سود کی مذمت پر 5 فرامینِ مصطفیٰ از بنت اعجاز احمد، فیضان ام عطار شفیع کا
بھٹہ سیالکوٹ
آیت:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا
مُّضٰعَفَةً۪- وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ(۱۳۰) وَ اتَّقُوا
النَّارَ الَّتِیْۤ اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِیْنَۚ(۱۳۱) وَ اَطِیْعُوا اللّٰهَ
وَ الرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَۚ(۱۳۲) (پ 4، اٰل عمران:130 تا 132) ترجمہ:اے ایمان والو! دونا دون
(یعنی دگنا دگنا) سود مت کھاؤ اور اللہ سے ڈرو تا کہ فلاح پاؤ اور اس آگ سے بچو
جو کافروں کے لیے تیار رکھی گئی ہے اور اللہ و رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم
کیا جائے۔
سود کی تعریف:عقد معاوضہ میں
جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف زیادتی ہو کہ اس کے مقابل میں دوسری طرف کچھ نہ
ہو یہ سود ہے۔
5 فرامین مصطفیٰ:
1۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سود لینے والے،سود
دینے والے،سود لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور یہ فرمایا کہ وہ سب
برابر ہیں۔(صحیح مسلم)
2۔سود کا ایک درہم جس کو جان کر کوئی کھائے وہ 36 مرتبہ زنا سے بھی سخت
ہے۔(مسند احمد و دار قطنی)
3۔سود کا گناہ70 حصہ ہے ان میں سب سے کم درجہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی ماں سے
زنا کرے۔(ابن ماجہ)
4۔سود سے بظاہر اگرچہ مال زیادہ ہو مگر نتیجہ یہ ہے کہ مال کم ہوگا۔(مسند
احمد،ابن ماجہ،بیہقی)
5۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:شب معراج میرا گزر ایک قوم پر ہوا جس کے پیٹ گھر کی
طرح ہیں ان پیٹوں میں سانپ ہیں جو باہر سے دکھائی دیتے ہیں۔میں نے پوچھا:اے
جبرائیل یہ کون ہیں؟ انہوں کہا:یہ سود خوار ہیں۔(مسند احمد،ابن ماجہ)
سود کے معاشرتی نقصان:سود دلوں میں کینے اور دشمنی کا بیج
بوتا ہے،سود خوری ایک قسم کا غیر صحیح مبادلہ ہے جو انسانی رشتوں کو اور جذبوں کو
کمزور کر دیتا ہے،سود خوری کی وجہ سے کبھی مقروض خود کشی کر لیتا ہے،کبھی شدید کرب
سے دو چار ہو کر رہ جاتا ہے،سود خوری اخلاقی نقطہ نظر سے قرض لینے والے کے دل و
دماغ پر بہت گہرا اثر مرتب کرتی ہے،کبھی سود خری کا نتیجہ اجتماعی بحران،عمومی
افراتفری اور عوامی انقلاب کی صورت میں رونما ہوتا ہے،سود خوری کی وجہ سے افراد
قوموں کے درمیان اجتماعی تعاون کا رشتہ ڈھیلا پڑ جاتا ہے۔
سود سے بچنے کی ترغیب:شریعت مطہرہ نے جس طرح سود لینا حرام فرمایا سود دینا بھی حرام کیا ہے،حدیثوں
میں دونوں پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا کہ دونوں برابر ہیں،آج کل سود کی اتنی
کثرت ہے کہ قرض حسن جو بغیر سودی ہوتا ہے بہت کم پایا جاتا ہے،دولت والے کسی کو
بغیر نفع روپیہ دینا چاہتے نہیں اور اہل حاجت اپنی حاجت کے سامنے اس کا لحاظ بھی
نہیں کرتے کہ سودی روپیہ لینے میں آخرت کا کتنا عظیم وبال ہے،اس سے بچنے کی کوشش
کی جائے لڑکی لڑکے کی شادی اور دیگر تقریبات شادی و غمی میں اپنی وسعت سے زیادہ
خرچ کرنا چاہتے ہیں،برادری اور خاندان کی رسوم میں اتنے جکڑے ہوئے ہیں کہ ہر چند
کہیے ایک نہیں سنتے،رسوم میں کمی کرنے کو اپنی ذلت سمجھتے ہیں،ہم اپنے مسلمان
بھائیوں کو اولاً تو یہی نصیحت کرتے ہیں کہ ان رسوم کی جنجال سے نکلیں،چادر سے
زیادہ پاؤں نہ پھیلائیں اور دنیا و آخرت کے تباہ کن نتائج سے ڈریں تھوڑی دیر کی
مسرت یا ابنائے جنس میں نام آوری کا خیال کر کے آئندہ زندگی کو تلخ نہ کریں۔
اللہ کریم ہمیں نیک کام کرنے توفیق عطا فرمائے اور برے کاموں سے بچنے کی توفیق
عطا فرمائے۔آمین