فرعون کون تھا؟
فرعون بڑا سرکش تھا،اس نے ربوبیّت کا دعویٰ کیا اور بنی اسرائیل پر طرح طرح کے
ظلم وستم ڈھاتا، انکے بچوں کو ذبح کرواتا
تھا، جب اس کےمظالم حد سے بڑھ گئے تو اللہ
کریم نے اسے سمجھانے کے لئے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو نبی بنا کر بھیجا، لیکن اس نے ایمان
لانے سے انکار کر دیا اور باقاعدہ اس کا مقابلہ کیا،`مناظرہ کروایا، اس نے معجزات طلب کئے، اِتمامِ حُجت کیلئے فرعون
اور اس کی قوم کو یدِ بیضاءاور عصاء کے معجزات بھی دکھائے، جب حضرت موسیٰ علیہ السّلام کا عصا اَژدھا بن کر جادوگروں کے سانپوں کو نگل گیاتوجادوگر سجدے میں گر کر ایمان
لائے، مگر فرعون اور اس کے متبعین نے اب
بھی ایمان قبول نہیں کیا، بلکہ فرعون کا کفر اور اس کی سرکشی اور زیادہ بڑھ گئی
اور اس نے بنی اسرائیل کے مؤمنین اور حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی دل آزاری اور اَذیّت رسانی میں بھر پور کوشش شروع کر دی اور طرح طرح سے
ستانا شروع کر دیا، فرعون کے مظالم سے تنگ دل ہو کر حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے اس طرح دعا مانگی:اے میرے ربّ!فرعون زمین میں بہت ہی سرکش ہو گیا ہے اور
اس کی قوم نے عہد شکنی کی ہے، لہذا تو انہیں
ایسے عذابوں میں گرفتار فرما لے، جو ان کے
لئے سزا وار ہو اور میری قوم اور بعد والوں کے لئے عبرت ہو۔ (روح البیان، جلد 3، صفحہ220، پارہ 9، اعراف133)
حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی دعا کے بعد اللہ پاک نے فرعونیوں
پر لگاتار 5 عذابوں کو مسلط فرما دیا، جن
کی تفصیل درج ذیل ہے:
1. طوفان:ناگہاں ایک اَبر آیا اور ہر طرف اندھیرا چھا گیا، پھر اِنتہائی زور دار بارش ہونے لگی، یہاں تک کہ
طوفان آگیا اور فرعونیوں کے گھروں میں پانی بھر گیا، پانی ان کی گردنوں تک آ گیا، ان میں سے جو بیٹھا، ہلاک ہو گیا، نہ ہِل سکتے تھے نہ کوئی کام کر
سکتے تھے، ان کی کھیتیاں اور باغات طوفان
کے دھاروں سے برباد ہو گئے، مسلسل 7روزتک وہ اسی مصیبت میں مبتلا رہے، مگربنی
اسرائیل کے گھروں میں سیلاب کا پانی نہیں آیا، وہ نہایت ہی اَمن و چین کے ساتھ
اپنے گھروں میں رہتے تھے، جب فرعونیوں کو اس کی برداشت کی تاب نہ رہی، بالکل عاجز ہو گئے تو انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام سے عرض کیا کہ آپ ہماری اس مصیبت کے ٹل جانے کی دعا فرمائیں تو ہم ایمان لے آئیں گے، چنانچہ آپ نے دعا مانگی تو
طوفان کی بلا ٹل گئی اور زمین میں خوب سرسبزی اورشادابی نمودار ہوئی، کھیتیاں شاندار اورغلوں اور پھلوں میں فروانی، یہ دیکھ کر فرعونی پھر اپنے عہد سے پھر گئے اور
ایمان نہ لائے، پھر ایک ماہ عافیت کے ساتھ
گزر جانے کے بعد جب ان کا ظلم و تکبر اور بڑھنے لگا تو اللہ نے اپنے قہر کو
2. ٹڈیوں :کی شکل میں بھیج دیا کہ چاروں طرف سے ٹڈیوں کے جھنڈ
کے جھنڈ آگئے، جو ان کی کھیتیوں اور باغوں
کو یہاں تک کہ ان کے مکانوں کی لکڑیاں تک کھا گئیں اور فرعونیوں کے گھروں میں یہ
ٹڈیاں بھر گئیں، یہ دیکھ کر فرعونیوں کو بڑی عبرت ہوگئی اور آخر اس سے تنگ آکر پھر
حضرت موسیٰ علیہ
السّلام سے عہد کیا کہ
آپ اس عذاب کے دفع ہونے کے لئے دعا فرمائیں تو ہم ضرور ایمان لے آئیں گے، چنانچہ آپ کی دعا سے ساتویں دن یہ عذاب ٹل گیا، پھر ایک ماہ تک یہ لوگ نہایت آرام و راحت میں
