کلیم اللہ چشتی(درجہ سادسہ جامعۃُ المدینہ
فیضانِ فاروق اعظم سادھوکی لاہور، پاکستان)
بچہ جب پیدا ہوتا ہے۔ آنکھیں کھولنے کے بعد اپنے ماں باپ کو
پہچانتا ہے ان کے ساتھ انسیت رکھتا ہے پھر جب تھوڑا سا بڑا ہوتا تو مزید انسیت کے
لیے اپنے دوست بناتا ہے۔ اگر یہ دوستی رضائے الٰہی کے لیے ہو تو اس پر بھی عظیم
ثواب دیا جائے گا کیونکہ دینِ اسلام میں دوستی کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ جس طرح
کہ حدیث مبارکہ ہے: جو شخص اللہ پاک کی رضا کے لیے کسی کو اپنا بھائی بنائے تو
الله پاک اسے جنت میں بلند درجہ عطا فرمائے گا جس تک وہ اپنے کسی عمل کی بدولت نہیں
پہنچ سکتا (مسند الشامیین للطبرانی، 1/105، حدیث:157) یہ درجہ اسے ملے گا جس کی
دوستی صرف رضائے الٰہی کے لیے ہو مثلاً کسی کا اپنے استاد اور شیخ سے اس لیے محبت
کرنا کہ ان کے ذ ریعے وہ علم حاصل کر کے اچھے اعمال کر سکے اور علم و عمل سے اس کا
ارادہ آخرت میں کامیابی پانا تو یہ محبت رضائے الٰہی والی ہے۔
ہمارے معاشر میں ہر طبقے کے کچھ نہ کچھ حقوق ہوتے ہیں اسی
طرح دستوں کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں۔ آئیے ان میں سے بعض کا مطالعہ کرتے ہیں:
(1) مالی معاونت: دوست کی مالی معاونت بھی ہم پر ضروری ہوتی ہے جیسا کہ رسولِ پاک صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : دو بھائیوں کی مثال دو ہاتھوں کی طرح کہ ایک دوسرے
کو دھوتا ہے۔ (الترغیب فی فضائل الاعمال لابن شاہین ، 1 / 493 حدیث : 433 ) یعنی
جس طرح دونوں ہاتھ ایک مقصد میں تعاون کرتے ہیں اسی طرح دو مسلمان بھائی بھی ایک
مقصد میں موافقت کرتے ہیں۔
(2) بدنی معاونت: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ حضور علیہ السّلام نے فرمایا: جو اپنے کسی
اسلامی بھائی کی حاجت روائی کے لئے چلتا ہے اللہ عزوجل اس کے اپنی جگہ واپس آنے تک
اس کے ہر قدم پراس کے لئے ستر نیکیاں لکھتاہے اور اس کے ستر گناہوں کو مٹا دیتاہے
۔ پھر اگر اس کے ہاتھو ں وہ حاجت پوری ہوگئی تو وہ اپنے گناہوں سے ایسے نکل جاتا ہے
جیسے اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا اور اگر اس دوران اس کا انتقال ہو گیا
تو وہ بغیر حساب جنت میں داخل ہوگا ۔(التر غیب والترھیب )
(3)خاموش
رہنا : دوست کے عیوب اور نا پسندیدہ باتیں بیان کرنے سے خاموش
رہنا۔
(4) خوبیاں بیان کرنا: جس طرح دوستی دوست کے عیوب بیان کرنے پر خاموش رہنے کا تقاضا کرتی ہے ایسے ہی
اس کی خوبیاں بیان کرنے کا بھی تقاضا کرتی ہے کیونکہ کسی کی تعریف کو چھپانا خالص
حسد ہے۔
(5) دعا کرنا: دوست کی غیر موجودگی میں اس کے لیے دعا کی جائے مروی ہے کہ آدمی کی اپنے بھائی
کے حق میں اس کی غیر موجودگی میں کی گئی دعا رد نہیں ہوتی ۔(صحیح مسلم، کتاب الذكر
و الدعا، حديث: 2733 )
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! ہمیں بھی دوستی صرف اور صرف
رضائے الٰہی کی خاطر کرنی چاہیے۔ کیونکہ اس میں دین و دنیا کی کامیابی ہے۔