پیغامِ محمدی دنیا میں اللہ پاک کا پہلا اور آخری پیغام ہے،  جو کالے گورے، عرب و عجم، ترک و تاتار، ہندی و چینی، زنگ و فرنگ سب کے لئے عام ہے، جس طرح اس رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا خدا تمام دنیا کا خدا ہے، تمام دنیا کا پروردگار ہے۔(رب العالمین)اسی طرح اللہ پاک کے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم تمام دنیا کے رسول ہیں، تمام دنیا کے لئے رحمت اللعالمین ہے اور اس کا پیغام تمام دنیا کے لئے ہے۔نبوت محمد صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ایک اور اہم خصوصیت:قرآن کریم نے ہمیں بتایا ہے کہ اس اللہ پاک کا رسول خاتم النبیین ہیں، ارشادِ باری ہے:ترجمہ کنزالایمان:محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والاہے۔(پ22، الاحزاب:40)یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے تشریف لانے کے بعد سے نبیوں و رسولوں کا سلسلہ بند کردیا گیا، اب کسی کو بھی نبوت نہیں دی جائے گی، یعنی جن کو ملنی تھی مل چکی، اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی نبوت کا دور سب نبیوں کے بعد رکھا گیا، جو قیامت تک چلتا رہے گا۔حضرت مسیح علیہ السلام بھی قیامت کے نزدیک آپ کے ایک اُمتی کی حیثیت سے آئیں گے۔ انبیائے سابقین کا عہد:حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت مسیح علیہ السلام تک، ہر نبی مرسل نے نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری کی خوشخبری سنائی، آپ کی نبوت و رسالت اور آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر ختمِ نبوت کا فیصلہ پہلے ہی ہوچکا تھا، اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ولادت اور بعثت آخر میں ہوئی، کسی نے کیا خوب کہا:

انبیاآگئے مرسلین آگئے مقتدی آچکے تو امام آگیا

انبیائے سابقین اپنے اپنے عہد میں خاتم الانبیاء علیہ السلام کی روحانیتِ عظمیٰ ہی سے مستفید ہوتے تھے، مثال:جیسے رات کو چاند اور ستارے سورج کے نور سے مستفید ہوتے ہیں، حالانکہ سورج اس وقت دکھائی نہیں دیتا، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ر تبے اور زمانے، ہر لحاظ سے خاتم النبیین ہیں اور جن کو بھی نبوت ملی ہے، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہی کی مُہر سے ملی ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے تشریف لانے سے نبوت مکمل ہو گئی اور کوئی جگہ باقی نہیں رہی، جسے پُر کرنے کے لئے کسی نبی کے آنے کی ضرورت ہو، نبوت و رسالت کا سلسلہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر ختم ہو گیا، آپ کے بعد جو بھی نبوت کا دعویٰ لے کر اٹھے، وہ جھوٹا اور مکار ہے اور اس عقیدے کا منکر قطعاً کافر اور ملتِ اسلام سے خارج ہے۔

وہ دانہ رُسل ختم الرسل مولائے کل جس نے غبارِ راہ کو بخشا، فروغ وادی سینا

نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل، وہی آخر وہی قرآن وہی فرقاں، وہی یٰسین وہی طہٰ

احادیث مبارکہ کی روشنی میں:1۔حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے :آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے دونوں شانوں کے درمیان مہرِ نبوت تھی اور آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم خاتم النبیین ہیں۔(جامع ترمذی)2۔حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: تمھیں مجھ سے وہ نسبت ہے، جو حضرت ہارون علیہ السلام کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تھی، اتنا فرق ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو سکتا۔( بخاری، مسلم)3۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پہلی اُمّتوں میں محدث ہوا کرتے تھے، اگر میری اُمّت میں کوئی محدث ہے تو عمر رضی اللہ عنہہیں۔(جامع ترمذی)4۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:رسالت و نبوت تو ختم ہوچکی ہے، میرے بعد اور کوئی رسول ہے اور نہ نبی، یہ بات صحابہ کرام علیہم الرضوان پر شاق گزری، تو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:مبشرات باقی ہیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: مبشرات کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا:مسلمان کا خواب اور وہ نبوت کے حصّوں میں سے ایک حصّہ ہے۔(جامع ترمذی)5۔نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:میں محمد ہوں،میں احمد ہوں،میں ماحی ہوں،کہ میرے ذریعے کفر مٹایا جائے گا،میں حاشر ہوں کہ میرے بعد لوگ حشر میں جمع کئے جائیں گے اور میں عاقب ہوں اور عاقب وہ ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔(بخاری و مسلم)6۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: رسالت ونبوت ختم ہوچکی ہے، پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہے اور نہ نبی۔(ترمذی)ان اِرشادات سے واضح ہوتا ہے کہ انسانیت کی ہدایت اور راہ نمائی کے لئے حضرت آدم علیہ السلام سے جو سلسلہ شروع ہوا تھا، وہ نبیِ خاتم حضرت محمد صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر مکمل ہوا، آپ کے بعد نبوت و رسالت کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہو گیا، آپ پر دین کی تکمیل کر دی گئی، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی عطا کردہ شریعت رُشد و ہدایت کا سرچشمہ ہے، رُشد و ہدایت کا سلسلہ اور ایمان سے وابستگی اور حقیقت عقیدۂ ختم نبوت پر ایمان سے وابستہ ہے، اس پر ایمان بندگی کا لازمی تقاضا ہے، جس کے بغیر دین و ایمان کا تصوّر بھی محال ہے۔