باطل طریقے سے مال حاصل کرنا شریعت نے حرام قرار دیا ہے جیسے سود خوری اور جوئے کے ذریعے مال حاصل کرنا، جھوٹی قسم جھوٹی وکالت اور خیانت کے ذریعے مال حاصل کرنا یوں ہی اپنا مال باطل طریقے سے کھانا یعنی گناہ و نافرمانی میں خرچ کرنا یہ سب مال شریعت میں حرام ہیں۔ الله پاک قرآنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ (پ5، النساء:29) ترجمہ: اے ایمان والو! باطل طریقے سے آپس میں ایک دوسرے کے مال نہ کھاؤ۔

احادیث مبارکہ:

1۔ الله تعالیٰ نے اس جسم پر جنت حرام فرما دی جو حرام سے پلا بڑھا ہو۔ (کنز العمال، 2/8، حدیث: 9257)

2۔ رشوت لینے والے اور دینے والے پر اللہ اور اس کے رسول نے لعنت فرمائی ہے۔ (ابوداود، 3/420 حدیث: 3580)

3۔ تجارت میں جھوٹ بولنے والے اور عیب چھپانے والے کے کاروبار سے برکت مٹا دی جاتی ہے۔ (بخاری، 2/14، حدیث: 2082)

اس کے علاوہ بھی بہت سے احادیث میں حرام مال کی مذمت کو بیان کیا گیا ہے حرام کھانا الله پاک جو ناپسند ہے اور ایسا انسان جنت سے محروم جبکہ دوزخ کا حقدار ہوگا۔

مکاشفۃ القلوب میں ہے: آدمی کے پیٹ میں جب لقمہ حرام پڑا تو زمین و آسمان کا ہر فرشتہ اس پر لعنت کرے گا جب تک اس کے پیٹ میں رہے گا اور اگر اسی حالت میں (یعنی پیٹ میں حرام لقمے کی موجودگی میں) موت آگئی تو داخل جہنم ہوگا۔ (مکاشفۃ القلوب، ص10)

اللہ پاک ہمیں حرام سے بچائے اور حلال کمانے اور کھانے کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین