فرعونیوں پر آنے والے عذابات

جو قومیں اللہ پاک کے احکام و فرامین پر عمل نہیں کرتیں، اللہ پاک ان پر سخت عذاب فرماتا ہے۔

پہلا عذاب طوفان کا عذاب تھا:

اَچانک ایک بڑا بادل آیا اور ہر طرف اندھیرا چھا گیا، پھر زوردار بارش ہوئی اور طوفان آگیا، فرعونیوں کے گھروں میں پانی بھر گیااور وہ پانی ان کی گردنوں تک آ گیا، پانی اس قدر تھا کہ جو بھی اس میں بیٹھتا، ہلاک ہو جاتا، یہاں تک کہ ان کے کھیت اور باغات بھی پانی سے تباہ ہوگئے، یعنی وہ سات دن تک عذاب میں گرفتار رہے، یہاں بنی اسرائیل اور فرعونیوں کے مکانات تھے، مگر بنی اسرائیل حضرت موسیٰ علیہ السّلام پر ایمان رکھنے والے تھے، ان کے گھروں میں پانی نہ تھا، مگر برابر میں فرعونیوں کا گھر تھا اور وہ اس عذاب میں مکمل طور پر گرفتار تھے، ان لوگوں میں اس عذاب کو سہنے کی طاقت نہ تھی، فرعونی حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے دربار میں حاضر ہوئے اور آکر دعا کرنے کے لئے کہا کہ ہم اس مصیبت سے رہا ہوجائیں اور ہم ایمان بھی لے آئیں گے، طوفان ٹل گیا، ہرطرف سبزہ ہو گیا اور پھلوں کے درخت بھی اُگ آئے، فرعونی یہ سب دیکھ کر کہنے لگے:یہ بارش ہمارے لئے فائدہ مند ثابت ہوئی ہے،انہوں نے اپنے وعدے کو توڑ ڈالا اور ایمان نہ لائے، پھر سرکشی کی اور بنی اسرائیل پر مظالم کرنے شروع کر دیئے۔

فرعونیوں پر آنے والا دوسرا عذاب:

ایک مہینے بعد اللہ پاک نے اس قہروعذاب کو ٹڈیوں کی شکل میں بھیج دیا، اب ٹڈیاں گروہ دَر گروہ آئیں، باغات کو کھانے کے بعدمکانات کی لکڑیوں کو بھی کھا گئیں، فرعونیوں کے گھر ٹڈیوں سے بھر گئے، ان کا سانس لینابھی دشوار ہو گیا، بنی اسرائیل کے مؤمنین اس مشکل میں ہرگز گرفتار نہ ہوئے، ان کے باغات بھی ہرے بھرے تھے، ایک ہفتہ ایسے ہی گزر گیا، اب فرعونیوں کو بڑی عبرت ہوئی، وہ پھر حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی بارگاہ میں حاضر ہوئے،آہ وزاری کی کہ وہ بنی اسرائیل کو تنگ نہ کریں گے اورایمان بھی لے آئیں گے، حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے دل میں نرمی آگئی اور انہوں نے دعا فرما دی، ان ٹڈیوں کے بعد پھر وہ چین سے رہنے لگے اور دوسری دفعہ بھی سر کشی و نافرمانی شروع کردی ۔

تیسرا عذاب:

تیسرا عذاب یہ تھا کہ تمام انا جوں اور غلو ں کو گھن لگ گیا، جو تمام غلو ں اور پھلوں کو کھا گیا، بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہ ایک چھوٹا سا کیڑا تھا، جو تیار فصلوں کو نگل گیا اور ان کے کپڑوں میں گُھس گیا، ان کی داڑھی، مونچھوں، بھنوؤں، پلکوں کو چاٹ چاٹ کر یہاں تک کہ چہروں کو کاٹ کر چیچک زدہ بنا دیا، یہ کیڑے ان کے برتنوں میں گھس گئے، یہ لوگ نہ کھا سکتے تھے، نہ پی سکتے تھے، زندگی گزارنا نہایت ہی دشوار ہوگیا، ایک ہفتہ تکلیف میں گزرا اور بلبلا اُٹھے، حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی بارگاہ میں حاضر ہوئے، دعا کی درخواست کی، ان لوگوں کی بے قراری اور آہ و زاری کو دیکھ کر آپ علیہ السّلام نے اپنے دونوں ہاتھ بارگاہِ خداوندی میں اُٹھا دیئے اور پھر عافیت کی دعا فرمائی، لہذا عذاب رفع دفع ہو گیا، لیکن فرعونیوں کے دل اس قدر سخت تھے کہ انہوں نے یہ عہد دوبارہ توڑ ڈالا، پھر وہ بنی اسرائیل پر ظلم کرنے لگے، یہ ایک اس قدر عجیب و غریب قوم تھی کہ ابھی ایک ماہ بھی نہ گزرا تو دوبارہ عذاب میں گرفتار ہوگئے ۔

چوتھا عذاب:

یہ عذاب مینڈک کا عذاب تھا، ان کی بستیوں اور گھروں میں مینڈک آ گئے، اس قدر ان کی تعداد تھی کہ جو آدمی جہاں بیٹھتا تھا، ان کی مجالس میں ہزاروں مینڈک گھس جاتے، کوئی آدمی بات کرنے کے لئے مُنہ کھولتا تو ان کے منہ میں گُھس جاتے تھے، ہانڈیوں میں یہاں تک کہ ان کے جسموں پر سینکڑوں مینڈک سواررہتے، ان کی تعداد اتنی تھی کہ ہر طرف مینڈک ہی مینڈک تھے، یہ پھر حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی بارگاہ میں حاضر ہوئے، پھر دعافرمانے کو کہا اور ایمان لانے کا پھر سے عہد کیا، پھر سرکشی کی، پھر مظالم ڈھائے اور یہاں تک کہ ایک ماہ بھی نہ گزرا تو پانچواں عذاب آگیا۔

پانچواں عذاب:

پانچواں عذاب خون کا تھا، پھر اچانک خون کا عذاب آیا، ہر قسم کے پانی میں خون ہی خون تھا، انہوں نے یہ سوچا کہ یہ معاذ اللہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی نظر بندی اور جادوگری ہے، یہ سن کر فرعونیوں نے یہ کہا کہ یہ کیسی نظر بندی ہے، کھانے پینے کے برتن خون سے بھرے پڑے تھے، جو مؤمنین حضرت موسیٰ علیہ السّلام پر ایمان لانے والے تھے، ان کے پانی، کنوؤں اورنہروں میں خون کا ایک چھینٹا تک نہ تھا، فرعونی پانی پیتے تو خون ہی خون ان کے حلق سے گزرنے لگتا اور جب بنی اسرائیل کے لوگ پانی پیتے تو وہ صاف و شفاف ہوتا، انہوں نے کہا بنی اسرائیل جہاں سے پانی پیتے ہیں، ہم بھی وہاں سے پانی پئیں گے، لہذا خدا کی کرنی ایسی ہوئی کہ جب فرعونی بھی وہی پانی پینے لگتے تو خون و خون ہو جاتا ۔