حرام کمانے
کھانے کی مذمت از سدرہ گیلانی، فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ
دین اسلام نے زندگی ہر کے میدان میں حلال و حرام کے
فرق کو قران و سنت سے واضح کر کے اسکے فائدے اور نقصان کو بیان فرما دیا ہے اب بہت
سی چیزیں ایسی ہیں جن میں نقصانات کے باعث اس کو حرام فرمایا ہے جن میں سے ایک
حرام کمانا اور حرام کھانا بھی ہے دین اسلام میں اس کی بہت مذمت بیان ہوئی ہے حرام
کمانے سے مراد رشوت خیانت، چوری ڈکیتی،سود،شراب بنانا،بیچنا،بے حیائی کرنے والے کا
کاروبار، جھوٹ فریب، دھوکے وغیرہ کے ذریعے سے مال حاصل کرنا ہے۔
جب یہ تو کل کر لیا جائے کہ رزق کا ذمہ اللہ پر ہے
اور رسک دینا اسی کا کام ہے مگر حلال ذریعے تلاش کرنا ہمارا کام ہے تو اس سے بندہ
حرام کمانے سے بچ سکتا ہے۔ مگر افسوس آج کل ہماری اکثر آبادی جن میں مسلمان بھی
شامل ہیں، وہ حرام کمانے میں ملوث ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ لا علمی اور جہالت
ہے روز بروز ابھرتی ہوئی مہنگائی کی وجہ لوگوں کا رحجان حرام ذریعے سے روزے کمانے
کی طرف ہو گیا ہے۔اگر ہمیں معلوم ہو جائے کہ حرام کمانے اور کھانے پر کس قدر مذمت
ہے تو یقیناً اس طرف رحجان کم ہوگا ائیے حدیث مبارکہ سے اس کی مذمت ملاحظہ کرتے
ہیں:
فرامینِ مصطفیٰ:
1۔ اللہ نے
اس جسم پر جنت حرام فرما دی جو حرام غذا سے پلا بڑھا ہو۔(کنز العمال، 2/ 8، حدیث: 9257)
2۔ سرکار دوعالم ﷺ نے ایک شخص کا ذکر کیا جو لمبا
سفر کرتا ہے، اس کے بال پراگندہ اور بدن غبار الودہ ہے اور اپنے ہاتھ کو اسمان کی
طرف اٹھا کر یا رب یا رب! پکار رہا ہے، حالانکہ اس کا کھانا، حرام پینا حرام، لباس
حرام، اور غذا حرام ہو پھر اس کی دعا کیسے قبول ہوگی۔(مسلم، ص506، حدیث:1015)
3۔ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ انسان کوئی
پروا نہیں کرے گا جو اس نے حاصل کیا ہے وہ حلال سے ہے یا حرام سے ہے۔ (بخاری، 2/7،
حدیث: 2059)
مکاشفۃ القلوب میں ہے: آدمی کے پیٹ میں جب لقمہ
حرام پڑا تو زمین و آسمان کا ہر فرشتہ اس پر لعنت کرے گا جب تک اس کے پیٹ میں رہے
اور اگر اس حالت میں (یعنی پیٹ میں حرام لقمے کی موجودگی میں) موت آگئی تو داخلِ
جہنم ہوگا۔ (مکا شفۃ القلوب، ص10)
اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں حرام کمانے اور کھانے کے ہر
ذریعے سے محفوظ رکھے۔ آمین