اللہ پاک نے کثرت سے نماز کا تذکرہ قراٰن شریف میں فرمایا ہے،اسے باجماعت اور پابندی سے ادا کرنے کا حکم دیا ہے اور یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ اس معاملے میں سستی اور کوتاہی کرنا منافقین کی نشانی ہے،ایک جگہ اللہ پاک فرماتا ہے کہ تمام نمازیں پابندی سے ادا کرو ، اور بالخصوص درمیانی نماز عصر کی نماز اور تابع فرما ن بن کر اللہ کے سامنے کھڑے ہوجاو۔ دوسری جگہ حکم دیتاہے کہ : وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِیْنَ(۴۳) ترجمۂ کنز الایمان: اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ (پ1،البقرۃ: 43)

ابو داود و ترمذی ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے راوی، کہ ایک صاحب مسجد میں حاضر ہوئے اس وقت کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نماز پڑھ چکے تھے، فرمایا: ہے کوئی کہ اس پر صدقہ کرے (یعنی اس کے ساتھ نماز پڑھ لے کہ اسے جماعت کا ثواب مل جائے) ایک صاحب (یعنی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ) نے ان کے ساتھ نماز پڑھی۔( جامع الترمذی، أبواب الصلاۃ، باب ماجاء في الجماعۃ)

طبرانی ابن عمر سے اور ابو داود براء بن عازب رضی اللہ عنہم سے راوی، کہ فرماتے ہیں :اس قدم سے بڑھ کر کسی قدم کا ثواب نہیں ، جو ا س لیے چلا کہ صف میں کشادگی کو بند کرے۔ اور بزار باسناد حسن ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ سے راوی، کہ جو صف کی کشادگی بند کرے، اس کی مغفرت ہو جائے گی۔( مسند البزار ، مسند أبي جحیفۃ، 10/159،حدیث : 4232 )

مسلم و ابو داود و ترمذی و نَسائی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے راوی، کہ فرماتے ہیں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : مردوں کی سب صفوں میں بہتر پہلی صف ہے اور سب میں کم تر پچھلی۔( صحیح مسلم ، کتاب الصلاۃ، باب تسویۃ الصفوف)

مسلم و ابو داود و نَسائی و ابن ماجہ جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے راوی، کہ حضور (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) فرماتے ہیں : کیوں نہیں اس طرح صف باندھتے ہو جیسے ملائکہ اپنے ربّ کے حضور باندھتے ہیں ، عرض کی، یا رسول اللہ (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) کس طرح ملائکہ اپنے ربّ کے حضور صف باندھتے ہیں ؟ فرمایا: اگلی صفیں پوری کرتے ہیں اور صف میں مِل کر کھڑے ہوتے ہیں ۔ (صحیح مسلم ، کتاب الصلاۃ، باب الأمر، بالسکون في الصلاۃ)

صحیح مسلم میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی، کہ فرماتے ہیں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : جس نے باجماعت عشا کی نماز پڑھی، گویا آدھی رات قیام کیا اور جس نے فجر کی نماز جماعت سے پڑھی، گویا پوری رات قیام کیا ۔( صحیح مسلم ، کتاب المساجد ۔۔۔ إلخ، باب فضل صلاۃ العشاء)


نمازِ باجماعت کی قراٰن وحدیث میں بہت تاکید آئی ہے جابجا حضور سرور کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی رغبت دلائی اور اس سے غفلت برتنے والوں کی مذمت بیان کی ہے باجماعت نماز پڑھنے کے ان گنت دینی و دنیاوی فوائد (profits) ہیں جب نمازی مسجد کی جانب چلتا ہے تو اس کے ہر قدم کے بدلے ایک ثواب لکھا جاتا ہے، ایک گناہ مٹا دیا جاتا ہے اور ایک درجہ بلند کردیا جاتا ہے اور جب تک نماز کے لئے انتظار کریگا تب تک فرشتے اس کے لئے دعائے مغفرت کرتے رہیں گے۔ جماعت کئی امورِ خیر مثلاً مسلمانوں کا باہم ملاقات کرنا خیر خیریت پوچھنا سلام کلام کرنا رحم دلی ہمدردی وغیرہ کا ذریعہ بھی بنتا ہے با جماعت نماز سے نمازی سستی و کاہلی سے بچنے اور چستی و پھرتی پیدا کرنے میں بھی کامیاب ہو جاتا ہے۔ لہٰذا نمازِ باجماعت کا جذبہ بیدار کرنے کے لئے پانچ فرامین مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پڑھیئے اور پابندیٔ جماعت کا عزم مصمم کیجئے۔

عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ شَهِدَ الْفَجْرَ وَالْعِشَاءَ فِي جَمَاعَةٍ، كَانَتْ لَهُ بَرَاءَتَانِ: بَرَاءَةٌ مِنَ النِّفَاقِ، وَبَرَاءَةٌ مِنَ الشِّرْكِ ترجمہ:حضرت عطاء رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا جو فجر وعشاء کی جماعت میں حاضر ہوا اس کے لئے دو براءتیں (چھٹکارے)ہیں ایک نفاق سے اور دوسرا شرک سے۔( مسند ابی حنيفہ لروايۃ الحصكفی ، حديث: 54)

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہ، عَنْ رَسُولِ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «مَنْ دَاوَمَ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، كُتِبَ لَهُ بَرَاءَةٌ مِنَ النِّفَاقِ، وَبَرَاءَةٌ مِنَ الشِّرْكِ» ترجمہ:حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حبیب پروردگار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :جو چالیس دن تک جماعت کی پابندی کرے اس کے لئے نفاق اور شرک سے براءت لکھ دی جاتی ہے۔( مسند ابی حنيفہ لروايۃ الحصكفی ، حديث: 54)

أحمد عن عائشة : فضلت الجماعة على صلاة الفذ خمساوعشرين ترجمہ: جماعت کی فضیلت منفرد کے نماز پر پچیس گنا ہے ۔(جامع الأحاديث لجلال الدين السيوطي)

عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ صَلَّى الْعِشَاءَ فِي جَمَاعَةٍ، كَانَ كَقِيَامِ نِصْفِ لَيْلَةٍ، وَمَنْ صَلَّى الْفَجْرَ فِي جَمَاعَةٍ كَانَ كَقِيَامِ لَيْلَةٍ» ترجمہ: حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے نماز عشاء باجماعت پڑھی گویا کہ آدھی رات قیام کیا اور جس نے فجر جماعت کے ساتھ ادا کیا تو اس نے پوری رات قیام کیا ۔(صحيح ابن خزيمہ، 2/365)

عن ابي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «وَلَوْ عَلِمُوا مَا فِي الْعَتَمَةِ وَالصُّبْحِ لَأَتَوْهُمَا وَلَوْ حَبْوًا» ترجمہ: سرکار مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا اگر منافقین جانتے کہ فجر و عشاء(کی فضیلت )کیا ہے تو سرین کے بل چل کر آتے ۔(صحيح ابن خزيمہ، 2/366)

پیارے اسلامی بھائیو ! احادیث میں نمازِ باجماعت کی کس قدر تاکید شدید وارد ہے اور ہماری حالت انتہائی تشویشناک ہے نہ تکبیر اولیٰ کی فکر ،نہ چھوٹ جانے پر کو ئی رنج، یہاں تک کہ( معاذ اللہ) ہماری جماعتیں بھی چھوٹ رہی ہوتی ہیں اور ہمیں کوئی غم نہیں ہوتا۔ اللہ کریم ہمیں عقل سلیم عطا فرمائے اور پانچوں نمازیں تکبیر اولیٰ کے ساتھ مسجد کی پہلی صف میں پڑھنے تو فیق عطا فرمائے۔


الحمدللہ رب العالمین ۔ رب اکبر نے شب معراج پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پیاری امت پر نمازوں کو فرض فرمایا جو کہ مؤمنین کے لیے تحفہ ہیں اور نماز ایک ایسا تحفہ ہے جس کو ہم ادا تو پانچ کرتے ہیں پر ثواب 50 کا ملتا ہے۔

اللہ نے قراٰن مجید میں فرمایا: اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا(۱۰۳) ترجمۂ کنزالایمان: بے شک نماز مسلمانوں پر وقت باندھا ہوا فرض ہے۔(پ5،النسآء:103) اور ادا کرنے کا حکم دیا کسی چیز کو بجا لانے میں اور اس کو ادا کرنے کے کچھ اہتمام و انتظام کرنا پڑتا ہے اسی طرح نماز کو ادا کرنے کے لیے جماعت کا اہتمام کیا جاتا ہے اور یہ اہتمام خود رسول پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور آپ کے اصحاب کرتے تھے اور آج تک کیا جاتا ہے صرف اتنا ہی نہیں بلکہ نماز کو جماعت کے ساتھ ادا کرنے پر فضیلتیں وارد ہیں اور جماعت کو ترک کرنے پر وعیدیں وارد ہیں ۔ہم بھی نماز کو باجماعت پڑھنے پر جو احادیث ہیں ان میں سے کچھ سننے کا شرف حاصل کرتے ہیں۔

حدیث (1)حضرت سیِّدُنا اَنس رضی اللہ عنہ سے رِوایت ہے کہ تاجدارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرماتے ہیں : جو کوئی اللہ پاک کے لیے چالیس دن ’’تکبیر اُولیٰ‘‘ کے ساتھ باجماعت نماز پڑھے اُس کے لیے دو آزادیاں لکھی جائیں گی، ایک نار سے دوسری نفاق سے ۔ (ترمذی،1/274، حديث: 241)

حدیث (2 )حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ حضور (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) فرماتے ہیں : جو شخص چالیس راتیں مسجد میں جماعت کے ساتھ پڑھے کہ عشا کی تکبیرِ اُولیٰ فوت نہ ہو، اللہ پاک اس کے لیے دوزخ سے آزادی لکھ دے گا۔(سنن ابن ماجہ ابواب المسجد ۔باب صلاۃ العشاء والفجر ۔اقتباس بہار شریعت )

حدیث (3) ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے راوی، کہ ایک دن صبح کی نماز پڑھ کر نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: آیا فلاں حاضر ہے؟ لوگوں نے عرض کی، نہیں، فرمایا: فلاں حاضر ہے؟ لوگوں نے عرض کی، نہیں، فرمایا: یہ دونوں نمازیں منافقین پر بہت گراں ہيں، اگر جانتے کہ ان میں کیا (ثواب) ہے تو گھٹنوں کے بل گِھسٹتے آتے اور بے شک پہلی صف فرشتوں کی صف کے مثل ہے اور اگر تم جانتے کہ اس کی فضیلت کیا ہے تو اس کی طرف سبقت کرتے مرد کی ایک مرد کے ساتھ نماز بہ نسبت تنہا کے زیادہ پاکیزہ ہے اور دو کے ساتھ بہ نسبت ایک کے زیادہ اچھی اور جتنے زیادہ ہوں، اللہ پاک کے نزدیک زیادہ محبوب ہیں۔ (سنن ابی داود، کتاب الصلاۃ، باب في فضل صلاۃ الجماعۃ، 1/230،حديث:554)

