الذبائح والصیدوالتسمیۃ علی الصید ، باب المسک ، 3 / 567 ، حدیث : 5534 )
(2) آدمی اپنے دوست
کے دین پر ہوتا ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ
عالیشان ہے : آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، لہٰذا تم میں سے ہر ایک کو چاہئے
کہ وہ دیکھے کس سے دوستی کررہا ہے۔ (ترمذی، کتاب الزہد،باب45، 4/167، حدیث:2385)
(3) کسی کو پرکھنا :
حضرت عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ کسی کو پرکھنا ہو تو اس کے
دستوں سے پرکھو کیونکہ آدمی اسی سے دوستی کرتا ہے، جسے وہ اپنے جیسا جان کر اچھا
سمجھتا ہے ۔(موسوعہ ابن ابی الدنیا ، کتاب الاخوان، جلد 8 /161، حدیث : 38)
(4) نیک دوست کی
شفاعت : حضرت جابر بن عبد الله رضی اللہ عنہ سے مروی ہے حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :جنتی
کہے گا، میرے فلاں دوست کا کیا حال ہے؟ اور وہ دوست گناہوں کی وجہ سے جہنم میں
ہوگا، الله پاک فرمائے گا، اس کے دوست کو نکالو اور جنت میں داخل کر دو۔ تو جو لوگ
جہنم میں باقی رہ جائیں گے وہ کہیں گے کہ ہمارا کوئی سفارشی نہیں ہے اور نہ کوئی
غم خوار دوست ۔ ( تفسیر بغوی، 3/364)
(5) بر اسا تھی جہنم
کا ٹکڑا ہے :تاجدار رسالت صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : برے ساتھی سے بچو کیونکہ وہ جہنم کا ایک ٹکڑا ہے
، اسکی محبت تمہیں فائدہ نہیں پہنچائے گی اور وہ تم سے اپنا وعدہ پورا نہیں کرے
گا۔( فردوس الاخبار ، 1/ 224 ، حدیث : 1573)
خلاصہ: دوستی کرنے میں میانہ روی اختیار کرنا ۔ بھائی چارگی
اور دوستی کو ہمیشہ باقی رکھنا اور نیک آدمی کو دوست بنانا نہایت ضروری ہے۔ حضرت
علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: دنیا کا امیر شخص وہ ہے جس کے دوست مخلص ہوں۔ایک اور
فرمان ہے کہ تمہار ابدترین دوست وہ ہے جو تمہیں غلط بات پر راضی کرے۔اللہ پاک
ہمارے حال پر رحم فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم