حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا:"بے شک
فاطمہ نے پاک دامنی اختیار کی اور اللہ تعالی نے اس کی اولاد کو دوزخ پر حرام
فرمادیا۔"(شانِ خاتون جنت، ص 20، المستدرک للحاکم، کتاب معرفۃ الصحابہ، باب
فاطمہ احصنت فرجھا۔۔ الخ، حدیث 4779)
سیدہ، طاہرہ، عابدہ، زاہدہ، تقیہ،
نقیہ، پارسا، مفتیہ، قاریہ، شہزادئ حضور
صلی اللہ علیہ وسلم، ملکہ طہارت خاتونِ جنت فاطمۃ الزہره رضی اللہ عنہا کی مبارک
زندگی اُمّت کے لئے زبردست نمونہ ہے، آپ
کی مبارک سیرت میں ہمارے لئے بہت سے درس ہیں، ان میں سے کچھ ملاحظہ ہوں۔
عبادت کا جذبہ:
حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ
فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والدہ ماجدہ حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا
کہ آپ رضی اللہ عنہا (بسا اوقات) گھر کی مسجد کے محراب میں رات بھر نماز میں مشغول
رہتیں، یہاں تک کہ صبح طلوع ہو جاتی۔(مدارج النبوة (مترجم)، قسم پنجم، در ذکر اولادِ کرام، سیدہ فاطمۃ الزہرا، ج 2، ص 623، شان خاتونِ جنت، ص 77)
حضورعلیہ الصلوہ والسلام کی لاڈلی
شہزادی رضی اللہ عنہا سے محبت رکھنے والوں کے لئے ذوقِ عبادت پیدا کرنے کے لئے یہی
فرمان کافی ہے۔
ایثار و سخاوت کا
جذبہ:
سیّدہ خاتون جنت فاطمۃ الزہرہ رضی
اللہ عنہا کی مبارک زندگی اس حالت میں گزری کہ کبھی پیٹ بھر کر دو وقت کا کھانا نہ
کھایا، جو ملتا دوسروں پر نچھاور کر دیتیں،
ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی
شہزادی سے ملنے تشریف لائے تو دیکھا کہ اِس
قدر چھوٹی چادر اوڑھ رکھی ہے کہ سر ڈھانپتی ہیں تو پاؤں کھل جاتے ہیں اور پاؤں
چھپاتی ہیں تو سر کھل جاتا ہے۔(ماخوذ از مکاشفۃ القلوب، باب فی فضل الفقراء،ص 180،
شان خاتون جنت، ص 158)
ہمیں بھی اس مبارک سخاوت اور
ایثار کے جذبے کو اپناتے ہوئے اپنے اندر ایثار کا جذبہ پیدا کرنا چاہئے۔
حیاء کا جذبہ:
اگر حیاء اور پردے کے متعلق
خواتین میں بات کی جائے تو واللہ سب سے پہلے سیدہ خاتونِ جنت کا ذکر کیا جائے گا،
جس قدر آپ رضی اللہ عنہا کی حیاء تھی، اُس
کی مثال نہیں مل سکتی، آپ رضی اللہ عنہا کے پردے کا یہ عالم ہے کہ قیامت کے دن منادی ندا منادی ندا کرے گا، اے اہلِ محشر !اپنی نگاہیں جھکا لو تاکہ حضرت
فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پل صراط سے گزریں۔(الجامع الصغیر مع فیض القدیر، حرف الھمزہ، ج 1، ص 549، الحدیث 822، شان خاتون جنت، ص 314)
اللہ کریم اس پردے اور حیاء کے صدقے ہمیں بھی حیاء عطا
فرمادے۔آمین
عشقِ رسول:
عشقِ رسول فقط دعوے کا نام نہیں،
بلکہ اس کی حقیقت یہ ہے کہ محبوب اتنا اچھا لگے کہ محبّ(محبت کرنے والا) اس کی نقل
کرے اور عشقِ رسول جس کو مل جائے، وہ ضرور سنتوں کا پابند ہو گا، ، سیدہ خاتونِ جنت کا کردار اپنے
بابا جان صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کا آئینہ دار تھا۔
الغرض جانِ کائنات صلی اللہ علیہ
وسلم کی شہزادی کی کیا بات بیان کریں اور کیا چھوڑیں، آپ کا ہر ہر فعل پیروی کے قابل ہے ، افسوس ہم یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہم اہلبیت سے محبت کرتے ہیں، مگر افسوس صد کروڑ افسوس!ہمیں محبوب سے اس قدر
محبت ہی نہیں کہ ہم ان کی پیروی کریں، یاد رکھیں محبت اطاعت کرواتی ہے، جب محبت ہی
کھوکھلی اور جھوٹےدعوؤں پر مشتمل ہو تو وہ اطاعت نہیں کرواتی، بس دکھاوا کرواتی ہے۔
سیدہ کی محبت میں اھل بیت ساداتِ
کرام کی محبت بھی شامل ہے، جس طرح ساداتِ
کرام سے امیر اہلسنت دامت فیوضھم محبت فرماتے ہیں، اللہ کریم ہمیں بھی محبت عطا فرمائے ۔آمین بجاہ النبی
الامین صلی اللہ علیہ وسلم