حدیث (4)صحیح مسلم میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی، کہ فرماتے ہیں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : جس نے باجماعت عشا کی نماز پڑھی، گویا آدھی رات قیام کیا اور جس نے فجر کی نماز جماعت سے پڑھی، گویا پوری رات قیام کیا۔(شعب آلایمان باب فی الصلاۃ‘فضل آلجماعۃ ،حدیث:2852)

حدیث (5)ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا سے جماعت سے نماز پڑھنا تنہا نماز پڑھنے سے 27 درجے زیادہ افضل ہیں۔

ان سب احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھنے کی بہت فضیلت ہے اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں نمازِ باجماعت پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ۔


اللہ پاک نے قراٰنِ کریم میں نماز پنجگانہ باجماعت پڑھنے کا حکم فرمایا ہے، نیز کئی احادیث مبارکہ جماعت کی ترغیب و تحریص پر مشتمل ہیں، ذیل میں پانچ فرامین مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پیش کیے جاتے ہیں تاکہ عاشقان رسول نمازِ باجماعت کی طرف راغب ہوں، چنانچہ :

(1) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسے روایت ہے،نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا تنہا پڑھنے سے ستائیس درجہ زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔( صراط الجنان، 1 /126)

(2) حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے غلام حضرت حمران رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے کامل وضو کیا، پھر فرض نماز کے لیے چلا اور امام کے ساتھ نماز پڑھی، اس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔( صراط الجنان، 1/126)

(3) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور پر نورصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو اچھی طرح وضو کرکے مسجد کو جائے اورلوگوں کو اس حالت میں پائے کہ وہ نماز پڑھ چکے ہیں تو اللہ پاک اسے بھی جماعت سے نمازپڑھنے والوں کی مثل ثواب دے گا اور اُن کے ثواب سے کچھ کم نہ ہوگا۔ (صراط الجنان،1 / 126)

(4) امیرالمؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عمرفاروقِ اَعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دو جہاں کے سردار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے سنا کہ اللہ پاک باجماعت نماز پڑھنے والوں کو محبوب(یعنی پیارا) رکھتا ہے۔(فیضان نماز، ص 140 )

(5) رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اے عثمان! جو شخص فجر کی نمازِ باجماعت ادا کرے اور طلوع آفتاب تک اللہ کا ذکر کرتا رہے، اس کے لیے حج مبرور اور مقبول عمرہ کا ثواب ہے۔ (فیضانِ نماز، ص152)

آخری حدیث پاک میں مبرور حج کا تذکرہ ہے، اس کے متعلق حضرت علامہ عبدالرؤف مناوی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: حج مبرور کا معنی ہے حج مقبول، یا وہ حج جس میں کوئی گناہ نہ ہو۔

حکیم الامت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں: حج مقبول و مبرور وہ ہے جو لڑائی جھگڑے، گناہ، ریا کاری سے خالی اور صحیح ادا کیا جائے۔ ایک اور جگہ تحریر فرماتے ہیں: حج مبرور سے مراد وہ حج ہے جس میں گناہ سے بچا جائے یا وہ حج ہے جس میں ریاکاری و نمود سے پرہیز ہو، یا وہ حج جس کے بعد حاجی مرتے وقت تک گناہوں سے بچے اور حج برباد کرنے والا کوئی عمل نہ کرے۔

خواجہ حسن بصری فرماتے ہیں: حج مقبول وہ ہے جس کے بعد حاجی دنیا میں زاہد (آخرت میں راغب) رہے۔ یا حج مبرور وہ ہے جو حاجی کا دل نرم کر دے کہ اس کے دل میں سوز اور آنکھوں میں تری رہے، حج کرنا آسان ہے مگر حج سنبھالنا مشکل ہے۔(فیضان نماز، ص 153)

اے عاشقان رسول نماز پنجگانہ باجماعت پڑھنے کی عادت بنائیے اور اپنے ساتھ دوسروں کو لے جانے کی کوشش کیجئے اور اجر و ثواب کے حق دار بنیے، کیوں کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے: بے شک نیکی کی راہ دکھانے والا نیکی کرنے والے کی طرح ہے۔(فیضان نماز، ص 156)

اللہ پاک ہم سب کو نمازِ باجماعت تکبیر اولی کے ساتھ صف اولیٰ میں پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الکریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 


اللہ پاک کا کروڑوں احسان ہیں کہ اس نے ہمیں ایک نعمت عظمی فرمایا اور ساتھ ہی ساتھ جماعت جیسی دولت سے ہمیں نوازا نماز تو ثواب کمانے کا ایک سبب ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ جماعت بھی ثواب کمانے کا ذریعہ ہے ۔ آئیے ہم اللہ پاک کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زبانی جماعت کی فضیلت اور جماعت کی اہمیت سمجھتے ہیں :۔

(1) عن أنس بن مالك من صَلّى صلاةَ الفَجرِ في جماعةٍ ولا يُؤَخِّرُها استوجَبَ مِنَ اللہ عزَّ وجلَّ أربعةَ أشياءَ: أوَّلُها رِزقًا مِنَ الحَلالِ، وثانيها: ينجو من عذابِ القَبرِ، وثالثُها: يُعطى كِتابَه بيَمينِه والرّابِعُ: يَمُرُّ على الصِّراطِ كالبَرْقِ الخاطِفِ ترجمہ۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جو شخص فجر کی نمازِ باجماعت پڑھے اور اس میں تاخیر نہ کرے تو اللہ پاک چار چیزوں کا تقاضا کرتا ہے: پہلا اسے رزقِ حلال ملے گا، دوسرا عذابِ قبر سے نجات پائے گا، تیسرا اس کے دائیں ہاتھ میں نامۂ اعمال دیا جائے گا ، چوتھا وہ پل صراط پر چمکدار براق کی طرح گزرے گا۔

(2) خطیب نے انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ حضور (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) نے فرمایا: جس نے چالیس دن نماز فجر و عشا باجماعت پڑھی، اس کو اللہ پاک دو برائتیں عطا فرمائے گا، ایک نار سے دوسری نفاق سے۔ (بہار شریعت حصہ سوم)

(3) ابن ماجہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے راوی، کہ حضور (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) فرماتے ہیں : ’’جو مسجد جماعت میں چالیس راتیں نماز عشا پڑھے، کہ رکعت اولیٰ فوت نہ ہو، اللہ پاک اس کے لیے دوزخ سے آزادی لکھ دیتا ہے۔(بہار شریعت حصہ سوم)

(4) بخاری و مسلم و مالک و ترمذی و نَسائی ابن عمر رضی اللہ عنہما سے راوی، کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں : نماز جماعت، تنہا پڑھنے سے ستائیس درجہ بڑھ کر ہے۔(بہار شریعت حصہ سوم)

(5) طبرانی ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے راوی، کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں: اگر یہ نماز جماعت سے پیچھے رہ جانے والا جانتا کہ اس جانے والے کے ليے کیا ہے؟، تو گھسٹتا ہوا حاضر ہوتا۔ (بہار شریعت حصہ سوم)

اللہ کے حبیب علیہ الصلوۃ والسلام نے جماعت کے تعلق سے جو فضیلت بیان کی ہے رب کعبہ ہمیں ان فضائل پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائیں ۔


اے عاشقان نماز! اللہ کریم کی رحمت سے ہمیں جو بےشمار انعامات عنایت ہوئے ہیں، الحمد‌للہ ان میں سےنماز بھی ایک عظیم الشان انعام ہےاور اسی طرح نماز کی جماعت کی دولت بھی کوئی معمولی انعام نہیں، اللہ پاک کےفضل وکرم سےیہ بھی ہمارے لیے بےشمار‌ نیکیاں حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ اللہ پاک قراٰنِ کریم سورۃ البقرہ آیت 43 میں ارشادفرماتا ہے: وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِیْنَ(۴۳) ترجمۂ کنز الایمان: اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ (پ1،البقرۃ: 43) حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اس ( یعنی اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو) کا مطلب یہ ہے کہ جماعت سے نماز پڑھا کرو، کیونکہ جماعت کی نما ز تنہا نماز پرستائیس درجے افضل ہے۔(تفسیر نعیمی، 1/330)

باجماعت نماز پر چند فرامین مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم :۔

(1) امیرالمؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عمرفاروقِ اَعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دو جہاں کے سردار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے سنا کہ اللہ پاک باجماعت نماز پڑھنے والوں کو محبوب(یعنی پیارا) رکھتا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل، 2/309 ،حدیث:5112)

(2) حضرت سیِّدُنا ابو سعید خدرِی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ پاک کے آخری رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کافرمانِ عالی شان ہے: جب بندہ باجماعت نماز پڑھے پھر اللہ پاک سے اپنی حاجت(یعنی ضرورت) کا سُوال کرے تو اللہ پاک اس بات سے حیا فرماتا ہے کہ بندہ حاجت پوری ہونے سے پہلے واپس لوٹ جائے۔ (حلیۃ الاولیاء، 7/299،حدیث: 10591)

(3) تاجدارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں: نمازِ باجماعت تنہا پڑھنے سے ستائیس(27) دَرجے بڑھ کر ہے۔ (بخاری، 1/232،حدیث:645)

(4)فرمان آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : جس نے عشا کی نمازِ باجماعت پڑھی اُس نے گویا تمام رات نماز پڑھی اور جس نے فجر کی نمازِ باجماعت پڑھی اُس نے گویا سارا دن نماز پڑھی۔(معجم کبیر، 1/92،حدیث: 148) اور فرمایا: جس نے فجرو عشا کی نمازِ باجماعت پڑھی اور جماعت سے کوئی بھی رَکعت فوت نہ ہوئی تو اس کے لیے جہنم و نفاق سے آزادی لکھ دی جاتی ہے۔(شعب الایمان، 3/62،حدیث: 2875)

(5) حضرت سیِّدُنا عبدُاللہ بن اُمِّ مَکْتوم رضی اللہ عنہ ے بارگاہِ رِسالت میں عرض کی: یا رسول اللہ مدینۂ منورَہ میں موذی جانور بکثرت ہیں اور میں نابینا ہوں تو کیا مجھے رُخصت ہے کہ گھر پر ہی نماز پڑھ لیا کروں ؟ فرمایا: ’’حیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ ، حَیَّ عَلَی الْفَلَاح‘‘ سنتے ہو؟ عرض کی: جی ہاں ! فرمایا: ’’تو (باجماعت نماز ادا کرنے کے لیے) حاضر ہو۔ (نَسائی، ص148،حدیث:848)

