اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ شرم و حیا اسلامی معاشرے کی بنیادی اقدار اور قرآن و سنت کے حکیمانہ احکام میں سے ہے اور اس سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ بدکاری اپنی تمام تر صورتوں کے ساتھ حرام ہے اور کوئی بھی مذہب اس کو اچھا نہیں سمجھتا، جس طرح دیگر مذاہب میں اس کی مذمت کی گئی ہے اسی طرح اسلام نے بھی اس کی مذمت کی ہے اور اسے حرام قرار دیا ہے۔ قرآن مجید میں بھی اس کی حرمت و خباثت کو بیان کیا گیا ہے، چنانچہ

ارشاد ربانی ہے: وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا(۳۲) (بنی اسرائیل: 32) ترجمہ کنز العرفان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بیشک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی برا راستہ ہے۔

تفسیر صراط الجنان میں اس آیت کی تفسیر کچھ اس طرح ہے: زنا اسلام بلکہ تمام آسمانی مذاہب میں زنا کو بدترین گناہ اور جرم قرار دیا گیا ہے، یہ پرلے درجے کی بے حیائی اور فتنہ و فساد کی جڑ ہے بلکہ اب تو ایڈز کے خوفناک مرض کی شکل میں اس کے دوسرے نقصانات بھی سامنے آرہے ہیں جس ملک میں زنا کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے وہیں ایڈز پھیلتا جا رہا ہے یہ گویا دنیا میں عذاب الٰہی کی ایک صورت ہے۔ ( تفسیر صراط الجنان، 5/454)

اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی بدکاری کرنے والوں کے بارے میں سخت وعیدیں آئی ہیں، چنانچہ

احادیث مبارکہ:

1۔ جس بستی میں زنا اور سود ظاہر ہو جائے تو انہوں نے اپنے لیے اللہ کے عذاب کو حلال کر لیا۔ (مستدرک، 2/339، حدیث: 2308)

2۔ جب بندہ زنا کرتا ہے تو اس سے ایمان نکل کر سر پر سائبان کی طرح ہو جاتا ہے اور جب اس فعل سے جدا ہوتا ہے تو اس کی طرف ایمان لوٹ آتا ہے۔ (ترمذی، 4/283، حدیث: 2634)

3۔ جس قوم میں زنا ظاہر ہوگا وہ قحط میں گرفتار ہوگی اور جس قوم میں رشوت کا ظہور ہوگا وہ رعب میں گرفتار ہوگی۔(مشکاۃ المصابیح،1/656،حدیث:3582)

4۔ بدکاری کرنے والے کی دعا بھی قبول نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کی طرف رحمتِ الٰہی متوجہ ہوتی ہے چنانچہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: آدھی رات کے وقت آسمانوں کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں پھر ایک اعلان کرنے والا اعلان کرتا ہے کہ ہے کوئی دعا کرنے والا کہ اس کی دعا قبول کی جائے، ہے کوئی مانگنے والا کہ اسے عطا کیا جائے، ہے کوئی مصیبت زدہ کہ اس کی مصیبت دور کی جائے اس وقت پیسے لے کر زنا کروانے والی عورت اور ظالمانہ ٹیکس لینے والے شخص کے علاوہ ہر دعا کرنے والے مسلمان کی دعا قبول کر لی جائے گی۔ (معجم الاوسط،2/133، حدیث: 2769)

5۔ پڑوسی کے ساتھ بدکاری کرنا تو اور بھی مذموم ہے جیسا کہ حدیث پاک میں ہے: جو شخص اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرے گا تو قیامت کے دن اللہ پاک اس کی طرف نظر رحمت نہ فرمائے گا اور نہ ہی اسے پاک کرے گا اور اس سے فرمائے گا کہ جہنمیوں کے ساتھ تم بھی جہنم میں داخل ہو جاؤ۔ (مسند الفردوس، 2/301، حدیث: 3371)

دین اسلام کی خوبصورتی یہ ہے کہ جس چیز کو حرام قرار دیتا ہے اس سے بچنے کے طریقے بھی سکھاتا ہے، اسلام نے بدکاری اور بےحیائی کو حرام قرار دیا تو اس سے بچانے والے اسباب کے متعلق بھی ہدایات عطا فرمائیں جن میں پردے کی تاکید، اجنبی مرد و عورت کا کسی بند جگہ تنہا نہ ہونا، عورتوں کا مردوں کے سامنے بھڑکیلے اور بے پردگی کے لباس نہ پہننا اور بلا ضرورت گھر سے باہر نہ نکلنا وغیرہ۔ اگر ہر مسلمان ان سب پر عمل کرے تو بہت حد تک معاشرے سے بدکاری و بے حیائی کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔

اللہ پاک ہر مسلمان کو بدکاری جیسے بدترین گندے اور انتہائی مذموم فعل سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین