توقیر خٹک (درجۂ ثانیہ مرکزی جامعۃُ
المدینہ فیضانِ عطار اٹک ، پاکستان)
معاشرے میں رہنے والے انسان خاندانی تعلقات اور رشتہ داریوں
کو نبھانے کے لیے دیگر افراد کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو بھی استوار رکھتے ہیں۔
دوستی کی بنیاد عام طور پر انسان کا دوسرے انسان کے ساتھ گزرا ہوا وقت یکساں
مفادات اور مسرت و فکر کا اشتراک ہوتا ہے ۔ چنانچہ ہم ذہن لوگ ایک دوسرے کے ساتھ
قربت رکھنے والے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ دوری محسوس کرتے ہیں چنانچہ دنیا میں
دوستوں کے اچھے اور بڑے واقعات منظر عام پر آتے رہتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں دیکھا
گیا ہے کہ بہت سے۔ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ دوستی نبھانے کے دوران ہر حد کو عبور کر
جاتے ہیں ۔ کئی لوگ شراب نوشی ، قتل و غارت گری اور بد کرداری کے حوالے سے بھی
اپنے دوستوں کو اس طرح کے کام پر لگانے سے گریز نہیں کرتے۔اس کے مد مقابل بہت سے
لوگ روحانی اور نظریاتی اعتبار سے بھی دوستی کے بندھن میں بندھے ہوتے ہیں اسلام نے
اس حوالے سے اپنے جاننے والوں کی بہت ہی خوبصورت انداز میں رہنمائی کی ہے اور دوستی
کے اصول وضوابط کو اہل ایمان کے سامنے رکھا ہے۔ چنانچہ
سورہ توبہ کی آیت نمبر 71 میں اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے :
اور مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں بھلائی کا حکم دیں اور
برائی سے منع کریں اور نماز قائم رکھیں اور زکوٰۃ دیں اور اللہ و رسول کا حکم
مانیں یہ ہیں جن پر عنقریب اللہ رحم کرے گا بےشک اللہ غالب حکمت والا ہے۔
آیت مذکورہ سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ ایمان والے مرد
اور امان والی عورتیں آپ دوسرے کے دوست ہیں ۔ اور وہ نیکی کا حکم دیتے اور برائی
سے روکتے ہیں ۔ اسی طرح وہ نمازوں کو قائم کرتے اور ز کوٰ ۃ ادا کرتے ہیں۔ اور وہ
اللہ اور اس کے سول کی اطاعت کرتے ہیں۔ گویا وہ نیکی کے تمام کاموں میں ایک دوسرے
کے معاون ہوتے ہیں۔ کلام پاک سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ کل قیامت کے دن صرف
تقویٰ کی بنیاد پر استوار ہونے والی دوستی کام آئے گی اور شرکی بنیاد پر قائم ہونے
والی دوستی قیامت کے دن دشمنی اور نفرت پر منتج ہوگی۔ اللہ کا قرآن ہمیں یہ بات بھی
سمجھاتا ہے کہ دنیا میں بسا اوقات غلط دوستی کی چناؤ کی وجہ سے انسان کل کلاں جسم
کی آگ میں چلا جائے گا اور سیدھے راستے سے بھٹکنے کی ایک بہت بڑی وجہ اس کی غلط صحبت
ہوتی ہے ۔
چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے: اور جس دن
ظالم اپنے ہاتھ چبا چبا لے گا کہ ہائے کسی طرح سے میں نے رسول کے ساتھ راہ لی ہوتی۔
وائے خرابی میری ہائے کسی طرح میں نے فلانے کو دوست نہ بنایا ہوتا بےشک اس نے مجھے
بہکادیا میرے پاس آئی ہوئی نصیحت سے اور شیطان آدمی کو بے مدد چھوڑ دیتا ہے ۔
(پ19، الفرقان:27)
چنانچہ ہمیں ان لوگوں سے دوستی کرنی چاہیے کہ جن کی محبت سے
ہمیں ایمانی اور اسلامی معاملات کو تقویت حاصل ہو اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے
کہ دوستی کی بنیاد درست صحبت ہونی چاہئے ۔ اور اللہ تعالی کے نافرمانوں سے اہل ایمان
کو اعراض کرنا چاہیے ہم سب کو دوستی کے حوالے سے بعض اہم باتوں کو ذہن نشین کرنے کی
ضرورت ہے۔
(1) اپنے دوست کے لیے
وہ پسند کرنا ، جو انسان اپنے لیے پسند کرے۔انسان کو ہمیشہ مادی اخلاقی اور نباتی
اعتبار سے اپنے دوست کے لیے اسی چیز کو پسند کرنا چاہئے جو اپنی ذات کے لیے پسند
کرتا ہے۔ اگر وہ چاہتا ہے کہ اس کی عزت کی جائے تو اس کو اپنے دوست کی بھی عزت کرنی
چاہیے، حدیث پاک میں اس حوالے سے نبی علیہ السلام کا فرمان ہے: کہ تم میں سے کوئی
شخص اس وقت تک کامل مؤمن نہیں ہوسکتا جب وہ اپنے مسلمان بھائی کے لیے وہی چیز پسند
نہ کرے جووہ اپنے لئے پسند کرتا ہے ۔
(2) نیکی اور بھلائی
کے کاموں میں تعاون: اللہ تعالٰی سورہ مائدہ میں ارشاد فرماتا ہے:
ترجَمۂ کنزُالایمان: اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو۔ (پ6،
المآئدۃ:2) ایک دوست کو دوسرے دوست کے ساتھ بھلائی کے تمام کاموں میں تعاون
کرنا چاہئے۔
(3 ) گنا ہ کے
کاموں سے اجتناب: اللہ تعالی سورہ مائدہے میں ارشاد فرماتا ہے: ترجمۂ کنزالایمان:
اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ دو۔ (پ6، المآئدۃ:2) چنانچہ اہل ایمان کودوستی
کے باوجود بھی اپنے دوست کے ان معاملات میں اس کا معاون نہیں بننا چاہئے جن کا
تعلق اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے ساتھ ہو ، اگر مخلص دوست بھی کسی مخلوط مجلس میں
جانے کے لیے کیہے تو اس کا ساتھ دینے سے انکار کر دینا چاہئے۔
(4) دکھ دور
اور مشکل میں دوست کے کام آنا: انسان کو دکھ تکلیف مشکل میں اپنے دوستوں کے ضرور
کام آنا چاہئے ۔ دوست کی بیمار پرسی کرنا، ان کے عزیر واقارب کے جنازوں میں شرکت
کرنا، مالی نقصانات کی صورت میں ان کے ازالے کی کوشش کرنا کیونکہ اس صورت میں ان
کے گھر خوراک پہنچانا مخلصوں کی نشاہوں میں سے ہے۔
(5) موت کے بعد بھی
انسان کو خیر خواہی کرتے ہوئے دوستوں کے جنازوں میں شریک ہونا چاہئے اور ان کے اہل
و عیال کی جس حد تک ممکن ہو خبر گیری کرتے کرنا چاہئے۔ ہمارے معاشرے میں بہت سے
لوگ دوستی کے حوالے سے عائد ہونے والی ذمہ داریوں کا احساس نہیں کرتے اور اپنے
دوستوں کو مشکل وقت میں اکیلا چھوڑ جاتے ہیں ۔ اللہ تبارک وتعالی تمہیں صحیح معنوں
میں دوستی کے فرائض اور حقوق کو سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فر
مائے۔ امین