جو  اسلامی بہنیں عربی سیکھنے میں دلچسپی رکھتی ہیں بالخصوص جامعۃالمدینہ کی طالبات کے لئے دعوتِ اسلامی کے شعبہ شارٹ کورسز کے زیرِ اہتمام ملتان ریجن کے مختلف مقامات پر کورس ”حُبّ العربیہ“ کا آغاز ہوچکاہے جن میں صرف و نحو سے متعلق قواعد، عربی سے اردو ٹرانسلیٹ کا طریقہ، ڈیلی بولے جانے والے عربی جملے،اس کے علاوہ بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملے گا۔

کورس کا دورانیہ روزانہ 1 گھنٹہ ہوگا۔کورس میں داخلے کےلئے اپنی متعلقہ ذمہ دار اسلامی بہن سے رابطہ فرمائیں۔


دعوتِ اسلامی کی مجلس روحانی علاج کے زیرِ اہتمام گزشتہ دنوں ملتان ریجن کی شعبہ روحانی علاج کی ریجن ذمہ دار اسلامی بہن نے مظفر گڑھ زون میں لگنے والے اورادِ عطاریہ کے بستے کا  جائزہ کیا نیزذمہ داراسلامی بہنوں کو نیک اعمال کا رسالہ تقسیم و وصول کرنے میں مزید کام بڑھانے کا ذہن دیا۔


دعوتِ اسلامی کی مجلس شارٹ کورسز کے زیرِ اہتمام ملتان ریجن میں اسلامی بہنوں کے لئےکورس ”العلم النور“ کا آغاز ہونے جا رہا ہے جس میں اسلامی بہنوں کو سورۂ نور کا ترجمہ و تفسیر سکھائی جائےگی، اس کے ساتھ ساتھ حدیثِ نبویﷺ ،فقہ، جنّت میں لے جانے والے اعمال، سیرت و معاملات، بھی سکھائے جائےگئے۔

یہ کورس علاقہ سطح پر ہوگا جس کا دورانیہ 1گھنٹہ ہوگا۔علمِ دین کے زیور سے آراستہ ہونے کے لئے اس کورس میں داخلہ لیجئے۔


(1) حضرت سیّدنا حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں: عالم کی موت دینِ اسلام میں ایک ایسا شگاف ہے کہ جب تک رات اور دن بدلتے رہیں گے کوئی چیز اس شِگاف کو نہیں بھر سکتی۔( جامع بیان العلم وفضلہ،ص213،رقم:654)حضرت سیّدنا سفیان بن عُیَیْنَہ رحمۃ اللہ علیہفرماتے ہیں: لاعلموں کے لئے بھلا اہلِ علم کی وفات سے زیادہ سخت مصیبت اور کیا ہوسکتی ہے۔( شرح السنۃ للبغوی،1/249)

(2) حضرت کعب فرماتے ہیں:تم پر لازم ہے کہ علم کے چلے جانے سے پہلے اسے حاصل کرلو، بےشک اہلِ علم کا وفات پانا علم کا جانا ہے ، عالم کی موت گویا ایک تارا ہے جو ڈوب گیا، عالم کی موت ایک ایسی دراڑ ہے جو بھری نہیں جاسکتی، ایک ایسا شگاف ہے جو پُر نہیں ہوسکتا، علما پر میرے ماں باپ قربان، ان کے بغیر لوگوں میں کوئی بھلائی نہیں۔(اخلاق العلماء للآجری، صفحہ 31)

(3) حضرت ابووائل فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کو فرماتے سنا:کیا تم جانتے ہو کہ اسلام کیسے کمزور ہوگا؟ لوگوں نے عرض کی: کیسے؟ فرمایا:جیسے جانور اپنے موٹاپے سے کمزوری کی طرف جاتاہے، اور جیسے کپڑا طویل عرصہ پہننے سے کمزور ہوجاتاہے اور جیسے درہم طویل عرصہ چلتے رہنے سے گھِس جاتاہے، ہوگا یوں کہ ایک قبیلہ میں دو عالم ہوں گے، پس جب ان میں سے ایک فوت ہوجائے گا تو آدھا علم جاتا رہے گا اور جب دوسرے کا انتقال ہوجائے گا تو سارا علم جاتا رہے گا۔ (اخلاق العلماء للآجری،صفحہ33)

(4) حضرت سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:لوگ اس وقت تک خیر کے ساتھ رہیں گے جب تک کہ پہلے سے دوسرا علم حاصل کرتا رہے گا، پس جب کبھی پہلا فوت ہوگیا اور دوسرے نے اس سے علم نہ سیکھا تو یہ لوگوں کی ہلاکت ہوگی (یعنی جب علم اگلی نسل تک نہ جائے گا تو گویا وہ لوگ ہلاک ہوجائیں گے)۔ (سنن دارمی، المقدمہ، باب ذھاب العلم، جلد1، صفحہ314، حدیث:255)

(5) حضرت سیّدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ شیاطین نے ابلیس سے کہا: اے ہمارے آقا! کیا معاملہ ہے ؟ ہم نے دیکھا ہے کہ آپ ایک عالم کی موت پر جتنا خوش ہوتے ہیں عابد کی موت پر نہیں ہوتے؟ ابلیس نے کہا: چلو میرے ساتھ آؤ، وہ سب چل پڑے اور ایک عبادت گزار کے پاس آئے جو نماز پڑھ رہا تھا، (وہ نماز سے فارغ ہوا تو ) ابلیس نے اسے کہا: ہم آپ سےایک سوال پوچھنا چاہتے ہیں، وہ یہ کہ کیا آپ کا رب اس بات پر قادر ہے کہ وہ ساری دنیا کو ایک انڈے میں ڈال دے؟ اس عابد نے کہا: نہیں، ابلیس نے اپنے چیلوں سے کہا: کیا تم نے دیکھا کہ وہ اسی وقت کافر ہوچکا ہے، پھر وہ ایک عالم کے پاس آئے جو اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھا باتوں اور خوش طبعی میں مصروف تھا، ابلیس نے کہا: ہم آپ سے کچھ پوچھنا چاہتے ہیں؟ عالمِ دین نے کہا: پوچھیں، ابلیس نے کہا: کیا آپ کا رب اس بات پر قادر ہے کہ وہ ساری دنیا کو ایک انڈے میں ڈال دے؟ انہوں نے کہا: بالکل کرسکتاہے؟ ابلیس نے کہا: کیسے؟ عالمِ دین نے کہا: جب وہ اس کا ارداہ فرمائے گا تو صرف کن فرمائے گا اور ہوجائے گا۔ ابلیس نے اپنے چیلوں سے کہا: دیکھا تم لوگوں نے، یہ اپنے نفس کے پیچھے نہیں چلتا اور یہی چیز مجھ پر سب سے زیادہ بھاری ہے۔(جامع بیان العلم و فضلہ، جلد1، صفحہ127، رقم:127)

(6) علم حاصل كرو اس سے پہلے کہ یہ قبض کرلیا جائے، علم کاقبض ہونا اہلِ علم کے وصال سے ہوتاہے، عالم اور متعلم یعنی دینی استاد اور شاگرد دونوں خیر میں حصہ دار ہوتے ہیں، ان کے علاوہ تمام کے تمام لوگوں میں کوئی خیر نہیں، بے شک لوگوں میں سے سب سے بڑا غنی وہ عالم ہے جس کے علم کے لوگ محتاج ہوں، پس جو کوئی اس کی طرف حاجت لاتاہے نفع پاتاہے، اگر لوگ اس کے علم سے بے پرواہ ہو جائیں تو بھی عالم کو اپنے علم کا وہ نفع ضرور ملتا ہے جو اللہ کریم نے اس میں رکھا ہے، کیا بات ہے ؟ میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے علما رخصت ہوتے جارہے ہیں اور بے علم لوگ علم حاصل نہیں کرتے، مجھے ڈر ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ علم رکھنے والا پہلا رخصت ہوجائے اور دوسرے نے اس سے علم نہ سیکھا ہو، اگر علم والا مزید علم کی طلب کرے تو اس سے علم میں اضافہ ہی ہوگا کچھ نقصان نہ ہوگا، اوراگر جاہل علم کی طلب کرے تو علم کو موجود پائے گا، آخر کیا بات ہے کہ میں تمہیں کھانے سے سیر تو دیکھ رہا ہوں لیکن علم سے خالی دیکھ رہاہوں۔(جامع بیان العلم و فضلہ، جلد1، صفحہ602، رقم:1036)

(7) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسولِ کریم ﷺ کو فرماتے سنا:طالب علم کو جب راہِ طلبِ علم میں موت آجائے تو وہ شہادت کی موت ہے۔(جامع بیان العلم و فضلہ، جلد1، صفحہ121، رقم:115)

(8) حضرت سیّدنا عبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے: جیسے جیسے علما کا وصال ہوتا جائے گا حق کا اثر کم ہوتا جائے گا، یہاں تک کہ جہالت کی کثرت ہوجائے گی اور علماء رخصت ہوجائیں گے، پس لوگ اپنی جہالت پر ہی عمل کریں گے اور جاہلوں سے ہی دین سیکھیں گے اور راہِ راست سے گمراہ ہوجائیں گے۔ (جامع بیان العلم و فضلہ، جلد1، صفحہ 603، رقم:1038)

علمی شخصیات کے وصال پر اہلِ دانش کا اظہارِ افسوس

حضرت سیّدنا عبدُاللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے امیر ُالمؤمنین حضرت سیّدنا عمرفاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کے وصال پر فرمایا:میں سمجھتا ہوں کہ آج علم کے دس میں سے نو حصّے چلے گئے۔( معجم کبیر،9/163، رقم:8809)

جب حضرت سیّدنا زید بن ثابت کا وصال ہوا تو حضرت سیدنا عبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اس طرح علم رخصت ہوتاہے، تحقیق آج علمِ کثیر دفن کردیا گیا۔(مستدرک للحاکم، کتاب معرفۃ الصحابۃ، جلد3، صفحہ484، حدیث:5810)

حضرت ابوایّوب سختیانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:جب مجھے اہل سنت میں سے کسی فرد کے فوت ہونے کی خبر ملتی ہے تو مجھے یوں لگتا ہے جیسے میرے اعضاء میں سے کوئی عضو جدا ہوگیا ہو۔(حلیۃ الاولیاء، ایوب سختیابی، جلد3، صفحہ9)

ہماری ذمہ داری کیا ہے؟

تعلیم و تعلم کی فضیلت و اہمیت کو ہم جانتے ہیں، علمائے کرام تعلیم و تعلیم کی وجہ سے باعثِ شرف و فضل ہیں، وہ کسی کو دنیا کا مال نہیں دیتے بلکہ علم سکھاتے ہیں اسی لئے دینِ اسلام میں ان کو فوقیت حاصل ہے، ان کی زندگیاں اپنی ذات کے لئے نہیں بلکہ لوگوں کو راہِ حق کی جانب بلانے کے لئے ہوتی ہیں،علماء گمراہوں کو ہدایت کی جانب بلاتے ہیں، لوگوں کی جانب سے اذیتوں پر صبر کرتے ہیں، مردہ دلوں کو کتابِ الٰہی کے ذریعے زندہ کرتے ہیں، بصیرت سے اندھوں کو اللہ کے نور سے بینا کرتے ہیں، شیطان کے ہاتھوں قتل ہونے والے کتنے ہی ایسے ہیں کہ جن کو علما نے زندہ کردیااور کتنے ہی ہیں کہ جو گمراہی کے گڑھے میں تھے علما نے ان کو راہِ راست دکھائی۔یاد رہے کہ جو اپنے نفس کے لئے جیتا ہے جلد مرجاتاہے اور جو نفس کی بجائے کسی اچھے مقصد کے لئے جیتا ہے تو برسوں زندہ رہتاہے۔

پیارے اسلامی بھائیو! علماکا وصال فرما جانا ہمارے لئے لمحۂ فِکریہ ہے، اس لئے اَشد ضرورت ہے کہ ہم علمائے کرام کی قدرو توقیر اورعلمِ دین کے حصول کی جانب متوجہ ہوں، اپنے بچوں کو حافظِ قراٰن اور عالمِ دین بنائیں۔ ([1])

علماہی کے دَم سے علم کا وجود ہے جب اللہ پاک اس دنیا سے علما کو اُٹھالے گا تو ان کی جگہ جاہل بیٹھ جائیں گے اور دین کے حوالے سے ایسی باتیں کریں گے کہ وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔ انٹرنیٹ پر اپنی مرضی کی دینی تشریحات اور عقائدِ اہلِ سنّت کے مخالفین کی موجودگی ہمارے دور میں عام ہے۔ ہر مسلمان کو چاہئے کہ اپنے علاقے اور شہر کے عاشقانِ رسول علمائے کرام کا دامن تھام لے اور ہر طرح کے معاملے میں صرف مفتیانِ اہلِ سنّت سے شرعی راہنمائی لے۔

نیز نوجوان علما کی زیادہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مسلمانوں کے عقائد و اعمال کی حفاظت، نئی نسل کی اخلاقی وعلمی تربیت کے لئے تقریر و بیان، تدریس اور تحریر جیسے اہم ترین مَحاذوں پر اپنے اَکابِر کی کمی کو پوراکرنے کی کوشش کریں۔

کسی عالمِ دین کے وصال پر یہ ذہن نہ بنالیں کہ اب امت ختم ہوگئی ، نہیں نہیں بلکہ جو اہلِ علم ، علمائے کرام و مفتیانِ عظام حیات ہیں ان کو غنیمت جانیں، ان کے وجود پر اللہ کا شکر ادا کریں اور ان کے دامن سے مخلص ہو کر وابستہ ہوجائیں۔

ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم علمِ دین سیکھنے سکھانے کے لئے کمر کس لیں، عوام و خواص سبھی کو علمِ دین کی جانب متوجہ ہونے کی اشد ضرورت ہے، دینی طلبہ کو تو بہت ضرورت ہے کہ دین سمجھنے اور علم کی گہرائی تک جانے کے لئے خوب محنت کریں۔ طلبا کو یاد رکھنا چاہئے کہ بڑے بڑے علمائے کرام و مفتیان عظام نے یونہی مقام نہیں پایا انہوں نے اپنی زندگیاں علم دین کی طلب میں گزاردیں، علم کے لئے مال خرچ کیا جمع نہیں کیا، سفر کئے ایک ہی جگہ آرام میں نہیں رہے، صبر کیا ، رضائے الٰہی پر راضی رہے، عاجزی و انکساری کو اپنایا۔



([1])اپنے بچوں کو حافظِ قراٰن بنانے کے لئے دعوتِ اسلامی کے مدارسُ المدینہ اور عالمِ دین بنانے کے لئے جامعاتُ المدینہ میں داخلہ دلوائیے۔


تحقیق کسے کہتے ہیں؟

Sat, 23 Jan , 2021
3 years ago

تحقیق کی لغوی واصطلاحی تعریف :

تحقیق ’’حق‘‘ سے مشتق ہے اور حق کہتے ہیں درست ومحکم شے کو،اس کے تمام مشتقات میں حقیقت سے ہم آہنگی اور استحکام کا مفہوم پایاجاتاہے۔تحقیق کی اصطلاحی تعریف کرتے ہوئے حضرت علامہ شریف جرجانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :’’التحقیق :اثبات المسألۃ بدلیلھایعنی مسئلے کو اس کی دلیل کے ساتھ ثابت کرنا۔‘‘(التعریفات،حرف التاء،ص40) علمی تحقیق کی تعریف یوں بھی کی گئی ہے:” کسی معین میدان میں ایسی منظم سعی وکوشش جس کا مقصد حقائق اور اصولوں کی دریافت ہو ۔“ بعض نے یہ کہا : دقیق اور منضبط مطالعہ جس کا ہدف کسی مسئلے کی وضاحت یا حل ہو اور اس مطالعہ کے طریقے اور اصول مسئلے کے مزاج اور حالات کے اعتبار سے مختلف ہوسکتے ہیں۔ ایک تعریف یہ ہے: منظم جستجو اور کھوج جس میں علمی حقائق کے لیے متعین شدہ مختلف اسالیب اور علمی مناہج اختیار کئے جائیں اور جس سے مقصود ان علمی حقائق کی صحت کی تحقیق یا ان میں ترمیم یا اضافہ ہو۔(تحقیق وتدوین کا طریقہ کار،ص22) باالفاظ دیگر استدلال ،شواہد اور مآخذ کی بینادپر کسی نظریہ کو ثابت کرنے یاکسی شے کو محکم بنانے یاکسی بات کی درستی کو ثابت کرنے یا کسی امر کی حقیقت کو آشکار کرنے کے لئے باقاعدہ اور مربوط فکری وعلمی جدوجہدکو تحقیق کہتے ہیں۔

تحقیق کے تقاضے اور احتیاطیں :

جس طرح ہرکام کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں یوں ہی تحقیق کے بھی کچھ تقاضے اور احتیاطیں ہیں ،مثلاً

