فیضان
علی (درجۂ سادسہ جامعۃ المدینہ فیضان
فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
مدین حضرت شعیب
عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے قبیلے کا نام ہے اور ان کی بستی کا نام بھی مدین
تھا، اس بستی کا نام مدین اس لئے ہوا کہ یہ لوگ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام کی اولاد سے ایک بیٹے مدین کی اولاد میں سے تھے، مدین اور مصر کے درمیان
اَسّی دن کے سفر کی مقدار فاصلہ تھا۔ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام
بھی حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد سے ہیں۔آپ عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دادی حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بیٹی
تھیں ، حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اہلِ مدین کے ہم قوم تھے اور
آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام انبیاءِ بنی اسرائیل میں سے نہ تھے۔آپ
کےسامنے حضرت شعیب علیہ السلام کی قرآنی نصیحتیں پیش کرتا ہوں
(1)اللہ
کی عبادت کرو:وَ
اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ
مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَوْفُوا
الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا
تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَاؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ
كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ سورت
الاعراف آیت85
ترجمہ کنز الایمان:
اور مدین کی طرف ان کی برادری سے شعیب کو بھیجا کہا اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو
اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل
آئی تو ناپ اور تول پوری کرو اور لوگوں کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں
انتظام کے بعد فساد نہ پھیلاؤ یہ تمہارا بھلا ہے اگر ایمان لاؤ
{
فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَان:
تو ناپ اور تول پورا پورا کرو} حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم
میں شرک کے علاوہ بھی جو گناہ عام تھے ان میں سے ایک ناپ تول میں کمی کرنا اور
دوسرا لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے دینا اور تیسرا لوگوں کو حضرت شعیب عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے دور کرنے کی کوششیں کرنا تھا۔ حضرت شعیب عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کو ناپ تول میں کمی کرنے اور لوگوں کو ان کی
اشیاء گھٹا کر دینے سے منع کیا اور زمین میں فساد کرنے سے روکا کیونکہ ا س بستی میں
اللہ تعالیٰ کے نبی تشریف لے آئے اور انہوں نے نبوت کے احکام بیان فرما دئیے تو یہ
بستی کی اصلاح کا سب سے قوی ذریعہ ہے لہٰذا اب تم کفر و گناہ کر کے فساد برپا نہ
کرو
(2)ناپ
تول میں کمی نہ کرو : وَ
اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ
مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-وَ لَا تَنْقُصُوا الْمِكْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ اِنِّیْۤ
اَرٰىكُمْ بِخَیْرٍ وَّ اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ مُّحِیْطٍ (سورت ھودآیت 84) ترجمہ کنز الایمان : اور مدین کی
طرف ان کے ہم قوم شعیب کو کہا اے میری قوم اللہ کو پوجو اس کے سوا تمہارا کوئی
معبود نہیں اور ناپ اور تول میں کمی نہ کرو بیشک میں تمہیں آسودہ حال دیکھتا ہوں
اور مجھے تم پر گھیر لینے والے دن کے عذاب کا ڈر ہے۔
انبیاء کرام
عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو یہ حکم دیا جاتا ہے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ
کی وحدانیت کی دعوت دیں ، اسی لئے حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے
مدین والوں کو سب سے پہلے یہ فرمایا اے میری قوم !
اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہاراا ور کوئی معبود نہیں۔ توحید کی دعوت دینے
کے بعد انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو یہ حکم ہوتا ہے کہ جو
کام زیادہ اہمیت کا حامل ہو پہلے اس کی دعوت دیں پھر ا س کے بعد جس کی اہمیت ہو اس
کی دعوت دیں۔ کفر کے بعد چونکہ مدین والوں کی سب سے بری عادت یہ تھی کہ وہ خریدو
فروخت کے دوران ناپ تول میں کمی کرتے تھے، جب کوئی شخص ان کے پاس اپنی چیز بیچنے
آتا توان کی کوشش یہ ہوتی کہ وہ تول میں اس چیزکو جتنا زیادہ لے سکتے ہوں اتنا لے
لیں اور جب وہ کسی کو اپنی چیز فروخت کرتے تو ناپ اور تول میں کمی کر جاتے، اس طرح
وہ ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے میں مصروف تھے۔ اس لئے حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام نے انہیں یہ بری عادت چھوڑنے کی دعوت دی اور فرمایا : ناپ اور تول میں کمی نہ کرو۔ اس کے بعد فرمایا : بیشک میں تمہیں
خوشحال دیکھ رہا ہوں اور ایسے حال میں تو آدمی کو چاہیے کہ وہ نعمت کی شکر گزاری
کرے اور دوسروں کو اپنے مال سے فائدہ پہنچائے نہ کہ ان کے حقوق میں کمی کرے، ایسی
حالت میں اس عادت سے اندیشہ ہے کہ کہیں اس خوشحالی سے محروم نہ کردیئے جاؤ، اگر تم
ناپ تول میں کمی سے باز نہ آئے توبیشک مجھے تم پر گھیر لینے والے دن کے عذاب کا
ڈر ہے کہ جس سے کسی کو رہائی میسر نہ ہو اور سب کے سب ہلاک ہوجائیں۔ یہ بھی ہوسکتا
ہے کہ اس دن کے عذاب سے عذابِ آخرت مراد ہو۔
(3)اللہ
تعالیٰ سے ڈرو: اِذْ
قَالَ لَهُمْ شُعَیْبٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ(177)اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ(178)فَاتَّقُوا
اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ(179)وَ مَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍۚ-اِنْ اَجْرِیَ
اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(180) (سورت الشعراء آیت ،180 177)
ترجمۂ
کنزالایمان: جب ان سے شعیب نے فرمایا کیا ڈرتے نہیں ۔ بیشک میں
تمہارے لیے اللہ کا امانت دار رسول ہوں۔تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔اور میں
اس پر کچھ تم سے اجرت نہیں مانگتا میرا اجر تو اسی پر ہے جو سارے جہان کا رب ہے۔
اِذْ قَالَ لَهُمْ شُعَیْبٌ: جب ان سے شعیب نے فرمایا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا
خلاصہ یہ ہے کہ جنگل والوں نے ا س وقت
حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلا کر تمام رسولوں کو جھٹلایا جب حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا: کیا تم کفر و شرک پر اللہ تعالٰی کے عذاب سے نہیں ڈرتے!بے شک میں تمہارے لئے اللہ تعالٰی کی وحی اور رسالت پر
امانت دار رسول ہوں تو تم اللہ تعالٰی کے
عذاب سے ڈرو اور میں تمہیں جو حکم دے رہا ہوں اس میں میری اطاعت کرو۔
(4)اللہ
کی بندگی کرو: وَ
اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاۙ-فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ
ارْجُوا الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ(36)فَكَذَّبُوْهُ
فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِهِمْ جٰثِمِیْنَ(37)( العنکبوت آیت 37 36) ترجمۂ کنزالایمان: مدین کی طرف اُن کے ہم قوم شعیب کو بھیجا تو اس
نے فرمایا اے میری قوم الله کی بندگی کرو اور پچھلے دن کی امید رکھو اور زمین میں
فساد پھیلاتے نہ پھرو۔تو انھوں نے اُسے جھٹلایا تو اُنھیں زلزلے نے آلیا تو صبح
اپنے گھروں میں گھٹنوں کے بل پڑے رہ گئے۔
آیت کا خلاصہ
یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ حضرت شعیب
عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو یاد کریں جنہیں ہم نے ان کے ہم قوم مَدیَن
والوں کی طرف رسول بناکر بھیجا تو
انہوں نے دین کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا:
اے میری قوم! صرف اللہ تعالیٰ کی بندگی کرو اور قیامت کے دن سے ڈرتے ہوئے ایسے
افعال بجا لاؤ جو آخرت میں ثواب ملنے اور عذاب سے نجات حاصل ہونے کا باعث
ہوں اور تم ناپ تول میں کمی کر کے مدین کی سر زمین میں فساد پھیلاتے نہ پھرو،تو ان لوگوں نے حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام
کو جھٹلایا اور اپنے فساد سے باز نہ آئے تو انہیں زلزلے کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے عذاب نے آلیا یہاں تک کہ ان کے گھر ان کے اوپر گر گئے اور صبح تک
ان کا حال یہ ہو گیا کہ وہ اپنے گھروں میں گھٹنوں کے بل مردے بے جان پڑے رہ گئے۔
(5)ایک
دین قائم کرو: قَالَ
الْمَلَاُ الَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لَنُخْرِجَنَّكَ یٰشُعَیْبُ وَ
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَكَ مِنْ قَرْیَتِنَاۤ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ
مِلَّتِنَاؕ-قَالَ اَوَ لَوْ كُنَّا كٰرِهِیْنَ (سورت الاعراف آیت -88 )
ترجمہ کنز الایمان:اس
کی قوم کے متکبر سردار بولے اے شعیب قسم ہے کہ ہم تمہیں اور تمہارے ساتھ والے
مسلمانوں کو اپنی بستی سے نکا ل دیں گے یا تم ہمارے دین میں آجاؤ کہا کیا اگرچہ
ہم بیزار ہوں
حضرت شعیب
عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اپنی قوم کو کیے گئے وعظ و نصیحت کا بیان ہوا،
آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا وعظ و نصیحت سن کر آپ کی قوم کے وہ سردار جنہوں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس
کے رسول عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لانے اور پیروی کرنے سے تکبر کیا
تھا ،ان کے جواب کا ذکر اس آیت میں فرمایا گیا ہے، چنانچہ فرمایا گیا کہ’’ حضرت
شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے متکبر سردار اُن کی نصیحتیں سن کر
کہنے لگے : اے شعیب ! ہم قسم کھاتے ہیں کہ ہم ضرور تمہیں اور تمہارے ساتھ ایمان
والوں کو اپنی بستی سے نکال دیں گے، یعنی اصل مقصود تو آپ کونکالنا ہے اور آپ کی
وجہ سے آپ کے مومن ساتھیوں کو بھی نکال دیں گے۔