فرمان الٰہی ہے: وَ لَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَۚ (پ 8، الانعام: 151) ترجمہ کنز الایمان: اور بے حیائیوں کے پاس نہ جاؤ جو ان میں کھلی ہیں اور جو چھپی۔یعنی نہ ہی کسی بڑی بے حیائی کا ارتکاب کرو جیسا کہ زنا اور نہ چھوٹی کا جیسا کہ غیر محرم کو چھونا دیکھنا وغیرہ کہ حضور نے فرمایا: ہاتھ زنا کرتے ہیں۔ پیر زنا کرتے ہیں اور آنکھیں زنا کرتی ہیں۔ (مسلم، ص 1095، حدیث: 2657)

زنا ایک انتہائی نا پسندیدہ گناہ ہے شریعت مطہرہ نے اسکو سخت ناپسند فرمایا یہ کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ ہے۔ احادیث میں بھی اسکی قباحت کو بیان فرمایا گیا ہے۔

فرامینِ مصطفیٰ:

1۔ تم یا تو اپنی نگاہیں نیچی رکھو گے اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو گے اور اپنے چہروں کو سیدھا رکھوگے یا تمہاری شکلیں بگاڑ دی جائیں گی۔ (معجم کبیر، 4/ 319، حدیث:7746 )

2۔ زانی جس وقت زنا کرتا ہے مؤمن نہیں ہوتا۔ چور جس وقت چوری کرتا ہے مومن نہیں ہوتا اور شرابی جس وقت شراب پیتا ہے وہ مومن نہیں ہوتا (مسلم، ص 48، حدیث: 57)

3۔ جب بندہ زنا کرتا ہے تو ایمان اس سے نکل جاتا ہے پس وہ (اسکے سرپر) سائبان کی طرح ہوتا ہے پھر جب بندہ زنا سے فارغ ہوتا ہے تو ایمان اسکی طرف لوٹ آتا ہے۔ (ابوداود، 4 /293، حدیث: 4690)

4۔ تین لوگوں سے اللہ بروز قیامت نہ کلام فرمائے گا نہ انہیں پاک کرے گا اور نہ ہی انکی طرف نظر رحمت فرمائے گا اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہوگا:1) بوڑھا زانی 2) جھوٹا بادشاہ 3) متکبر فقیر۔ (مسلم، ص 68، حدیث: 107)

5۔ حیاء ایمان کا حصہ ہے اور ایمان جنت میں لے جانے والا ہے جبکہ بے حیائی ظلم میں سے ہے اور ظلم جہنم میں لے جانے والا ہے۔ (ترمذی، حدیث: 2009)

ان احادیث مبارکہ سے واضح طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کے زنا کتنا برا اور کتنا بڑا گناہ ہے حتیٰ کہ مومن اس وقت کامل مومن ہی نہیں رہتا جب وہ ز نا کرتا ہے اس سے نور ایمان چھین لیا جاتا ہے۔ اور اس بدکاری کا الٹ حیاء ہے، جس میں حیاء ہوتی ہے تو وہ کامل مومن ہوتا ہے۔

اور زنا نہ صرف شرعی اعتبار سے ہی بری چیز ہے بلکہ معاشرتی لحاظ سے بھی یہ بہت برا اور مذموم عمل سمجھا جاتا ہے۔ لیکن افسوس! آج کل مغربی تہذیب کے پیچھےلگ کر کیا کیا نہیں ہو رہا؟ اللہ کریم ہدایت فرمائے اور اپنے حبیب کی سنتوں کا پیکر بنائے۔ آمین بجاہ النبی الامین