(۱) تحقیق کا خواہش مند متعلقہ موضوع کی مبادیات سے واقف ہو ۔

(۲)موضوع سے متعلق کتب ومراجع سے مراجعت کی صلاحیت رکھتا ہو۔

(۳)تحقیق کرنے والا خوب چھان بین سے کام لے،جان نہ چھڑائے۔

(۴)گہرائی وگیرائی سے مطالعہ کرے،سرسری وسطحی مطالعے پر اکتفا ءنہ کرے۔

(۵)درایت وروایت میں مہارت وممارست رکھتاہو۔

(۶)دورانِ تحقیق اصل موضوع سے نہ ہٹے ۔

(۷)اندازِ بیان سادہ اور واضح ہو،تعبیرات گنجلک پن اور جھول سے پاک ہوں۔

میدان تحقیق کی مختلف جہتیں:

بدلتے زمانے، تغیرات عالم اور علمی ترقی کے سبب جس طرح ہر علم وفن میں تنوع اور توسیع ہوتی جارہی ہے ٹھیک اسی طرح ”تحقیق“ کا میدان بھی بڑا وسیع ہوتا جارہا ہے،تحقیقات کی جہتوں میں اضافہ ہورہا ہے ۔دور حاضر میں درج ذیل علمی کام بھی تحقیق کے دائرے میں آتے ہیں:

(01)متعدد نسخوں سے تقابل کرکے کسی کتاب کا صحیح ترین نسخہ تیار کرنا۔جیسے المدینۃ العلمیہ کی پیش کردہ” بہارشریعت“

(02)مخطوطے کی تصحیح کرکے اسے کتابی شکل میں پیش کردینا۔مثلا جدالممتار علی رد المحتار ،التعلیقات الرضویۃ علی الحدیقۃ الندیۃ از المدینۃ العلمیہ

(03)کسی مشکل متن کی تسہیل وتوضیح کی غرض سے اُس پر حاشیہ نگاری کرنا ،اس پربین السطور کا اہتمام کرنا یا قوسین میں معانی کی وضاحت کردینا۔جیسے مفتی نقی علی خان رحمۃ اللہ علیہ کا رسالہ ” فضل العلم والعلماء“ ،امام اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ کا رسالہ ”اسماع الاربعین“ اوراستاد عبدالواحد مدظلہ العالی کا حاشیہ” الفرح الکامل علی شرح ماۃ عامل“

(04)کسی مفصل وطویل کتاب کی تلخیص کرنا۔جیسے مختصرمنہاج العابدین ،لباب الاحیاء(المدینۃ العلمیہ سے ان خلاصوں کے تراجم شائع ہوچکے ہیں)

(05) کتب ورسائل کی تخریج کرکے اس میں درج حوالہ جات کوکتاب،باب،فصل، جلداور صفحہ نمبر کی قیودات کے ساتھ بیان کردینا۔اسلامک ریسرچ سینٹر(المدینۃ العلمیہ )کی کتب میں یہ طریقہ کار رائج ہے۔

(06)کتاب کے اصلاح طلب یا توضیح کے متقاضی مقامات پر تحقیقی حواشی کا اہتمام کرنا،اس کی کثیر صورتیں بنتی ہیں جن میں سے یہاں 11صورتیں اور اُن کی مثالیں ذکرکی جاتی ہیں :

علمی تحقیق کی 11 صورتیں:

(۱)بسا اوقات کسی عبارت کے ظاہر سے اہلسنّت کے کسی مسلمہ عقیدہ یا معمول پر زدپڑرہی ہوتی ہے ۔محقق کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مقام کی احسن طریقے پر تحقیق وتفہیم کرے۔مثلاً

اصلاح اعمال(ترجمہ الحدیقۃ الندیہ)،ج1،ص678پر مذکورہے:’’اورحدیث شریف میں وارِد ’’سختی نہ کرو‘‘کامعنی یہ ہے کہ لوگوں کوحاجات طلب کرنے اوران کے پوراکرنے کے لئے مخلوق کے پاس نہ بھیجو۔‘‘…اس پر یہ تحقیقی حاشیہ دیاگیاہے کہ’’مطلب یہ ہے کہ حقیقی طورپرحاجات کواللہ عزوجل ہی پورافرماتاہے اورایک بندۂ مومن کاعقیدہ بھی یہی ہوناچاہئے کہ حقیقۃً کارسازاللہ تبارک وتعالیٰ ہی ہے اوریہ مراد نہیں کہ حضرات انبیائے کرام علیہم السلام اور اولیائے عظام رحمہم اللہ السلام کی بارگاہوں سے حاجات طلب کرنے اورانہیں وسیلہ بنانے کی ممانعت ہے ۔ورنہ احادیث ِ مبارَکہ میں تعارُض لازم آئے گا۔کیونکہ ۔۔۔۔۔الخ۔

(۲)بعض اوقات کسی کتاب پر اعتماد کرتے ہوئے اس میں وارداصل ماخذذکر کردیا جاتاہے جبکہ اس میں وہ روایت موجود نہیں ہوتی۔لہٰذا ایسے مقام پر وضاحت ناگزیر ہوتی ہے۔مثلاً

بہار شریعت ،ج3،ص65 پرحدیث یوں مذکورہے ::ترمذی نے ام المؤمنین عائشہ رضی االلہ تعالی عنہا سے روایت کی ،رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا:’’ہدیہ کرو کہ اس سے حسد دور ہوجاتا ہے ۔‘‘…اس پراسلامک ریسرچ سینٹر(المدینۃ العلمیہ) نے یہ حاشیہ دیا :’’یہ روایت ترمذی میں نہیں ملی ہاں مشکوۃ المصابیح میں موجود ہے جہاں ترمذی کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے ۔(مشکوۃالمصابیح ،ج۲،ص۱۸۷۔حدیث:۳۰۲۷،مطبوعہ: دارالفکر بیروت)

(۳)کبھی ایسا ہوتا ہے کہ قول کسی اور کا ہوتاہے اور بیان کسی اور کے حوالے سے ہوجاتاہے ۔اب تحقیق اس بات کی متقاضی ہے کہ اصل قائل کا نام دلیل کے ساتھ ظاہر کیا جائے۔مثلاً

(i)اصلاح اعمال ،ج1،ص517 پر ہے:’’ تَنْوِیْرُالْاَبْصَار‘‘میں ہے : ’’اگرکسی نے بلا طہار ت دو رکعتوں کی منت مانی توحضرت سیِّدُناامام اعظم رضی اللہ تعالی عنہ (متوفی۱۵۰ھ)کے نزدیک ان دورکعتوں کوطہارت کے ساتھ ادا کرنا ضروری ہے۔‘‘اس پر المدینۃ العلمیہ کی طرف سے لکھا گیاہے کہ’’یہاں کتابت کی غلطی ہے کیونکہ یہ حکم حضرت سیِّدُنا امام ابو یوسف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (متوفی۱۸۲ھ) کے نزدیک ہے ۔جیساکہ تنویرالابصار کی شرح درمحتار، کتاب الصلاۃ ، باب الوتر والنوافل ، جلد2کے صفحہ595پر اس کی صراحت موجود ہے اور ایسا ہی فتح القدیر ،کتاب الایمان ،فصل فی الکفارۃ، جلد5کے صفحہ87پر ہے۔

(ii)احیاء العلوم ،ج۳،ص۱۵۲(مطبوعہ: دارصادربیروت) میں مروی ہے کہ سیدنا کعب الاحبار رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: جمعہ کی آخری ساعت قبولیت کی گھڑی ہے۔‘‘اس پر علامہ مرتضیٰ زبید ی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا :یہ تو حضرت سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالی عنہ کا قول ہے جیساکہ سنن ابی داود اور نسائی میں مروی ہے۔ (اتحاف،ج۳،ص۴۶۱مطبوعہ :دارالکتب العلمیہ بیروت)اور سنن نسائی میں ہے کہ سیدنا کعب احبار رحمۃ اللہ علیہ شروع میں اس بات کے قائل تھے کہ’’ یہ قبولیت کی ساعت سال میں ایک مرتبہ ہوتی ہے۔‘‘ پھر آپ نے اس سے رجوع کرلیا تھالیکن آخری ساعت کی’’ تعیین ‘‘ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالی عنہ سے منقول ہے ۔(سنن النسائی ،ص۶۴۲،حدیث:۱۴۲۷،مطبوعہ: دارالکتب العلمیہ بیروت)

(۴)کبھی کسی روایت کو زیادتی کے ساتھ ذکر کردیا جاتا ہے حالانکہ وہ زیادتی کے ساتھ مروی نہیں ہوتی۔یہاں اس زیادتی کی نشاندہی ضروری ہے۔مثلاً

ردالمحتار،ج5،ص198(مطبوعہ دارلثقافۃ والتراث دمشق) پر علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :’’قد روی فی حدیث ابی ہریرۃ :ان المؤمن لا ینجس حیا ولا میتا ۔‘‘…اس پرردالمحتارکے محقق لکھتے ہیں کہ :یہ روایت’’حیاً ولا میتاً‘‘ کی زیادتی کے ساتھ حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے ہمیں نہیں ملی۔

(۵)کبھی کتابت کی غلطی سے ’’ واحد کا صیغہ‘‘ جمع اور’’ جمع کا صیغہ ‘‘واحد ہوجاتاہے۔ایسے مقام کی نشاندہی لازمی ہے۔مثلاً

کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب ،صفحہ نمبر42پر نزہۃ القاری ،ج1،ص 239کے حوالے سے اقتباس نقل کیا گیاہے (جس میں یہ بھی ہے): ’’یونہی وہ باتیں جن کا ثبوت قطعی ہے مگر ان کادین سے ہونا عوام وخواص سب کو معلوم نہیں تو وہ بھی ضروریاتِ دین سے نہیں ،جیسے صلبی بیٹی کے ساتھ اگر پوتی ہو تو پوتی کو چھٹا حصہ ملیگا۔‘‘…اس پربانی دعوتِ اسلامی ، قبلہ شیخ طریقت، امیراہلسنّت زید مجدہ الکریم نے تحریر فرمایا:’’نزہۃ القاری ‘‘کے نسخوں میں اس جگہ ’’بیٹی‘‘کے بجائے ’’بیٹیوں‘‘لکھا ہے جو کتابت کی غلطی معلوم ہوتی ہے کیونکہ حضرت علامہ ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ ’’المسایرہ‘‘ صفحہ ۳۶۰پر تحریر فرماتے ہیں :جن کا ثبوت قطعی ہے مگر وہ ضروریات دین کی حد کون نہ پہنچا ہو جیسے (میراث میں) صلبی بیٹی کے ساتھ اگر پوتی ہوتو پوتی کو چھٹا حصہ ملنے کا حکم اجماع امت سے ثابت ہے۔۔۔۔۔الخ

(۶)بعض دفعہ ملتا جلتا ہونے کے باعث مولف ،قائل یا راوی وغیرہ کا نام بدل جاتاہے۔محقق کو چاہیے کہ اصل نام کو بیان کردے۔مثلاً

ردالمحتار،ج5،ص365پر علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ نے ذکرفرمایا:ابن ابی شیبہ کی روایت میں ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ہر سال شہدائے اُحد کی قبور پر تشریف لے جایا کرتے تھے ۔‘‘اس پر محقق فرماتے ہیں :یہ روایت ’’ابن شبہ‘‘ نے تاریخ المدینۃ المنورۃمیں نقل کی ہے۔’’مصنف ابن ابی شیبہ‘‘ میں یہ روایت موجود نہیں یعنی یہاں’’ابن شبہ‘‘ کو ’’ابن ابی شیبہ‘‘ گمان کرلیا گیا۔

