زنا حرام اور کبیرہ گناہ ہے، زنا کاری وہ جرم ہے کہ دنیا میں تمام قوموں کے
نزدیک فعل قبیح اور جرم ہے اور اسلام میں یہ کبیرہ گناہ ہے اور دنیا و آخرت میں
ہلاکت کا سبب اور جہنم میں لے جانے والا بدترین فعل ہے، زنا کاری کی مذمت و مخالفت
کے بارے میں کثیر احادیث وارد ہوئی ہیں اور قرآن مجید میں بھی اس کی بہت مذمت کی
گئی ہے، چنانچہ
اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ
لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا(۳۲) (بنی
اسرائیل: 32) ترجمہ: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بے شک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی
برا راستہ ہے۔
احادیث
مبارکہ:
1۔ زنا کرنے
والا جتنی دیر تک زنا کرتا رہتا ہے اس وقت تک وہ مومن نہیں رہتا۔ (بخاری، 4/338،
حدیث:6810)
اس کا مطلب یہ
ہے کہ زنا کاری کرتے ہوئے ایمان کا نور اس سے جدا ہو جاتا ہے پھر اگر وہ اس سے
توبہ کر لیتا ہے تو اس کا نورِ ایمان پھر اس کو مل جاتا ہے ورنہ نہیں۔
2۔ ساتوں آسمان
اور ساتوں زمینیں بوڑھے زانی پر لعنت کرتی ہیں اور زانیوں کی شرمگاہ کی بدبو جہنم
والوں کو ایذا دے گی۔ (مجمع الزوائد، 6 / 389، حدیث: 10541)
3۔ آدھی رات کے وقت آسمانوں کے دروازے کھول دیئے جاتے
ہیں پھر ایک اعلان کرنے والا اعلان کرتا ہے کہ ہے کوئی دعا کرنے والا کہ اس کی دعا
قبول کی جائے، ہے کوئی مانگنے والا کہ اسے عطا کیا جائے، ہے کوئی مصیبت زدہ کہ اس
کی مصیبت دور کی جائے اس وقت پیسے لے کر زنا کروانے والی عورت اور ظالمانہ ٹیکس
لینے والے شخص کے علاوہ ہر دعا کرنے والے مسلمان کی دعا قبول کر لی جائے گی۔ (معجم
اوسط، 2/133، حدیث: 2769)
4۔ جو عورت
کسی قوم میں اس کو داخل کر دے جو اس قوم سے نہ ہو (یعنی زنا کرایا اور اس سے اولاد
ہوئی) تو اسے اللہ کی رحمت کا حصہ نہیں ملے گا اور اللہ پاک اسے جنت میں داخل نہ
فرمائے گا۔ (ابو داود، 2/90، حدیث: 2263)
دیکھا آپ نے
کہ زنا کی مذمت میں کس قدر سخت احادیث مبارکہ وارد ہوئی ہیں، زانی مرد ہو یا عورت
اس کی دنیا تو برباد ہوتی ہی ہے ساتھ ساتھ اس کی آخرت بھی برباد ہو جاتی ہے۔ انسان
نفس کے ہاتھوں مجبور ہو کر شیطانی وسوسوں میں آکر معمولی سی دیر کی لذت حاصل کرنے
کے لیے اپنا ایمان گنوا بیٹھتا ہے، لذت تو ختم ہو جاتی ہے لیکن وہ گناہ عظیم نامۂ
اعمال میں لکھا جا چکا ہوتا ہے، جو کہ بغیر سچے دل سے توبہ کے معاف نہ ہوگا۔
5۔ جب بندہ
زنا کرتا ہے تو ایمان اس سے نکل جاتا ہے پس وہ اس کے سر پر سائبان کی طرح ہوتا ہے
پھر جب بندہ زنا سے فارغ ہوتا ہے تو ایمان اس کی طرف لوٹ آتا ہے۔ (ترمذی،4/283،حدیث:2634)
دو
سانپ نوچ نوچ کر کھائیں گے: حضرت مسروق رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے
نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص چوری یا شراب خوری یا بدکاری یا ان میں سے کسی
بھی گناہ میں مبتلا ہو کر مرتا ہے اس پر دو سانپ مقرر کر دیئے جاتے ہیں جو اس کا
گوشت نوچ نوچ کر کھاتے رہتے ہیں۔ (شرح الصدور، ص 172)
زانیوں
کے لیے آگ کے تابوت: منقول ہے کہ جہنم میں آگ کے تابوت میں کچھ لوگ قید
ہوں گے جب وہ راحت مانگیں گے تو ان کے لیے تابوت کھول دیئے جائیں گے اور جب ان کے
شعلے جہنمیوں تک پہنچیں گے تو وہ بیک زبان فریاد کرتے ہوئے کہیں گے: یا اللہ ان
تابوت والوں پر لعنت فرما۔ یہ وہ لوگ ہیں جو عورتوں کی شرمگاہ پر حرام طریقے سے
قبضہ کرتے تھے۔ (بحر الدموع، ص 167)
جنت
میں داخلے سے محرومی: اللہ کے محبوب ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ نے جب جنت
کو پیدا فرمایا تو اس سے فرمایا: کلام کر۔ وہ بولی: جو مجھ میں داخل ہوگا سعادت
مند ہے۔ تو اللہ نے فرمایا: مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم! تجھ میں آٹھ قسم کے لوگ
داخل نہ ہوں گے؛ شراب کا عادی، بدکاری پر اصرار کرنے والا، چغل خور، دیوث، ظالم
سپاہی، ہجڑا (عورتوں سے مشابہت اختیار کرنے والا)، رشتے داری توڑنے والا اور وہ
شخص جو خدا کی قسم کھا کر کہتا ہے کہ فلاں کام ضرور کروں گا پھر وہ شخص نہیں
کرتا۔(آنسوؤں کا دریا، ص 229)
عادی
سے مراد:
اس روایت کو نقل کرنے کے بعد علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: بدکاری پر
اصرار کرنے والے سے مراد ہمیشہ بدکاری کرتے رہنے والا نہیں، اسی طرح شراب کے عادی
سے مراد یہ نہیں جو ہمیشہ شراب پیتا رہے بلکہ مراد یہ ہے کہ جب اسے شراب میسر ہو
تو وہ پی لے اور اللہ کے خوف کی وجہ سے شراب پینے سے باز نہ آئے۔ اسی طرح جب اسے
زنا کاری کا موقع ملے تو اس سے توبہ نہ کرے اور نہ ہی اپنے نفس کو اس بری خواہش کی
تکمیل سے روکے، بے شک ایسے لوگوں کا ٹھکانہ جہنم ہی ہے۔ (آنسوؤں کا دریا، ص 235)
بدکاری
کی ابتدا و انتہا:
حضرت لقمان حکیم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے بیٹے سے ارشاد فرمایا: بیٹا بدکاری سے بچ
کر رہنا کیونکہ اس کی ابتدا خوف اور انتہا ندامت ہے اور اس کا انجام جہنم کی وادی آثام
ہے۔ (آنسوؤں کا دریا، ص 235)
ان احادیث
مبارکہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بدکاری ایک بہت ہی بڑا گناہ ہے کہ جس کی سزا دنیا
میں تو ہے ہی لیکن آخرت میں بھی اس کے لیے سخت عذاب کی وعید ہے، لہٰذا اسلام نے اس
کے بہت سے طریقے بھی بتائے ہیں کہ کیسے اس سے بچا جا سکتا ہے، جیسے کسی غیر محرم
سے تنہائی اختیار نہ کرنا، بے پردگی نہ کرنا، نگاہیں جھکائے رکھنا۔