حضرت علامہ امجد علی اعظمی رحمۃُ اللہِ علیہ اس حدیث پاک کےتحت حاشیے میں ارشاد فرماتے ہیں: نابینا کہ اٹکل (راستےکی پہچان) نہ رکھتا ہو، نہ کوئی لےجانے والا ہو، خصوصاً درندوں کا خوف ہوتو اسےضرور رخصت ہے مگر حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے انہیں (حضرت عبداللہ بن ام مکتوم) کو افضل پر عمل کرنے کی ہدایت فرمائی کہ اور لوگ سبق لیں جو بلا عذر گھر میں پڑھ لیتے ہیں۔(بہار شریعت، 1/579)

نمازِ باجماعت کے فوائد

(1)اللہ پاک اور اس کےفرشتے باجماعت نماز پڑھنے والوں پر درود بھیجتے ہیں۔

(2)باجماعت نماز پڑھنے والا پل صراط سے سب سے پہلے بجلی کی مانند گزرے گا۔

(3)اللہ پاک کی حفاظت میں رہے گا۔

پیارے اسلامی بھائیو! نیت فرما لیجئے کہ اب سے میری نمازوں کی ایک بھی جماعت بلا عذر نہیں چھوٹےگی۔ ان شاء اللہ

خدا سب نمازیں پڑھوں باجماعت

کرم ہو پئے تاجداری رسالت


اللہ رب العزت جو دونوں جہاں کا پالنے والا ہے اس نے اپنے بندوں کو بے شمار نعمتیں عطا فرمائی اپنے بندوں کی ہدایت کے لیے انبیاء کرام علیھم السلام کو مبعوث فرمایا ، قراٰنِ پاک کو اپنے محبوب پر نازل فرمایا جس میں زندگی گزارنے کے طریقے بیان کیے گئے۔ سب سے اہم نعمت یہ ہے کہ نماز جیسا تحفہ عطا فرمایا۔ نمازِ باجماعت کی بہت تاکید آئی ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بہت سختی کے ساتھ اس کا التزام فرماتے تھے، چنانچہ حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بیس برس سے متواتر میں اس وقت مسجد میں ہوتا ہوں جب مؤذن اذان دیتا ہے۔

ایک اور صحابی رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم حضرت محمد بن واسع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں دنیا سے تین چیزوں کی خواہش رکھتا ہوں ، ایسا بھائی کہ اگر میں ٹیڑھا ہو جاؤں تو وہ مجھے سیدھا کردے، بغیر کاوش کے مختصر رزق جس کی باز پرس نہ ہو اور نمازِ باجماعت جس کی غلطیاں میرے لیے معاف کر دی جائیں اور جس کی فضیلت مجھے بخش دی جائے۔

حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ کچھ لوگوں کی امامت کی ، جب نماز سے فارغ ہوئے تو شیطان کے متعلق فرمایا کہ وہ مجھے بہکاتا رہا یہاں تک کہ میں نے بھی خود کو دوسرے سے افضل سمجھ لیا آج کے بعد میں امامت نہیں کروں گا۔ اور مروی ہے کہ سلف صالحین تکبیر اولیٰ کے فوت ہونے پر تین دن تک اپنی تعزیت کرتے تھے۔

اور نمازِ باجماعت کے بہت سے فضائل وبرکات قراٰن واحادیث میں وارد ہویے ہیں چنانچہ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِیْنَ(۴۳) ترجمۂ کنز الایمان: اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ (پ1،البقرۃ: 43)

محبوب خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تنہا نماز پڑھنے سے نمازِ باجماعت کو ستائیس درجہ فضیلت حاصل ہے۔ (رواہ البخاری )

اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے جو عشا کی جماعت میں حاضر ہوا گویا اس نے آدھی رات عبادت میں گزاری جو صبح کی جماعت میں بھی حاضر ہوا گویا اس نے ساری رات عبادت میں گزاری۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بعض لوگوں کو چند نمازوں میں نہ دیکھ کر فرمایا میرا یہ ارادہ ہوا کہ میں کسی آدمی کو نماز پڑھانے کا حکم دوں اور میں ان لوگوں کے یہاں جاؤں جو جماعت سے رہ گئے ہیں اور انکو اور انکے گھروں کو جلا دوں ۔ (مسندِ ابی داود)

ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا جس نے نمازِ باجماعت ادا کی پس گویا اس نے اپنے سینے کو عبادت سے بھر لیا۔ (رواہ مسلم )

ترمذی شریف میں رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا جس نے چالیس دن باجماعت تکبیر تحریمہ کے ساتھ نماز ادا کی اس کے لئے دو باتیں لکھ دی جاتی ہیں ایک جہنم سے آزادی اور ایک نفاق سے آزادی۔

البتہ نمازِ باجماعت کی بہت تاکید آئی ہے اور اس کی بے شمار فضیلتیں بھی وارد ہیں مؤمن جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ نمازِ باجماعت کا اہتمام کرے اور ان فضیلتوں کے حامل بنے۔


اللہ پاک نے ہم کو اسلام کی دولت سے نوازا ہے، اور اس نے اپنے مؤمن بندوں کے لیے شرعی احکام عائد فرمائے ، تاکہ مسلمان ان کی روشنی میں اپنی حیات کو منظم طریقے پر گزار سکیں، انہی احکام میں اہم ترین حکم نماز کا ہے۔ قراٰن مجید میں نماز کا کئی بار حکم دیا گیا ہے، نیز اس فریضے کو اجتماعیت کے ساتھ ادا کرنے کا حکم دیا، فرمایا: وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِیْنَ(۴۳) ترجمۂ کنز الایمان: اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ (پ1،البقرۃ: 43)

 احادیث طیبہ میں بھی باجماعت نماز پڑھنے کی ترغیب و تحریص ہے،آپ کی ترغیب کے لئے چند احادیث مبارکہ پیش کرتے ہیں، چنانچہ: (1) امام احمد روایت کرتے ہیں کہ ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جاڑوں (سرديوں) میں باہر تشریف لے گئے، پت جھاڑ کا زمانہ تھا، دو ٹہنیاں پکڑ لیں، پتّے گرنے لگے، فرمایا: اے ابوذر! میں نے عرض کی، لبیک یا رسول اللہ! فرمایا: مسلمان بندہ اللہ کے ليے نماز پڑھتا ہے، تو اس سے گناہ ایسے گرتے ہیں جیسے اس درخت سے یہ پتّے۔ (المسند للامام احمد بن حنبل، مسند الأنصار، حديث أبي ذرالغفاري، 8/133،حدیث: 21612)

(2) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسے روایت ہے،نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا تنہا پڑھنے سے ستائیس درجہ زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔(بخاری،کتاب الاذان، باب فضل صلاۃ الجماعۃ،1/232، حدیث: 645)

(3) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: منافقین پر سب سے زیادہ بھاری عشا اور فجر کی نماز ہے اور وہ جانتے کہ اس میں کیا ہے؟ تو گھسٹتے ہوئے آتے اور بیشک میں نے ارادہ کیا کہ نماز قائم کرنے کا حکم دوں پھر کسی کو حکم فرماؤں کہ لوگوں کو نماز پڑھائے اور میں اپنے ہمراہ کچھ لوگوں کو جن کے پاس لکڑیوں کے گٹھے ہوں ان کے پاس لے کر جاؤں ، جو نماز میں حاضر نہیں ہوتے اور ان کے گھر اُن پر آگ سے جلا دوں۔(مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب فضل صلاۃ الجماعۃ۔۔۔ الخ، ص327، حدیث: 651)

(4) حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے غلام حضرت حمران رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:جس نے کامل وضو کیا، پھر فرض نماز کے لیے چلا اور امام کے ساتھ نماز پڑھی، اس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔ (شعب الایمان، باب العشرون من شعب الایمان وہو باب فی الطہارۃ، 3/9، حدیث: 2727)

(5) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور پر نورصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو اچھی طرح وضو کرکے مسجد کو جائے اور لوگوں کو اس حالت میں پائے کہ وہ نماز پڑھ چکے ہیں تو اللہ پاک اسے بھی جماعت سے نماز پڑھنے والوں کی مثل ثواب دے گا اور اُن کے ثواب سے کچھ کم نہ ہوگا۔ (ابو داؤد، کتاب الصلاۃ، باب فیمن خرج یرید الصلاۃ فسبق بھا،1/234، حدیث: 564)

پیارے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے کہ نمازِ باجماعت کے کیسے فضائل و برکات ہیں۔تو کیا خیال ہے؟ آج سے سچی نیت کر لیں کہ آج سے ہم روزانہ پانچوں وقت کی نماز جماعت سے پڑھیں گے۔ ان شاء اللہ

اللہ پاک ہمیں جماعت کی پابندی کے ساتھ پنج گانہ نماز ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


اللہ پاک نے مسلمانوں کو بہت ساری نعمتوں سے نوازا انہیں نعمتوں میں سے ایک نعمت نماز ہے ،نمازِ باجماعت کے تعلق سے قراٰن شریف میں میں کئی جگہ ذکر آیا ہے، باجماعت نماز پڑھنا تنہا نماز پڑھنے سے افضل ہے، باجماعت نماز پڑھنے میں اکیلے نماز پڑھنے سے 27 گنا زیادہ ثواب ہے باجماعت نماز پڑھنے کے تعلق سے بہت ساری احادیث کریمہ وارد ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ

(1) فرمانِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: مرد کی نماز مسجد میں جماعت کے ساتھ، گھر میں اور بازار میں پڑھنے سے پچیس(25) دَرَجے زائد ہے۔ (بخاری، 1/233،حدیث: 647)

(2) رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اے عثمان جو شخص فجر کی نمازِ باجماعت ادا کرے پھر طلوع آفتاب تک اللہ پاک کا ذکر کرتا رہے اس کے لیے حج مبرور اور مقبول عمرہ کا ثواب ہے۔(شعب الایمان، 7/138،حدیث: 9762 )

(3) فرمان مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جس نے عشا کی نمازِ باجماعت پڑھی اُس نے گویا تمام رات نماز پڑھی اور جس نے فجر کی نمازِ باجماعت پڑھی اُس نے گویا سارا دن نماز پڑھی۔(معجم کبیر، 1/92،حدیث: 148)

(4) فرمان مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جس نے فجرو عشا کی نمازِ باجماعت پڑھی اور جماعت سے کوئی بھی رَکعت فوت نہ ہوئی تو اس کے لیے جہنم و نفاق سے آزادی لکھ دی جاتی ہے۔(شعب الایمان، 3/62،حدیث: 2875)

(5) حضرت سیِّدُنا عبدُاللہ بن اُمِّ مَکْتوم رضی اللہ عنہ ے بارگاہِ رِسالت میں عرض کی: یا رسول اللہ مدینۂ منورَہ میں موذی جانور بکثرت ہیں اور میں نابینا ہوں تو کیا مجھے رُخصت ہے کہ گھر پر ہی نماز پڑھ لیا کروں ؟ فرمایا: ’’حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ ، حَیَّ عَلَی الْفَلَاح‘‘ سنتے ہو؟ عرض کی: جی ہاں ! فرمایا: ’’تو (باجماعت نماز ادا کرنے کے لیے) حاضر ہو۔ (نَسائی، ص148،حدیث:848)

پیارے پیارے اسلامی بھائیوں نمازِ باجماعت ادا کرنے کی بہت تاکید آئی ہے جیسا کہ مذکورہ احادیث میں آپ نے سماعت فرمایا تو ہمیں چاہیے کہ ہم نمازِ باجماعت ادا کریں ہماری قوم کے مسلمانوں کی ایک جماعت ایسی ہے جو جماعت کو ترک کر دیتی ہے اور دکان ومکان میں نماز پڑھ لیتی ہے اور یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ میں پنج وقتہ نمازی ہوں حالانکہ بلا عذر شرعی نمازِ باجماعت نہ پڑھنے والا گنہگار اور ترک واجب کا ارتکاب کرنے والا ہوگا۔

تو ہمارے پیارے اسلامی بھائیو! ہم نمازِ باجماعت ادا کریں اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دلائیں اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں پنج گانہ نمازِ باجماعت ادا کرنے کی توفیق ورفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 


ایمان و عقائد کی درستگی کے بعد افعالِ جوارح میں سب سے افضل و اعلیٰ اور مؤکد فعل" نماز" ہے جو کہ حقیقتاً ایمان کا ہی ثمرہ ہے ، نماز اتنی اہم عبادت ہے کہ کلامِ مقدس "قراٰن مجید" میں اس کے قیام کا حکم کثرت سے آیا ہے جو کہ اس کے اہم ہونے کی دلیل ہے ، اللہ پاک قراٰنِ کریم میں باجماعت نماز ادا کرنے کی ترغیب دلاتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے : وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِیْنَ(۴۳) ترجمۂ کنز الایمان: اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ (پ1،البقرۃ: 43)

احادیثِ مبارکہ میں باجماعت نماز ادا کرنے کی بہت فضیلت آئی ہے جیسا کہ

حضرت سیِّدُنا اَنس رضی اللہ عنہ سے رِوایت ہے کہ تاجدارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرماتے ہیں : جو کوئی اللہ پاک کے لیے چالیس دن ’’تکبیر اُولیٰ‘‘ کے ساتھ باجماعت نماز پڑھے اُس کے لیے دو آزادیاں لکھی جائیں گی، ایک نار سے دوسری نفاق سے ۔ (ترمذی،1/274، حديث: 241)

بُخاری و مسلم ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے راوی، حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں: اگر لوگ جانتے کہ اذان اور صفِ اوّل میں کیا ہے؟ پھر بغیر قرعہ ڈالے نہ پاتے، تو اس پر قرعہ اندازی کرتے۔ (صحيح البخاری، کتاب الأذان، باب الاستھام فی الأذان، 1/224،حديث: 615)

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ پاک نماز با جماعت کو بہت زیادہ پسند فرماتا ہے۔(الترغیب والترہیب، 1 / 159 ،حدیث: 589)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسے روایت ہے،نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا تنہا پڑھنے سے ستائیس درجہ زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔(بخاری،کتاب الاذان، باب فضل صلاۃ الجماعۃ،1/232، حدیث: 645)

حضرت سعید بن مسیب بیان کرتے ہیں کہ ایک انصاری کی موت کا وقت آ گیا تو اس نے کہا : میں تمہیں ایک حدیث سناتا ہوں اور محض اجر کے لیے سناتا ہوں ۔ میں نے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے سنا ہے : جب تم میں سے کوئی وضو کرتا ہے اور اچھی طرح کرتا ہے پھر نماز کے لیے نکلتا ہے تو جب وہ اپنا دایاں قدم اٹھاتا ہے تو اللہ پاک اس کے لیے ایک نیکی لکھ دیتا ہے اور وہ بایاں قدم نہیں ٹکاتا کہ اللہ پاک اس کی ایک غلطی معاف کر دیتا ہے ۔ تو جو چاہے ( مسجد کے ) قریب رہے یا بعید ( تمہاری مرضی ہے ) ۔ اگر وہ مسجد میں آ کر جماعت کے ساتھ نماز پڑھتا ہے تو اس کی مغفرت کر دی جاتی ہے ۔(ابو داؤد ،حدیث : 563)

ان احادیث کو پڑھنے کے بعد یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نمازِ پنجگانہ جماعت سے پڑھنا کتنا اہم ہے لہذا ہماری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ ہم چاہے کتنے بھی مصروف ہوں لیکن ہماری تکبیرِ اولیٰ کبھی فوت نہ ہونے پائے ۔اللہ ہمیں عمل‌ کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین


اللہ پاک کی رحمت سے ہمیں بے شمار انعامات عنایت ہوئے ہیں ان میں سے نماز بھی ایک عظیم الشان نعمت ہے نمازی بے شمار ثواب اور اللہ پاک کے فضل‌ وکرم کا حقدار ہوتا ہے لیکن اس وقت جبکہ نمازِ باجماعت ادا کرے ورنہ اس ثواب سے وہ محروم ہو جاتا ہے نمازِ باجماعت ادا کرنا واجب ہے اگر کوئی بلا عذر شرعی جماعت ترک کرے وہ گناہ گار اور عذاب الٰہی کا مستحق ہوگا۔ حدیث پاک میں باجماعت نماز پڑھنے کے بہت سارے فضائل ہیں ان میں سے پانچ یہ ہیں:۔

