آیت مبارکہ: وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا(۳۲) (پ15، بنی اسرائیل:32) ترجمہ کنز الایمان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بےشک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی بُری راہ۔

حدیثِ مبارکہ:

(1) جب بندہ زنا کرتا ہے تو اُس سے ایمان نکل کر سر پر سائبان کی طرح ہوجاتا ہے اور جب اس فعل سے جدا ہوتا ہے تو اُس کی طرف ایمان لوٹ آتا ہے۔( ترمذی، 4 / 283، حدیث: 2634)

(2) جس قوم میں زنا ظاہر ہوگا، وہ قحط میں گرفتار ہوگی اور جس قوم میں رشوت کا ظہور ہوگا، وہ رعب میں گرفتار ہوگی۔(مشکاۃ المصابیح،1/656،حدیث:3582)

(3) آدھی رات کے وقت آسمانوں کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، پھر ایک اعلان کرنے والا اعلان کرتا ہے کہ ہے کوئی دعا کرنے والا کہ ا س کی دعا قبول کی جائے، ہے کوئی مانگنے والا کہ اسے عطا کیا جائے،ہے کوئی مصیبت زدہ کہ اس کی مصیبت دور کی جائے۔اس وقت پیسے لے کر زنا کروانے والی عورت اور ظالمانہ ٹیکس لینے والے شخص کے علاوہ ہر دعا کرنے والے مسلمان کی دعا قبول کر لی جائے گی۔ (معجم الاوسط،2/ 133،حدیث:2769)

اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: اَلزَّانِیْ لَا یَنْكِحُ اِلَّا زَانِیَةً اَوْ مُشْرِكَةً٘-وَّ الزَّانِیَةُ لَا یَنْكِحُهَاۤ اِلَّا زَانٍ اَوْ مُشْرِكٌۚ-وَ حُرِّمَ ذٰلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ(۳) (پ 18، النور: 3) ترجمہ کنزالعرفان: زنا کرنے والامرد بدکار عورت یا مشرکہ سے ہی نکاح کرے گااور بدکار عورت سے زانی یا مشرک ہی نکاح کرے گااور یہ ایمان والوں پر حرام ہے۔

وضاحت: اس آیت میں فرمایا جا رہا ہے کہ زنا کرنے والامرد بدکار عورت یا مشرکہ سے ہی نکاح کرنا پسندکرے گااور بدکار عورت سے زانی یا مشرک ہی نکاح کرنا پسندکرے گا کیونکہ خبیث کا میلان خبیث ہی کی طرف ہوتا ہے، نیکوں کو خبیثوں کی طرف رغبت نہیں ہوتی۔ اس آيت کا ايک معنی يہ بھی بيان کیا گيا ہے کہ فاسق وفاجر شخص نیک اور پارسا عورت سے نکاح کرنے کی رغبت نہيں رکھتا بلکہ وہ اپنے جیسی فاسقہ فاجرہ عورت سے نکاح کرنا پسند کرتا ہے اسی طرح فاسقہ فاجرہ عورت نیک اور پارسا مرد سے نکاح کرنے کی رغبت نہيں رکھتی بلکہ وہ اپنے جيسے فاسق وفاجر مرد سے ہی نکاح کرنا پسند کرتی ہے۔

بدکار لوگوں کا ساتھی بننے اور انہیں اپنا ساتھی بنانے سے بچیں: ایک طبیعت دوسری طبیعت سے اثر لیتی ہے۔ اگر بدکار لوگوں کے پاس بیٹھیں گے تو ان کی صحبت سے خود بھی بدکار ہو جائیں گے۔ کیونکہ بُری صحبت جلد اثر کرتی ہے۔ یعنی ایک بدکار شخص کی بدکاری ساتھ رہنے والوں میں بھی بہت جلد سرایت کر جاتی ہے۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے روايت ہے،حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمايا: بنی اسرائیل میں پہلی خرابی جوآئی وہ یہ تھی کہ ان میں سے ایک آدمی جب دوسرے آدمی سے ملتا تو اس سے کہتا: اے شخص! اللہ پاک سے ڈرو اور جو برا کام تم کرتے ہو اسے چھوڑ دو کیونکہ یہ تیرے لئے جائز نہیں ہے۔ پھر جب دوسرے دن اس سے ملتا تو اسے منع نہ کرتا کیونکہ وہ کھانے پینے اور بیٹھنے میں ا س کاشريک ہو جاتاتھا۔جب انہوں نے ایسا کیا تو اللہ پاک نے ان کے اچھےدلوں کو برے دلوں سے ملا دیا۔ (اور نیک لوگ بروں کی صحبت میں بیٹھنے کی نحوست سے انہی جيسے ہوگئے)۔ (ابو داؤد، 4/ 162، حديث: 4336)

حدیثِ پاک میں ہے: حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا:(اے حاکمو!)عزت داروں کی لغزشیں معاف کر دو، مگر حدود( کہ ان کو معاف نہیں کرسکتے)۔ (ابو داؤد، 4/ 162، حديث: 4375)