بداخلاقی پر بھی حسن سلوک: حضرت سیدنا عمر بن عبدالباقی علیہ
الرحمہ بہت بڑے زمیندار تھے حضرت سیدنا ابراہیم بن ادھم علیہ الرحمہ ایسی سلطنت
چھوڑ کر درویشی زندگی اختیار کرتے تھے اور رزق حلال کے حصول کے لیے اجرت پر لوگوں
کی کھیتی وغیرہ کاٹا کرتے تھے، حضرت سیدنا عمر بن عبدالباقی علیہ الرحمہ کے ہاں آپ نے ایک دوست سے مزدوری کی اور دس دینار
مانگے، حضرت سیدنا ابراہیم بن ادھم علیہ الرحمہ نے اپنے رفیق سے کہا، آؤ ہم حلق
کروالیں( یعنی سر منڈوالیں) چنانچہ دونوں حجام کے پاس آئے حجام نے تحقیر آمیز لہجے میں کہا تم لوگوں سے زیادہ ناپسندیدہ میرے
نزدیک دنیا بھر میں کوئی نہیں، کیا میرے علاوہ کوئی شخص تمہیں نہ ملا جو تمہاری خدمت کرتا یہ کہہ کر وہ دوسرے گاہکوں میں مصروف
ہوگیا، آپ کے رفیق کو حجام کا ذلت آمیز لہجہ بہت برا لگا تھا اس لیے اس نے حلق
کروانے سے انکار کردیا، آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ خاموشی
سے بیٹھے رہے جب سب لوگ چلے گئے تو حجام نے نفرت بھرے لہجے میں کہا تم کیا
چاہتے ہو؟ فرمایا اپنے بال کٹوانا چاہتا ہوں، حجام نے بڑی حقارت سے آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا حلق کیا، خدا تعالیٰ کی
شان کہ حجام اس مرد قلندر کو حقارت کی نظروں سے دیکھ رہا تھا جس نے اپنے پر وردگار عزوجل کی رضا کی خاطر سلطنتِ شان و
شوکت شاہی محلات اور زرو و زمین سب کچھ ٹھکرا دیا تھا کسی نے درست کہا ہے کہ موتی
کی قدر جوہری ہی جانتا ہے وہ نادان حجام اس گوہر بے بہا کی قدر نہ جان سکا بہرحال
جب آپ رحمہ اللہ علیہ نے حلق کروالیا تو آپ نے رفیق سے کہا جو دینار تمہارے پاس ہیں
وہ سب اس حجام کو دے دو اس نے کہا حضور یہ آپ کیا فرمارہے ہیں، اتنی شدید گرمی میں
خون پسینہ ایک کرکے آپ نے مزدوری کی پھر یہ رقم ملی اور اس حجام کو اتنی بڑی رقم دے
رہے ہیں۔فرمایایہ رقم اس حجام کو دے دو تاکہ پھر کبھی یہ کسی درویش کو حقیر نہ
جانے، آپ کے رفیق نے بھاری رقم حجام کو دے دی پھر آپ رحمہ اللہ علیہ نے گھر کی طرف
لوٹ آئے صبح ہوئی تو اپنے دوست سے فرمایا ،یہ چند کتابیں کسی کے پاس رہن رکھ کر
قرض د لوا دو کھانے کے لیے کچھ خرید لاؤ ں آپ کا دوست حسبِ
ارشاد کتابیں لے کر بازار کی جانب چل دیا ایسے میں ایک شخص کو دیکھا جو بڑی شان و
شوکت سے خیمہ لگائے بیٹھا تھا اس کے سامنے
غلے کا ڈھیر ، قیمتی گھوڑے اورخچراوراسے بڑے بڑے صندوق تھے۔ جن میں ساٹھ ہزار سے زیادہ
دینار ہوں گے ۔ وہ شخص اس طرح صدائیں بلند کررہا تھا ان تمام چیزوں کا مالک سفیدی
مائل سرخ رنگت والا شخص ہے جو ابراہیم بن ادھم علیہ الرحمہ کے نام سے مشہور ہے کوئی
ہے جو مجھے اس کے متعلق بتائے یہ اعلان سن کر آپ رحمہ اللہ علیہ کا دوست اس شخص کے
پاس گیا اور کہا جسے تم ڈھونڈھ رہے ہو وہ ایسی شہرت و ثروت کو پسند نہیں کرتا آؤ میں
تمہیں اس کے پاس لے چلتا ہوں، وہ دونوں حضرت سیدنا ابراہیم بن ادھم علیہ الرحمہ کے پاس آئے آپ
رحمہ اللہ علیہ کو اس لباس میں دیکھ کر وہ شخص ہکا بکا رہ گیا ۔قدموں
میں گر کر عرض کی، میرے آقا ، میرے سردار
خراسان کا ملک چھوڑ کر آپ اس حالت کو پہنچ گئے ہیں؟ آپ رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا،
ان باتوں کو چھوڑو اور یہ بتاؤ تمہارا معاملہ کیا ہے؟کہا حضور آپ کے بعد جو شخص
تخت نشین ہوا اس کا انتقال ہوگیا آ پ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا اللہ عزوجل
اس پر رحم فرمائے جس طرح اسے موت آئی اسی طرح ہر ذی روح کو موت آئے گی، جس نے خوشیوں کا گنج پایا وہ موت کے
رنج سے بھی دو چار ہوگا، اچھا یہ بتاؤ تم
کیا چاہتے ہو اور یہاں کیوں آئے ہو، کیا خیر سے آقا ، آپ رحمہ اللہ علیہ کے بعد جب
تخت نشین کا انتقال ہوگیا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ کے سارے غلاموں نے جو چاہا وہ کیا، تمام شاہی چیزیں لوگوں سے آپس میں تقسیم کرلیں میں
نے بھی بہت سی چیزیں لے لیں کہ تمام چیزیں جومیرے پاس ہیں سب آپ کی ہیں اور میں بھی
آپ کا بھاگا ہوا غلام ہوں ، اب معافی طلب کرنے آیا ہوں میں نے علما کرام رحمہ اللہ
علیہ سے آپ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا، جب تک تم اپنے آقا کے پاس واپس نہ جاؤ گے اس وقت تک تمہارے اعمال قبول نہ
ہوں گے تم مال و متاع لے کر اپنے آقا کے پاس جاؤ وہ جس طرح کہتا ہے تمہارے ساتھ
معاملہ کرے میرے آقا آب میں آپ رحمہ اللہ
تعالیٰ علیہ کے سامنے حاضر ہوں میرے بارے میں جو چاہیں فیصلہ فرمائیں۔حضرت سیدنا
ابراہیم بن ادم علیہ الرحمہ نے فرمایا:اگر تم ایسی بات میں پیچھے ہو تو میں نے تمہیں اللہ عزوجل کی رضا کی خاطر آزاد کیا، اور
جو کچھ مال و متاع تمہارے پاس ہی وہ سب تمہیں دیا اب جہاں چاہو یہ مال کرچ کرو،
جاؤ اب یہ مال تمہیں مبارک ہو، پھر آپ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے دوست کی طرف
متوجہ ہوئے اور فرمایا جاؤ کس کے پاس یہ کتابیں رہن رکھ کر قرض لو اور کھانے کے لیے
کچھ خرید لاؤ ۔
سبحان اللہ عزوجل صد ہزار آفرین ان مبارک ہستیون پر جنہوں نے خدائی بزر گ و برتر کی رضا کے لیے شاہی شان و
شوکت محلات و باغات وغیرہ سب کچھ ٹھکرا کر سادگی و عاجزی اختیار کی اور بھوک اور پیاس
کی مصیبتیں ہنس کر برداشت کیں کبھی بھی حرف ِ شکایت لب پر نہ آنے دیا، اور رزق
حلال کی خاطر محنت مزدوری کی یقینا یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے آخرت کی قدر جان لی ،
ان پر دنیا کی حقیقت آشکار ہوچلی تھی کہ دنیا بے وفا ہے اس کی نعمتیں زوال پذیر ہیں۔
میری مشکلیں گر تیرا امتحان ہیں
تو ہر غم قسم سے کوشی کا سماں ہے
گناہوں کی میرے اگر یہ سزا ہے