نبئ کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا آخری
نبی ماننا اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کسی طرح کا کوئی
نیا نبی نہ آیا ہے اور نہ ہی آسکتا ہے۔ یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی قیامت کے نزدیک تشریف لائیں گے تو سابق وصفِ نبوت ورسالت سے متّصف ہونے
کے باوجود ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے نائب وامّتی کی حیثیت سے تشریف لائیں گے اور اپنی شریعت کے بجائے دینِ
محمّد صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم کی تبلیغ
کریں گے۔
اس عقیدۂ ختمِ نبوت کو قرآنِ کریم میں یوں بیان فرمایا گیا
ہے۔
مَا کانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکمْ وَ
لٰکنْ رَّسُوْلَ اللّٰہ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ کانَ اللّٰہ بِکلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(40)
ترجمہ کنزالایمان: محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں
ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں میں پچھلے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔
(سورۃ الاحزاب، آیت: 40)خَاتَمُ النَّبِیِّن کے معنیٰ ہیں
نبیوں میں سے آخری نبی، یعنی آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد ہمیشہ کے لیئے نبوّت کا دروازہ بند ہوگیا اور کسی کو بھی نبوّت نہیں
دی جائے گی۔
خود تاجدارِ مدینہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اپنی مبارک زبان سے اپنے آخری نبی ہونے کو بیان فرمایا
ہے۔۔
انّہ سیکون فی امّتی کذّابون ثلٰثون کلّھم یزعم انّہ نبیّ
وانا خاتم النّبیّن لا نبیّ بعدی۔
بیشک میری امّت کے زمانے میں 30 کذّاب ہوں گے، کہ ہر ایک
اپنے آپ کو نبی کہے گا، اور میں خاتم النّبیّن ہوں کہ میرے بعد کوئی نبی
نہیں۔(ابوداؤد، حدیث: 4252)
مثلی و مثل النّبیّن من قبلی کمثل رجل بنی دارا فاتھما
الالبنۃ واحدۃ فجئت انا فاممت تلک اللبنۃ۔۔
میری اور سابقہ انبیاء کی مثال اس شخص کی مانند ہے جس نے
سارا مکان پورا بنایا ہو سوا ایک اینٹ کے،تو میں تشریف فرما ہوں اور وہ اینٹ میں
نے پوری کی۔(مسند امام احمد،ح: 11067)
انا آخر الانبیاء وانتم آخر الامم۔
میں سب سے آخری نبی ہوں اور تم سب سے آخری امت ہو۔
(ابن ماجہ، ح: 4077)
انا خاتم النّبیّن ولا فخر۔
یعنی میں خاتم النّبیّن ہوں اور یہ بطورِ فخر نہیں کہتا۔
(معجم اوسط، ح: 63)
فانّی آخر الانبیاء وانّ مسجدی آخر المساجد۔
بے شک میں سب نبیوں میں آخری نبی ہوں، اور میری مسجد اخری
مسجد ہے۔
(مسلم، ص: 553، ح:3376)
اعلی حضرت رحمت اللہ علیہ اپنے نعتیہ دیوان میں فرماتے ہیں۔
نہ رکھی گل کے جوشِ حسن نے گلشن میں جَا باقی
چٹکتا پھر کہاں غنچہ کوئی باغِ رسالت کا