(۷)کبھی کسی فقہی مسئلے کی وضاحت ناگزیر ہوتی ہے ۔لہٰذا تحقیق کی ضرورت پیش آتی ہے ۔مثلاً

بہار شریعت ،ج3،ص341پر ہے:جس کے دانت نہ ہوں(اس کی قربانی ناجائز ہے)اس پراسلامک ریسرچ سینٹر ( المدینۃ العلمیہ) کی طرف سے یہ تحقیق دی گئی ہے:’’یعنی ایساجانورجوگھاس کھانے کی صلاحیت نہ رکھتاہو،ہاں!اگرگھاس کھانے کی صلاحیت رکھتاہوتواس کی قربانی جائزہے جیساکہ بحرالرائق،ج۸، ص ۳۲۳، الھدایۃ،ج۲،ص۳۵۹، تبیین الحقائق،ج۶،ص۴۸۱، الفتاوی الخانیۃ،ج۲،ص۳۳۴، الفتاوی الھندیۃ،ج۵،ص۲۹۸ پرمذکورہے۔‘‘

(۸)کبھی ایسا ہوتا ہے کہ توجہ نہ ہونے یا نسخہ کی تبدیلی یاکتابت میں غلطی یا الفاظ کے ہم شکل ہونے کے سبب لفظ ہی بدل جاتاہے ۔ایسے مقام پراصل سے مراجعت کرکے درست لفظ کی تحقیق وتعیین ناگزیر ہوتی ہے ۔مثلاً

اصلاح اعمال ،ج1،ص557 پر ’’ المواھب اللدنیۃ“سے منقول ہے :’’ کیونکہ علمِ لدنی روحانی کی پہچان ہی یہ ہے کہ وہ …الخ۔‘‘…اس پر امام اہلسنّت ، امام احمدرضاخان رحمۃ اللہ علیہ (متوفی۱۳۴۰ھ)نے حاشیہ میں فرمایا:’’(لفظ المواہب ج۶،ص۳۶۰)رحمانی بالنسبۃ الی الرحمٰن عزوجل وہو الاوفق الاصح۔۱۲یعنی المواہب اللدنیۃ، ج۶،ص ۳۶۰ (دارالکتب العلمیۃ کے نسخے مطبوعہ 1996ء کے مطابق ج۲،ص۴۹۲) پرروحانی کے بجائے رحمانی ہے اور رحمن عزوجل کی طرف نسبت کے اعتبار سے یہ ہی زیادہ صحیح اور مناسب ہے۔‘‘

(۹)بسا اوقات کتابت کی غلطی یا مؤلف کے تسامح سے کتاب میں یہ صراحت ہوتی ہے کہ فلاں کتاب میں یہ روایت فلاں صحابی سے مروی ہے۔وہ روایت اس کتاب میں موجود توہوتی ہے لیکن دوسرے صحابی سے مروی ہوتی ہے ۔مثلاً

بہارشریعت ،ج3،ص 563پر ہے :طبرانی نے اوسط میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، کہ حضور(صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم) نے فرمایاکہ ’’لڑکا یتیم ہو تو اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے میں آگے کو لائے اور بچہ کا باپ ہو تو ہاتھ پھیرنے میں گردن کی طرف لے جائے۔‘‘ اس پرالمدینۃ العلمیہ کی طرف سے یہ تحریر کیا گیاہے :’’یہ روایت طبرانی اوسط میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے منقول ہے ۔‘‘

(۱۰)بعض اوقات کسی مسئلہ میں دلیل کے طور پرضعیف حدیث نقل ہوجاتی ہے ۔مُحقِّق ومُخَرِّج کی ذمہ داری ہے کہ اس کے ضعف کودلیل کے ساتھ واضح کرے ۔مثلاً

اصلاح اعمال ،ج1،ص100 پرہے :مختار قول یہ ہے کہ ہمزہ کو ترک کر دیا جائے کیونکہ حضورنبی کریم،رء وف رحیم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی لغت بھی یہی ہے۔ مروی ہے کہ ایک شخص نے بارگاہِ نبوی میں حاضرہو کر عرض کی:’’یا نبیٔ اللہ۔‘‘ تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ا س سے ارشاد فرمایا:’’میں نبیٔ اللہ نہیں بلکہ نبیُّ اللہ ہوں۔‘‘اس پراسلامک ریسرچ سینٹر کی طرف سے یہ حاشیہ دیا گیا ہے:’’اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعدحضرت سیدناامام قرطبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تحریر فرماتے ہیں:’’ابو علی نے کہا: اس حدیث کی سند ضعیف ہے۔(اس کے بعد آپ فرماتے ہیں) اس حدیث کے ضعیف ہونے کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ نبی ٔکریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی مدح کرنے والے شاعر (صحابی ) نے سرکارِمدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کرکے یاخاتمَ النباء(یعنی اے آخری نبی ) کہا (اور ہمزہ کے ساتھ نباء لفظ ِنبیٔ بالھمزہ کی جمع ہے) اور سرکارِمدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا اس بات سے انکار منقول نہیں۔‘‘(الجامع لاحکام القران للقرطبی تحت الایۃ:۶۱’’لاتدخلوابیوت النبی۔۔۔۔۔ الایۃ،ج ۱، ص۳۴۹)

(۱۱)کبھی عبارت کے ظاہری مفہوم سے سخت مغالطے کا اندیشہ ہوتا ہے ۔لہٰذا اس کے سد باب کے لئے محقق ومدلل حاشیہ ضروری ہوتاہے ۔مثلاً

اصلاح اعمال ،ج1،ص601 پرتحریر ہے :’’لہٰذا کفر کوباعتبارِکفر برا سمجھا جائے نہ کہ اس معین کافر کو۔‘‘اس المدینۃ العلمیہ نے یہ تحقیقی حاشیہ دیاہے: ’’یاد رہے کافرکوبراسمجھنے اوراس کی تعظیم وعزت افزائی میں فرق ہے ۔کفارکی تعظیم وتکریم کفرہے ۔چنانچہ،مجدداعظم ،اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ(متوفی ۱۳۴۰ھ) ’’فتاوی ظہیریہ، الاشباہ والنظائر اور درمختار‘‘کے حوالے سے تحریرفرماتے ہیں:لَوْسَلَّمَ عَلَی الذِّمِّیِّ تَبْجِیْلًا یُکْفَرُلِاَنَّ تَبْجِیْلَ الْکَافِرِ کُفْرٌ وَلَوْقَالَ لِمَجُوْسِیٍّ یَااُسْتَاذُتَبْجِیْلًاکَفَرَ ترجمہ:اگرکسی مسلمان نے کسی ذمی کافرکوبطورِعزت و توقیرسلام کیاتووہ کافرہوجائے گاکیونکہ کافرکی عزت افزائی کفرہےاوراگرکسی نے آتش پرست(یعنی آگ کے پجاری )کوتعظیم کے طورپر ’’اے استاذ‘‘ کہا تووہ کافرہوگیا۔ (فتاوی رضویہ، ج۶،ص۱۹۳)نیز کفارکے ساتھ حسنِ سلوک ، کفراورکفرپرمددواعانت کے علاوہ دیگرمعاملات میں ہوسکتا ہے مثلاً مشرک پڑوسی کے ساتھ حق پڑوس کی ادائیگی اور کافر باپ کی غیرکفریہ معاملات میں اطاعت وغیرہ، ورنہ کفارسے موالات (یعنی میل جول )ناجائزوحرام ہے۔چنانچہ،سیِّدی اعلی حضرت امام احمدرضاخان رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۱۳۴۰ھ) ارشاد فرماتے ہیں: ’’قرآنِ عظیم نے بکثرت آیتوںمیں تمام کفارسے موالات(یعنی میل جول،باہمی اتحاد،آپس کی دوستی)قطعاًحرام فرمائی، مجوس (آگ کے پجاری) ہوں خواہ یہودونصار یٰ (یہودی وعیسائی) ہوں، خواہ ہُنُود(ہندو)اورسب سے بدترمُرتدانِ عُنُود(دینِ حق سے بغاوت کرنے والے مرتدین ) (فتاوی رضویہ، ج۱۵،ص۲۷۳)، ہاں! دنیوی معاملات مثلاًخرید و فروخت وغیرہ(اس کی شرائط کے ساتھ) جس سے دین پرضرر(یعنی نقصان)نہ ہو مرتدین کے علاوہ کسی سے ممنوع نہیں(فتاوی رضویہ، ج۲۴،ص۳۳۱مُلَخَّصًا )مزیدتفصیل کے لئے فتاوی رضویہ شریف کے مذکورہ مقامات کامطالعہ فرمالیجئے۔


علم کی مجلس میں حاضر ہونا ہزار رکعت نَفْل پڑھنے، ہزار جنازوں میں شرکت کرنے اور ہزار مریضوں کی عیادت کرنے سے بہتر ہے۔ (احیاء العلوم مترجم جلد 1،ص136) ۔مدنی مذاکرہ بھی علم دین حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے ۔

اسی سلسلے میں آج رات 8:30 بجےمدنی چینل پر براہ راست ہفتہ وار مدنی مذاکرے کا سلسلہ ہوگا جس میں بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ محمد الیاس عطار قادری دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ عاشقانِ رسول کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات ارشاد فرمائیں گے

واضح رہے کہ مدنی مذاکرے میں امیرِ اہلِ سنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ فقہی سوالات کے جوابات، علم و حکمت سے لبریز مدنی پھول اور اپنے ذاتی تجربات کی روشنی میں روز مرہ کے مسائل پر تفصیلی گفتگو فرماتے ہیں۔

عاشقانِ رسول سے گزارش ہے کہ مدنی مذاکرے میں اول تا آخر شرکت فرمائیں اور علمِ دین کی روشنی سے اپنے سینوں کو منور کریں۔


عاشقان رسول  کے دلوں کو علمِ دین کی طرف راغب کرنے اور ان کے دینی معلومات میں اضافہ کرنے کے لئے امیرِ اہلِ سنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ ہر ہفتے ایک رسالے کے مطالعے کی ترغیب دلاتے ہیں اور رسالہ پڑھنےیاسننے والوں کو اپنی دعاؤں سے بھی نوازتے ہیں۔

اس ہفتے امیرِ اہلِ سنت نے عاشقانِ رسول کو رسالہ ” شانِ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ “ پڑھنے / سننے کی ترغیب دلائی ہے اور پڑھنے /سننے والوں کو اپنی دعاؤں سے بھی نوازا ہے۔

دعائے عطار

یا اللہ پاک! جو کوئی 17 صفحات کا رسالہ ”شانِ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ “ پڑھ یا سُن لےاُس کو بے حساب بخش کر جنت الفردوس میں حضرت صدیق اکبر کا پڑوس عطا فرما۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ رسالہ دعوتِ اسلامی کی ویب سائٹ سے ابھی مفت ڈاؤن لوڈ کیجئے

Download

رسالہ آڈیو میں سننے کے لئے کلک کریں

Audio Book


 دعوت اسلامی کے فلاحی ادارے F.G.R.Fویلفیئر کے زیر اہتمام 20جنوری 2021ء کو یوکے برمنگھم ریجن میں بذریعہ ویڈیو لنک مدنی مشورہ ہوا جس میں F.G.R.F ویلفیئر یوکے برمنگھم ریجن کے پروجیکٹس میں اسپانسر کرنے والے اسلامی بھائیوں نے شرکت کی۔

نگران ریجن برمنگھم سید فضیل رضا عطاری نے موجودہ منصوبوں کی پیشرفت اور Updateپر تبادلہ خیال کیا اور مزید منصوبے شروع کرنے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہیں تعاون کرنے کی ترغیب دلائی۔


دعوت اسلامی کے زیر اہتمام 21 جنوری 2021ء کو مدنی مرکز فیضان مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور میں تاجر اجتماع کا انعقاد کیا گیا جس میں لاہور کے تاجر اسلامی بھائیوں نے شرکت کی۔

مرکزی مجلس شوریٰ کے نگران مولانا محمد عمران عطاری مَدَّظِلُّہُ الْعَالِی نے سنتوں بھرا بیان کیا اور شرکا کو دعوت اسلامی دینی کاموں میں تعاون کرنے اور اس میں ذاتی طور پر شرکت کرنے کا ذہن دیا۔نگران شوریٰ کے انہیں تاجروں اور اپنے ماتحت لوگوں میں نیکی کی دعوت عام کرنے کی ترغیب بھی دلائی۔

اس موقع پر نگران پاکستان انتظامی کابینہ حاجی محمد شاہد عطاری بھی موجود تھے۔


دعوت اسلامی کے عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی میں18جنوری 2021ء کو حضرت علامہ مفتی محمد ابراہیم قادری صاحب سکھر مَدَّظِلُّہُ الْعَالِی اور مولانا سید سعید رضا گیلانی صاحب کی آمد ہوئی۔

حاجی ابو البنتین محمد حسان عطاری اور دیگر ذمہ داران نے انہیں خوش آمدید کہا اور فیضان مدینہ میں قائم مختلف شعبہ کا دورہ کروایا۔ مفتی ابراہیم قادری صاحب نے دار الافتاء اہلسنت کا وزٹ کیا جہاں مفتیان کرام مفتی محمد فضیل عطاری، مفتی سجاد عطاری مدنی اور مفتی محمد حسان عطاری مدنی نے شعبے کے حوالے سے بریفنگ دی۔

بعدازاں علامہ صاحب کو المدینۃ العلمیہ سمیت تخصص فی الحدیث اور دارالتدریب و لائبریری کا وزٹ کروایا گیاجہاں ہونے والے دینی کاموں کے بارے میں معلومات فراہم کی گئیں۔

مفتی ابراہیم صاحب نے دعوت اسلامی کے دینی کاموں کے ساتھ ساتھ تخصص فی الحدیث سال دوئم میں جاری علمی و تحقیقی کام کو خوب سراہا اور خوشی کا اظہار کیا۔(رپورٹ : احمدرضا مغل عطاری، شعبہ تخصصات)


20جنوری 2021ء کو دعوت اسلامی کے عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی میں جاری تخصصات کی کلاسز میں تربیتی سیشن کا اہتمام کیا گیا جس میں تخصصات کے طلبہ کرام نے شرکت کی۔

تربیتی سیشن میں موٹیویشنل اسپیکر سرفرید عطاری نے زندگی گزارنے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ زندگی کا کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہونا چاہیئے کیونکہ جس زندگی میں مقصد نہ ہو اس زندگی کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا ، آپ اپنے آپ کو اس طرح نہ بنائیں کہ زندگی جو چاہے مجھے بنادے بلکہ اپنے آپ کو اس طرح بنائیں کہ جو میں چاہتا ہوں مجھے وہی بننا ہے بس۔

سرفرید نے مستقبل کی پلاننگ کی حوالے بات کرتے ہوئے کہا کہ آپ آگے کوئی کام کرنا چاہتے ہیں مثلا گھر بنانا ہے اور کتابوں کا مطالعہ کرنا ہے تو یاد رکھیں صرف جذبات سے کوئی کام نہیں ہوتا بلکہ آپ کو اس کام کو مرتب کرنا ہوگا لہذا اپنے کام کو مرتب کریں۔ سرفرید کی شرکا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ایک بات ہمیشہ یاد رکھیں! مبہم اہداف مبہم نتیجہ پیدا کرتے ہیں جب آپ کا ہدف بالکل واضح ہوگا تو اِنْ شَآءَ اللہ نتیجہ بھی واضح آئے گا، انسان کی فطرت ہے کہ وہ آرام پسند ہوتا ہے لہذا اگر ایسا ہے تو آپ اپنی زندگی کو ایک شیڈول دیں کہ مجھے ان ان وقتوں میں یہ یہ کام کرنے ہیں اِنْ شَآءَ اللہ ایک بہترین نتیجہ حاصل ہوگا۔(رپورٹ: دانیال رضا عطاری مدنی، تخصص فی الحدیث)


دعوت اسلامی کی مجلس مدرسۃ المدینہ بالغان کے زیر اہتمام 18 جنوری 2021 ء بروز پیر شریف ڈویژن جیکب آباد فیضان مدینہ میں مدنی مشورہ ہوا جس میں رکن زون محمد بلال عطاری اور ڈویژن نگران محمد اظہر عطاری سمیت ڈویژن ذمہ دار قاری محمد معروف عطای نے شرکت کی ۔

مدنی مشورے میں ذ مہ داران دعوت اسلامی نے مدرسۃ المدینہ بالغان کے ذریعے فیضان قرآن عام کرنےپر کلام کیا جبکہ ریجن ذمہ دار مجلس مدرسۃ المدینہ بالغان نصیر احمد عطاری نے موجودہ کارکردگی کا جائزہ لیا اور شرکا کو مدارس بڑھانے کے اہداف دیئے۔ اس موقع پر ڈویژن ذمہ دار نے بتایا کہ اس وقت جیکب آباد ڈویژن میں الحمد اللہ عزوجل 8 مدارسۃ المدینہ برائے بالغان لگ رہے ہیں ان شاء اللہ عزوجل جنوری 2021میں ہی 15 ہوجائیں گے۔