(1) امیرالمؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عمرفاروقِ اَعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دو جہاں کے سردار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے سنا کہ اللہ پاک باجماعت نماز پڑھنے والوں کو محبوب(یعنی پیارا) رکھتا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل، 2/309 ،حدیث:5112)

(2) صحابی ابنِ صحابی حضرتِ سیِّدُنا عبدُ اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے رِوایت ہے ، تاجدارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں: نمازِ باجماعت تنہا پڑھنے سے ستائیس(27) دَرجے بڑھ کرہے۔ (بخاری، 1/232،حدیث:645)

(3) فرمانِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: مرد کی نماز مسجد میں جماعت کے ساتھ، گھر میں اور بازار میں پڑھنے سے پچیس(25) دَرَجے زائد ہے۔ (بخاری، 1/233،حدیث: 647)

(4) رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اے عثمان جو شخص فجر کی نمازِ باجماعت ادا کرے پھر طلوع آفتاب تک اللہ پاک کا ذکر کرتا رہے اس کے لیے حج مبرور اور مقبول عمرہ کا ثواب ہے۔(شعب الایمان، 7/138، حدیث: 9762 )

(5) حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے سرکار مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان رحمت نشان ہے: جس نے باجماعت عشا کی نماز پڑھی گویا آدھی رات قیام کیا اور جس نے فجر کی نمازِ باجماعت پڑھی گویا پوری رات قیام کیا ۔(مسلم، ص258 ،حدیث: 1491)

باجماعت نماز پڑھنے کے ان کے علاوہ بہت سارے فضائل ہیں جن کو یہاں لکھنا ناممکن ہے اس لیے ہم سب کو چاہیے کہ جماعت کی پابندی کریں۔

یا اللہ پاک ہم سب کو پانچوں نمازیں باجماعت تکبیر اولی کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق عطا فرما۔اٰمین یارب العالمین


اللہ رب العزت نے اپنے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو شب معراج پانچ نمازوں کا تحفہ عطا فرمایا اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی حیات ظاہری کے گیارہ سال چھ ماہ میں تقریبا بیس ہزار نمازیں ادا فرمائی۔ رب کریم کا خصوصی انعام تو مسلمانوں پر یہ ہوا کہ جہاں اپنے قرب کا ذریعہ نماز عطا کیا ساتھ ہی ساتھ اس نماز کو ہمیں جماعت سے پڑھنے کا بھی حکم ارشاد فرما کر ہمیں اس کی برکتوں سے مالامال ہونے کا موقع فراہم کیا۔چنانچہ قراٰنِ پاک میں رب العالمین سورۃُ البقرہ آیت نمبر 43 میں ارشاد فرماتا ہے: وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِیْنَ(۴۳) ترجمۂ کنز الایمان: اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ (پ1،البقرۃ: 43)اس کی تفسیر میں حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ جماعت سے نماز پڑھا کرو کیونکہ جماعت کی نماز تنہا نماز سے ستائیس درجے افضل ہے تفسیر روح البیان نے اس جگہ عجیب نقطہ بیان کیا وہ فرماتے ہیں کہ جماعت جمع سے بنا ہے اور جمع کم از کم تین پر بولی جاتی ہے اور ایک نماز میں دس نیکیاں تو تین آدمیوں کی تیس نیکیاں ہوئیں ہر ایک کی ایک اصل نماز اور نو رب کا عطیہ لہذا نماز میں تین اصل نمازیں اور ستائیس عطیے۔ (تفسیر نعیمی، 1/322)

آئیے نمازِ باجماعت کے ضمن میں پانچ فرامین مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ملاحظہ کیجیے۔

(1) فرمانِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: مرد کی نماز مسجد میں جماعت کے ساتھ، گھر میں اور بازار میں پڑھنے سے پچیس(25) دَرَجے زائد ہے۔ (بخاری، 1/233،حدیث: 647)

(2) حضرتِ سیِّدُنا عبدُ اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے رِوایت ہے ، تاجدارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں: نمازِ باجماعت تنہا پڑھنے سے ستائیس(27) دَرجے بڑھ کرہے۔ (بخاری، 1/232،حدیث:645)

(3) سرکار مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے ظہر کی نمازِ باجماعت پڑھی اس کے لیے اس جیسی پچیس (25) نمازوں کا ثواب اور جنت الفردوس میں 70درجات (Ranks) کی بلندی ہے۔ (شعب الایمان، 7/138،حدیث:9762)

(4)فرمان مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: جس نے عشا کی نمازِ باجماعت پڑھی اُس نے گویا تمام رات نماز پڑھی اور جس نے فجر کی نمازِ باجماعت پڑھی اُس نے گویا سارا دن نماز پڑھی۔(معجم کبیر، 1/92،حدیث: 148)

(5)فرمان مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: اگر یہ نماز ِ باجماعت سے پیچھے رہ جانے والا جانتا کہ اس رہ جانے والے کے لیے کیا ہے تو گھسٹتے ہوئے حاضر ہوتا۔ (معجم کبیر، 8/266،حدیث: 7882)

اے مسلمانوں! اگر کسی کو صحیح معنوں میں احساس ہو جائے کہ جماعت سے نماز ادا کرنے میں کیا برکتیں ہیں اور ترکِ جماعت پر کیا نقصانات ہیں تو کیسی ہی مجبوری ہو وہ شاید جماعت چھوڑنے کے لیے تیار نہ ہو، وہ ہر قیمت پر جماعت حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔ اللہ پاک ہمیں اسلام کے احکام پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور نمازِ باجماعت کی پابندی نصیب فرمائے اور اس کی برکتوں سے مالا مال فرمائے۔