جس طرح ہم پر حقوقُ اللہ ہیں اسی طرح حقوقُ العباد بھی ہیں۔ جس کو ادا کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ جس طرح ماں باپ، رشتے دار، پڑوسیوں ، بڑے چھوٹوں کے حقوق ہوتے ہیں۔ اسی طرح دوستوں کے بھی بہت سے حقوق ہوتے ہیں تو کچھ درج ذیل ہیں :

دوست کے حقوق میں سے ہے کہ وہ جب بھی پریشان ہو تو اس کی پریشانی کو دور کیا جائے ، جیسا کہ حدیث مبارک میں بھی آیا، فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:جو کسی مسلمان کی پریشانی دور کریں اللہ پاک قیامت کے پریشانیوں میں سے ایک پریشانی دور فرمائے گا۔ (مسلم ،ص 1069 ،حدیث:6578)

دوست کے حقوق میں سے ہے کہ جب دو دوست ساتھ ہوں تو آپس میں کوئی ایسی بات، کوئی طعنہ نا دیا جائے کہ وہ آپس میں نا اتفاقی دوستی میں کمی اور دوری کا سبب بنے ۔جس سے آپسی معاملات میں خرابی پیدا ہوں۔ جس طرح اللہ رب العزت نے قراٰنِ مجید میں ارشاد فرمایا: ترجمۂ کنزالایمان : اور آپس میں طعنہ نہ کرو۔ اور ایک دوسرے کے بڑے نام نہ رکھو ۔(پ 26،الحجرات:11 )

دوستی کے حقوق میں سے ہے دوستی فقط دنیاوی معاملات تک محدود نہیں رکھنی چاہیے بلکہ دینی و اخروی فوائد کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے جس طرح حدیث مبارکہ میں آیا ہے کہ ، سر کار والا تبار، بے کسوں کے مدد گار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالیشان ہے :آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے لہذا تم میں سے ہر ایک کو چاہئے وہ دیکھے کس سے دوستی کر رہا ہے (ترمذی ، کتاب الزهد، حدیث: 2385)

اور دوستی کے حقوق میں سے ہے اگر ایک دوست دوسرے دوست کے کسی دکھ و تکلیف میں کام آئے تو اس کو احسان نہیں جتا نا چاہیے احسان کرنا بڑی نیکی ہے مگر احسان کر کے کسی پر احسان جتلانا گندی صفت ہے ایسے لوگوں کو عربی میں منان اور اردو میں احسان جتلانے والا کہتے ہیں ۔

دوستی کے حقوق میں سے ہے کہ دوستی اللہ رب العزت کے لیے ہونی چاہئے جس طرح حدیث مبارکہ میں آیا ہے کہ اللہ پاک کے کچھ ایسے بندے ہیں کہ وہ نہ انبیا ہیں نہ شہدا اور خدا کے نزدیک ان کا ایسا مرتبہ ہوگا کہ قیامت کے دن انبیا اور شہدا ان پر غبطہ کریں گے ، لوگوں نے عرض کی: یا رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرمائیے یہ کون لوگ ہیں؟ فرمایا :یہ وہ لوگ ہیں جو محض رحمتِ الٰہی کی وجہ سے آپس میں محبت رکھتے ہیں، نہ ان کے آپس میں رشتہ ہے، نہ مال کا لینا دینا ہے۔ خدا کی قسم! ان کے چہرے نور ہیں اور وہ خود نور پر ہیں ان کو خوف نہیں، جبکہ لوگ خوف میں ہوں گے اور نہ وہ غمگین ہوں گے، جب دوسرے غم میں ہوں گے اور حضور (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم)نے یہ آیت پڑھی: ﴿اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَۚۖ(۶۲) ﴾(سنن ابی داؤد، حدیث:3527)

دوستی کے حقوق میں سے ہے اگر کبھی دوست سے کوئی غلطی ہو جائے یا وہ بری صحبت میں پڑ جائے تو یک لخت (فوراً) اس سے دوری اختیار کرنے کے بجائے اسے سمجھانا چاہئے کیونکہ اچھے دوست کے اوصاف میں سے اہم ترین وصف (خوبی ) یہ بھی ہے کہ وہ اپنے دوست کو بری صحبت میں نہیں چھوڑتا، بلکہ اسے برائی سے نکالنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کے لئے بارگاہ الٰہی میں دعا کرتا ہے، اس کی عملی صورت حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہُ عنہ کے مبارک عمل سے ملاحظہ کیجئے۔ چنانچہ منقول ہے کہ ملک شام کا رہنے والا ایک بہادر شخص امیر المومنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہُ عنہ کی بارگاہ میں آیا کرتا تھا ایک بار وہ کافی عرصے تک نہ آیا آپ نے اس کے متعلق پوچھا ، آپ کو بتایا گیا کہ وہ شراب کے نشے میں رہنے لگا ہے ، آپ رضی اللہُ عنہ نے اسے خط بھیجا جس میں لکھا تھا ، عمر بن خطاب کے جانب سے فلاں کی طرف ، تم پر سلام ہوں ، میں تمہارے ساتھ اس اللہ کے نعمت کا شکر ادا کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ گناہوں کو بخشنے والا ہے ، توبہ قبول کرنے والا ہے شدید پکر کرنے والا اور خوب مہربان بھی ہے اس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں اسی کی طرف لوٹنا ہے۔ پھر آپ رضی اللہُ عنہ نے ساتھیوں سے فرمایا: اپنے بھائی کے لیے الله سے دعا کرو کہ اللہ کریم اس کے دل کو پھیر دے اس کی توبہ قبول کرے جب وہ مکتوب اس شخص کو پہنچا تو اس نے پڑھنا شروع کی اور بار بار کہتا جاتا : گناہوں کو بخشنے والا ! توبہ قبول کرنے والا ! میرے رب نے مجھے اپنی پکڑ سے ڈرایا اور میری بخشش کا وعدہ کیا۔ (تفسیر ابن ابی حاتم ، پ 24، 10/3263،حدیث: (18416