زنا کو اسلام
میں بدترین گناہ اور جرم قرار دیا گیا ہے یہ پرلے درجے کی بے حیائی اور فتنہ و
فساد کی جڑ ہے بلکہ اب تو ایڈز کے خوفناک مرض کی شکل میں اس کے دوسرے نقصانات بھی
سامنے آ رہے ہیں جس ملک میں زنا کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے وہیں ایڈز پھیلتا جا
رہا ہے یہ گویا دنیا میں عذاب الٰہی کی ایک صورت ہے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ
سَبِیْلًا(۳۲) (پ15، بنی اسرائیل:32) ترجمہ
کنز الایمان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بےشک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی بُری راہ۔
احادیث
مبارکہ:
1۔ جب مرد زنا
کرتا ہے تو اس سے ایمان نکل کر سر پر سائبان کی طرح ہو جاتا ہے، جب اس فعل سے جدا
ہوتا ہے تو اس کی طرف ایمان لوٹ آتا ہے۔ (ابو داود، 4/293، حدیث: 4690)
2۔ نبی کریم ﷺ
نے فرمایا: تین شخصوں سے اللہ پاک کلام نہ فرمائے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور
نہ ان کی طرف نظر رحمت فرمائے گا ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا؛ بوڑھا زانی، جھوٹ
بولنے والا بادشاہ اور تکبر کرنے والا فقیر۔ (مسلم، ص 69، حدیث: 173)
3۔ نبی کریم ﷺ
نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا: زنا کے بارے میں تم کیا کہتے
ہو؟ انہوں نے عرض کی: زنا حرام ہے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے اسے حرام کیا ہے اور
وہ قیامت تک حرام رہے گا، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: دس عورتوں کے ساتھ زنا
کرنا اپنے پڑوسی کی عورت کے ساتھ زنا کرنے سے ہلکا ہے۔ (مسند امام احمد، 9/226،
حدیث: 23915)
4۔
میری
امت اس وقت تک بھلائی پر رہے گی جب تک ان میں زنا سے پیدا ہونے والے بچے عام نہ ہو
جائیں گے اور جب ان میں زنا سے پیدا ہونے والے بچے عام ہو جائیں گے تو اللہ انہیں
عذاب میں مبتلا کر دے گا۔ (مسند امام احمد، 10/246، حدیث: 26894)
5۔ سرکار ﷺ
فرماتے ہیں: میں نے رات کے وقت دیکھا کہ دو شخص میرے پاس آئے اور مجھے مقدس سر
زمین کی طرف لے گئے ہم ایک سوراخ کے پاس پہنچے جو تنور کی طرح اوپر سے تنگ ہے اور
نیچے سے کشادہ، اس میں آگ جل رہی ہے اور اس آگ میں کچھ مرد اور عورتیں برہنہ ہیں،
جب آگ کا شعلہ بلند ہوتا ہے تو وہ لوگ اوپر آجاتے ہیں اور جب شعلے کم ہو جاتے ہیں
تو شعلے کے ساتھ وہ بھی اندر چلے جاتے ہیں (یہ کون لوگ ہیں ان کے متعلق بیان
فرمایا) یہ زانی مرد اور عورتیں ہیں۔ (بخاری، 1/467، حدیث: 1386)
بدکاری اپنی
تمام تر صورتوں کے ساتھ حرام ہے خواہ رضا مندی سے ہو یا جبری پیسے کے بدلے ہو یا
مفت، اسلام میں بدکاری کی مذمت ضروریات دین میں سے ہے اسے حلال سمجھنے والا مسلمان
نہیں، حیادار آدمی کا لوگوں کی نظروں میں معزز ہونا اور بے حیا کا گھٹیا ہونا
انسانی فطرت میں داخل ہے، انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی شرمگاہ اور نظروں کی حفاظت
کریں تو ان شاء اللہ وہ بدکاری جیسے برے فعل سے بچ جائے گا۔
اللہ پاک ہمیں
اپنی نظروں اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور حرام کاموں سے بچنے
کی سعادت نصیب فرمائے۔ آمین