12 اکتوبر 2024ء کو یورپین ملک UK کے شہر Rotterdam میں عالمی سطح پر لوگوں کو دینِ اسلام کی تعلیمات سکھانے والی عاشقانِ رسول دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے تحت اسلامی بہنوں کے لئے کفن دفن اجتماع کا انعقاد ہوا جس میں کم و بیش 60 اسلامی بہنوں کی شرکت ہوئی۔

اس اجتماعِ پاک میں Belgium کی مبلغۂ دعوتِ اسلامی نے سنتوں بھرا بیان کیا جس کے بعد مقامی زبان میں حاضرین کو غسل اور کفن کاٹنے / پہنانے کا عملی طریقہ سکھایا گیا نیز اسلامی بہنوں نے اپنے تاثرات بھی دیئے۔

بعدازاں مبلغۂ دعوتِ اسلامی نے اسلامی بہنوں کو مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ ”تجہیز و تکفین“ اور دعوتِ اسلامی کی Muslim Funeral ڈاؤن لوڈ کرنے کی ترغیب بھی دلائی۔


سرزمینِ کینیڈا میں لوگوں کے درمیان اشاعتِ دین کرنے اور شریعت محمدیہ کے مطابق اُن کی دینی و  اخلاقی تربیت کرنے والی عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے تحت 21 اکتوبر 2024ء کو Etobicoke کی جملہ ذمہ دار اسلامی بہنوں کا مدنی مشورہ منعقد کیا گیا۔

اسلامی بہنوں کے 8 دینی کاموں کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے سب کانٹیننٹ نگران اسلامی بہن نے دینی کاموں کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے ٹیلی تھون 2024ء کے لئے اسلامی بہنوں کو انفرادی اور اجتماعی اہداف دیئے ۔

اس کے علاوہ سب کانٹیننٹ نگران اسلامی بہن نے Etobicoke میں قائم فیضان ویک اینڈ اسلامک اسکول کے متعلق کلام کیا اور حاضرین کو صدقے کے فضائل سمیت راہِ خدا عزوجل میں خرچ کرنے کے فضائل بتائے۔

بعدازاں تمام ذمہ دار اسلامی بہنوں نے دعوتِ اسلامی کے دینی کاموں میں مزید ترقی اور ٹیلی تھون میں زیادہ سے زیادہ یونٹ جمع کروانے کے لئے اچھی اچھی نیتیں کیں۔


ملک و بیرونِ ملک کی خواتین میں اسلامی شعور پیدا کرنے اور شریعت کے مطابق اُن کی تربیت کرنے والی عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کےتحت 18 اکتوبر 2024ء کو  میلبرن اسٹیٹ کی نگران و ذمہ دار اسلامی بہنوں کا مدنی مشورہ ہوا۔

معلومات کے مطابق مدنی مشورے کے دوران اسلامی بہنوں کے 8 دینی کاموں کے حوالے سے گفتگو کرنے کے بعد ذمہ دار اسلامی بہنوں نے مختلف موضوعات پر تبادلۂ خیال کیا جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:

٭وقف مبلغہ کے دینی کاموں کا شیڈول٭شعبہ گلی گلی مدرسۃ المدینہ کے تحت نئی کلاسز شروع کرنا٭ایسٹ کاؤنسل میں کفن دفن سیشن منعقد کروانا٭نارتھ کاؤنسل میں دعوتِ اسلامی کا ہفتہ وار سنتوں بھرا اجتماع شروع کروانا٭ماہانہ طہارت و نماز کورسز منعقد کروانا٭ٹیلی تھون 2024ء کی کارکردگی اور اس کے اہداف٭شعبہ اصلاحِ اعمال اور شعبہ مدرسۃ المدینہ بالغات کی کارکردگی کا فالواپ٭نگران اسلامی بہنوں کی کارکردگی تیار کرنا۔

بیرونِ ممالک کی اسلامی بہنوں میں اسلامی شعور پیدا کرنے اور انہیں دینِ اسلام کا درس دینے والی عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کےتحت 18 اکتوبر 2024ء کو  نیوزی لینڈ کی نگران اور دیگر ذمہ دار اسلامی بہنوں کی میٹنگ منعقد ہوئی۔

اس میٹنگ میں اسلامی بہنوں کے 8 دینی کاموں کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ذمہ دار اسلامی بہنوں نے مختلف موضوعات پر مشاورت کی جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:

٭اصلاحِ اعمال کارکردگی٭دسمبر 2024ء اور جنوری 2025ء میں نگران اسلامی بہنوں کا اورسیز شیڈول٭نارتھ، ساؤتھ اور سینٹرل کاؤنسلز میں اسلامی بہنوں کے درمیان دینی کام٭تنظیمی اپڈیٹس کے مطابق تقرریاں٭آن لائن سیکھنے سکھانے کے حلقے میں شرکت کرنا٭ٹیلی تھون 2024ء کی کارکردگی اور اس کے اہداف۔


عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے تحت 17 اکتوبر 2024ء کو دینی کاموں کے سلسلے میں مدنی مشورہ ہوا جس میں لیورپول کاؤنسل نگران سمیت دیگر ذمہ دار اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔

لیورپور کاؤنسل نگران اسلامی بہن نے 8 دینی کاموں کے متعلق کلام کرتے ہوئے اسلامی بہنوں کی رہنمائی کی اور نومبر 2024ء میں ہونے والے کورسز کے بارے میں مشاورت کی جس پر وہاں موجود ذمہ دار اسلامی بہنوں نے اپنی اپنی رائے پیش کی۔


دینِ متین کی خدمت میں مصروفِ عمل عالمی سطح کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے تحت 16 اکتوبر  2024ء کو بیرونِ ملک کی ذمہ دار اسلامی بہنوں کا مدنی مشورہ ہوا جس میں کینٹربری کاؤنسل نگران اور شعبہ مشاورت کی اسلامی بہنیں شریک ہوئیں۔

کینٹربری کاؤنسل نگران اسلامی بہن نے گفتگو کرتے ہوئے ٹیلی تھون 2024ء اوراس کے اہداف کا جائزہ لیا جس پر تمام ذمہ دار اسلامی بہنوں نے اچھی اچھی نیتیں کیں۔


مسلمانوں کو عشق رسول کا جام پلانے والی دینِ اسلام   کی عالمگیر دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے زیر اہتمام آج مؤرخہ12 ستمبر 2024ء بروز جمعرات بعد نماز مغرب دنیا بھر میں ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماعات کا انعقاد کیا جائے گا جن میں اراکینِ شوریٰ و مبلغین دعوتِ اسلامی سنتوں بھرے بیانات فرمائیں گے۔تلاوت و نعت سے شروع ہونے والے اجتماعات میں اصلاحِ نفس، اصلاحِ معاشرہ اور دینی معلومات کے موضوعات پر بیانات کئے جاتے ہیں جس کے بعد ذکر و اذکار، رقت انگیز دعا اور صلوۃ و سلام کا سلسلہ ہوتا ہے۔

تفصیلات کے مطابق آج رات مدنی چینل پر براہِ راست نشر ہونے والے ہفتہ وار اجتماع میں جامع مسجد گلزار حبیب ٹاہلیانوالہ روڈ کالا دیو شریف، جہلم سے رکنِ شوریٰ حاجی وقار المدینہ عطاری خصوصی بیان فرمائیں گے۔

اس کے علاوہ عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ کراچی میں رکن شوریٰ حاجی محمد امین عطاری، فٹبال اسٹیڈیم نزد واپڈا آفس فیصل آباد روڈ، سمندری میں نگران پاکستان مشاورت حاجی محمد شاہد عطاری، جامع مسجد حسن مہتاب چرڑ ڈیفنس لاہور کینٹ میں رکن شوریٰ حاجی منصور عطاری، مدنی مرکز فیضان مدینہ ڈسکہ میں رکن شوریٰ حاجی محمد اظہر عطاری، جامع مسجد اقصیٰ شیرانوالہ گیٹ لاہور میں رکن شوریٰ حاجی یعفور رضا عطاری، مدنی مرکز فیضان مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور میں رکن شوریٰ عبد الوہاب عطاری، مدنی مرکز فیضان مدینہ نزد نادرا آفس 46 اڈا روڈ سلانوالی میں رکن شوریٰ مولانا حاجی محمد عقیل عطاری مدنی، جامع مسجد بیت الامان چٹاگانگ میں رکن شوریٰ عبد المبین عطاری اور المدینہ مسجد VICTORIA RD LONDON IG11 8PY میں رکن شوریٰ مولانا حاجی عبد الحبیب عطاری سنتوں بھرا بیان فرمائیں گے۔

تمام عاشقانِ رسول سے ہفتہ وار اجتماع میں شرکت کرنے کی درخواست ہے۔


جو مال حرام ذریعے سے حاصل کیا جائے وہ حرام ہے۔ (حديقۃ النديۃ، 5/16) ارشادِ خداوندی ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ (پ5، النساء:29) ترجمہ: اے ایمان والو! باطل طریقے سے آپس میں ایک دوسرے کے مال نہ کھاؤ۔اس آیت میں باطل (یعنی ناحق) طریقے سے مراد (ہر) وہ طریقہ ہے جس سے مال حاصل کرنا شریعت نے حرام قرار دیا ہے۔

فرامینِ مصطفیٰ:

1۔ بندہ حرام ذریعے سے جو مال کمائے اگر اسے خرچ کرے گا تو اس میں برکت نہ ہو گی اور اگر صدقہ کرے گا تو وہ مقبول نہیں ہو گا اور اگر اُس کو اپنی پیٹھ پیچھے چھوڑ کر مر جائے گا تو وہ اس کے لئے جہنم میں جانے کا سامان ہے، بے شک اللہ پاک بُرائی سے بُرائی کو نہیں مٹاتا ہاں نیکی سے بُرائی کو مٹادیتا ہے۔ (مسند امام احمد، 2/505، حدیث: 3744)

حرام مال کی چند مثالیں: غصب، چوری، ڈاکہ، رشوت اور جوئے کے ذریعے حاصل کیا ہو ا مال، سود، بھتہ خوری اورپر چیاں بھیج کر ہراساں (خوفزدہ) کر کے وصول کیا ہو ا مال، ناچ گانا، زنا اور شراب کی کمائی داڑھی مونڈنا وغیرہ حرام کاموں کی اُجرت وغیرہ یہ تمام مالِ حرام ہیں۔

حرام کمائی میں مبتلا ہونے کے بعض اسباب: ایک سبب علم دین کی کمی ہے کہ خرید و فروخت کے شرعی احکام نہ جاننے کے سبب ایک تعداد ہے جو نہ چاہتے ہوئے بھی حرام کمائی میں جا پڑتی ہے، مال و دولت کی حرص، دنیا کی محبت، راتوں رات امیر بننے کی خواہش، مفت خوری کی عادت اور کام کاج سے دور بھاگنا، بری صحبت وغیرہ بھی ایسے اسباب ہیں جن سے بندہ حرام کمائی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔

حرام کمائی سے بچنے کے لئے: علم دین حاصل کیجئے، بالخصوص خرید و فروخت اور کسبِ معاش کے متعلق ضروری احکام و مسائل سیکھ لیجئے۔ موت اور قبر و آخرت کو کثرت کے ساتھ یاد کیجئے، ان شاء اللہ الکریم! دل سے مال اور دُنیا کی محبت نکلے گی اور نیکیاں کرنے کا ذہن بنے گا۔ جہنم کے ہولناک عذابات کا مطالعہ کیجئے اور اپنے نازک بدن پر غور کیجئے کہ اگر کسبِ حرام کے سبب ان میں سے کوئی عذاب ہم پر مسلط کر دیا گیا تو ہمارا کیا بنے گا۔ کسبِ حلال کے فضائل اور حرام مال کے نقصانات کو پیش نظر رکھئے۔ توکل اختیار کیجئے نیز یہ بات اچھی طرح ذہن میں بٹھا لیجئے کہ کسی کی قسمت میں جتنا رزق ملنا لکھا ہو وہ اسے مل کر رہتا ہے اور نہ کبھی کسی کو مقدر سے کم ملتا ہے نہ زیادہ، لہذا عقل مند وہی ہے جو اپنے حصے کا رزق حلال طریقے سے حاصل کرے۔ نیک پرہیز گار عاشقان رسول کی صحبت اختیار کیجئے اور برے لوگوں سے ہمیشہ دور رہیے۔


اللہ پاک نے انسان کو اپنی عبادت کیلئے پیدا فرمایا اس کے ساتھ ہی انسان کو زندگی گزارنے کا بہترین طریقہ بھی سکھایا ہے۔زندگی گزارنے کے طریقے سکھانے کے ساتھ ساتھ ہی انسان کو کئی کاموں سے منع بھی فرمایا ہے۔ انہیں میں سے ایک کام حرام کمانا ہے۔ اللہ پاک نے قرآن پاک میں کئی مقامات پر حرام کمانے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد ہوا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ (پ5، النساء:29) ترجمہ: اے ایمان والو! باطل طریقے سے آپس میں ایک دوسرے کے مال نہ کھاؤ۔

تفسیر: اس آیت میں باطل طریقے سے مراد وہ طریقہ ہے جس سے مال حاصل کرنا شریعت نے حرام قرار دیا ہے جیسے سود، چوری اور جوئے کے ذریعے مال حاصل کرنا، جھوٹی قسم، جھوٹی وکالت، خیانت اور غصب کے ذریعے مال حاصل کرنا اور گانے بجانے کی اجرت یہ سب باطل طریقے میں داخل اور حرام ہے۔ یونہی اپنا مال باطل طریقے سے کھانا یعنی گناہ و نافرمانی میں خرچ کرنا بھی اس میں داخل ہے۔ (خازن، النساء، تحت الآیۃ: 29، 1 / 370)  اسی طرح رشوت کا لین دین کرنا، ڈنڈی مار کر سودا بیچنا، ملاوٹ والا مال فروخت کرنا، قرض دبا لینا، ڈاکہ زنی، بھتہ خوری اور پرچیاں بھیج کر ہراساں کر کے مال وصول کرنا بھی اس میں شامل ہے۔

حرام کمانا اور کھانا اللہ کی بارگاہ میں سخت ناپسندیدہ ہے اور احادیث میں اس کی بڑی سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں، ان میں سے چند احادیث درج ذیل ہیں۔

فرامینِ مصطفیٰ:

1۔ جو بندہ مالِ حرام حاصل کرتا ہے، اگر اُس کو صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اُس کے لیے اس میں برکت نہیں اور اپنے بعد چھوڑ کر مرے تو جہنم میں جانے کا سامان ہے۔ اللہ تعالیٰ برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا، ہاں نیکی سے برائی کو مٹا دیتا ہے۔ بے شک خبیث کو خبیث نہیں مٹاتا۔ (مسند امام احمد، 2/33، حدیث: 3672)

2۔ اللہ نے اُس جسم پر جنت حرام فرما دی ہے جو حرام غذا سے پلا بڑھا ہو۔ (کنز العمال، 2/ 8، حدیث: 9257)

3۔ اے سعد! اپنی غذا پاک کر لو! مستجابُ الدعوات ہو جاؤ گے، اس ذاتِ پاک کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے! بندہ حرام کا لقمہ اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو اس کے 40دن کے عمل قبول نہیں ہوتے اور جس بندے کا گوشت حرام سے پلا بڑھا ہواس کے لئے آگ زیادہ بہترہے۔ (معجم اوسط، 5/ 34، حدیث: 6495)

4۔ سرکارِ دوعالم ﷺ نے ایک شخص کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے،اس کے بال پَراگندہ اور بدن غبار آلود ہے اور وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر یا رب! یارب! پکار رہا ہے حالانکہ اس کا کھانا حرام، پینا حرام، لباس حرام، اور غذا حرام ہو پھر اس کی دعا کیسے قبول ہو گی۔ (مسلم، ص506، حدیث:1015)


رزق حلال اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان نعمت ہے جبکہ حرام کمانا اور کھانا اللہ کے عذاب کو دعوت دینا اور خود پر قبولیت کے دروازے بند کرنا ہے اللہ تعالیٰ نے ہر اس شے کو حرام قرار دیا ہے جو انسانی صحت کے لیے نقصان دے ہے اس لیے حرام سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے اور رزق حلال ہی کمانے اور کھانے کا حکم دیا ہے ویسے بھی حلال کا طلب کرنا تو ہر مسلمان پر فرض ہے ہمارے سب سے پیارے اور میٹھے میٹھے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: پاک کمائی والے کے لیے جنت ہے۔ (معجم کبیر، 5/72، حدیث: 4616)

اللہ تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے: یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلًا طَیِّبًا ﳲ وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِؕ-اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(۱۶۸) (پ 2، البقرۃ: 168) ترجمہ کنز الایمان: اے لوگو! جو کچھ زمین میں حلال پاکیزہ ہے اس میں سے کھاؤ شیطان کے راستوں پر نہ چلو بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔

فرامینِ مصطفیٰ:

1۔ سب سے زیادہ پاکیزہ کھانا وہ ہے جو اپنی کمائی سے کھاؤ۔ (ترمذی، 3/76، حدیث:1363)

2۔ حلال روزی کے بارے میں ارشاد فرمایا: کچھ گناہ ایسے ہیں جن کا کفارہ نہ نماز ہو نہ روزے نہ حج نہ عمرہ۔ ان کا کفارہ وہ پریشانیاں ہوتی ہیں جو آدمی کو تلاش معاش حلال میں پہنچتی ہیں۔ (ترمذی، 1/42، حدیث:102)

3۔ رزقِ حرام کے متعلق ارشاد فرمایا: جو بندہ مال حرام حاصل کرتا ہے، اگر اس کو صدقہ کرے تو وہ مقبول نہیں خرچ کرے تو اس کے لیے اس میں برکت نہیں اور اپنے بعد چھوڑ مرے تو جہنم میں جانے کا سامان ہے اللہ تعالیٰ برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا، ہاں نیکی سے برائی کو مٹاتا ہے خبیث (ناپاک)کو خبیث نہیں مٹاتا۔ (مسند امام احمد، 2/33، حدیث:3672)

4۔ جس نے عیب والی چیز بیع کی(بیچی) اور اس (عیب) کو ظاہر نہ کیا، وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی میں ہے یا فرمایا کہ ہمیشہ فرشتے اس پر لعنت کرتے ہیں۔ (ابن ماجہ، 3/9، حدیث:2247)

لقمہ حرام کی نحوست: مکاشفۃ القلوب میں ہے: آدمی کے پیٹ میں جب لقمہ حرام پڑا تو زمین وآسمان کا ہر فرشتہ اس پر لعنت کرے گا جب تک اس کے پیٹ میں رہے گا اور اگر اسی حالت میں (پیٹ میں حرام لقمے کی موجودگی میں) موت آگئی تو داخل جہنم ہوگا۔ (مکاشفۃ القلوب، ص10)

