حرام کمانے
کھانے کی مذمت از بنت وسیم، فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ
رزق حلال اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان نعمت ہے جبکہ
حرام کمانا اور کھانا اللہ کے عذاب کو دعوت دینا اور خود پر قبولیت کے دروازے بند
کرنا ہے اللہ تعالیٰ نے ہر اس شے کو حرام قرار دیا ہے جو انسانی صحت کے لیے نقصان
دے ہے اس لیے حرام سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے اور رزق حلال ہی کمانے اور کھانے کا
حکم دیا ہے ویسے بھی حلال کا طلب کرنا تو ہر مسلمان پر فرض ہے ہمارے سب سے پیارے
اور میٹھے میٹھے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: پاک کمائی والے کے لیے جنت ہے۔ (معجم کبیر، 5/72، حدیث:
4616)
اللہ تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے: یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلًا طَیِّبًا
ﳲ وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِؕ-اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(۱۶۸) (پ 2، البقرۃ: 168) ترجمہ کنز
الایمان: اے لوگو! جو کچھ زمین میں حلال پاکیزہ ہے اس میں سے کھاؤ شیطان کے راستوں
پر نہ چلو بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔
فرامینِ مصطفیٰ:
1۔ سب سے زیادہ پاکیزہ کھانا وہ ہے جو اپنی کمائی
سے کھاؤ۔ (ترمذی، 3/76، حدیث:1363)
2۔ حلال روزی کے بارے میں ارشاد فرمایا: کچھ گناہ
ایسے ہیں جن کا کفارہ نہ نماز ہو نہ روزے نہ حج نہ عمرہ۔ ان کا کفارہ وہ پریشانیاں
ہوتی ہیں جو آدمی کو تلاش معاش حلال میں پہنچتی ہیں۔ (ترمذی، 1/42، حدیث:102)
3۔ رزقِ حرام کے متعلق ارشاد فرمایا: جو بندہ مال
حرام حاصل کرتا ہے، اگر اس کو صدقہ کرے تو وہ مقبول نہیں خرچ کرے تو اس کے لیے اس
میں برکت نہیں اور اپنے بعد چھوڑ مرے تو جہنم میں جانے کا سامان ہے اللہ تعالیٰ
برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا، ہاں نیکی سے برائی کو مٹاتا ہے خبیث (ناپاک)کو خبیث
نہیں مٹاتا۔ (مسند امام احمد، 2/33،
حدیث:3672)
4۔ جس نے عیب والی چیز بیع کی(بیچی) اور اس (عیب)
کو ظاہر نہ کیا، وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی میں ہے یا فرمایا کہ ہمیشہ فرشتے
اس پر لعنت کرتے ہیں۔ (ابن ماجہ، 3/9، حدیث:2247)
لقمہ حرام کی نحوست: مکاشفۃ
القلوب میں ہے: آدمی کے پیٹ میں جب لقمہ حرام پڑا تو زمین وآسمان کا ہر فرشتہ اس
پر لعنت کرے گا جب تک اس کے پیٹ میں رہے گا اور اگر اسی حالت میں (پیٹ میں حرام
لقمے کی موجودگی میں) موت آگئی تو داخل جہنم ہوگا۔ (مکاشفۃ القلوب، ص10)
لقمہ حرام کا وبال: لقمہ
حرام بے برکتی کا سبب ہے، لقمہ حرام کھانے والے کا دل سیاہ ہو جاتا ہے، لقمہ حرام
سے برے اخلاق کی طرف دل مائل ہوتا ہے لقمہ حرام سے متعلق حضرت عبداللہ بن عباس رضی
اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ اس کی نماز قبول نہیں فرماتا جس کے پیٹ میں حرام لقمہ ہو۔
(احیاء العلوم، 2/115)
ایک بزرگ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: بیشک انسان ایک
ایسا لقمہ کھاتا ہے جس کی وجہ سے اس کا دل بگڑ جاتا ہے جیسے کھال بگڑ جاتی ہے پھر
اپنی حالت پر کبھی نہیں آتا۔ (احیاء العلوم، 2/116)
حضرت سہل بن عبداللہ تستری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے
ہیں: جو شخص حرام کھاتا ہے وہ چاہے یا نہ چاہے اور اسے علم ہو یا نہ ہو اس کے
اعضاء گناہوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور جب حلال کھانا کھاتا ہے تو اس کے اعضاء
فرمابردار ہو جاتے ہیں اور اسے اعمال خیر کی توفیق دی جاتی ہے۔
اللہ اللہ رزق حرام کا کتنا وبال ہے! جبکہ اس کے
برعکس رزق حلال اللہ کی خوشنودی اور برکت کا باعث ہے اس لیے ہمیں چاہیے کہ رزق کے
لیے ایسے ذرائع اختیار کریں جن میں شریعت کی پابندی نہ ہو اور ایک مسلمان کی شان
بھی یہی ہے کہ وہ حلال رزق کماتا ہے اور حرام سے بچتا ہے کیونکہ اس کا مقصد اللہ
اور اس کے رسول ﷺ کی رضا ہوتا ہے حرام ذریعے سے کمایا گیا مال اگر زیادہ ہو بھی
جائے لیکن اس میں برکت نہیں ہوتی اور انسان اپنی زندگی کو خود ہی جہنم بنا لیتا
ہے!
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں حلال
کمانے اور حلال کھانے کی توفیق عطا فرما ہمارے رزق حلال میں برکت عطا فرما حرام
کمانے اور کھانے سے ہمیں اور ہماری نسلوں کو بچا اپنی دی ہوئی نعمتوں کی قدر کرنا
نصیب فرما اور ہمیں اور ہماری نسلوں کو اپنے شکر گزار بندوں میں شامل فرما لے۔
آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