رہے، لیکن پھر عہد شکنی کی اور ایمان نہ
لائے، ان کے کفر و عصیان میں پھر اضافہ ہونے لگاغرض ایک ماہ بعد ان لوگوں پر
3. قمل: کا عذاب مسلط
ہو گیا، بعض مفسرین کا بیان ہے کہ یہ گھن
تھا، جوان فرعونیوں کے اناجوں اور پھلوں میں
لگ گیا اور تمام غلوں اور میوں کو کھا گیا اور بعض مفسرین کا بیان ہے کہ یہ ایک
چھوٹا سا کیڑا تھا، جو کھیتوں کی تیار
فصلوں کو چَٹ کر گیا اور انکے کپڑوں میں گھس کر ان کے چمڑوں کو کاٹ کاٹ کر انہیں
مرغِ بِسمل کی طرح تڑپانے لگا، یہاں تک کہ ان کے سر کر بالوں، داڑھی، مونچھوں، بھنووں
اور پلکوں کو چاٹ چاٹ کر اور چہروں کو کاٹ کاٹ کر انھیں چیچک رو بنا دیا، یہاں تک
کہ ایک ہفتہ میں اس قہر ِآسمانی و بلاءِ ناگہانی سے بِلبلا کر یہ لوگ چیخ پڑے اور پھر
حضرت موسیٰ علیہ
السّلام سے دعا کی
درخواست کی، چنانچہ ان کی گریہ و زاری دیکھ
کر حضرت موسیٰ علیہ
السّلام نے دعا کی اور یہ
عذاب بھی ٹل گیا، لیکن فرعونیوں نے پھر
عہد کو توڑ ڈالا اور پہلے سے زیادہ ظلم و ستم کرنے لگے، پھر ایک ماہ بعد ان پر
4. مینڈک: کا عذاب آ گیا، ان فرعونیوں کی بستیوں میں اور گھروں میں اچانک بیشمار مینڈک پیدا ہو گئے، جو جہاں بیٹھتا، وہ مجلس مینڈک سے بھر جاتی، کوئی آدمی بات کرنے
لگتا یا کھانے کے لئے منہ کھولتا تو اس کے منہ میں مینڈک کُود کر گھس جاتا، ہانڈیوں
میں مینڈک، ان کے جسموں پر سینکڑوں مینڈک
سوار رہتے، اس عذاب سے فرعونی رو پڑے اور گڑگڑاتے ہوئے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی بارگاہ میں دعا کی بھیک مانگی، بڑی
بڑی قسمیں کھا کر عہد و پیمان کیا، حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے پھر دعا فرمائی اور ساتویں دن یہ عذاب بھی اُٹھا لیا گیا، لیکن یہ مردود قوم پھر راحت ملتے ہی حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو ایذاء دینے لگے، ان کی توہین و بے ادبی کرنے لگے تو عذابِ الٰہی نے پھر ان
ظالموں کو اپنی گرفت میں لے لیا اور ان لوگوں پر
5. خون :کا عذاب قہرِ الٰہی بن کر اُتر پڑا، ایک دم بالکل اَچانک ان لوگوں کے تمام کنوؤں، نہروں کا پانی خون ہو گیا، جس برتن سے مُنہ لگا کر پانی پیتے، وہ خون ہو جاتا، لیکن مؤمنین پر اس کا ذرا اثر نہ ہوا، یہاں تک
کہ فرعونی بے قرار ہو کر مؤمنین کے پاس آئے اور کہا: ہم دونوں ایک ہی برتن سے ایک
ساتھ منہ لگا کر پانی پئیں گے، مگر عجب ہی
قدرتِ خُداوندی کا جلوہ تھا کہ ایک ہی برتن سے مُنہ لگا کر پانی پیتے تھے، مگر مؤمنین کے منہ میں جو جاتا، وہ پانی ہوتا اور فرعون والوں کے منہ میں جاتا، وہ خون ہوتا تھا، قرآنِ پاک نے ان پانچوں عذابوں
کو اس طرح بیان فرمایا:
ترجمہ کنزالایمان:تو بھیجا ہم نے ان
پر طوفان اور ٹڈی اور گھن اور مینڈک اور خون جدا جدا نشانیاں تو انہوں نے تکبر کیا
اور وہ مجرم قوم تھی اور جب ان پر عذاب پڑتا کہتے:اے موسیٰ! ہمارے لئے اپنے رَب سے
دعا کریں، اس عہد کے سبب جو اس کا تمہارے
پاس ہے، بےشک اگر تم ہم پر عذاب اٹھا دوگے
تو ہم ضرور تم پر ایمان لائیں گے اور بنی اسرائیل کو تمہارے ساتھ کردیں گے، پھر جب ہم ان سے عذاب اٹھا لیتے، ایک مدت کیلئے جس تک انہیں پہنچا ہے، جبھی وہ پھر جاتے تو ہم ان سے بدلہ لیا تو انہیں
دریا میں ڈبو دیا، اس لئے کہ ہماری آیتیں
جھٹلاتے اور ان سے بے خبر تھے۔ (پ 9،الاعراف: 133تا136)