لقمہ حرام کا وبال: لقمہ حرام بے برکتی کا سبب ہے، لقمہ حرام کھانے والے کا دل سیاہ ہو جاتا ہے، لقمہ حرام سے برے اخلاق کی طرف دل مائل ہوتا ہے لقمہ حرام سے متعلق حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ اس کی نماز قبول نہیں فرماتا جس کے پیٹ میں حرام لقمہ ہو۔ (احیاء العلوم، 2/115)

ایک بزرگ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: بیشک انسان ایک ایسا لقمہ کھاتا ہے جس کی وجہ سے اس کا دل بگڑ جاتا ہے جیسے کھال بگڑ جاتی ہے پھر اپنی حالت پر کبھی نہیں آتا۔ (احیاء العلوم، 2/116)

حضرت سہل بن عبداللہ تستری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جو شخص حرام کھاتا ہے وہ چاہے یا نہ چاہے اور اسے علم ہو یا نہ ہو اس کے اعضاء گناہوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور جب حلال کھانا کھاتا ہے تو اس کے اعضاء فرمابردار ہو جاتے ہیں اور اسے اعمال خیر کی توفیق دی جاتی ہے۔

اللہ اللہ رزق حرام کا کتنا وبال ہے! جبکہ اس کے برعکس رزق حلال اللہ کی خوشنودی اور برکت کا باعث ہے اس لیے ہمیں چاہیے کہ رزق کے لیے ایسے ذرائع اختیار کریں جن میں شریعت کی پابندی نہ ہو اور ایک مسلمان کی شان بھی یہی ہے کہ وہ حلال رزق کماتا ہے اور حرام سے بچتا ہے کیونکہ اس کا مقصد اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی رضا ہوتا ہے حرام ذریعے سے کمایا گیا مال اگر زیادہ ہو بھی جائے لیکن اس میں برکت نہیں ہوتی اور انسان اپنی زندگی کو خود ہی جہنم بنا لیتا ہے!

اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں حلال کمانے اور حلال کھانے کی توفیق عطا فرما ہمارے رزق حلال میں برکت عطا فرما حرام کمانے اور کھانے سے ہمیں اور ہماری نسلوں کو بچا اپنی دی ہوئی نعمتوں کی قدر کرنا نصیب فرما اور ہمیں اور ہماری نسلوں کو اپنے شکر گزار بندوں میں شامل فرما لے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ


دین اسلام نے زندگی ہر کے میدان میں حلال و حرام کے فرق کو قران و سنت سے واضح کر کے اسکے فائدے اور نقصان کو بیان فرما دیا ہے اب بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن میں نقصانات کے باعث اس کو حرام فرمایا ہے جن میں سے ایک حرام کمانا اور حرام کھانا بھی ہے دین اسلام میں اس کی بہت مذمت بیان ہوئی ہے حرام کمانے سے مراد رشوت خیانت، چوری ڈکیتی،سود،شراب بنانا،بیچنا،بے حیائی کرنے والے کا کاروبار، جھوٹ فریب، دھوکے وغیرہ کے ذریعے سے مال حاصل کرنا ہے۔

جب یہ تو کل کر لیا جائے کہ رزق کا ذمہ اللہ پر ہے اور رسک دینا اسی کا کام ہے مگر حلال ذریعے تلاش کرنا ہمارا کام ہے تو اس سے بندہ حرام کمانے سے بچ سکتا ہے۔ مگر افسوس آج کل ہماری اکثر آبادی جن میں مسلمان بھی شامل ہیں، وہ حرام کمانے میں ملوث ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ لا علمی اور جہالت ہے روز بروز ابھرتی ہوئی مہنگائی کی وجہ لوگوں کا رحجان حرام ذریعے سے روزے کمانے کی طرف ہو گیا ہے۔اگر ہمیں معلوم ہو جائے کہ حرام کمانے اور کھانے پر کس قدر مذمت ہے تو یقیناً اس طرف رحجان کم ہوگا ائیے حدیث مبارکہ سے اس کی مذمت ملاحظہ کرتے ہیں:

