اللہ کریم
نےہمیں اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے اور ہر اس چیز سے بچنے کی ترغیب بھی دلائی
جو اس کی ناراضی کا سبب بنے، بدکاری سے اللہ اور رسول کی ناراضی مول لینا بہت بڑی
حماقت ہے، بدکاری سے نہ صرف آخرت میں رسوائی کا سامنا کرنا پڑےگا بلکہ دنیا میں
بھی رسوائی ہوتی ہے، قرآن کریم کی سورۂ بنی اسرائیل میں اللہ پاک ارشاد فرماتا
ہے: وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ
سَبِیْلًا(۳۲) (بنی
اسرائیل: 32) ترجمہ کنز العرفان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بے شک وہ بے حیائی ہے
اور بہت ہی برا راستہ ہے۔
ہمارے پیارے
نبی ﷺ نے بدکاری کے متعلق وعیدیں بھی بیان فرمائی ہیں، چنانچہ
احادیث
مبارکہ:
1۔ جب بندہ
زنا کرتا ہے تو اس سے ایمان نکل کر سر پر سائبان کی طرح ہو جاتا ہے اور جب اس فعل
سے جدا ہوتا ہے تو اس کی طرف ایمان لوٹ آتا ہے۔ (ترمذی، 4/283، حدیث: 2634)
2۔ آدھی رات کے وقت آسمانوں کے دروازے کھول دیئے جاتے
ہیں پھر ایک اعلان کرنے والا اعلان کرتا ہے کہ ہے کوئی دعا کرنے والا کہ اس کی دعا
قبول کی جائے، ہے کوئی مانگنے والا کہ اسے عطا کیا جائے، ہے کوئی مصیبت زدہ کہ اس
کی مصیبت دور کی جائے اس وقت پیسے لے کر زنا کروانے والی عورت اور ظالمانہ ٹیکس
لینے والے شخص کے علاوہ ہر دعا کرنے والے مسلمان کی دعا قبول کر لی جائے گی۔ (معجم
اوسط، 2/133، حدیث: 2769)