محمد خضر حیات
(درجۂ سادسہ جامعۃ المدینہ گلزار حبیب سبزہ زار لاہور، پاکستان)
آپ علیہ
السلام بنی اسرائیل کے انبیاء میں سے ہیں ، آپ کو حضرت الیاس علیہ السلام نے بنی
اسرائیل پر اپنا خلیفہ مقرر کیا اور بعد میں آپ علیہ السلام کو
شرف نبوت سے سرفراز فرمایا گیا۔ یہاں آپ علیہ السلام کا ذکر خیر دو ابواب میں کیا
گیا ہے جس کی تفصیل درج ذیل سطور میں ملاحظہ فرمائیں۔
قرآن پاک میں
دو مقامات پر آپ علیہ السلام کا مختصر تذکرہ کیا گیا ہے: (2) سورۂاص، آیت: 48 (1)
سورہ انعام، آیت: 86۔
حضرت
يسع علیہ السلام کا تعارف آپ علیہ
السلام کا مبارک نام یسع" ہے اور آپ علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کی
اولاد میں سے ہیں۔ ایک قول کے مطابق آپ علیہ السلام اخطوب بن عجوز کے فرزند ہیں
اور ایک قول کے مطابق آپ علیہ السلام
کا نسب نامہ یہ
ہے: یسع بن عدی بن شو قلم بن افراہیم بن حضرت یوسف علیه السلام بن حضرت یعقوب علیه
السلام بن حضرت اسحاق علیه السلام بن حضرت ابراہیم علیه السلام "
بعثت
و تبلیغ: آپ علیہ السلام حضرت الیاس
علیہ السلام کے بعد مبعوث ہوئے اور ایک عرصے تک حکم الہی کے مطابق لوگوںکو تبلیغ و
نصیحت فرمائی اور کفار کو دین حق کی طرف بلانے کا فریضہ سر انجام دیا۔
اوصاف
و خصوصیات اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو نبوت کے ساتھ بادشاہت
بھی عطا فرمائی۔ آپ علیہ السلام دن میں روزہ رکھتے، رات میں کچھ دیر آرام کرتے اور
بقیہ حصہ نوافل کی ادائیگی میں گزارتے تھے۔ آپ علیہ السلام بردبار متحمل مزاج اور
غصہ نہ کرنے والے تھے۔ آپ ملیہ السلام اپنی امت کے معاملات میں بڑی متانت
و سنجیدگی سے فیصلہ فرماتے اور اس میں کسی قسم کی جلد بازی اور غصہ سے کام نہ لیتے
تھے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو بہترین لوگوں میں شمار فرمایا
ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے: ترجمہ: اور اسماعیل اور سمیع اور ذو الکفل کو یاد
انعام
الهی: اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ
السلام کو ہدایت و نبوت سے نوازا اور منصب نبوت کے ذریعے اپنے زمانے میں تمام جہان والوں پر فضیلت عطا فرمائی۔ فرمانِ باری تعالی ہے : ترجمه:
اور اسماعیل اور تیسع اور یونس اور لوط کو( ہدایت دی) اور ہم نے سب کو تمام جہان
والوں پر فضیلت عطا فرمائی۔
مروی ہے کہ آپ
علیہ السلام بنی اسرائیل کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ بھی تھے ۔ جب آپ علیہ
السلام کی وفات کا وقت قریب آیا تو بنی اسرائیل کے کچھ بڑے آدمی مل کر آپ علیہ
السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: آپ بادشاہت میں کسی کو اپنا جانشین مقرر کر دیجئے تا کہ ہم اپنے معاملات میں اس کی طرف رجوع
کر سکیں۔ آپ علیہالسلام نے ارشاد فرمایا: میں ملک کی باگ دوڑ اس کے حوالے کروں گا
جو مجھے تین باتوں کی ضمانت دے۔ ایک نوجوان کے علاوہ کسی شخص نے بھی اس ذمہ داری
کو قبول کرنے کی ضمانت دینے کے بارے میں آپ سے کوئی بات نہ کی۔ اس نوجوان نے عرض کی:
میں ضمانت دیتا ہوں۔ ارشاد فرمایا: تم بیٹھ جاؤ۔ اس سے مقصود یہ تھا کہ کوئی اور
شخص بات کرے، لیکن آپ علیہ السلام کے دوبار و کہنے پر وہی تو جو ان ہی کھڑا ہوا اور
اس نے ذمہ داری قبول کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا: ٹھیک
ہے، تم تین چیزوں کی ذمہ داری قبول کر لو : (1) تم سوئے بغیر ساری رات عبادت میں
بسر کیا کرو گے۔ (2) روزانہ دن میں روزو رکھو گے اور کبھی چھوڑو گے نہیں۔ (3) غصہ
کی حالت میں کوئی فیصلہ نہیں کرو گے۔ اس نوجوان نے ان تینوں چیزوں کی ذمہ داری
قبول کر لی تو آپ علیہ السلام نے بادشاہی کا نظام اس کے سپرد کر دیا۔