ساؤتھ
افریقہ کی اسلامی بہنوں کی رسالہ ”حسن و
جمالِ مصطفیٰ“پڑھنے / سننے کی کارکردگی
امت مسلمہ کو علم دین سے مستفید کرنے وعلم دین سکھانے کے
آسان ذرائع فراہم کرنے کے لئے ہفتہ وار مدنی مذاکرے میں امیر اہل سنت دَامَتْ بَرْکَاتُہُمُ الْعَالِیَہْ کسی ایک مدنی رسالے کے مطالعے کی ترغیب ارشاد فرماتے
ہیں اور رسالہ پڑھنے /سننےوالوں کو اپنی دعاؤں سے بھی نوازتے ہیں۔
پچھلے ہفتے امیر اہل سنت دَامَتْ بَرْکَاتُہُمُ الْعَالِیَہْ نے رسالہ ”حسن و جمالِ مصطفیٰ“پڑھنے / سننے کی ترغیب دلائی تھی ۔
اسی سلسلے میں
ساؤتھ افریقہ میں کم و بیش 2ہزار769 اسلامی بہنوں نے رسالہ ”حسن و جمال مصطفٰی“
پڑھنے/ سننے کی سعادت حاصل کی۔
گزشتہ
دنوں ساؤتھ افریقہ میں شعبہ شارٹ کورسز کی ذمہ دار اسلامی بہن کا ویلکم کابینہ کی
ذمہ دار اسلامی بہن کے ساتھ مدنی مشورہ ہوا۔
شارٹ کورسز کی ذمہ دار نے اسلامی
بہن کی کارکردگی کا فالواپ کرتے ہوئے تربیت کی اور اسلامی بہن کو آئندہ آنے والے
کورس ”احکامِ وراثت“کے نکات سمجھائے نیز کابینہ سطح پر اس کورس کو منعقد کروانے
کی ترغیب دلائی ۔
دعوت
اسلامی کے زیر اہتمام گزشتہ دنوں ساؤتھ
افریقہ کے شہر ویلکم(Welkom) میں اجتماع میلاد کا انعقاد
کیا گیا جس میں 40 اسلامی بہنوں نے شرکت
کی۔
مبلغۂ
دعوتِ اسلامی نے”آقاﷺ کے اختیارات“ کے موضوع پر سنتوں بھرا بیان کیا اور
اجتماع پاک میں شرکت کرنے والی اسلامی بہنوں کو بزرگان دین کا سنتوں پر عمل کرنے
کے جذبہ کے بارے میں بتایا نیز دین کے کاموں میں حصہ لینے کا ذہن دیا۔
ساؤتھ
افریقہ کے شہر پولکوانے میں دومقامات پر
اجتماعاتِ میلاد کا انعقاد
دعوت
اسلامی کے زیر اہتمام گزشتہ دونوں میں ساؤتھ افریقہ کے شہر پولکوانے میں دومقامات
پر اجتماعاتِ میلاد کا انعقاد کیا گیا جن میں 60 اسلامی بہنوں
نے شرکت کی۔
مبلغاتِ
دعوتِ اسلامی نے” آقاﷺ کی سیرت زندگی“
کے موضوع پر بیانات کئے اور اجتماعات میں شرکت کرنے والی اسلامی بہنوں کو بزرگان دین
کا سنتوں پرعمل کرنے کے جذبہ کے بارے میں بتایا ۔
کینیڈا
کے شہر برامپٹن میں بذریعہ انٹرنیٹ ہفتہ
وار سنتوں بھرے اجتماع کا انعقاد
دعوت اسلامی
کے زیر اہتمام کینیڈا کے شہر برامپٹن(Brampton ) میں بذریعہ انٹرنیٹ ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماع کا
انعقاد کیا گیا جس میں کم و بیش 28اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔
مبلغۂ
دعوتِ اسلامی نے”برکت میں کمی“کے موضوع پر بیان کیا اور اجتماعِ پاک میں
شریک اسلامی بہنوں کو آقا ﷺکی سنتوں پر
عمل کرنے، نمازوں کی پابندی کرنےاور ہفتہ
وار سنتوں بھرے اجتماع میں باقاعدگی سے شرکت
کرنے کی ترغیب دلائی۔
کینیڈا
کے شہر کیلگری میں بذریعہ انٹرنیٹ ہفتہ
وار سنتوں بھرے اجتماع کا انعقاد
دعوت
اسلااسلامی کے زیر اہتمام کینیڈا کے شہر کیلگری( Calgary) میں بذریعہ انٹرنیٹ ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماع کا انعقاد کیا گیا جس
میں 11 اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔
مبلغۂ دعوتِ اسلامی نے”درود و سلام کے فضائل“ کے موضوع پر بیان کیا اور
اجتماعِ پاک میں شریک اسلامی بہنوں کو آقا ﷺکی سنتوں پر عمل کرنے، نمازوں کی پابندی کرنےاور ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماع میں باقاعدگی سے شرکت کرنے کی ترغیب دلائی۔
کینیڈا کے
شہرتھورن کلف میں دو مقامات پر بذریعہ انٹرنیٹ ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماعات کا انعقاد
دعوت
اسلامی کے زیر اہتمام گزشتہ دنوں کینیڈا
کے شہرتھورن کلف (
Thorncliffe) میں دو مقامات پر بذریعہ
انٹرنیٹ ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماعات کا
انعقاد کیا گیا جن میں 29 اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔
مبلغات
دعوتِ اسلامی نے” صلوٰۃ و سلام
پڑھنے کی فضیلت اور آقاکریمﷺ
کی امت سے محبت “ کے موضوعات پر بیانات کئے نیز اجتماعات میں شریک اسلامی بہنوں کو نیکیوں بھری زندگی گزارنے، آقا ﷺ کی سنتوں پر عمل کرنے اور رسالہ نیک اعمال کے ذریعے روزانہ اپنے اعمال کا جائزہ کرنے کی
ترغیب دلائی۔
کینیڈا
کے مختلف شہروں مونٹریال اور مسی ساگا میں بذریعہ انٹرنیٹ ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماعات کا انعقاد
دعوت
اسلامی کے زیر اہتمام کینیڈا کے مختلف شہروں مونٹریال(Montreal)اور مسی ساگا(Mississauga )میں بذریعہ
انٹرنیٹ ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماعات کا
انعقاد کیا گیا جن میں کم و بیش 35 اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔
مبلغاتِ
دعوتِ اسلامی نے سنتوں بھرے بیانات کئے اور اجتماعات میں شریک ا سلامی بہنوں کو
آقاﷺ کی تعلیمات پر عمل کرنے، نمازوں کی
پابندی کرنےاور ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماع
میں باقاعدگی سے شرکت کرنے کی ترغیب دلائی۔
ذمّہ داری
کا جذبہ بیدار کرنے میں معاوِن تحریر
احساسِ ذمہ داری
پیشکش: مرکزی مجلس شوریٰ، دعوتِ
اسلامی
اِس رسالے کی چندخصوصیات:
٭دیدہ زیب ودِلکش سرورق (Title) وڈیزائننگ (Designing) ٭عصرحاضرکے تقاضوں کے پیشِ نظرجدید کمپوزنگ وفارمیشن ٭عبارت کے معانی ومفاہیم سمجھنے کیلئے
’’علاماتِ ترقیم‘‘(Punctuation Marks) کا اہتمام ٭اُردو،
عربی اور فارسی عبارتوں کو مختلف رسم الخط (Fonts)میں لکھنے کا اہتمام ٭پڑھنے والوں کی دلچسپی برقرار رکھنے کیلئے عنوانات (Headings) کا قیام ٭بعض جگہ عربی عبارات مع ترجمہ کی شمولیت ٭آیات
کے ترجمہ میں کنزالایمان کی شمولیت ٭حسب ضرورت مشکل اَلفاظ پر اِعراب اور بعض
پیچیدہ اَلفاظ کے تلفظ بیان کرنے کا
اہتمام ٭قرآنی آیات مع ترجمہ ودیگر تمام منقولہ عبارات کے اصل کتب سے تقابل(Tally) کا اہتمام ٭آیات، اَحادیث،توضیحی عبارات، فقہی جزئیات کےحوالوں (References) کا خاص اہتمام ٭ اغلاط کوکم سے کم کرنے کیلئے
پورے رسالے کی کئی بار لفظ بہ لفظ پروف ریڈنگ۔
50صفحات پر مشتمل یہ رسالہ2014ءسے
لیکر6مختلف ایڈیشنز میں19 ہزار500کی تعداد میں پرنٹ ہو چکا ہے۔
اس رسالے کی PDF
دعوتِ اسلامی کی ویب سائٹ سے مفت ڈاؤن لوڈ بھی کی جاسکتی ہے۔
نام و نسب : سفیان بن عیینہ بن ابی عمران الھِلالی الکوفی ثُم المکّی
کنیت : ابو محمد
القاب : محدثِ حرم ، امام الکبیر ، حافظُ العصر ، شیخ الاسلام
ولادت : آپ کی ولادت 107 ھ کو کوفہ میں ہوئی آپ کے والد
اس وقت کے والیِ کوفہ یوسف بن عمر ثقفی کے عتاب کی وجہ سے گھربار چھوڑ کر مکہ
منتقل ہوگئے اور حرم مکہ کے جوار میں مستقل سکونت اختیار فرمالی اس وقت آپ کی عمر
13 سال تھی اور آپ کے نو (9) بھائی تھے جن میں پانچ (5) بھائی
اہل علم و علماء میں شمار ہوتے تھے ۔
تحصیل علم : چار سال کی عمر میں مکمل حفظ کرلیا اور سات سال کی عمر میں حدیث کی کتابت
و روایت کرنے لگے۔ یہ سلسلہ 15 سال تک جاری
رہا، مگر طبیعت اس طرف مائل نہ ہوئی
چنانچہ والد نے ارشاد فرمایا کہ پیارے آپ کے بچپن کا زمانہ ختم ہوا اب چونکہ آپ
باشعور ہو گئے ہو۔ لہذا مکمل طور پر تحصیل علم میں لگ جاؤ مگر اس راہ میں سب سے زیادہ
ضروری یہ ہےکہ اہل علم کی اطاعت و خدمت کی جائے اگر تم اہل علم کی اطاعت و خدمت
کرتے ہو تو ان کے علم و فضل کی دولت سے فیض یاب ہوگے۔ آپ پوری عمر اس نصیحت پر عمل
کرتے رہے مکہ اس وقت آئمہ تابعین کا مرکز تھا حضرات امام زہری ابن جریج علیہ الرحمہ اور بہت سے آئمہ کی مجالس قائم ہوتی تھیں جب
باضابطہ تحصیل علم کے لیے آمادہ ہوئے تو تمام علماء مکہ بالخصوص حضرت ابن شہاب زہری اور عمرو بن دینار علیہما الرحمہ کی مجلس درس میں شریک ہونے لگے جب تک یہاں آپ
کا قیام رہا۔ پھر کوفہ آگئے اور وہاں کے
اہل علم سے استفادہ کیا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ ستاسی (87) تابعین کی زیارت سے
مشرف ہوئے۔
قوت حافظہ :
اللہ
پاک نے ابن عیینہ رحمۃ
اللّٰہ علیہ کو کمال کا حافظہ اور فہم عطاء فرمایا تھا آپ کے خود کا بیان ہے کہ ”ما کتبت شیئا قط الا شیئا
حفظتہ قبل ان اکتبہ “ میں کسی بھی چیز کولکھنے سے قبل اس کو یاد
کرلیتاتھا۔
اساتذہ و شیوخ :
آپ کے
شیوخ حدیث اور اساتذہ کی فہرست طویل ہے چند معروف و مشہور کے نام یہ ہیں :
٭امام ہشام بن
عروہ ٭امام
یحییٰ بن سعید انصاری ٭امام سلیمان اعمش ٭امام سفیان ثوری ٭امام
ابن جریج ٭امام
شعبہ ٭امام
حمید طویل ٭امام ابو الزناد ٭امام شہاب زہری ٭امام سلیمان احول رحمھم اللہ
تلامذہ:
٭امام سلیمان
اعمش ٭امام
ابن جریج ٭امام
شعبہ۔ یہ تینوں حضرات آپ کے اساتذہ ہیں جن کا شمار آپ کے تلامذہ میں بھی ہوتا ہے۔
ان کے
علاوہ ٭امام
شافعی ٭امام
یحییٰ القطان ٭امام یحییٰ بن معین ٭امام عبد اللہ بن مبارک ٭امام علی بن مدینی ٭امام
احمد بن حنبل ٭امام عبد الرازق ٭امام اسحاق بن راہویہ رحمھم اللہ جیسے نامور
ہستی آپ کے تلامذہ میں شامل ہیں۔
عبادت و ریاضت :
آپ
علم کے ساتھ ساتھ عبادت وریاضت میں بھی بلند مقام رکھتے تھے آپ قائم اللیل اور زہد
و قناعت میں اپنے معاصرین میں خاصی شہرت رکھتے تھے ساٹھ (60) سال
تک جو کی روٹی بغیر سالن کے تناول فرمائی عمر بھر ستر (70) حج
فرمائے۔
آپ کے
متعلق حضرت علی بن مدینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ”ما فی اصحاب الزہری اتقی
من ابن عیینہ “ امام زہری کے شاگردوں میں ابن عیینہ
سے بڑا متقی کوئ نہیں۔
امام ابن عیینہ بحیثیت محدث :
آپ کے
علم حدیث وفہم حدیث میں تمام آئمہ حدیث کا اتفاق ہے اور فن حدیث اور مہارت میں
تمام محدثین کے نزدیک مسلم الثبوت ہیں ابن عیینہ علمی جلالت اور کثرت روایت کے
لحاظ سے دوسرے بہت سے اتباع تابعین پر آپ فوقیت رکھتے ہیں چنانچہ
٭امام
احمد بن عبداللہ رحمۃ
اللّٰہ علیہ
فرماتے ہیں کہ آپ کا شمار حکماء حدیث میں ہوتا ہے۔
٭امام
عبد الرحمن بن مہدی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ ابن عیینہ کو حدیث کی
تفسیر اور حدیث کے متفرق الفاظ جمع کرنے میں مہارت حاصل تھی ۔
٭امام
شعبہ اپنے شاگردوں سے کہتے جس کو عمرو بن دینار کی مرویات معلوم نہ ہوں اسے ابنِ
عیینہ کے پاس جانا چاہیے۔
ابن
عیینہ کا درس حدیث کا حلقہ بہت وسیع تھا مگر ایام حج میں جب عالم اسلام کے محدثین
و علماء حرمین طیبین حاضر ہوتے تو ان کے
حلقہ درس میں بڑا ازدحام ہوتا تھا۔
امام ابن عیینہ بحیثیت مفسر و
فقیہہ :
امام ابن عیینہ رحمۃ اللّٰہ علیہ کی
حدیث کے ساتھ ساتھ تفسیر اور فقہ میں بھی ید طولیٰ رکھتے تھے۔
چنانچہ
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ ”ما رأیت احدا من الفقہاء اعلم
بالقرآن و السنن منہ “ میں نے فقہاء میں سے کسی کو ابن عیینہ سے زیادہ
قرآن وسنت کا عالم نہیں دیکھا ۔
امام اعظم اور ابن عیینہ :
آپ جب
کوفہ پہنچے امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اپنے اصحاب درس سے فرمایا
تمہارے پاس عمرو بن دینار کی مرویات کا حافظ آگیا چنانچہ ان کی مرویات سے استفادہ
کے لیے آنے لگے۔ چنانچہ آپ (یعنی سفیان بن عیینہ رحمۃ اللّٰہ علیہ) کا
بیان ہے کہ جس نے مجھے سب سے پہلے محدث بنایا وہ ابوحنیفہ ہیں ۔
امام ابن عیینہ رحمۃ
اللّٰہ علیہ
کے علم وفضل کے متعلق اقوال علماء :
آپ کے
ذوق علم و وسعت مندی کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ علم تفسیر وحدیث کے بڑے امام بن گئے۔ اکابر آئمہ آپ کی عظمت کے معترف ہوگئے ۔
٭امام شافعی رحمۃ اللّٰہ علیہ
فرماتے ہیں کہ ”لولا
مالک و سفیان لذھب علم الحجاز“ اگر امام مالک و سفیان بن عیینہ نہ
ہوتے تو حجاز کا علم ختم ہوجاتا ۔
٭امام عبد
الرحمن بن مہدی رحمۃ
اللّٰہ علیہ
فرماتے ہیں ”کان
اعلم الناس بحدیث اھل الحجاز“ وہ اہل حجاز کے حدیثوں کے سب سے بڑے عالم تھے۔
٭امام بخاری رحمۃ اللّٰہ علیہ
فرماتے ہیں ”ھو
احفظ من حماد بن زید ابن عیینہ“ حماد بن زید سے بڑے حافظ الحدیث تھے۔
٭امام ابن حبان
رحمۃ اللّٰہ
علیہ
فرماتے ہیں ”کان
من الحفاظ المتقنین و اھل الورع و الدین ابن عیینہ“ متقن حفاظ
حدیث میں سے تھے و صاحب تقوی اور دیندار تھے ۔
٭امام احمد بن
حنبل رحمۃ
اللّٰہ علیہ
فرماتے ہیں ”ما
رأیت اعلم بالسنن منہ“ میں نے ان سے زیادہ حدیث کا جاننے والا کوئی نہیں
دیکھا ۔
ملفوظات سفیان بن عیینہ رحمۃ
اللّٰہ علیہ
:
آپ
علم و عمل کے پیکر اور کم گو تھے مگر جب بھی گفتگو فرماتے زبان اقدس سے علم و حکمت
کے موتی جھڑتے تھے چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
٭زہد دراصل صبر
اور موت کے انتظار کا نام ہے۔
٭علم نفع نہ دے
تو ضرر پہنچائے گا۔
٭جب کوئی عالم لا ادری کہنا
چھوڑ دیتا ہے تو وہ اپنی ہلاکت کا سامان کرتا ہے ۔
وفات :
حسن
بن عمران رحمۃ
اللّٰہ علیہ
کا بیان ہے کہ میں سفیان بن عیینہ کے آخری حج میں ان کے ساتھ تھا مزدلفہ میں آپ نے یہ دعا مانگی کہ ”اے اللہ مزدلفہ
کی اس زیارت کو میری آخری زیارت مت بنا“ پھر ہم لوگوں کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا کہ میں
ستر سال سے برابر یہ دعا کرتا رہا ہوں مگر اب مجھے اللہ پاک سے شرم آرہی ہے کہ کس
قدر زیادہ میں نے خدا سے اس کا سوال کیا چنانچہ آپ اس حج سے واپسی ہوئے تو پھر حج
کا موقع نہ ملا اور اسی سال یکم رجب
المرجب 198 ھ کو دار فانی سے دار بقاء کی طرف کوچ کیا اور مکۃ المکرمہ کے قبرستان
جنت المعلیٰ میں دفن ہوئے ۔ اللہ پاک کی ان پر رحمت نازل فرمائے ۔ آمین
حوالہ جات :
٭سیر
اعلام النبلاء ٭تہذیب الاسماء ٭تاریخ بغداد ٭تہذیب
التہذیب ٭تذکرۃ الحفاظ ٭وفیات الاعیان ٭
صفوةالصفوة ٭اولیاء رجال حدیث
از: احمد رضا مغل
عطاری مدنی
متخصص فی الحدیث ،
عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ کراچی
سرکارِ دو عالم نورِ مُجَسم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کا جب بھی تذکرہ کیا جائے یا ان کی سیرت
کو پڑھا جائے تومعلوم ہوتا ہے کہ ہر ایک
کااپنا ہی مقام ہے چاہے وہ صحابی ہوں یا صحابیہ ہوں ہر ایک کی زندگی مسلمانوں کے لئے ایسا نمونہ ہے جس پر عمل پیرا ہو کر ہر
ایک کے لئے دین اسلام پر چلنا آسان اور ہر ایک اپنی زندگی کو بہتر سے بہتر بنا
سکتا ہے۔
جس طرح صحابۂ کرام علیہم الرضوان سرکار صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے اور ان کے فرمان پر عمل کرنے کو ہر چیز
پر فوقیت دیتے تھے اسی طرح صحابیات کا بھی یہ معمول تھا کہ وہ اپنی جان و مال اور اولاد
سے بڑھ کر آپ صلی
اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتی تھیں جیسا کہ حدیثِ مبارکہ ہے تم میں سے کوئی اس
وقت تک کامل مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک میں اسے اُس کی اولاد،ماں باپ اور تمام لوگوں
سے محبوب نہ ہو جاؤں ۔ یہاں تک کہ بعض روایتوں
میں آتا ہے کہ جو چیزیں عورتوں کو عام طور
پر بہت پسند ہوا کرتی ہیں اگر اس کے متعلق
آپ علیہ السلام منع فرمادیتے تو
وہ اسے بھی قربان کردیا کرتی تھیں ۔ اسی طرح اگر سرکار علیہ السلام جنگ کا
اعلان کردیں تو وہ اپنے شوہروں اور اپنے بیٹوں کو بلا جھجک جنگ میں بھیج دیا کرتی
تھیں۔
آج ہم انہیں میں سے ایک صحابیہ کے بارے میں بات
کریں گے جنہیں صحابیہ ہونے کے ساتھ ساتھ آپ علیہ السلام کی زوجہ ہونے کا بھی شرف حاصل ہے ۔ ہماری مراد اُمُّ
المؤمنین حضرت سیدتنا جُوَیریہ بنت حارث رضی اللہ عنھا ہیں ۔
نام اور قبیلہ: اسلام
لانے سے پہلے آپ کا نام برّہ بنتِ حارث تھا۔آپ رضی اللہ عنھا کا تعلق قبیلہ بنی مصطلق سے تھا ،حضور علیہ السلام سے نکاح سے پہلے آپ مسافع بن صفوان کے نکاح میں تھیں ۔
حسن وجمال:اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں: کَانَتْ جویریۃ
امْرَأَۃً حُلْوَۃً مُّلَاحَۃً لَّا یَکَادُ یَرَاھَا اَحَدٌ اِلَّا اَخَذَتْ
بِنَفْسِہ یعنی حضرت
جُوَیریہ رَضِیَ اللہُ عَنۡہَا نِہَایَت شِیریں
و ملیح حسن والی عورت تھی جو بھی انہیں دیکھتا گَرْوِیدہ ہوئے بغیر نہ رہتا۔( السيرة الحلبية، باب ذكر مغازيه، غزوة بنى المصطلق،ج2ص380)
آپ رضی اللہ عنھاقبیلہ
بنی مصطلق کے سردارحارِث بن ضِرَار کی
بیٹی تھی ،حارث بن ضرار( جو کہ بعدمیں ایمان لے آئے تھے) نے اہلِ مکہ کے ساتھ مل کرمسلمانوں سے جنگ کرنے کامنصوبہ بنا یا تو یہ خبر حضور ﷺتک
پہنچ گئی۔ آپ ﷺنے تصدیق کے لئے حضرت بریدہ
رضی اللہ
عنہ کو قبیلہ مصطلق میں بھیجا جنہوں
نے اس قبیلے میں جا کر احوال معلوم کئے اور واپس آکر اُن کے تمام ناپاک ارادوں کے
متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ کر دیا ،آپ
صلی اللہ
علیہ وسلم نے لوگوں کو جنگ کے لئے بلا یا تو صحابۂ کرام
لبیک کہتے ہوئے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہو گئےپھر آپ علیہ السلام نے جنگ میں پیش قدمی کی اور کفار کے ساتھ جنگ کی۔ اللہ تبارک وتعالٰی نے مسلمانوں کواس جنگ میں فتح عطا کی،جنگ کے بعد700سے زائد کفار کو قیدی
بنا لیا گیا ان ہی میں قبیلہ بنی مصطلق کے سردار حارِث بن ضِرَار کی بیٹی حضرت برّہ رضی اللہ عنھابھی شامل
تھیں۔جب مالِ غنیمت تقسیم ہوا تو آپ رضی اللہ عنھا
، حضرت سیِّدُنا ثابِت بن قیس رَضِیَ اللہُ
عَنۡہُ اور ان کے ایک چچا زاد بھائی کےحصّے میں آئیں، حضرتِ سیِّدُنا ثابِت رَضِیَ اللہُ
عَنۡہُ نے ان کے حصّے کے بدلے مَدِیْنَۃُ الْمُنَوَّرَہ زَادَھَا
اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًا کے اپنے
کھجوروں کے دَرَخْت انہیں دے دیئےکیوں کہ آپ رضی
اللہ عنھاایک سردار کی بیٹی تھی تو انہیں غلام بن کر رہنا گوارہ نہ ہوا، اس لئے انہوں نے حضرتِ سیِّدُنا ثابِت رَضِیَ اللہُ
عَنۡہُ سے آزادی
کا مطالبہ کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے
9
اُوْقِیَہ سونے پر انہیں مُکَاتَبہ کر دیا۔ (آقا اپنے غُلام سے مال کی
ایک مقدار مُقَرَّر کر کے یہ کہہ دے کہ اتنا ادا کر دے تو آزاد ہے اور غُلام اسے
قبول بھی کر لے اب یہ مُکَاتَب ہو گیا)۔
حضورﷺسے نکاح: آپ
رضی اللہ عنھا
کا اتنی بڑی رقم ادا کرنا مشکل تھا اس لئے آپ حضورﷺکی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوئیں
اور اپنی پریشانی بیان کرتے ہوئے مدد کی درخواست کی توآپﷺنے فرمایا:کیا یہ مناسب نہ
ہو گا کہ میں تمہارا زرِمکاتبت ادا کر کے تم سے نکاح کر لوں ،آپ رضی اللہ عنھا
نے بخوشی اس پیش کش کو قبول کر لیا تو آپ ﷺنے حضرتِ
سیِّدُنا ثابِت رَضِیَ اللہُ عَنۡہُ سے حضرت
برّہ رَضِیَ اللہُ
عَنۡھا کو خریدا اور آزاد کر کے آپ رَضِیَ اللہُ عَنۡھا سے نکاح کر لیا۔( السيرة الحلبية، باب ذكر مغازيه، غزوة بنى المصطلق،ج2
ص377تا379)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم برّہ
نام رکھنے کو ناپسند فرماتے تھےاور اگر یہ
نام کسی کا ہوتا تو تبدیل فرمادیتے، اس لئے آپ
نےان کا نام برّہ سے تبدیل کر کے جویریہ
رکھ دیا۔(المستدرک علی الصحیحن ،ج5،ص36،الحدیث6861)
کثرتِ عبادت: آپ رَضِیَ اللہُ
عَنۡھا بااخلاق ہونے کے ساتھ
ساتھ کثرت سے عبادت کرنے والی بھی تھیں۔ روایات
میں آتا ہے : ایک مرتبہ حضور ﷺان کے پاس سے فجر کی نماز کےبعد تشریف لے گئےحضرت
جویریہ اس وقت اپنی سجدہ گاہ میں تھیں پھر سرکارﷺ چاشت کے وقت واپس تشریف آئے تو
حضرت جویریہ اسی جگہ بیٹھی ہوئی تھیں ،آپ ﷺنے پوچھاکہ تم تب سے یہیں بیٹھی ہو جیسا میں
تمہیں چھوڑ کر گیا تھا؟ آپ رَضِیَ اللہُ
عَنۡھا نےعرض کی:جی ہاں! تو حضور
ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں نے تمہارے بعد (یعنی تمہارے پاس سے جانے
کے بعد)4ایسے کلمات تین بار پڑھے ہیں کہ تم نے دن بھر میں جو کچھ بھی پڑھا اگر اس سے ان 4 کلمات کا وزن کیا جائے تو وہ 4 کلمات بھاری ہو جائیں گے۔ (وہ کلمات یہ ہیں)سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہِ عَدَدَ خَلْقِہِ وَ
رِضَا نَفْسِہِ وَزِنَۃَ عَرْشِہِ وَمِدَادَ کَلِمَاتِہِ۔(صحيح مسلم،ص: 1119،حدیث:2726)
جنہوں نے آپ سے روایات لیں: حضرتِ سیِّدُنا عبد الله بن عبّاس، حضرتِ سیِّدُنا جابِر بن عبد الله ، حضرتِ
سیِّدُنا عبد
الله بن عُمَر ، حضرتِ سیِّدُنا عبید بن سبّاق اور
حضرت جویریہ کے بھائی کے بیٹے حضرت طفیل رَضِیَ
اللہُ عَنۡہُم نے آپ رَضِیَ
اللہُ عَنۡہَا سے
روایات لی ہیں۔(شرح علامۃالزرقانی،ج4،ص428)
وصالِ پُرملال: آپ رَضِیَ اللہُ عَنۡہَا ماہِ ربیع الاول بمطابق50ھ کو65 سال کی عمر میں
اس دنیائے فانی سے رخصت ہوگئیں،ایک قول کے مطابق آپ کی وفات 56سال کی عمر میں ہوئی۔مروان
بن حکم جوکہ اس وقت مدینہ منورہ کا حاکم تھا اُس نے آپ رَضِیَ اللہُ عَنۡہَا کا
جنازہ پڑھایا اور جنت البقیع میں آپ رَضِیَ اللہُ عَنۡہَا کی
تدفین کی گئی۔(ایضاً)
تحریر:
غیاث الدین عطاری مدنی
اسکالراسلامک ریسرچ سینٹر المدینۃ العلمیہ(دعوتِ اسلامی)
خیابان گارڈن فیصل آباد میں دینی حلقے کا انعقاد، حاجی
شاہد عطاری نے بیان فرمایا
دعوت
اسلامی کے زیر اہتمام 23 اکتوبر 2021ء کو خیابان گارڈن فیصل آباد میں دینی حلقے کا
انعقاد کیا گیا جس میں مختلف شخصیات اور دیگر عاشقان رسول نے شرکت کی۔
نگران
پاکستان مشاورت حاجی محمد شاہد عطاری نے سنتوں بھرا بیان کیا اور شرکا کو دعوت
اسلامی کے دینی و فلاحی کاموں میں بریفنگ دیتے ہوئے انہیں دینی کاموں میں عملی طور
پر شرکت کرنے کی ترغیب دلائی۔