قابل رشک آپ کی بے شک ہے قسمت فاطمہ     آپ ہیں بنت شہنشاہ رسالت فاطمہ

حضور ﷺ کو اپنی چاروں شہزادیوں سے محبت تھی لیکن آپﷺ کواپنی سب سے چھوٹی شہزادی سے بہت زیادہ محبت تھی۔ حضور پاک ﷺ کی سب سے چھوٹی مگر سب سے زیادہ پیاری اور لاڈلی شہزادی حضرت بی بی فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا ہیں۔ آپ کا نام مبارک فاطمہ جبکہ زہرا اور بتول آپ کے القابات ہیں۔ حدیث پاک میں ہے: میری بیٹی کا نام فاطمہ اس لئے رکھا گیا ہے کیونکہ اللہ پاک نے اس کو اور اس کے محبّین کو دوزخ سے آزاد کیا ہے۔ (کنز العمال، جز:6،12 / 50، حدیث: 34222)

اللہ کے پیارے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: فاطمہ (رضی اللہ عنہا) میرا ٹکڑا ہے، جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔ ایک اور روایت میں ہے: جو چیز انہیں پریشان کرے وہ مجھے پریشان کرتی ہے اور جو انہیں تکلیف دے وہ مجھے ستاتا ہے۔ (مسلم، ص 1021، حدیث: 6307)

محبت بھرا منظر اور محبتوں بھرا جواب: مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ بارگاہ رسالت میں عرض کی: یار سول اللہ! آپ کو وہ (حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا) مجھ سے زیادہ پیاری ہیں یا میں؟ تو نبی کریم ﷺ نے بڑا ہی خوبصورت جواب ارشاد فرمایا: وہ مجھے تم سے زیادہ اور تم اس سے زیادہ پیارے ہو۔ (مسند حمیدی، 1/22، حدیث: 38)

اے عاشقان صحابہ واہلبیت! حضرت بی بی فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا اور تمام امہات المؤمنین (یعنی پیارے آقا ﷺ کی پاک بیویاں جو تمام مسلمانوں کی مائیں ہیں) ایک دوسرے سے محبت فرماتی تھیں، جیسا کہ ایک واقعہ ہے: حضرت جمیع بن عمیر تیمی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں اپنی پھوپھی کے ساتھ حضرت بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا تو ان سے عرض کی گئی: حضور ﷺ کو کون زیادہ محبوب (یعنی پسندیدہ) تھا؟ فرمایا: فاطمہ رضی اللہ عنہا، پھر عرض کی گئی: مردوں میں سے ؟ فرمایا: ان کے شوہر، جہاں تک مجھے معلوم ہے وہ بہت روزے رکھنے والے اور کثرت سے قیام کرنے والے ہیں۔ (ترمذی، 5/468، حديث: 3900)

حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ سچے محبِ اہل بیت اور عاشقِ صحابہ تھے آپ نے اپنی کئی تحریرات میں حضرت بی بی فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کی شان و عظمت بیان کی ہے بلکہ آپ نے سیّدہ رضی اللہ عنہا کی مناقب بھی لکھی ہیں۔ شاید انہی برکتوں کا نتیجہ تھا کہ حضرت بی بی فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کی اور مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ کی تاریخ وصال ایک ہی (یعنی 3 رمضان المبارک) ہے۔ حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمتہ اللہ علیہ ترمذی شریف کی بیان کی گئی حدیث پاک کی شرح میں لکھتے ہیں: یہ ہے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی حق گوئی کہ آپ رضی اللہ عنہا نے یہ نہ فرمایا کہ حضور ﷺ کو سب سے زیادہ پیاری میں تھی اور میرے بعد میرے والد بلکہ جو آپ کے علم میں حق تھاوہ صاف صاف کہہ دیا اگر یہ ہی سوال حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا سے ہو تا تو آپ فرماتیں کہ حضور ﷺ کو زیادہ پیاری جناب عائشہ رضی اللہ عنہا تھیں پھر ان کے والد۔ معلوم ہوا کہ ان کے دل بالکل پاک و صاف تھے۔ افسوس ان پر جو ان حضرات کو ایک دوسرے کا دشمن کہتے ہیں۔ خیال رہے کہ محبت بہت قسم کی ہے اور محبوبیت کی نوعیتیں مختلف ہیں، اولاد میں سب سے زیادہ پیاری جناب فاطمہ رضی اللہ عنہا ہیں، بھائیوں میں سب سے زیادہ پیارے علی المرتضی ہیں اور ازواج پاک میں بہت پیاری جناب عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہیں۔ (مراۃ المناجیح، 8 / 469)

خوش آمدید میری بیٹی: نانائے حسنین ﷺ اپنی شہزادی حضرت بی بی فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا سے بے حد محبّت فرماتے تھے، چنانچہ حدیث پاک میں ہے کہ جب آپ تشریف لاتیں تو حضور ﷺ آپ کا مرحباً بابنتی یعنی خوش آمدید میری بیٹی! کہہ کر استقبال فرماتے اور اپنے ساتھ بٹھاتے۔ (بخاری، 2/507، حدیث: 3623)

تمام مسلمانوں کی پیاری امی جان حضرت بی بی عائشہ صدیقہ، طیبہ، طاہرہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے چال ڈھال، شکل و صورت اور بات چیت میں بی بی فاطمہ سے بڑھ کر کسی کو حضور اکرم ﷺ سے مشابہ(یعنی ملتی جلتی) نہیں دیکھا اور جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا پیارے آقا ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوتیں تو حضور ﷺ ان کے استقبال کے لئے کھڑے ہو جاتے، ان کے ہاتھ کو پکڑ کر بوسہ دیتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے اور جب حضور پرنور ﷺ بی بی فاطمہ کے پاس تشریف لے جاتے تو وہ (بھی) حضور ﷺ کی تعظیم کے لئے کھڑی ہو جاتیں اور پیارے آقا ﷺ کے مبارک ہاتھ کو تھام کر چومتیں اور اپنی جگہ بٹھاتیں۔ (ابو داود، 4/454، حدیث: 5217)

کاش! حضرت بی بی فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا سے محبت و عقیدت کا دم بھرنے والے اور والیاں بھی سنّتوں کو اپنا لیں اور اپنا اٹھنا بیٹھنا اوڑھنا بچھونا سنت کے مطابق کر لیں۔ اے کاش! صد کروڑ کاش! ہم سب سنت مصطفٰے ﷺ کی چلتی پھرتی تصویر بن جائیں۔ آمین