محمد ثقلین(درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضان امام غزالی
فیصل آباد، پاکستان)
دین اسلام وہ عظیم دین ہے جس
میں انسانوں کے باہمی حقوقی اور معاشرتی آداب کو خاص اہمیت دی گئی اور ان چیزوں کا
خصوصی لحاظ رکھا گیا ہے اس لئے جو چیز انسانی حقوق کو ضائع کرنے کا سبب بناتی ہے
اور جو چیز معاشرتی آداب کے بر خلاف ہے اس سے دین اسلام نے منع فرمایا اور اس سے
بچنے کا تاکید کے ساتھ حکم دیا ہے۔ جیسے ان اشیاء میں سے ایک چیز بد گمانی بھی ہے
جو کہ انسانی حقوق کے پامالی کا بہت بڑا سبب اور معاشرتی آداب کے ابتدائی بر خلاف
ہے، اس سے دین اسلام میں خاص طور پر منع کیا گیا ہے، چنانچہ قراٰن مجید میں ایک
اور مقام پر اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ لَا تَقْفُ مَا
لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌؕ-اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ
اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا (۳۶) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے
علم نہیں بےشک کان اور آنکھ اور دل ان سب سے سوال ہونا ہے۔(پ15، بنی ٓ اسرآءیل:36)
اللہ پاک ہمیں ایک دوسرے کے
بارے میں بدگمانی کرنے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (اٰمین)
بد گمانی کی تعریف : بد گمانی سے مراد یہ ہے کہ بلا دلیل
دوسرے کے برے ہونے کا دل سے اعتقاد جازم (یعنی یقین) کرنا۔(فیض القدیر، 3/122،تحت الحدیث:2901 وغیرہ)
بد گمانی سے بغض اور حسد جیسے
باطنی امراض بھی پیدا ہوتے ہیں۔
بد گمانی حرام ہے: بدگمانی کے بارے میں 2 فرامینِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: (1) بد گمانی سے بچو بے شک بد گُمانی بد ترین جھوٹ ہے۔(صحیح
البخاری،کتاب النکاح،باب مایخطب علی خطبۃ اخیہ،3/446،حدیث:5143)
(2) مسلمان کا خون مال اور اس سے بد گُمانی (دوسرے مسلمان) پر حرام ہے۔(شعب
الایمان ،باب فی تحریم اعراض الناس،5/297،حدیث :6706)
(3)مؤمن کی بدگمانی اللہ سے بدگمانی: اُمُّ
المؤمنین حضرت سیِّدتُنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے اپنے بھائی کے متعلق بدگمانی کی بے شک
اس نے اپنے رب سے بد گمانی کی، کیونکہ اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:( اجْتَنِبُوْا
كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘) ترجمۂ
کنزالایمان: بہت گمانوں سے بچو۔(کنزالعمال، کتاب الاخلاق،ظن السوء ، 2/199، حدیث : 7582)