دینِ اسلام وہ عظمت والا دین
ہے جس میں انسانوں کے باہمی حقوق اور
معاشرتی آداب کو خاص اہمیت دی گئی اسی لئے جو چیز انسانی حقوق کو ضائع کرنے کا
سبب بنتی ہے اور جو چیز معاشرتی آداب کے برخلاف ہے اس سے دینِ اسلام نے منع فرمایا
اور اس سے بچنے کا تاکید کے ساتھ حکم دیاہے ،جیسے ان اَشیاء میں سے ایک چیز ’’بد گمانی‘‘ ہے۔
بدگمانی کی تعریف: بدگمانی سے مراد یہ ہے کہ بلا
دلیل دوسرے کے برے ہونے کا دل سے اِعتقادِ جازِم (یعنی یقین) کرنا۔ (احیاءالعلوم،5/202)
بدگمانی کا حکم: مکتبۃ المدینہ کے مطبوعہ
64صفحات پر مشتمل رسالے ’’بدگمانی‘‘ صفحہ21 پر ہے: ’’کسی شخص کے دِل میں کسی کے
بارے میں بُرا گُمان آتے ہی اسے گنہگار
قرار نہیں دیا جائے گا کیونکہ محض دِل میں بُرا خیال آجانے کی بنا پر سزا کا
حقدار ٹھہرانے کا مطلب کسی اِنسان پر اس کی طاقت سے زائد بوجھ ڈالنا ہے اور یہ بات
شرعی تقاضے کے خلاف ہے ، اللہ پاک ارشاد
فرماتا ہے: (لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ
نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَاؕ) ترجمۂ کنزالایمان
: اللہ کسی
جان پر بوجھ نہیں ڈالتا مگر اس کی طاقت بھر ۔ ( پ3 ،البقرۃ: 286)
بدگمانی انسانی حقوق کی پامالی
کا بہت بڑا سبب اور معاشرتی آداب کے انتہائی بر خلاف ہے، اس سے دین اسلام میں خاص طور پر منع کیا گیا ہے۔ احادیث مبارکہ میں
بھی بدگمانی کی بہت زیادہ مذمت کی گئی ہے چونکہ:
(1)فرمان آخری نبی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : مسلمان کا خون مال اور اس سے بد گُمانی
(دوسرے مسلمان) پر حرام ہے۔(شعب الایمان ،باب فی تحریم اعراض الناس،5/297،حدیث :6706)
(2) بد
ُگمانی سے بچو بے شک بد ُگمانی بدترین جھوٹ ہے۔ (بخاری ، 3/446 ،حدیث: 5143)(3) حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی
اللہُ عنہا سے مرفوعاً مروی ہے : جس نے اپنے مسلمان بھائی سے بُرا گُمان
رکھا ، بے شک اس نے اپنے ربّ سے بُرا
گُمان رکھا۔ (الدرالمنثور ، پ26 ،
الحجرات ، تحت الآیۃ12 ، 7/566)
بدگمانی کے علاج: شیخ طریقت امیر اہلسنت حضرت
علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ کے رسالے ’’شیطان
کے بعض ہتھیار‘‘ صفحہ 34 سے مختصراً بدگمانی کے علاج پیش خدمت ہیں: (1)مسلمانوں کی
خامیوں کی ٹَٹول کے بجائے اُن کی خوبیوں پر نظر رکھئے۔ (2)جب بھی کسی مسلمان کے
بارے میں دِل میں بُرا گُمان آئے تو اسے جھٹک دیجئے اور اس کے عمل پر اچھا گُمان
قائم کرنے کی کوشِش فرمایئے۔ (3)خود نیک
بنئے تاکہ دوسرے بھی نیک نظر آئیں۔ (4)بُری صُحبت سے بچتے ہوئے نیک صُحبت اِختِیار
کیجئے، جہاں دوسری بَرَکتیں ملیں گی وَہیں بدگُمانی سے بچنے میں بھی مدد حاصِل ہو
گی۔ (5)جب بھی دِل میں کسی مسلمان کے بارے میں بدگُمانی پیدا ہو تو خود کو بدگُمانی
کے انجام اور عذابِ الٰہی سے ڈرائیے۔ (6)جب
بھی کسی اِسلامی بھائی کے لئے دِل میں بدگُمانی آئے تو اُس کے لئے دُعائے خیر کیجئے
اور اُس کی عزّت واِکرام میں اضافہ کردیجئے ۔
اللہ پاک ہمیں برائیوں سے بچنے اور اپنے مسلمان
بھائیوں کی بدگمانی کرنے سے محفوظ فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم
مجھے غیبت و چغلی و بد گمانی
کی آفات سے تُو بچا یا الہٰی(وسائلِ بخشش،ص80)