فرعونیوں پر آنے والے عذابات

اللہ پا ک نے انسانوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے دنیا میں وقتاً فوقتاً اپنے انبیاءِ کرام علیہمُ السّلام کو مبعوث فرما یا تاکہ وہ اپنی قوم کو ایک اللہ کی عبادت کرنے اور باطل بتو ں (معبودوں)کو چھوڑ دینے کی تبلیغ کریں۔

اِسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو اللہ پاک نے فرعون اور اس کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا، فرعون نے خدائی کا دعویٰ کیا ہوا تھا اور اِس کی قوم اس کو سجدہ کرتی تھی، جب حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے فرعون کو اللہ پاک کی ربوبیّت کا اقرار کرنے اور اس پر ایمان لانے کی دعوت دی اوراس سے فرمایا کہ میں ربُّ العالمین کی طرف تیری اورتیری قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیاہوں تو فرعون نے کہا:تم جھوٹ بولتے ہو اور آپ کے رسول ہونے کا انکار کر دیا، آپ علیہ السّلام اپنی قوم کو برابر تبلیغ کرتے رہے، مگر وہ نہ مانے۔

جب فرعون اور اس کی قوم کی سَرکشی یہاں تک پہنچ گئی کہ انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام سے صاف صاف کہہ دیا کہ اے موسیٰ! تم ہمارے اوپر جادو کرنے کے لئے کیسی بھی نشانی ہمارے پاس لے آؤ، ہم ہرگز تم پر ایمان نہ لائیں گےتوحضرت موسیٰ علیہ السّلام نے ان کے خلاف دعا کی، آپ علیہ السّلام چونکہ مُستجابُ الدّعوات (یعنی جس کی دعا قبول ہوتی ہو)تھے،اس لئے آپ کی دعا قبول ہوئی، حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی دعائے ضَرر کے بعد فرعون اور اس کی قوم پرجو عذابات آئے، ان کا ذکر اس آیتِ مبارکہ میں موجود ہے۔ (تفسیر صراط الجنان، پ 9، الاعراف ، تحت الایۃ 133ماخوذا)

ترجمہ کنزالعرفان:تو ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈی اور پسو(یاجوئیں) اور مینڈک اور خون کی جدا جدا نشانیاں بھیجیں تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم قوم تھی۔(پ 9،الاعراف: 133)

طوفان:

ناگہاں (اچانک )ایک بادل آیا اور ہر طرف اندھیرا چھا گیا، پھر انتہائی زوردار بارش ہونےلگی، یہاں تک کہ طوفان آگیا اور فرعونیوں کے گھروں میں پانی بھر گیا اور وہ اس میں کھڑے رہ گئے اور پانی ان کی گردنوں تک آ گیا، ان میں سے جو بیٹھا وہ اس میں ڈوب کرہلاک ہوگیا، نہ ہل سکتے تھے، نہ کوئی کام کر سکتے تھے، پھر انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام سے عرض کیا کہ آپ ہمارے لئے دعا فرمائیں کہ یہ مصیبت ٹل جائے تو ہم ایمان لے آئیں گے، آپ علیہ السّلام نے دعا کی اور طوفان کی بلا ٹل گئی۔

ٹڈیاں:

ایک ماہ تک توفرعونی نہایت عافیت سے رہے، لیکن جب ان کا کفر و تکبر اورظلم و ستم پھربڑھنے لگا تو اللہ پاک نے اپنے قہر و عذاب کو ٹڈیوں کی شکل میں بھیج دیا، جو چاروں طرف سے جھنڈ کے جھنڈ آگئے، جو ان کے کھیتوں اور باغوں کو یہاں تک کہ ان کے مکانوں کی لکڑیاں تک کو بھی کھا گئیں اور فرعونیوں کے گھروں میں یہ ٹڈیاں بھرگئیں، جس سے ان کا سانس لینا دشوار ہو گیا، مگر بنی اسرائیل کے مؤمنین کے کھیت اور باغ اور مکانات ٹڈیوں سے بالکل محفوظ رہے، یہ دیکھ کر فرعونیوں کو بڑی عبرت ہوئی اور آخر اس عذاب سے تنگ آکر پھر حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے آگے عہد کیا کہ آپ اس عذاب کے دفع ہونے کیلئے دعا فرما دیں، تو ہم لوگ ضرور ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل پر کوئی ظلم و ستم نہ کریں گے، چنانچہ آپ علیہ السّلام کی دعا سے ساتویں دن یہ عذاب ٹل گیا اور یہ لوگ پھر ایک ماہ تک نہایت آرام و راحت کے ساتھ رہے، لیکن پھر عہد شکنی کی اور ایمان نہیں لائے۔

اسی طرح ان پر کھٹمل اور مینڈکوں کا عذاب مسلط کیا گیا، اسی طرح خون کا عذاب کہ ان کے تمام کنوؤں، نہروں کا پانی خون ہوگیا تو ان لوگوں نے اس بار بھی حضرت موسیٰ علیہ السّلام سے دعا کی درخواست کی تو آپ نے پیغمبرانہ رحم وکرم فرما کرپھر ان کے لئے دعائے خیر فرما دی، تو ان سے عذاب ٹل گیا، لیکن پھر بھی وہ ایمان نہ لائےاور اپنے کُفر پر ڈَٹے رہے اور ہر مرتبہ اپنا عہد توڑ تے رہے، یہاں تک کہ اللہ پاک کے قہر و غضب کا آخری عذاب آ گیا کہ فرعون اور اس کے متبعین(ماننے والے )سب دریائے نیل میں غرق ہو کر ہلاک ہوگئے اور ہمیشہ کے لئے خدا کی دنیا ان عہد شکنوں اور مَردُودوں سے پاک ہو گئی اور یہ لوگ دنیا سے اِس طرح نیست و نابود کر دیئے گئے کہ روئے زمین پر ان کی قبروں کا نشان بھی باقی نہ رہا۔(عجائب القرآن مع غرائب القرآن، ص97 تا 101)

اللہ پاک ہمیں اپنے عذابات سے محفوظ رکھے اور ایمان کی سلامتی عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم