بدکاری کی مذمت از بنت محمد احسن، فیضان فاطمۃ الزہراء
مدینہ کلاں لالہ موسیٰ
فرمانِ باری
تعالیٰ ہے: اَلزَّانِیْ لَا یَنْكِحُ اِلَّا زَانِیَةً اَوْ مُشْرِكَةً٘-وَّ
الزَّانِیَةُ لَا یَنْكِحُهَاۤ اِلَّا زَانٍ اَوْ مُشْرِكٌۚ-وَ حُرِّمَ ذٰلِكَ
عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ(۳)
(پ 18، النور: 3) ترجمہ کنزالعرفان: زنا کرنے والامرد بدکار عورت یا مشرکہ سے ہی
نکاح کرے گااور بدکار عورت سے زانی یا مشرک ہی نکاح کرے گااور یہ ایمان والوں پر
حرام ہے۔
1۔ پیارے آقا ﷺ
کا فرمانِ عبرت نشان ہے: جس قوم میں بدکاری عام ہو جاتی ہے وہاں اموات کی کثرت ہو
جاتی ہے۔ (موطا امام مالک، 2/19،
حدیث: 1020)
بدکاری مختلف
خطرناک اور لاعلاج بیماریوں کا ذریعہ ہے جس کی وجہ سے آئے روز اموات کی شرح بڑھتی
چلی جارہی ہے اور بدکاری دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کی تباہی و بربادی کا ذریعہ ہے۔
2۔ پیارے آقا ﷺ
نے فرمایا: میری امّت اس وقت تک بھلائی پر رہے گی جب تک ان میں بدکاری عام نہ ہو
گی اور جب ان میں بدکاری عام ہو جائے گی تو اللہ انہیں عذاب میں مبتلا فرما دے گا۔
(مسند امام احمد، 10/246، حدیث: 26894)
اس سے یہ
معلوم ہوا کہ بدکاری سے بچنے والے کے لیے بھلائیاں ہی بھلائیاں ہیں اور بدکاری
کرنے والا عذاب نار کا حقدار ہے۔
3۔ پیارے آقا
ﷺ کا فرمان عبرت نشان ہے: جب بدکاری عام ہو جائے گی تو تنگ دستی اور غربت بھی عام
ہو جائے گی۔(شعب الایمان، 6/ 16،
حدیث: 7369)
اس سے یہ
معلوم ہوا کہ بدکاری تنگ دستی اور غربت کا ذریعہ ہے اور آج کل ہر کوئی تنگ دستی
اور غربت کا رونا رو رہا ہے اور اِس کی بناپر آئے روز خودکشی کی شرح بڑھتی چلی
جارہی ہے۔
4۔ منقول ہے
کہ بدکاری کرنے والے قِیامَت کے دِن اس حال میں آئیں گے کہ ان کے چہرے سے آگ کے شعلے
بھڑک رہے ہوں گے۔ (جامع صغیر، ص 123،
حدیث: 2008)
وہ اپنی
بدبودار شرمگاہوں کی وجہ سے مخلوق میں پہچانے جائیں گے، ان کی شرم گاہیں بدبودار
ہوں گی، ان کو منہ کے بل جہنم کی طرف گھسیٹاجائے گا، جب وہ جہنم میں داخل ہوں گے
تو حضرت مالک علیہ السلام ان کو آگ کی ایسی قمیص پہنائیں گے کہ اگر اس کو اونچے
اور مضبوط پہاڑکی چوٹی پرلمحہ بھرکے لئے رکھ دیاجائے تووہ جَل کر راکھ ہوجائے پھر
حضرت مالک فرمائیں گے: اے عذاب کے فرشتو!ان زانیوں کی آنکھوں کو آگ کی سلائیوں سے
داغ دو جس طرح کہ یہ حرام دیکھتے تھے، ان کے ہاتھوں کو آگ کی زنجیروں سے جکڑ دو جس
طرح کہ یہ حرام کی طرف ہاتھ بڑھاتے تھے، ان کے پاؤں کو آگ کی بیڑیوں سے باندھ دو
جس طرح کہ یہ حرام کی طرف چلتے تھے۔ فرشتے کہیں گے: ہاں! ہاں! ضرورتو وہ ان کے ہاتھوں اور پاؤں
کوزنجیروں میں جکڑدیں گے اور ان کی آنکھیں آگ کی سَلائیوں سے داغ دیں گے تووہ چیخ
وپکار کرتے ہوئے فریاد کریں گے: اے عذاب
کے فرشتو! ہم پر رحم کرو، ایک لمحہ کے لئے تو ہم سے عذاب کم کردو۔ فرشتے کہیں گے: ہم تم پرکیسے رحم کریں جبکہ رب العالمین
قہاروجبار تم پرغضب فرماتا ہے۔ (قرۃ العیون، ص 388)
5۔ تاجدارِ
رِسالت، شہنشاہِ نَبوت ﷺ کا فرمانِ عبرت نِشان ہے: میں نے آج رات دو شخص دیکھے، وہ میرے پاس آئے
اور مجھے ایک مقدس سر زمین کی طرف لے گئے۔ اس کے بعد (راوی نے ) طویل حدیثِ پاک
ذکر کی یہاں تک کہ سرکارِ عالی وقار ﷺ نے ارشاد فرمایا: پھر ہم تنور کی مثل ایک سوراخ کے پاس پہنچے جس
کا اوپر والا حصہ تنگ اور نیچے والا کشادہ تھا، اس کے نیچے آگ جَل رہی تھی، جب آگ
کے شعلے بلند ہوتے تو اس میں موجود لوگ بھی اوپر آ جاتے یہاں تک کہ وہ نکلنے کے
قریب پہنچ جاتے اور جب آگ بجھ جاتی تو وہ اسی میں واپس لوٹ جاتے اور اس میں برہنہ
مرد اور عورتیں تھیں۔ (بخاری، 1 /467،
حدیث: 1386)
اورایک روایت
میں ہے کہ حضور نبی ٔپاک، صاحبِ لَوْلاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: پھر ہم تنور کی مثل ایک چیز کے پاس پہنچے۔ راوی
کہتے ہیں میرا گمان ہے کہ آپ فرما رہے تھے: اس میں سے چیخ و پکار کی آوازیں آرہی
تھیں۔ پھر آپ نے ارشاد فرمایا: ہم نے اس
میں جھانکا تو اس میں ننگے مرد اور عورتوں کو پایا جبکہ ان کے نیچے سے ایک شعلہ ان
کی طرف آتا اور جب ان تک پہنچتا تو وہ چیخنے لگتے۔ اس حدیثِ پاک کے آخر میں ہے: ننگے مرد اور عورتیں جو کہ تنور کی مثل سوراخ
میں تھےوہ سب زانی مرد اور زانی عورتیں تھیں۔ (بخاری، 4 /425،
حدیث: 7047)
5۔ عالَم کے
مالِک و مختار ﷺ کا فرمانِ عبرت نشان ہے: جہنّم میں ایک وادی کا نام جُبُّ الحزن (یعنی غم
کا کنواں) ہے، اس میں سانپ اور بچھو ہیں، ان میں سے ہر بچھو خچر جتنا بڑا ہے، اس
کے 70 ڈنک ہیں، ہر ڈنک میں زہر کی مشک ہے، جب وہ بدکاری کرنے والے کو ڈنک مارکر
اپنا زہر اس کے جسم میں انڈیلے گا تو وہ 1000 سال تک اس کے درد کی شدّت محسوس کرتا
رہے گا، پھر اس کا گوشت جھڑ جائے گا اور اس کی شرم گاہ سے پیپ اور کَچ لَہُو (یعنی
خون ملی پیپ) بہنے لگے گی۔ (کتاب الکبائر للذہبی، ص 59)
6۔ حضور نبی
ٔپاک، صاحبِ لَوْلاک ﷺ کا ارشادِ پاک ہے: اے لوگو!بدکاری سے بچتے رہو بیشک اس کے چھ نقصان
ہیں: تین نقصان دنیا میں ہیں اور تین آخرت
میں۔ دنیاکے نقصان یہ ہیں: (۱) بدکاری، بدکاری کرنے والے کے چہرے کی
خوبصورتی خَتْم کردیتی ہے (۲)اسے
محتاج وفقیر بنادیتی ہے اور(۳)اس کی
عمر گھٹادیتی ہے۔ آخرت کے نقصانات یہ ہیں: (۱) بدکاری،
اللہ کی ناراضی (۲) کڑے وبُرے حساب اور (۴)جہنّم میں مدّتوں رہنے کاسبب ہے۔ پھر
آپ ﷺ نے آیتِ مبارکہ تلاوت فرمائی: لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَهُمْ اَنْفُسُهُمْ اَنْ سَخِطَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ
وَ فِی الْعَذَابِ هُمْ خٰلِدُوْنَ(۸۰) (پ 6، المائدۃ: 80) ترجمہ کنز
الایمان: کیا ہی بُری چیز اپنے لئے خود
آگے بھیجی یہ کہ اللہ کا ان پر غضب ہوا اور وہ عذاب میں ہمیشہ رہیں گے۔ (شعب
الایمان، 4 /379، حدیث: 5475)
اس سے یہ
معلوم ہوا کہ بدکار مردو عورت کی نہ ہی معاشرے میں کوئی عزت ہوتی ہے اور نہ اللہ پاک
کے نزدیک۔ دنیا میں تباہی و بربادی اور آخرت میں بھی بڑکتی ہوئی آگ کی غذا ٹھہرتے
ہیں۔
اللہ پاک ہمیں
نفس و شیطان کے شر سے محفوظ رکھے۔ آمین یارب العالمین