فرامینِ مصطفیٰ:

1۔ اللہ نے اس جسم پر جنت حرام فرما دی جو حرام غذا سے پلا بڑھا ہو۔(کنز العمال، 2/ 8، حدیث: 9257)

2۔ سرکار دوعالم ﷺ نے ایک شخص کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے، اس کے بال پراگندہ اور بدن غبار الودہ ہے اور اپنے ہاتھ کو اسمان کی طرف اٹھا کر یا رب یا رب! پکار رہا ہے، حالانکہ اس کا کھانا، حرام پینا حرام، لباس حرام، اور غذا حرام ہو پھر اس کی دعا کیسے قبول ہوگی۔(مسلم، ص506، حدیث:1015)

3۔ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ انسان کوئی پروا نہیں کرے گا جو اس نے حاصل کیا ہے وہ حلال سے ہے یا حرام سے ہے۔ (بخاری، 2/7، حدیث: 2059)

مکاشفۃ القلوب میں ہے: آدمی کے پیٹ میں جب لقمہ حرام پڑا تو زمین و آسمان کا ہر فرشتہ اس پر لعنت کرے گا جب تک اس کے پیٹ میں رہے اور اگر اس حالت میں (یعنی پیٹ میں حرام لقمے کی موجودگی میں) موت آگئی تو داخلِ جہنم ہوگا۔ (مکا شفۃ القلوب، ص10)

اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں حرام کمانے اور کھانے کے ہر ذریعے سے محفوظ رکھے۔ آمین


باطل طریقے سے مال حاصل کرنا شریعت نے حرام قرار دیا ہے جیسے سود خوری اور جوئے کے ذریعے مال حاصل کرنا، جھوٹی قسم جھوٹی وکالت اور خیانت کے ذریعے مال حاصل کرنا یوں ہی اپنا مال باطل طریقے سے کھانا یعنی گناہ و نافرمانی میں خرچ کرنا یہ سب مال شریعت میں حرام ہیں۔ الله پاک قرآنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ (پ5، النساء:29) ترجمہ: اے ایمان والو! باطل طریقے سے آپس میں ایک دوسرے کے مال نہ کھاؤ۔

احادیث مبارکہ:

1۔ الله تعالیٰ نے اس جسم پر جنت حرام فرما دی جو حرام سے پلا بڑھا ہو۔ (کنز العمال، 2/8، حدیث: 9257)

2۔ رشوت لینے والے اور دینے والے پر اللہ اور اس کے رسول نے لعنت فرمائی ہے۔ (ابوداود، 3/420 حدیث: 3580)

3۔ تجارت میں جھوٹ بولنے والے اور عیب چھپانے والے کے کاروبار سے برکت مٹا دی جاتی ہے۔ (بخاری، 2/14، حدیث: 2082)

اس کے علاوہ بھی بہت سے احادیث میں حرام مال کی مذمت کو بیان کیا گیا ہے حرام کھانا الله پاک جو ناپسند ہے اور ایسا انسان جنت سے محروم جبکہ دوزخ کا حقدار ہوگا۔

مکاشفۃ القلوب میں ہے: آدمی کے پیٹ میں جب لقمہ حرام پڑا تو زمین و آسمان کا ہر فرشتہ اس پر لعنت کرے گا جب تک اس کے پیٹ میں رہے گا اور اگر اسی حالت میں (یعنی پیٹ میں حرام لقمے کی موجودگی میں) موت آگئی تو داخل جہنم ہوگا۔ (مکاشفۃ القلوب، ص10)

اللہ پاک ہمیں حرام سے بچائے اور حلال کمانے اور کھانے کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین