ایمان بنیادی طور پر ان عقائد کو اختیار کرنے کا نام ہے، جو قرآن و حدیث میں بیان کئے گئے،انسان کی نجات کا دارومدار ایمان لانے پر ہے، اعمال کی اہمیت سے انکار نہیں، لیکن جب تک ایمان نہ ہو، اعمال کا کوئی فائدہ نہیں، ایمان سلامت لے کر دنیا سے گیا تولھم جنت کی خوش خبریاں اور مغفرت کے وعدے منتظر ہیں اور اگر خدا نخواستہ ایمان برباد ہو گیا تو علیھم نارٌ مُّؤصدہ (اور ان پر ہر طرف سے بند کی ہوئی آگ ہو گی )کی وعیدیں ہیں۔

ربّ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جب بھی اپنے خاص بند وں کا ذکر فرمایا تو ایمان کے وصف کو اولاً ذکر فرمایا، جگہ جگہ انہیں بڑے اجر و ثواب کی نوید سنائی، چند مقامات سے قرآنی آیات پیش کی جاتی ہیں ۔

1:جنت کن کے لئے:اللہ پاک فرماتا ہے:"بڑھ کر چلو اپنے ربّ کی بخشش اور اس کی جنت کی طرف ،جس کی چوڑائی جیسے آسمان اور زمین کا پھیلاؤ تیار کی ہوئی ہے، ان کے لئے جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے۔"( سورۃ الحدید، آیت 21)

2:گناہوں کی معافی:جب جنات کو ایمان کی دعوت دی گئی تو فرمایا گیا:"اے ہماری قوم! اللہ کے منادی کی بات مانو اور اس پر ایمان لاؤ کہ وہ تمہارے گناہ بخش دے۔"(سورۃ الاحقاف ، آیت 31)(ان سے مراد وہ گناہ ہیں، جن کا تعلق حقوقُ اللہ سے ہے) پھر ساتھ ہی فرمایا:

3:عذاب سے بچاؤ:ترجمہ:"اور تمہیں درد ناک عذاب سے بچا لے۔"

معلوم ہوا کہ ایمان کتنا بڑا سرمایہ ہے، جس کی برکت سے نہ صرف گناہوں کی معافی اور عذابِ الیم سے نجات مل رہی ہے، بلکہ جنت کی خوشخبری بھی، صرف یہی نہیں بلکہ مدد کا وعدہ بھی فرمایا۔

4:نصرتِ الٰہی:دنیا کی زندگی بلکہ قیامت کے دن بھی ایمان والوں کی مدد کی جائے گی،"بے شک ضرور ہم اپنے رسولوں کی مدد کریں گے اور ایمان والوں کی دنیا میں اور جس دن گواہ کھڑے ہوں گے۔"(المؤمن ،آیت 51)

5:مقامِ صدق :اللہ کریم نے اپنے محبوب صلی اللّٰہ علیہ و سلم کو حکم فرمایا:"ایمان والوں کو خوش خبری دو کہ ان کے ربّ کے پاس سچ کا مقام ہے۔"(سورہ یونس، آیت 2)

قدمِ صدق سے مراد : بہترین مقام ، جنت میں بلند مرتبہ ، نیک اعمال ، نیک اعمال کا اجر اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی شفاعت۔

6:اللہ والی ہے: مسلمانوں کا ،ایمان والوں کا والی کون ہے؟قرآن فرماتا ہے:"اللہ والی ہے مسلمانوں کا۔"(سورہ بقرہ،آیت 257) کیسے؟"انہیں اندھیریوں سے نور کی طرف نکالتا ہے۔"(ایضاً)

سبحان اللہ اس سے بڑھ کر کیا خوش خبری کہ ربّ کا، ہدایت راستہ بتائے۔

7:ثواب کی نوید: اللہ کریم فرماتا ہے:"اور وہ جو اللہ اور اس کے سب رسولوں پر ایمان لائے اور ان میں سے کسی پر ایمان میں فرق نہ کیا، انہیں عنقریب اللہ ان کے ثواب دے گا۔"(النساء ،آیت 152)

معلوم ہوا کبیرہ گناہ کرنے والا بھی اس میں داخل ہے۔


ایمان اسلام کی بنیاد ہے، ایمان کی بنیاد پر ہی  دینِ اسلام کی عمارت استوار ہوتی ہے، ایمان کی بنیاد جس قدر گہری، مضبوط اور صحیح ہوگی، اسی قدر اسلام کی عمارت مضبوط قائم ہوگی، جس طرح بنیاد کے بغیر عمارت قائم نہیں رہ سکتی، جس طرح درخت کی جڑ کے بغیر درخت قائم نہیں رہ سکتا، اسی طرح ایمان کی صحت و سلامتی کے بغیر اسلام قائم نہیں رہ سکتا، ایمان ہی اسلام کے عقیدہ توحید اور دیگر تمام عقائد کی بنیاد ہے۔

آیات مبارکہ:

وَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ١ۚ وَ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ يُوْقِنُوْنَؕ۰۰۴ترجمہ کنزالایمان:"اور وہ کہ ایمان لائیں اس پر جو اے محبوب تمہاری طرف اترا اور جو تم سے پہلے اترا اور آخرت پر یقین رکھیں۔"(سورۃ البقرہ، آیت نمبر 4)

تفسیر صراط الجنان:

وَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْكَ:اور وہ ایمان لاتے ہیں، اس پر جو تمہاری طرف نازل کیا۔

اس آیت میں اہلِ کتاب کے وہ مؤمنین مراد ہیں، جو اپنی کتاب اور تمام پچھلی آسمانی کتابوں اور انبیاء کرام علیہم السلام کے نازل ہونے والی وحیوں پر ایمان لائے اور قرآن پاک پر بھی ایمان لائے۔

مَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْكَ:سے تمام قرآن پاک اور پوری شریعت مراد ہے۔

اللہ تعالیٰ کی کتابوں وغیرہ پر ایمان لانے کا شرعی حکم:

یاد رکھیں کہ جس طرح قرآن پاک پر ایمان لانا ہر مکلف پر فرض ہے، اسی طرح پہلی کتابوں پر بھی ایمان لانا ضروری ہے، جو گذشتہ انبیاء کرام علیہم السلام پر نازل ہوئیں، البتہ ان کے جو احکام ہماری شریعت میں منسوخ ہوگئے، ان پر عمل درست نہیں، مگر پھر بھی ایمان ضروری ہے۔ مثلاً پچھلی کئی شریعتوں میں بیت المقدس قبلہ تھا، لہذا اس پر ایمان لانا تو ہمارے لئے بھی ضروری ہے، مگر عمل یعنی نماز میں بیت المقدس کی طرف منہ کرنا جائز نہیں، یہ حکم منسوخ ہو چکا ہے۔

نیز یہ بھی یاد رکھیں کہ قرآن کریم سے پہلے جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کرام علیہم السلام پر نازل فرمایا، ان سب پر اجمالاً ایمان لانا فرضِ عین ہے، یعنی یہ اعتقاد رکھا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے گزشتہ انبیاء کرام علیہم السلام پر کتابیں نازل فرمائیں اور ان میں جو کچھ بیان فرمایا، سب حق ہے ،قرآن کریم پر یوں ایمان رکھنا فرض ہے کہ ہمارے پاس موجود ہے، اس کا ایک ایک لفظ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور حق ہے، باقی تفصیلاً جاننا فرضِ کفایہ ہے، لہذا عوام پر اس کی تفصیلات کا علم حاصل کرنا فرض نہیں، جب کہ علماء موجود ہوں، جنہوں نے یہ علم حاصل کر لیا ہو۔

وَ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ يُوْقِنُوْنَؕ:ور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں، یعنی متّقی لوگ قیامت اور جو کچھ اس میں جزا و حساب وغیرہ ہے، سب پر ایسا یقین رکھتے ہیں کہ اس میں انہیں ذرا بھی شک و شبہ نہیں ہے۔

اس میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں کا آخرت کے متعلق عقیدہ درست نہیں، کیوں کہ ان میں سے ہر ایک کا یہ عقیدہ تھا کہ ان کے علاوہ کوئی جنت میں داخل نہیں ہوگا، جیسا کہ سورۃ بقرہ، آیت نمبر 111 میں ہے:"اور خصوصاً یہودیوں کا عقیدہ تھا کہ ہم اگر جہنم میں گئے تو چند دن کے لئے ہی جائیں گے، اس کے بعد سیدھے جنت میں۔"

جیسا کہ سورہ بقرہ، آیت نمبر 80 میں ہے:"اس طرح کے فاسد اور من گھڑت خیالات جب ذہن میں جم جاتے ہیں تو پھر ان کی اصلاح بہت مشکل ہوتی ہے۔"(تفسیر صراط الجنان، جلد 1، صفحہ نمبر 68،69)

وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَ مَا هُمْ بِمُؤْمِنِيْنَۘ۸

ترجمہ کنزالایمان:"اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور پچھلے دن پر ایمان لائے اور وہ ایمان والے نہیں۔"(سورہ بقرہ، آیت نمبر 8)

تفسیر صراط الجنان:

وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُوْلُ :اور کچھ لوگ کہتے ہیں، اس آیت سے لے کر 20 تک منافقوں کا حال بیان کیا جا رہا ہے، جو کہ اندرونِ خانہ کافر تھے اور اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے تھے۔

اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کچھ لوگ اپنی زبانوں سے اس طرح کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لے آئے ہیں، حالانکہ وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں، کیوں کہ ان کا ظاہر ان کے باطن کے خلاف ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ منافق ہیں۔

اس آیت سے چند باتیں معلوم ہوئیں ہیں کہ:

٭جب تک دل میں تصدیق نہ ہو، اس وقت تک ظاہری اعمال مؤمن ہونے کے لئے کافی نہیں۔

٭جو لوگ ایمان کا دعوی کرتے ہیں اور کفر کا اعتقاد رکھتے ہیں، سب منافقین ہیں۔

٭یہ اسلام اور مسلمانوں کے لئے کھلے کافروں سے زیادہ نقصان دہ ہیں۔

وَ مِنَ النَّاسِ:اور کچھ لوگ، منافقوں کو کچھ لوگ کہنے میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ گروہ بہتر صفات اور انسانی کمالات سے ایسا عادی ہے کہ اس کا ذکر کسی وصف و خوبی کے ساتھ نہیں کیا جا تا، بلکہ یوں کہا جاتا ہے کہ کچھ لوگ ہیں۔

اسی لئے انبیاء کرام علیہم السلام کو محض انسان یاصرف بشر کے لفظ سے ذکر کرنا کفار کا طریقہ ہے، جبکہ مسلمان انبیاء کرام علیہم السلام کا تذکرہ عظمت و شان سے کرتے ہیں۔"( بحوالہ تفسیر صراط الجنان، جلد 1، صفحہ نمبر 72، 73)

يُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا١ۚ وَ مَا يَخْدَعُوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ وَ مَا يَشْعُرُوْنَؕ۹

ترجمہ کنزالایمان:"فریب دیا چاہتے ہیں اللہ اور ایمان والوں کو اور حقیقت میں فریب نہیں دیتے، مگر اپنی جانوں کو اور انہیں شعور نہیں۔"(سورۃ البقرہ، آیت نمبر 9)

تفسیر صراط الجنان:

يُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ:وہ اللہ کو دھوکا دینا چاہتے ہیں، اللہ تعالیٰ سے پاک ہے کہ اسے کوئی دھوکا دے سکے، وہ تمام پوشیدہ باتوں کا جاننے والا ہے، یہاں مراد یہ ہے کہ منافقوں کے طرزِ عمل سے یوں لگتا ہے کہ وہ خدا کو فریب دینا چاہتے ہیں یا یہ کہ خدا کو فریب دینا یہی ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں، کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے نائب اور خلیفہ ہیں اور انہیں دھوکا دینے کی کوشش گویا خدا کو دھوکا دینے کی طرح ہے، لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو منافقین کے اندرونی کفر پر مطلع فرمایا تو یوں ان بے دینوں کا فریب نہ خدا پر چلے، نہ رسول پر اور نہ مؤمنوں پر، بلکہ درحقیقت وہ اپنی جانوں کو فریب دے رہے ہیں اور یہ ایسے غافل ہیں کہ انہیں اس چیز کا شعور ہی نہیں۔

ظاہر و باطن کا تضاد بہت بڑا عیب ہے کہ:

اس آیت سے معلوم ہوا کہ ظاہر و باطن کا تضاد بہت بڑا عیب ہے، یہ منافقت ایمان کے اندر ہو تو سب سے بدتر ہے اور اگر عمل میں ہے تو ایمان میں منافقت سے تو کمتر ہے، لیکن فی نفسہ سخت خبیث ہے، جس آدمی کے قول و فعل اور ظاہر و باطن میں تضاد ہوگا تو لوگوں کی نظر میں وہ سخت قابلِ نفرت ہو گا۔

ایمان میں منافقت مخصوص لوگوں میں پائی جاتی ہے، جبکہ عملی منافقت ہر سطح کے لوگوں میں پائی جا سکتی ہے۔(بحوالہ تفسیر صراط الجنان، جلد1،صفحہ نمبر 73، 74)

وَ بَشِّرِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ١ؕ كُلَّمَا رُزِقُوْا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِّزْقًا١ۙ قَالُوْا هٰذَا الَّذِيْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ١ۙ وَ اُتُوْا بِهٖ مُتَشَابِهًا١ؕ وَ لَهُمْ فِيْهَاۤ اَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ١ۙۗ وَّ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ۲۵

ترجمہ کنزالایمان:"اور خوشخبری دے انہیں جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے کہ ان کے لئے باغ ہیں، جن کے نیچے نہریں رواں جب انہیں ان باغوں سے کوئی پھل کھانے کو دیا جائے گا صورت دیکھ کر کہیں گے یہ تو وہی رزق ھے، جو ہمیں پہلے ملا تھا اور وہ صورت میں ملتا جلتا انہیں دیا گیا اور ان کے لئے ان باغوں میں ستھری بیبیاں ہیں اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔"(سورہ بقرہ، آیت نمبر 25)

تفسیر صراط الجنان:

وَ بَشِّرِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ:اور ان لوگوں کو خوشخبری دو جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کئے، اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ قرآن میں ترہیب یعنی ڈرانے کے ساتھ ترغیب بھی ذکر فرماتا ہے، اسی لئے کفار اور ان کے اعمال اور عذاب کے ذکر کے بعد مؤمنین اور ان کے اعمال و ثواب کا ذکر فرمایا اور انہیں جنت کی بشارت دی۔

صالحات:

یعنی نیکیاں وہ عمل ہیں، جو شرعاً اچھے ہوں، ان میں فرائض ونوافل داخل ہیں، یہاں بھی ایمان اور عمل کو جدا جدا بیان کیا، جس سے معلوم ہوا کہ عمل ایمان کا جزو نہیں ہیں۔

وَ اُتُوْا بِهٖ مُتَشَابِهًا :اور انہیں ملتاجلتا پھل دیا گیا، جنت کے پھل رنگت میں آپس میں ملتے جلتے ہوں گے، مگر ذائقے میں جدا جدا ہوں گے، اس لئے ایک دفعہ ملنے کے بعد جب دوبارہ پھل ملیں گے تو جنتی کہیں گے کہ یہ پھل تو ہمیں پہلے بھی مل چکا ہے، مگر جب وہ کھائیں گے تو اس سے نئی لذت پائیں گے اور ان کا لطف بہت زیادہ ہو جائے گا۔

اس کا یہ بھی معنی بیان کیا گیا ہے کہ انہیں دنیاوی پھلوں سے ملتے جلتے پھل دیئے جائیں گے، تاکہ وہ ان پھلوں سے مانوس رہیں، لیکن جنتی پھل ذائقے کہ میں دنیوی پھلوں سے بہت اعلیٰ ہوں گے۔

اَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ:پاکیزہ بیویاں، جنتی بیویاں حوریں ہوں یا اور،سب کی سب تمام ناپاکیوں اور گندگیوں سے مبرا ہونگی، نہ جسم پر میل ہوگا، نہ کوئی اور گندگی، اس کے ساتھ ہی وہ بد مزاجی اور بدخلقی سے بھی پاک ہونگی۔

وَّ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ:وہ ان باغوں میں ہمیشہ رہیں گے، جنتی نہ کبھی فنا ہوں گے اور نہ جنت سے نکالے جائیں گے، لہذا جنت اور اہلِ جنت کے لئے فنا نہیں۔(بحوالہ تفسیر صراط الجنان، جلد 1، صفحہ نمبر 89، 90)

وَ قَالُوْا قُلُوْبُنَا غُلْفٌ١ؕ بَلْ لَّعَنَهُمُ اللّٰهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَلِيْلًا مَّا يُؤْمِنُوْنَ۸۸ ترجمہ کنزالایمان:" اور یہودی بولے ہمارے دلوں پر پردے پڑے ہیں بلکہ اللہ نے ان پر لعنت کی ان کے کفر کے سبب تو ان میں تھوڑے ایمان لاتے ہیں۔"( سورہ بقرہ، آیت نمبر 88)

تفسیر صراط الجنان:

قُلُوْبُنَا غُلْفٌ:ہمارے دلوں پر پردے ہیں، یہودیوں نے مذاق اڑانے کے طور پر کہا تھا کہ ہمارے دلوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں، ان کی مرادیہ تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت ان کے دلوں تک نہیں پہنچتی، اللہ تعالیٰ نے اس کا رد فرمایا ہے کہ یہ جھوٹے ہیں، اللہ تعالیٰ نے دلوں کو فطرت پر پیدا فرمایا اور ان میں حق قبول کرنے کی صلاحیت رکھی ہے۔

یہودیوں کا ایمان نہ لانا ان کے کفر کی شامت ہے کہ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پہچان لینے کے بعد انکار کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر لعنت فرمائی، اس کا یہ اثر ہے کہ وہ قبولِ حق کی نعمت سے محروم ہو گئے، آج بھی ایسے لوگ ہیں کہ جن کے دلوں پر عظمت، رسالت سمجھنے سے پردے پڑے ہوئے ہیں۔(بحوالہ تفسیر صراط الجنان، جلد 1، صفحہ نمبر 161)

اَوَ كُلَّمَا عٰهَدُوْا عَهْدًا نَّبَذَهٗ فَرِيْقٌ مِّنْهُمْ١ؕ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ۱۰۰

ترجمہ کنزالایمان:"اور کیا جب کبھی کوئی عہد کرتے ہیں، ان میں ایک فریق اسے پھینک دیتا ہے ،بلکہ ان میں بہیتروں کو ایمان نھیں۔"(سورہ بقرہ، آیت نمبر 100)

تفسیر صراط الجنان:

عٰهَدُوْا عَهْدًا:انہوں نے عہد کیا، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہودیوں کو اللہ تعالیٰ کے وہ عہدیاد دلائے، جو آقا صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے متعلق تھے تو مالک بن صیف نے کہا:خدا کی قسم! آپ کے بارے میں ہم سے کوئی عہد نہیں لیا گیا، اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ یہودیوں نے جب کبھی کوئی عہد کیا تو ان میں سے ایک گروہ نے اس عہد کو ویسے ہی پیٹھ پیچھے پھینک دیا، بلکہ ان میں سے اکثر یہودیوں کو تورات پر ایمان ہی نہیں، اس لئے وہ عہد توڑنے کو گناہ نہیں سمجھتے اور نہ ہی اس بات کی کوئی پرواہ کرتے ہیں۔

بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہودیوں نے یہ عہد کیا تھا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہوگا تو ہم ان پر ضرور ایمان لائیں گے اور عرب کے مشرکوں کے خلاف ہم ضرور ان کے ساتھ ہوں گے، لیکن جب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نبوت کا اعلان فرمایا تو یہودیوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی بجائے انکار کر دیا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(بحوالہ تفسیر صراط الجنان، جلد1، ص نمبر 173، 174)

وَ لَوْ اَنَّهُمْ اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَمَثُوْبَةٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ خَيْرٌ١ؕ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَؒ۱۰۳

ترجمہ کنزالایمان:"اور اگر وہ ایمان لاتے اور پرہیز گاری کرتے تو اللہ کے یہاں کا ثواب بہت اچھا ہے کسی طرح انہیں علم ہوتا۔"(سورہ بقرہ، آیت نمبر 103)

تفسیر صراط الجنان:

وَ لَوْ اَنَّهُمْ اٰمَنُوْا:اور اگر وہ ایمان لاتے، فرمایا گیا کہ اگر یہودی حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن پاک پر ایمان لاتے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں کا ثواب ان کے لئے بہت اچھا ہوتا، کیوں کہ آخرت کی تھوڑی سی نعمت دنیا کی بڑی سے بڑی نعمت سے اعلی ہے۔(حوالہ تفسیر صراط الجنان، جلد 1، صفحہ نمبر 120)

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ۱۵۳

ترجمہ کنزالایمان:"اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد چاہو، بیشک اللہ صابروں کے ساتھ ہے۔"( سورۃ البقرہ، آیت نمبر 153)

تفسیر صراط الجنان:

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا:اے ایمان والو! اس آیت میں صبر اور نماز کا ذکر کیا جا رہا ہے، کیونکہ نماز، ذکر اللہ اور صبر و شکر پر ہی مسلمان کی زندگی کا مل ہوتی ہے، اس آیت میں فرمایا گیا کہ صبر اور نماز سے مدد مانگو، صبر سے مدد طلب کرنا یہ ہے کہ عبادات کی ادائیگی، گناہوں سے رکنے اور نفسانی خواہشات کو پورا نہ کرنے پر صبر کیا جائے اور نماز چونکہ تمام عبادات کی اصل اور اہلِ ایمان کی معراج ہے اور صبر کرنے میں بہترین معاون ہے۔

اس لئے اس سے بھی مدد طلب کرنے کا حکم دیا گیا اور ان دونوں کا بطورِ خاص اس لئے ذکر کیا گیا کہ بدن پر باطنی اعمال میں سب سے سخت صبر اور ظاہری اعمال میں سب سے مشکل نماز ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی نماز سے مدد چاہتے تھے، جیسا کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کوئی ساتھ مہم پیش آتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں مشغول ہو جاتے، اسی طرح نمازِ استسقاءاور نماز حاجت بھی نماز سے مدد چاہنے ہی کی صورتیں ہیں۔

اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ:بے شک اللہ صابروں کے ساتھ ہے، حضرت علامہ نصر بن محمد سمرقندی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"اللہ تعالیٰ (اپنے علم و قدرت سے) ہر ایک کے ساتھ ہے، لیکن یہاں صبر کرنے والوں کا بطور خاص اس لئے ذکر فرمایا، تاکہ انہیں معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ ان کی مشکلات دور کرکے آسانی فرمائے گا۔

صبر کی تعریف: اس آیت میں صبر کا ذکر ہوا ہے، صبر کامعنی ہے، نفس کو اس چیز پر روکنا، جس پر رکنے کا عقل اور شریعت تقاضا کر رہی ہو یا نفس کو اس چیز سے باز رکھنا، جس سے رکنے کا عقل اور شریعت تقاضا کر رہی ہو۔

صبر کی اقسام:بنیادی طور پر صبر کی دو قسمیں ہیں، ایک بدنی صبر(جیسے بدنی مشقتیں برداشت کرنا اور ان پر ثابت قدم رہنا)دوسرا طبعی خواہشات اور خواہش کے تقاضوں سے صبر کرنا، پہلی قسم کا صبر جب شریعت کے موافق ہو تو قابلِ تعریف ہوتا ہے، لیکن مکمل طور پر تعریف کے قابل صبر کی دوسری قسم ہے۔

صبر کے فضائل: قرآن و حدیث اور بزرگانِ دین کے اقوال میں صبر کے بے پناہ فضائل بیان کئے گئے ہیں، ترغیب کے لئے ان میں سے دس فضائل کا خلاصہ درج ذیل ہے:

٭اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

٭صبر کرنے والے کو اس کے عمل سے اچھا اجر ملے گا۔

٭صبر کرنے والے کو بے حساب اجر ملے گا۔

٭صبر کرنے والوں کی جزا دیکھ کر قیامت کے دن لوگ حسرت کریں گے۔

٭صبر کرنے والے ربّ کریم عزوجل کی طرف سے درودو ہدایت اور رحمت پاتے ہیں۔

٭صبر کرنے والے اللہ تعالیٰ کو محبوب ہیں۔

٭صبر آدھا ایمان ہے۔

٭صبر جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔

٭صبر کرنے والے کی خطائیں مٹا دی جاتی ہیں۔

٭صبرہر بلائی کی کنجی ہے۔

غیرِ خدا سے مدد طلب کرنا شرک نہیں:

اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ غیر خدا سے مدد طلب کرنا شرک نہیں ہے، اعلٰی حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں؛"خدارا انصاف! اگر آیت کریمہ ایاک نستعین میں مطلق استعانت کا ذاتِ الٰہی عزوجل میں مقصود ہو تو کیا صرف انبیاء کرام علیہم السلام ہی سے استعانت شرک ہوگی، کیا یہی غیر خدا ہیں اور سب اشخاص و اشیاء وہابیہ کے نزدیک خدا ہیں یا آیت میں خاص انہی کا نام لے دیا ہے کہ ان سے شرک اوروں سے روا ہے؟

نہیں نہیں۔۔جب مطلقاً ذات احدیت سےتخصیص اور غیر خدا سے شرک ماننے کی ٹھری تو کیسی ہی استعانت کسی غیر خدا سے کی جائے، ہمیشہ ہر طرح شر ک ہی ہوگی کہ انسان ہوں یا جمادات، احیاء ہوں یا اموات، ذوات ہوں یا صفات، افعال ہوں یا حالات، غیر خدا ہونے میں سب داخل ہیں، اب کیا جواب ہے آیت کریمہ کا کہ ربّ عزوجل فرماتا ہے کہ اسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ:استعانت کرو صبرونماز سے، کیا صبر خدا ہے جس سے استعانت کا حکم ہوا ہے؟ کیا نماز خدا ہے جس سے استعانت کا ارشاد فرمایا ہے؟

دوسری آیت میں فرماتا ہے کہ وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى:آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرو بھلائی اور پرہیزگاری پر، اگر غیر خدا سے مدد لینا مطلقاً محال ہے تو اس حکمِ الہی کا حاصل کیا؟ اور اگر ممکن ہو تو جس سے مدد مل سکتی ہے، اس سے مدد مانگنے میں کیا زہر گھل گیا۔

حدیثوں کی تو گنتی ہی نہیں، بکثرت احادیث میں صاف صاف حکم ہے کہ:

٭صبح کی عبادت سے استعانت کرو۔

٭شام کی عبادت سے استعانت کرو۔

٭کچھ رات رہے کی عبادت سے استعانت کرو۔

٭علم کے لکھنے سے استعانت کرو۔

٭سحری کے کھانے سے استعانت کرو۔

٭دوپہر کے سونے سے استعانت و صدقہ سے استعانت کرو۔

٭حاجت روائیوں میں حاجتیں چھپانے سے استعانت کرو۔(حوالہ تفسیر صراط الجنان، جلد 1، صفحہ نمبر 245 تا 248)

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِلّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ اِيَّاهُ تَعْبُدُوْنَ۱۷۲

ترجمہ کنزالایمان:"اے ایمان والوں!کھاؤ ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں اور اللہ کا احسان مانو، اگر تم اسی کو پوجتے ہو۔(سورۃ البقرہ، آیت172)

تفسیر صراط الجنان:

وَ اشْكُرُوْا لِلّٰهِ:اور اللہ کا شکر ادا کرو، اللہ تعالیٰ نے ہمیں کھانے سے منع نہیں فرمایا، بلکہ کئی مقامات پر رزقِ الہی کھانے کا بیان کیا، جیسے سورہ بقرہ آیت 108، سورہ مائدہ آیت 88 اور 87، سورہ اعراف آیت 31 اور 32، اور سورہ نمل آیت 114 وغیرہ۔

الغرض اس طرح کے بیسیوں مقامات ہیں، جہاں رزقِ الہی سے لطف اندوز ہونے کی اجازت دی گئی ہے، صرف یہ شرط لگائی ہے کہ حرام چیزیں نہ کھاؤ، حرام ذریعے سے حاصل کرکے نہ کھاؤ، کھا کر غافل نہ ہو جاؤ، یہ چیزیں تمھیں اطاعتِ الہی سے دور نہ کر دیں، اللہ عزوجل کا شکر ادا کرو، چنانچہ فرمایا:"اور اللہ کا شکر ادا کرو اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو۔"(حوالہ تفسیر صراط الجنان، جلد 1، صفحہ نمبر 272)

10۔ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيْهِ وَ لَا خُلَّةٌ وَّ لَا شَفَاعَةٌ١ؕ وَ الْكٰفِرُوْنَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ۲۵۴

ترجمہ کنزالایمان:"ایمان والو! اللہ کی راہ میں ہمارے دیئے میں سے خرچ کرو، وہ دن آنے سے پہلے جس میں نہ خریدوفروخت ہے، نہ کافروں کے لئے دوستی، نہ شفاعت اور کافر خود ہی ظالم ہیں۔"(البقرہ، آیت254)

تفسیر صراط الجنان:

اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰكُمْ:ہمارے دئیے ہوئے رزق میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کر لو، فکرِآخرت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا جا رہا ہے کہ قیامت کے آنے سے پہلے پہلے راہِ خدا عزوجل میں اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا مال خرچ کر لو، قیامت کا دن بڑی ہیبت والا ہے، اس دن مال کسی کو بھی فائدہ نہ دے گا اور دنیوی دوستیاں بھی بے کار ہوں گی، بلکہ باپ بیٹے بھی اور ایک دوسرے سے جان چھڑا رہے ہوں گے اور کافروں کو کسی کی سفارش کام نہ دے گی اور نہ دنیوی انداز میں کسی کی کوئی سفارش کر سکے گا، صرف الٰہی سے اللہ تعالیٰ کے مقبول بندے شفاعت کریں گے۔

جیسا کہ اگلی آیت یعنی آیت الکرسی میں آرہا ہے اور مال کا فائدہ بھی آخرت میں اسی صورت میں ہے، جب دنیا میں اسے نیک کاموں میں خرچ کیا ہو اور دوستیوں میں سے بھی نیک لوگوں کی دوستیاں کام آئیں گی، جیسا کہ سورۃ زخرف میں ہے:الاخلاء یومئذ بعضھم لبعض عدو الا المتقین۔

"پرہیزگاروں کے علاوہ اس دن گہرے دوست ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں گے۔"

وَ الْكٰفِرُوْنَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ:اور کافر ہی ظالم ہیں، ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو غلط جگہ استعمال کرنا، کافروں کا ایمان کی جگہ کفر اور طاعت کی جگہ معصیت اور شکر کی جگہ ناشکری کو اختیار کرنا ان کا ظلم ہے اور چونکہ یہاں کاظلم کا سب سے بد تر درجہ مراد ہے، اسی لئے فرمایا کہ کافر ہی ظالم ہیں۔۔"(حوالہ تفسیر صراط الجنان، جلد 1، صفحہ نمبر 382،383)


ایمان والوں کے لیے بشارتیں   ایمان و اسلام کیا ہے؟ ایمان ایک ایسی لازوال دولت ہے جس پر دنیا آخرت کی کامیابی کا انحصار ہے۔ اگر کوئی شخص کتنے ہی بھلائی و خیرخواہی کے کام کرے فلاحی کاموں میں ہمہ وقت سر گرم رہے اور خوب عبادات بجالائے صدقہ و خیرات کرے لیکن جب تک دل میں ایمان ہی موجود نہ ہو یہ تمام اعمال اسے کچھ فائدہ نہیں دے سکتے اس کی مثال ایسی ہے گویا اس نے ایک ایسی عمارت قائم کی جس کی بنیاد ہی موجود نہیں ۔ کئی احادیث میں ایمان کے متعلق بیان فرمایا گیا نیز محدثین نے کتب حدیث میں ایمان کے خصوصی ابواب باندھے ہیں چنانچہ مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد 1باب الایمان حدیث نمبر ایک کی شرح میں ایمان کے متعلق تحریر ہے کہ ایمان کا لفظی معنی ہے "امن دینا" اور شرعی طور پر ایمان ان عقائد کا نام ہے جنکو مان کر انسان قہرِقہار اور غضب جبار سے امن میں آجاتا ہےان میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں جو اللہ پاک کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ پاک سے لے کر تشریف لائے۔ اور اسلام کے متعلق مشہور حدیث حدیث جبریل علیہ السلام کے تحت فرمایا اسلام بسا اوقات ایمان کے معنی میں ہی ہوتا ہے اور بعض اوقات اسکا معنی جدا ہوتا ہے ۔ لیکن حقیقتاً اسلام ظاہری اعمال و افعال کا نام ہے جبکہ باطنی عقائد و نظریات ایمان میں داخل ہیں ۔ جس شخص کو ایمان کی دولت حاصل ہو اسکو دنیاوی طور پر بھی بے شمار فوائد حاصل ہوتے ہیں اور مرنے کے بعد بھی اخروی نعمتوں سےمالا مال ہو گا اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں بھی ایمان والوں کو کئ خوشخبریوں سے نوازا ہےان میں سے چند آیاتِ قرآنی پیش خدمت ہیں ارشاد باری تعالیٰ ہے

1- وَ بَشِّرِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ١ؕ كُلَّمَا رُزِقُوْا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِّزْقًا١ۙ قَالُوْا هٰذَا الَّذِيْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ١ۙ وَ اُتُوْا بِهٖ مُتَشَابِهًا١ؕ وَ لَهُمْ فِيْهَاۤ اَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ١ۙۗ وَّ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ۰۰۲۵ ترجمہ کنزالعرفان۔ اور ان لوگوں کوخوشخبری دو جو ایمان لائے اورانہوں نے اچھے عمل کئے کہ ان کے لئے ایسے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ۔جب انہیں ان باغوں سے کوئی پھل کھانے کو دیا جائے گا تو کہیں گے، یہ تو وہی رزق ہے جو ہمیں پہلے دیا گیاتھا حالانکہ انہیں ملتا جلتا پھل (پہلے )دیا گیا تھا اور ان (جنتیوں )کے لئے ان باغوں میں پاکیزہ بیویاں ہوں گی اور وہ ان باغوں میں ہمیشہ رہیں گے۔ 2- سورہ بقرہ آیت نمبر62 میں اللّٰہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ١۪ۚ وَ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ۶۲ ترجمہ کنزالعرفان:- جو بھی سچے دل سے اللہ پر اورآخرت کے دن پر ایمان لے آئیں اور نیک کام کریں توان کا ثواب ان کے رب کے پاس ہے اور ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ 3- سورۂ بقرہ کی ہی آیت نمبر 82 میں ارشاد ہوتا ہے وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ١ۚ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَؒ۸۲ترجمہ کنزالعرفان ۔ اور جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے وہ جنت والے ہیں انہیں ہمیشہ اس میں رہنا۔ کسی بھی قوم یا نسل کا آدمی کسی بھی زمانے میں ایمان کے ساتھ اعمال صالح رکھتا ہو گا تو وہ جنت میں جائے گا سورہ بقرہ آیت نمبر 82 تفسیرصراط الجنان قرآن کریم کا یہ اسلوب ہے کہ اس میں جہاں جہاں کفار و مشرکین کے اعمال و افعال اور کفر سے متعلق تفصیلی بیان فرمایا گیا وہیں ساتھ ایمان والوں کے لیے جگہ بہ جگہ مختلف خوشخبریاں بھی ارشاد فرمائیں گئی جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اعمال کی قبولیت کے لیے ایمان کا ہونا لازم و ملزوم ہے، کئی آیات میں ایمان اور اعمالِ صالحہ کا ذکر ہےاکٹھا آتا ہے مگر ان میں بھی ایمان کا ذکر پہلے فرمایا گیا ممکن ہے کہ ایمان کا پہلے ذکر آنا اسی بات کی طرف اشارہ ہو کہ اعمال صالحہ سے پہلے ایمان ضروری ہے لہذٰا پہلے ایمان لاؤ پھر نیک اعمال کرو اس کے نتیجے میں کہیں جنت کی خوشخبری ہے تو کہیں بے خوف وبے غم ہونے کی بشارت ہے 4- سورۂ کہف آیت نمبر 30٫31 میں ارشاد ہے اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اِنَّا لَا نُضِيْعُ اَجْرَ مَنْ اَحْسَنَ عَمَلًاۚ۳۰اُولٰٓىِٕكَ لَهُمْ جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهِمُ الْاَنْهٰرُ يُحَلَّوْنَ فِيْهَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ وَّ يَلْبَسُوْنَ ثِيَابًا خُضْرًا مِّنْ سُنْدُسٍ وَّ اِسْتَبْرَقٍ مُّتَّكِـِٕيْنَ فِيْهَا عَلَى الْاَرَآىِٕكِ١ؕ نِعْمَ الثَّوَابُ١ؕ وَ حَسُنَتْ مُرْتَفَقًاؒ۳۱

ترجمہ کنزالعرفان ۔ بیشک جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کئے ہم ان کا اجر ضائع نہیں کرتے جو اچھے عمل کرنے والے ہوں ۔ ان کے لیے ہمیشگی کے باغات ہیں ان کے نیچے نہریں بہتی ہیں ، انہیں ان باغوں میں سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے اور وہ سبز رنگ کے باریک اور موٹے ریشم کے کپڑے پہنیں گے وہاں تختوں پر تکیے لگائے ہوئے ہوں گے۔ یہ کیا ہی اچھا ثواب ہے اور جنت کی کیا ہی اچھی آرام کی جگہ ہے۔ سبحان اللہ کیسی کیسی نعمتیں ہیں جنکی صرف جھلکیاں بیان فرمائی گئی ہیں حقیقت میں تو وہ کیسی ہوں گی جب اس کریم کے کرم سے ان میں داخل ہوں گے تو دیکھیں گے ان شاءاللہ عزوجل صحیح رویات میں ہے کہ تمام اعضائے وضو کو زیورات سے آراستہ کیا جائے گا مسلم کتاب الطھارۃ،باب تبلغ الحلیۃحیث یبلغ الوضو ص 151حدیث40 اور موٹے اور باریک ریشم کا انتہائی خوبصورت لباس پہنایا جائےگا یاد رہےدنیا کی زندگی میں مرد کے لیے زیورات اور ریشم پہننا حرام ہے حدیث میں ہےجو دنیا میں پہنے گا وہ آخرت میں نہیں پہنے گا صراط الجنان فے تفسیر القران۔حوالہ بخاری کتاب الباس حدیث 5832 5- سورہ کہف آیت 107٫108 میں فرمایا اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنّٰتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًاۙ۱۰۷خٰلِدِيْنَ فِيْهَا لَا يَبْغُوْنَ عَنْهَا حِوَلًا۱۰۸ترجمہ کنزالعرفان ۔ بیشک جو لوگ ایمان لائے اور اچھے اعمال کئے ان کی مہمانی کیلئے فردوس کے باغات ہیں ۔ وہ ہمیشہ ان میں رہیں گے، ان سے کوئی دوسری جگہ بدلنا نہ چاہیں گے 6- فرمایا سورہ مریم آیت 96 میں ہے اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا۹۶ترجمہ کنزالعرفان ۔ بیشک وہ جو ایمان لائے اور نیک اعمال کئے عنقریب رحمٰن ان کے لیے محبت پیدا کردے گا اس آیت کے تحت تفسیر کبیر اور تفسیر خازن میں ہے کہ اللہ پاک ان سے محبت کرے گا اور مخلوق کے دل میں انکی محبت پیدا فرما دے گا 7- سورہ یونس آیت نمبر 9 میں ہے اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ يَهْدِيْهِمْ رَبُّهُمْ بِاِيْمَانِهِمْ١ۚ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهِمُ الْاَنْهٰرُ فِيْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ۹ ترجمہ کنزالعرفان ۔ بیشک وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے اعمال کئے ان کا رب ان کے ایمان کے سبب ان کی رہنمائی فرمائے گا۔ ان کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ (وہ) نعمتوں کے باغوں میں ہوں گے۔ 8- سورہ حج آیت 23 اِنَّ اللّٰهَ يُدْخِلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ يُحَلَّوْنَ فِيْهَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ وَّ لُؤْلُؤًا١ؕ وَ لِبَاسُهُمْ فِيْهَا حَرِيْرٌ۲۳(23 ترجمہ کنزالعرفان ۔ بیشک اللہ ایمان والوں کو اور نیک اعمال کرنے والوں کو ان باغوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں ۔ انہیں ان باغوں میں سونے کے کنگن اور موتی پہنائے جائیں گے اور جنتوں میں ان کا لباس ریشم ہوگا 9- آیت نمبر 50 میں ہے فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ كَرِيْمٌ۵۰ ترجمہ کنزالعرفان ۔ جو لوگ ایمان لائے اورانہوں نے نیک اعمال کئے ان کے لیے بخشش اور عزت کی روزی ہے 10- سورہ جاثیہ آیت نمبر 30 فَاَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَيُدْخِلُهُمْ رَبُّهُمْ فِيْ رَحْمَتِهٖ١ؕ ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْمُبِيْنُ۳۰ترجمہ کنزالعرفان ۔ تو وہ جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کئے ان کا رب انہیں اپنی رحمت میں داخل فرمائے گا۔ یہی کھلی کامیابی ہے صرف یہی نہیں بلکہ اس کے علاوہ بھی آیات کی ایک تعداد ہے جس میں ایمان والوں اور اچھے اعمال کرنے والوں کو کئی خوشخبریاں عطا فرمائی گئی ہیں۔ حقیقی کامیابی آخرت کی کامیابی ہے اس کے لیے ایمان کی سلامتی اور اعمال صالحہ انتہائی اہم ہیں۔ لہذٰا ہمیں ایمان کی سلامتی کی فکر کرتے ہوئے خوب خوب اللّٰہ پاک کی رضا کے لیے نیک اعمال کرتے رہنا چاہیے اور اس کے لیے دعوت اسلامی کا دینی ماحول فی زمانہ بہت بڑی غنیمت ہے، جہاں لمحہ بہ لمحہ نیکیوں کے مواقع ملتے رہتے ہیں اور نیکیاں کرنا آسان ہو جاتا ہے رب کریم سے دعا ہے اللہ رب العزت ہمارے ایمان پہ سلامتی کی مہر ثبت فرمائےاور اخلاص سے اعمال صالحہ بجالاتے ہوئے اپنے پیارے پروردگار عزوجل کی رضا کے ساتھ جلوۂ محبوب صلی اللہ علیہ وسلم میں گنبد خضرا کے روبرو شہادت کی موت، جنت البقیع میں مدفن جنت الفردوس میں پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں جگہ نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم


ایمان کا لغوی اور اصطلاحی تعریف: ایمان (امن ) سے بنا ہے، جس کے لغوی معنی امن دینا ۔ اصطلاح شریعت میں ایمان ایسے عقائد کا نام ہے جن کے اختیار کرنے سے انسان دائمی عذاب سے بچ جائے۔ جیسے توحید، رسالت حشرونشر ،فرشتے ،جنت و دوزخ اور تقدیر کو ماننا و غیرہ غیرہ ۔ جس کا کچھ ذکر اس آیت میں ہے:اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِ مِنْ رَّبِّهٖ وَ الْمُؤْمِنُوْنَؕ-كُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ مَلٰٓىٕكَتِهٖ وَ كُتُبِهٖ وَ رُسُلِهٖ۫-لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِهٖ۫-ترجمۂ کنزالایمان: رسول ایمان لایا اس پر جو اس کے رب کے پاس سے اس پر اُترا اور ایمان والے سب نے مانا اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو یہ کہتے ہوے کہ ہم اس کے کسی رسول پر ایمان لانے میں فرق نہیں کرتے ۔ (پ 3،البقرۃ : 285)

اصطلاح قرآن میں ایمان کی اصل جس پر تمام عقیدوں کا دارومدار ہے یہ ہے کہ بندہ خاتم النبین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دل سے اپنا حاکم مطلق مانے۔( ماخذ علم القرآن باب الایمان ) تفسیر صراط الجنان: اللہ پاک کی سنت یہ ہے کہ قرآن میں ڈرانے کے ساتھ ترغیب بھی ذکر فرماتا ہے ۔ قرآن پاک میں جہاں کفار کے عذابات کا ذکر ہے وہیں مؤمنین کے لیے بشارتوں کا ذکر ہے۔ ان بشارتوں میں سے دس بشا رتیں درج ذیل ہیں:۔

(1) مؤمنین ہدایت والے ہیں۔ ترجمۂ کنز الایمان : وہ جو بے دیکھے ایمان لائیں اور نماز قائم رکھیں اور ہماری دی ہوئی روزی میں سے ہماری راہ میں اٹھائیں اور وہ کہ ایمان لائیں اس پر جو اے محبوب تمہاری طرف اترا اور جو تم سے پہلے اترااور آخرت پر یقین رکھیں وہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور وہی مراد کو پہنچنے والے۔ (پ1 ، البقرۃ:3،5،4)(2) مؤمنین کامیاب ہیں ۔ ترجمہ کنز العرفان: بے شک (وہ) ایمان والے کامیاب ہوگئے ۔ جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں ۔ (پ18،المؤمنون :2،1) (3) مؤمنین فردوس کی میراث پائیں گے گیا۔ ترجمہ کنز العرفان، یہی لوگ وارث ہیں ۔ یہ فردوس کی میراث پائیں گے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ (پ18،المؤمنون: 10، 11)(4) مؤمن غلام مشرک سے اچھا ہے ۔ ترجمہ کنز العرفان: بے شک (مؤمن) مسلمان غلام مشرک سے اچھا ہے۔(پ2 ،البقرۃ : 221 )(5) اللہ مؤمنوں کا دوست ہے ۔ ترجمۂ کنز الایمان :اللہ والی ہے مسلمانوں کا انہیں اندھیروں سے نور کی طرف نکالتا ہے۔ (پ3 ،البقرۃ : 257 )

(6)اللہ مؤمنین نے گناہ بخش دے گا ۔ ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کہاکرو۔ اللہ تمہارے اعمال تمہارے لیے سنوار دے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور جو اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے اس نے بڑی کامیابی پائی۔ (پ22 ،الاحزاب 70، 71 ) (7) مؤمنین کے لیے باغات ہیں۔ ترجمۂ کنزالعرفان: اور ان لوگوں کوخوشخبری دو جو ایمان لائے اورانہوں نے اچھے عمل کئے کہ ان کے لئے ایسے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔جب انہیں ان باغوں سے کوئی پھل کھانے کو دیا جائے گا تو کہیں گے، یہ تو وہی رزق ہے جو ہمیں پہلے دیا گیاتھا حالانکہ انہیں ملتا جلتا پھل (پہلے )دیا گیا تھا اور ان (جنتیوں )کے لئے ان باغوں میں پاکیزہ بیویاں ہوں گی اور وہ ان باغوں میں ہمیشہ رہیں گے۔(پ1 ،البقرۃ : 25 )(8) مؤ منین کے لیے خوف نہیں ۔ ترجمۂ کنزالایمان: سن لو بےشک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خو ف ہے نہ کچھ غم۔ (پ 11،یونس :62) (9) مؤمنین مدد گار ہیں۔ ترجمۂ کنزالایمان: تمہارے دوست نہیں مگر اللہ اور اس کا رسول اور ایمان والے کہ نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ کے حضور جھکے ہوئے ہیں۔ (پ6 ،المائده :55) (10) مؤمنین کے لیے عزت کی روزی ہے۔ ترجمہ : اور جو ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور وہ جنہوں نے رسول اللہ (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کو جگہ دی اور ان کی مدد کی وہ سچے مسلمان ہیں ان کے لئے بخشش ہے اور عزت کی روزی ۔ (پ10 ،الانفال : 74 )

اللہ پاک تمام مؤمنین و مسلمین کی بے حساب مغفرت فرمائے اور ان کا خاتمہ بالخیر فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ رب العزت نے بنی آدم کی تخلیق فرمائی پھر انسانوں کی ہدایت کے لئے وقتاً فوقتاً انبیاء و رسل کو مبعوث فرمایا کہ وہ احکام الہی کو انسانوں تک پہنچادیں اور اپنے علم و حکمت سے ان کی رہنمائی فرمائیں اور انسان اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاکر اپنے قول و فعل سے ان کی پیروی کر کے اللہ پاک کی رضا اور ہمیشہ کا ٹھکانہ جنت حاصل کریں۔ مفتی احمدید خان نعیمی فرماتے ہیں: ایمان ”امن“ سے بنا ہے جس کے لغوی معنی امن دینا ہے ۔ اصطلاح شریعت میں ایمان عقائد کا نام ہے جن کے اختیار کرنے سے انسان دائمی عذاب سے بچ جائے۔ (علم القرآن، ص 24)

قرآن و احادیث میں اسلام قبول کرنے کے فضائل اور اس پر بے شمار بشارت آئیں ہیں۔ جیسے کہ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے اسلام قبول کیا اور اسے بقدر ضرورت رزق ملا پھر اس نے اس پر قناعت کی تو و ہ فلاح پاگیا۔ (المعجم الكبير،18/306،حديث 778)قرآن پاک میں بھی ایمان والوں کے لئے کثیر بشارتیں آئیں ہیں۔ جس میں سے 10 پیش خدمت ہیں:۔

(1) اللہ کی طرف سے صراط مستقیم پر : ایمان والوں کے لئے ایک نوید یہ ہے کہ اللہ پاک نے ان کو صراط مستقیم پر گامزن فرمادیا۔ جیسے کہ اللہ کریم قرآن پاک میں فرماتا ہے : اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ یَلْبِسُوْۤا اِیْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓىٕكَ لَهُمُ الْاَمْنُ وَ هُمْ مُّهْتَدُوْنَ۠(۸۲) ترجمۂ کنز الایمان: وہ جو ایمان لائے اور اپنے ایمان میں کسی ناحق کی آمیزش نہ کی انہیں کے لیے امان ہے اور وہی راہ پر ہیں۔ (پ7،الانعام : 82) (2) اللہ کی بارگاہ میں عزت والے :جو ایمان لائے اور نیک عمال کریں ان کے لئے اللہ پاک کی بارگاہ عزت وجاہت ہے۔ جیسا کہ اللہ پاک قرآن میں فرماتا ہے: اَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللّٰهِؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفَآىٕزُوْنَ(۲۰) ترجمۂ کنز الایمان: اللہ کے یہاں ان کا درجہ بڑا ہے اور وہی مراد کو پہنچے۔(پ10،التوبۃ:20)

(3)رحمت الہی کے امیدوار : رحمت الہی ایمان والوں کے پیش نظر ہے جس کے وہ امیدوار ہیں۔ جیسے اللہ پاک قرآن پاک میں فرماتا ہے: اُولٰٓىٕكَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللّٰهِؕ ترجمہ کنزالایمان: وہ رحمت الہی کے امیدوار ہیں۔(پ 2 ،البقرۃ: 218 )(4) اچھا انجام: ایمان والوں کے لئے ایک خوشخبری یہ ہے کہ ان کے لئے خوشی اور بروز قیامت ان کے لئے اچھا انجام (جنت) ہے جیسا کہ فرمان خداوندی ہے: اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ طُوْبٰى لَهُمْ وَ حُسْنُ مَاٰبٍ(۲۹) ترجمہ کنز الایمان : وہ جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے ان کو خوشی ہے اور اچھا انجام ۔(پ 13 ،الرعد : 29)

(5) بے غم ہونگے : ایمان والوں کے لئے ایک بشارت یہ ہے کہ وہ بروز قیامت بے غم و بے خوف ہونگے۔ جیسا کہ اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ(۲۷۷) ترجمہ کنزالایمان : نہ انہیں کچھ اندیشہ ہو نہ کچھ غم۔(پ2 ، البقرة : 277 ) (6) پاکیزہ بیویاں : ایک خوشخبری ایمان والوں کے لئے یہ بھی ہے کہ ان کے لئے پاکیزہ بیویاں ہیں۔ یعنی جنت میں ان کے لئے حوریں اور ان کی وہ بیویاں جن کا ان سے دنیا میں نکاح تھا جیسا کہ اللہ پاک کے فرمان میں ہے : وَ لَهُمْ فِیْهَاۤ اَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌۗۙ ترجمہ کنزالایمان: اور ان کے لیے ان باغوں میں ستھری بیبیاں ہیں ۔(پ1 ، البقرة : 25 ) (7) بخشش کا سبب : ایمان والوں کے لئے ایک بشارت یہ ہے کہ ایمان لانا ان کی بخشش کا سبب بنے گا۔ چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِۙ-لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ(۹) ترجمۂ کنزالایمان : ایمان والے نیکوکاروں سے اللہ کا وعدہ ہے کہ اُن کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔(پ6 ،المائده : 9)

(8)کامیابی کی بشارت : ایمان والوں کےلیے یہ بشارت بھی ہے کہ حقیقی کامیابی ان کا مقدر ہو گئی۔ جیسے اللہ پاک نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا: وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفَآىٕزُوْنَ(۲۰) ترجمۂ کنزالایمان :اور وہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔(پ 10،التوبۃ : 20)(9)جنت والے: جنت ایک ایسا مقام ہے جو اللہ پاک نے اپنے کرم عظیم سے مؤمنین کو عطا فرمایا۔ چنانچہ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے: وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ۠(۸۲) ترجمہ ٔکنز الایمان : اور جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے وہ جنت والے ہیں انہیں ہمیشہ اس میں رہنا۔(پ1،البقرۃ:82)(10)ایمان والوں کی جنت الفردوس میں مہمان نوازی ہوگی۔ جیسا کہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنّٰتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًاۙ(۱۰۷)ترجمہ کنزالایمان: بے شک جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے فردوس کے باغ ان کی مہمانی ہے۔ (پ 16،الکھف:107)

یاد ر ہے جنت میں داخلے کا حقیقی معیار ایمان صحیح اور عمل صالح ہے اور کسی بھی زمانے اور کسی بھی نسل و قوم کا آدمی اگر صحیح ایمان و عمل رکھتا ہے۔ وہ جنت میں داخل ہو گا۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں نیک اعمال بجالانے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارا خاتمہ بالخیر فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ پاک نے انسان کو تخلیق فرمایا ہے کہ وہ اللہ پاک کی وحدانیت کا اقرار کرے اور اللہ اور اس کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے احکام کو مانے اور جو اللہ اور اس کے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے احکام کو بجالائے وہ ایمان والے ہیں اور اللہ پاک نے ایمان والوں کے لئے قرآن کریم میں بے شمار بشارتیں نازل فرمائیں ہیں۔ جن میں سے 10 بشارتیں ملاحظہ فرمائیں۔

(1) اللہ پاک نے ایمان والوں سے جنت کا وعدہ فرمایا۔ اللہ پاک نے قرآن کریم میں فرمایا : وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَاۤ٘ -اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۴۲)ترجمۂ کنزالایمان: اور وہ جو ایمان لائے اور طاقت بھر اچھے کام کیے ہم کسی پر طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں رکھتے وہ جنت والے ہیں انہیں اس میں ہمیشہ رہنا۔ (پ4،الاعراف :42)

(2)جو اللہ پاک کے سب رسولوں پر ایمان لائے، اللہ پاک نے اس کے لئے بھی قرآن پاک میں خوشخبری سنائی ہے:وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ وَ لَمْ یُفَرِّقُوْا بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْهُمْ اُولٰٓىٕكَ سَوْفَ یُؤْتِیْهِمْ اُجُوْرَهُمْؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا۠(۱۵۲)ترجمۂ کنزالایمان : اور وہ جو اللہ اور اس کے سب رسولوں پر ایمان لائے اور ان میں سے کسی پر ایمان میں فرق نہ کیا انہیں عنقریب اللہ ان کے ثواب دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے (پ6،النسآء:152)

(3) ایک اور مقام پر اللہ پاک نے ارشاد فرمایا : وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَنُدْخِلُهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ ترجمۂ کنزالایمان:اور جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے کچھ دیر جاتی ہے کہ ہم انہیں باغوں میں لے جائیں گے جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں ۔(پ النسآء: 122)(4) اور جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانے اللہ پاک نے اس کے لئے بھی خو شخبری سنائی ہے۔ وَ  مَنْ  یُّطِعِ  اللّٰهَ  وَ  رَسُوْلَهٗ  یُدْخِلْهُ  جَنّٰتٍ  تَجْرِیْ  مِنْ  تَحْتِهَا  الْاَنْهٰرُ  خٰلِدِیْنَ  فِیْهَاؕ-وَ  ذٰلِكَ  الْفَوْزُ  الْعَظِیْمُ(۱۳) ترجمۂ کنزالایمان: اور جو حکم مانے اللہ اور اللہ کے رسول کا اللہ اُسے باغوں میں لے جائے گا جن کے نیچی نہریں رواں ہمیشہ اُن میں رہیں گے اور یہی ہے بڑی کامیابی۔(پ النسآء: 13)

(5) اور ایک مقام پر ارشاد فرمایا: وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَنُدْخِلُهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-لَهُمْ فِیْهَاۤ اَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ٘-وَّ نُدْخِلُهُمْ ظِلًّا ظَلِیْلًا(۵۷) ترجمۂ کنزالایمان: اورجو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کیے عنقریب ہم انہیں باغوں میں لے جائیں گے جن کے نیچے نہریں رواں ان میں ہمیشہ رہیں گے ان کے لیے وہاں ستھری بیبیاں ہیں اور ہم انہیں وہاں داخل کریں گے جہاں سایہ ہی سایہ ہوگا۔(پ النساء:57)(6) اور جو ایمان لائے اللہ پاک اُن کے لئے فرماتا ہے: وَ اَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَیُوَفِّیْهِمْ اُجُوْرَهُمْؕ-وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ(۵۷)ترجمۂ کنز الایمان: اور وہ جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے اللہ ان کا نیگ(اجر) انہیں بھرپور دے گا اور ظالم اللہ کو نہیں بھاتے۔ (پ آل عمرٰن: 57)

(7)ایک اور مقام پر اللہ پاک نے ارشاد فرمایا :یَسْتَبْشِرُوْنَ  بِنِعْمَةٍ  مِّنَ  اللّٰهِ  وَ  فَضْلٍۙ-وَّ  اَنَّ  اللّٰهَ  لَا  یُضِیْعُ  اَجْرَ  الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۷۱)ﮎترجمۂ کنز الایمان: خوشیاں مناتے ہیں اللہ کی نعمت اور فضل کی اور یہ کہ اللہ ضائع نہیں کرتا اجر مسلمانوں کا ۔(پ4، آل عمرٰن: 171)(8)اور اللہ پاک نے ایمان والوں سے وعدہ کیا ہے کہ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِۙ-لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ(۹)ترجمہ کنز الایمان : ایمان والے نیکوکاروں سے اللہ کا وعدہ ہے کہ اُن کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔(پ6،ا لمائدۃ:9)

(9)اور جنہوں نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا اُن کے لئے خوشخبری ہے کہ۔اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ هَاجَرُوْا وَ جٰهَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِۙ-اُولٰٓىٕكَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللّٰهِؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۲۱۸)ترجمہ کنز الایمان: وہ جو ایمان لائے اور وہ جنہوں نے اللہ کے لیے اپنے گھر بار چھوڑے اور اللہ کی راہ میں لڑے وہ رحمتِ الٰہی کے امیداور ہیں اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔(پ2، البقرة :218)(10)اور اللہ پاک نے نماز قائم کرنے والوں کے لئے خوشخبری سنائی ہے۔اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ لَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْۚ-وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ(۲۷۷)ترجمۂ کنزالایمان : بے شک وہ جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے اور نماز قائم کی اور زکٰوۃ دی اُن کا نیگ(اجروثواب) ان کے رب کے پاس ہے اور نہ انہیں کچھ اندیشہ ہو نہ کچھ غم۔(پ 3، البقرۃ :277)


اللہ پاک نے اپنے بندوں کی رہنمائی اور ان کی حقیقی فلاح و کامرانی کے لیے جو صحیفہ خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قلب منیر پر نازل فرمایا، اسے ہم قرآن مجید کے نام سے جانتے ہیں۔ قرآن مجید پوری انسانیت کی رہنمائی کے لیے نازل کیا گیا ہے اور اس میں یہ شخص کے لیے دنیا و آخرت کی فلاح و کامرانی کا سامان مہیا کیا گیا ہے۔ لیکن اس میں کچھ مقامات ایسے ہیں جہاں پر خالق ارض و سماوات نے ” یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا “ کہہ کر بڑے پیارے بھرے انداز میں خاص طور پر ہم مسلمانوں سے خطاب فرمایا ہے ۔ اور ”اے ایمان والو“ کا لقب عطا فرما کر ہماری عزت افزائی فرمائی ہے۔ اب یہ ہمارا فرض ہے کہ بحیثیت مسلمان ہم کم از کم قرآن پاک کی ان آیات کا علم تو حاصل کر ہی لیں کہ جہاں ہمارے رب نے ہمیں خاص طور پر مخاطب کر کے کوئی پیغام عطا فر مایا ہے۔

ایمان کی تعریف: لغت میں تصدیق کرنے (سچا ماننا) کو کہتے ہیں۔( تفسیر قرطبی)

اصطلاحی تعریف: سچے دل سے اُن سب باتوں کی تصدیق کرے جو ضروریات دین سے ہیں۔ (بہار شریعت، 172/1)قرآن کریم میں کئی مقامات پر ایمان والوں کو بشارتیں دی گئی ہیں۔ جس سے ایمان والو کی شان و عظمت مزید بلند و بالا ہو جاتی ہے۔ آئیے قرآن پاک کی جن آیات میں اہل ایمان کو بحیثیت مؤمن جو احکام دیے گئے ہیں اور جن آیات میں مؤمنین کے اوصاف بیان بیان کیے گئے ان کا مطالعہ کرتے ہیں:۔

(1) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں عرض کرنے کا با ادب طریقہ: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴) ترجمۂ کنز العرفان: اے ایمان والو! راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لئے درد ناک عذاب ہے۔ (پ1،البقرة : 104) شانِ نزول: جب حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو کچھ تعلیم و تلقین فرماتے تو وہ کبھی کبھی درمیان میں عرض کیا کرتے۔ ’’رَاعِنَا یَارَسُوْلَ اللہ‘‘ اس کے یہ معنی تھے کہ یا رسول اللہ ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ، ہمارے حال کی رعایت فرمائیے یعنی کلامِ اقدس کو اچھی طرح سمجھ لینے کا موقع دیجئے۔ یہودیوں کی لغت میں یہ کلمہ بے ادبی کامعنی رکھتا تھا اور انہوں نے اسی بری نیت سے کہنا شروع کردیا۔ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ یہودیوں کی اصطلاح سے واقف تھے۔ آپ نے ایک روز یہ کلمہ ان کی زبان سے سن کر فرمایا: اے دشمنانِ خدا !تم پر اللہ کی لعنت، اگر میں نے اب کسی کی زبان سے یہ کلمہ سناتو اس کی گردن اڑا دوں گا۔ یہودیوں نے کہا: ہم پر تو آپ برہم ہوتے ہیں جبکہ مسلمان بھی تو یہی کہتے ہیں ، اس پر آپ رنجیدہ ہو کر سرکار ِ دوعالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت ِاقدس میں حاضر ہوئے ہی تھے کہ یہ آیت نازل ہوئی جس میں ’’رٰعِنَا‘‘ کہنے کی ممانعت فرمادی گئی اور اس معنی کا دوسرا لفظ ’’انۡظُرْنَا‘‘ کہنے کا حکم ہوا ۔ (قرطبی، البقرۃ، تحت الآیۃ: 104، 1/45-44، الجزء الثانی، تفسیر کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: 104، 1/634، تفسیر عزیزی(مترجم)2/669، ملتقطاً)

(2) صبر اور نماز سے مدد سے چاہنے کا حکم اور صبر والوں کی فضیلت:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِؕ-اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ(۱۵۳)ترجمہ کنز العرفان : اے ایمان والو ! صبر اور نماز سے مدد مانگو بیشک اللہ صابروں کے ساتھ ہے۔ (پ2،البقرة:153) شان نزول: اس آیت میں صبر اور نماز کا ذکر کیا جا رہا ہے کیونکہ نماز ذکر اللہ اور صبر و شکر پر ہی مسلمان کی زندگی کا حل ہوتی ہے۔ اس آیت میں فرمایا گیا کہ صبر اور نماز سے مدد مانگو ۔ صبر سے مدد طلب کرنا یہ ہے کہ عبادات کی ادائیگی، گناہوں سے رکنے اور نفسانی خواہشات کو پورا نہ کرنے پر صبر کیا جائے اور نماز چونکہ تمام عبادات کی اصل اوراہل ایمان کی معراج ہے اور صبر کرنے میں بہترین معاون ہے اس لئے اس سے بھی مدد طلب کرنے کا حکم دیاگیا اور ان دونوں کا بطور خاص اس لئے ذکر کیاگیا کہ بدن پر باطنی اعمال میں سب سے سخت صبر اور ظاہری اعمال میں سب سے مشکل نماز ہے ۔(روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: 153، 1/257، ملخصاً)

(3)حلال رزق کھانے اور اللہ پاک کا شکر ادا کرنے کا حکم : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِلّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ اِیَّاهُ تَعْبُدُوْنَ(۱۷۲) ترجمۂ کنزالعرفان : اپنے ایمان والو ! ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو۔ (پ۲،البقرة : 172) اللہ پاک نے ہمیں کھانے سے منع نہیں فرمایا بلکہ کئی مقامات پررزقِ الٰہی کھانے کا بیان کیا، جیسے سورۂ بقرہ آیت168،سورۂ مائدہ87 ،88،سورۂ اعراف آیت31، 32اورسورۂ نحل آیت 114وغیرہ ۔ الغرض اس طرح کے بیسیوں مقامات ہیں جہاں رزقِ الٰہی سے لطف اندوز ہونے کی اجازت دی گئی ہے۔ صرف یہ شرط لگائی ہے کہ حرام چیزیں نہ کھاؤ، حرام ذریعے سے حاصل کرکے نہ کھاؤ، کھا کر غافل نہ ہوجاؤ، یہ چیزیں تمہیں اطاعت ِ الٰہی سے دور نہ کردیں ، کھا پی کر اللہ پاک کا شکر ادا کرو۔ چنانچہ فرمایا: اور اللہ کا شکر ادا کرو اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو۔ ( تفسیر صراط الجنان، البقرة، تحت الآيۃ: 172)

)4(روزوں کی فرضیت کا بیان: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ(۱۸۳)ترجمۂ کنز العرفان : اے ایمان والو تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔(پ2، البقرة : 183) اس آیت میں روزوں کی فرضیت کا بیان ہے۔ شریعت میں روزہ یہ ہے کہ صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک روزے کی نیت سے کھانے پینے اور ہم بستری سے بچا جائے۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: 183، 1/119)

(5) مسلمانوں کو اللہ پاک سے ڈرنے اور بقایا سود نہ پینے کا حکم:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۲۷۸)ترجمۂ کنز العرفان: اے ایمان والو! اگر تم ایمان والے ہو تو اللہ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو۔(پ3، البقرة : 278) اس آیت میں ایمان والے کہہ کر مخاطب کیا اور ایمان کے ایک اہم تقاضے یعنی تقویٰ کا حکم دیا پھر تقویٰ کی روح یعنی حرام سے بچنے کا فرمایا اور حرام سے بچنے میں ایک کبیرہ گناہ سود کا تذکرہ کیا۔ چنانچہ فرمایا گیا کہ اگر سود کے حرام ہونے سے پہلے مقروض پر سود لازم ہو گیا تھا اور اب تک کچھ سود لے لیا تھا اور کچھ باقی تھا کہ یہ سود کے حرام ہونے کا حکم آگیا تو جو سود اس سے پہلے لیا تھا وہ واپس نہ کیا جائے گا لیکن آئندہ بقایا سود نہ لیا جائے گا۔

(6)تقویٰ اور ایمان پہ خاتمے کا حکم: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ(۱۰۲)ترجمۂ کنز الایمان: اے ایمان والو اللہ سے ڈرو جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور ہر گز نہ مرنا مگر مسلمان ۔(پ4،آل عمرٰن:102) تفسیر صراط الجنان: ارشاد فرمایا کہ اللہ پاک سے ایسا ڈرو جیسا ڈرنے کا حق ہے ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ بَقدرِ طاقت اللہ پاک سے ڈرو۔ اس کی تفسیر وہ آیت ہے جس میں فرمایا گیا: فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ ترجمۂ کنزُالعِرفان:تو اللہ سے ڈرو جتنی طاقت رکھتے ہو۔(سورۂ تغابن:16)نیز آیت کے آخری حصے میں فرمایا کہ اسلام پر ہی تمہیں موت آئے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اپنی طرف سے زندگی کے ہر لمحے میں اسلام پر ہی رہنے کی کوشش کرو تاکہ جب تمہیں موت آئے تو حالت ِ اسلام پرہی آئے۔( تفسیر صراط الجنان،آل عمرٰن،تحت الآیۃ:102)

(7)کافروں کی ہدایات پر چلنے کا نقصان: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تُطِیْعُوا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یَرُدُّوْكُمْ عَلٰۤى اَعْقَابِكُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خٰسِرِیْنَ (۱۴۹) ترجمۂ کنز العرفان: اے اپنے ایمان والو! اگر تم کافروں کے کہنے پر چلے تو وہ تمہیں الٹے پاؤں پھیر دیں گے پھر تم نقصان اٹھا کر پلٹو گے۔ (پ4، آل عمرٰن: 149) یہاں مسلمانوں کو بہت واضح الفاظ میں سمجھایا گیا ہے کہ اگر تم کافروں کے کہنے پر چلو گے یا ان کے پیچھے چلو گے خواہ وہ یہودی ہوں یا عیسائی یامنافق یامشرک، جس کے کہنے پر بھی چلو گے وہ تمہیں کفر ، بے دینی، بدعملی اور اللہ پاک کی نافرمانی کی طرف ہی لے کر جائیں گے اور اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ تم آخرت کے ساتھ ساتھ اپنی دنیا بھی تباہ کربیٹھو گے۔ کتنے واضح اور کھلے الفاظ میں فرمادیا کہ کافروں سے ہدایات لے کر چلو گے تو وہ تمہاری دنیا و آخرت تباہ کردیں گے اور آج تک کا ساری دنیامیں مشاہدہ بھی یہی ہے لیکن حیرت ہے کہ ہم پھر بھی اپنا نظام چلانے میں ، اپنے کردار میں ، اپنے کلچر میں ، اپنے گھریلو معاملات میں ، اپنے کاروبار میں ہرجگہ کافروں کے کہنے پر اور ان کے طریقے پر ہی چل رہے ہیں ، جس سے ہمارا ربّ کریم ہمیں بار بار منع فرمارہا ہے۔ (تفسیر صراط الجنان، آل عمرٰن ،تحت الآیۃ : 149)

(8) اطاعت رسول اور اطاعت امیر کا حکم:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ-فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِؕ-ذٰلِكَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا۠(۵۹) ترجمۂ کنزُالعِرفان :اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور ان کی جو تم میں سے حکومت والے ہیں ۔ پھر اگر کسی بات میں تمہارا اختلاف ہو جائے تو اگر اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو تو اس بات کو اللہ اور رسول کی بارگاہ میں پیش کرو ۔ یہ بہتر ہے اور اس کا انجام سب سے اچھا ہے ۔ (پ5،النسآء : 59)یہاں آیت میں رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت اللہ پاک ہی کی اطاعت ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جس نے میری اطاعت کی اُس نے اللہ پاک کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اُس نے اللہ پاک کی نافرمانی کی ۔ (بخاری، کتاب الجهاد والسیر، باب یقاتل من وراء الامام ویتقی به، 2/ 297،حدیث : 2957)

رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت کے بعد امیر کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے ۔ صحیح بخاری کی سابقہ حدیث میں ہی ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جس نے امیر کی اطاعت کی اُس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اُس نے میری نافرمانی کی ۔ (بخاری، کتاب الجهاد والسیر، باب یقاتل من وراء الامام ویتقی به، 2/ 297، حدیث : 2957)

(9)مال، اولاد اللہ کی یاد سے غافل نہ کریں: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِۚ-وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ(۹)ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کردیں اور جو ایسا کرے گاتو وہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں ۔(پ28،المنٰفقون:9)اس سے پہلی آیات میں منافقوں کے اَحوال بیان کئے گئے اور اب یہاں سے ایمان والوں کو نصیحت کی جا رہی ہے کہ اے ایمان والو! منافقوں کی طرح تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ پاک کے ذکر سے غافل نہ کردے اور جوایسا کرے گا کہ دنیا میں مشغول ہو کر دین کو فراموش کردے گا، مال کی محبت میں اپنے حال کی پروا ہ نہ کرے گا اور اولاد کی خوشی کیلئے آخرت کی راحت سے غافل رہے گاتو ایسے لوگ ہی نقصان اٹھانے والے ہیں کیونکہ اُنہوں نے فانی دنیا کے پیچھے آخرت کے گھرکی باقی رہنے والی نعمتوں کی پرواہ نہ کی۔( خازن، المنافقون، تحت الآیۃ: 9، 4/274، مدارک، المنافقون، تحت الآیۃ: 9، ص1245، ملتقطاً)

(10) مسلمانوں کو اللہ سے ڈرتے رہنے اور فکر آخرت کا حکم : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ لْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍۚ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ (۱۸) ترجمۂ کنزُالعِرفان : اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور ہر جان دیکھے کہ اس نے کل کے لیے آگے کیا بھیجا ہے اور اللّٰہ سے ڈرو بیشک اللہ تمہارے اعمال سے خوب خبردار ہے ۔ (پ28،الحشر : 18) گزشتہ آیات میں یہودیوں کی عہد شکنی اور منافقین کے مکر و فریب کو بیان کیا گیا اور اب یہاں سے ایمان والوں کو نصیحت کی جا رہی ہے ، چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو!تم جو کام کرتے ہو اور جو چھوڑتے ہو ہر ایک میں اللہ پاک سے ڈرو اور اس کے حکم کی مخالفت نہ کرو اور ہر جان دیکھے کہ اس نے قیامت کے دن کے لئے کیا اعمال کیے اور تمہیں مزید تاکید کی جاتی ہے کہ اللہ پاک سے ڈرو اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری میں سرگرم رہو، بیشک اللہ پاک تمہارے اعمال سے خبردار ہے (لہٰذا جب گناہ کرنے لگوتو سوچ لو کہ اللہ پاک ہمارے اس گناہ کو دیکھ رہا ہے ، وہ قیامت کے دن اس کا حساب لے گا اور اس کی سزا دے گا) ۔ ( روح البیان، الحشر، تحت الاٰیۃ : 18، 9 / 447)اللہ پاک اس آیت (یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا) کی برکت سے پورے قرآن مجید کو اس کے حقوق کی رعایت کے ساتھ پڑھنے، اسے سمجھنے اور اس بہ کما حقہ عمل کرنے کی سعادت عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


بشارت ایسا لفظ ہے جس سے  امید کی کرنیں پھوٹتی ہیں، جوش و جذبہ کو تازگی ملتی ہے، یہ لفظ ناامیدی اور مایوسی کو ختم کرتا ہے جس سے ذہنی سکون اور اطمینان قلب نصیب ہوتا ہے۔قرآن کریم میں ایمان والوں کے لیے مختلف بشارتیں بیان کی گئی دس پیش خدمت ہیں :

(1) اللہ کی مدد اور فتح کی بشارت :اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے : وَ اُخْرٰى تُحِبُّوْنَهَاؕ-نَصْرٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ فَتْحٌ قَرِیْبٌؕ-وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۳)َترجمۂ کنز الایمان: اور ایک نعمت تمہیں اور دے گا جو تمہیں پیاری ہے اللہ کی مدد اور جلد آنے والی فتح اور اے محبوب مسلمانوں کو خوشی سنادو۔ (پ28 ، الصف: 13) (2) فضل کبیر کی بشارت۔فرمان باری ہے: وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ بِاَنَّ لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ فَضْلًا كَبِیْرًا(۴۷)ترجمۂ کنزُالایمان: اور ایمان والوں کو خوشخبری دو کہ ان کے لیے اللہ کا بڑا فضل ہے۔( پ21 ، الاحزاب:47)

(3)نیک صفات سے متصف مؤمنین کے لیے جنت کی بشارت:خالق کائنات نے فرمایا: اَلتَّآىٕبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآىٕحُوْنَ الرّٰكِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّاهُوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ الْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰهِؕ-وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۱۲)ترجمۂ کنز الایمان: توبہ والے عبادت والے سراہنے والے روزے والے رکوع والے سجدہ والے بھلائی کے بتانے والے اور برائی سے روکنے والے اور اللہ کی حدیں نگاہ رکھنے والے اور خوشی سناؤ مسلمانوں کو۔(پ10 ، توبہ:112)اے حبیب! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، ان صفات سے متصف ایمان والوں کو (جنت کی) خوشخبری سنا دو۔(مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: 112، ص456)

(4)صابرین کے لیے ہدایت و رحمت کی بشارت۔خدا تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: اُولٰٓىٕكَ عَلَیْهِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ -وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُهْتَدُوْنَ(۱۵۷)ترجمہ کنزُالعرفان :یہ وہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے درود ہیں اور رحمت اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں ۔(پ 1، البقرۃ:157)(5)قرآن کے کتاب ہدایت و رحمت کی بشارت۔اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے: وَّ هُدًى وَّ رَحْمَةً وَّ بُشْرٰى لِلْمُسْلِمِیْنَ۠(۸۹)ترجمۂ کنز العرفان: اور (قرآن) مسلمانوں کیلئے ہدایت اور رحمت اور بشارت ہے۔(پ14،النحل:89)(6)متقی مؤمنین کے لئےدنیا و آخرت میں کامیابی کی بشارت۔اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا: الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَؕ(۶۳) لَهُمُ الْبُشْرٰى فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَةِؕ ترجمہ کنزُالعرفان: وہ جو ایمان لائے اور ڈرتے رہے۔ ان کے لئے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں خوشخبری ہے۔(پ11،یونس:63/64)

(7)مجاہدین کے لئے رحمتِ الہی اور رضائے الہی کی بشارت۔فرمان باری تعالیٰ ہے: یُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِّنْهُ وَ رِضْوَانٍ وَّ جَنّٰتٍ لَّهُمْ فِیْهَا نَعِیْمٌ مُّقِیْمٌۙ(۲۱)ترجمہ کنزُالعرفان: ان کا رب انہیں اپنی رحمت اور خوشنودی اور باغوں کی بشارت دیتا ہے، ان کے لئے ان باغوں میں دائمی نعمتیں ہیں ۔(پ10 ، التوبۃ:21)(8)نیک کام پر اچھے ثواب کی بشارت۔اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: وَ یُبَشِّرَ الْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمْ اَجْرًا حَسَنًاۙ(۲)ترجمۂ کنز الایمان: اور ایمان والوں کو جو نیک کام کریں بشارت دے کہ ان کے لیے اچھا ثواب ہے۔(پ15 ،الکھف:2)(9)نیک نامی یا اچھے خواب کی بشارت: خالق کائنات ارشاد فرمایا:لَهُمُ الْبُشْرٰى فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَةِؕ ترجمہ کنزالعرفان: ان کے لئے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں خوشخبری ہے۔(پ، 11 یونس: 64) اس خوشخبری سے یا تو وہ مراد ہے جو پرہیزگار ایمانداروں کو قرآنِ کریم میں جا بجادی گئی ہے یا اس سے اچھے خواب مراد ہیں بعض مفسرین نے اس بشارت سے دنیا کی نیک نامی بھی مراد لی ہے۔( مدارک، یونس، تحت الایہ 64ص478، خازن، یونس، تحت الآیۃ: 64 2/323، ملتقطاً)

(10)سننے اور عمل کرنے والوں کے لیے ہدایت اور عقل سلیم کی بشارت۔ فَبَشِّرْ عِبَادِۙ(۱۷) الَّذِیْنَ یَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَهٗؕ-اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ هَدٰىهُمُ اللّٰهُ وَ اُولٰٓىٕكَ هُمْ اُولُوا الْاَلْبَابِ(۱۸)ترجمۂ کنز الایمان: تو خوشی سناؤ میرے ان بندوں کو جو کان لگا کر بات سنیں پھر اس کے بہتر پر چلیں یہ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت فرمائی اور یہ ہیں جن کو عقل ہے۔(پ23،الزمر :17،16)


یٰۤاَیُّهَا  الَّذِیْنَ  اٰمَنُوا  اتَّقُوا  اللّٰهَ  حَقَّ  تُقٰتِهٖ  وَ  لَا  تَمُوْتُنَّ  اِلَّا  وَ  اَنْتُمْ  مُّسْلِمُوْنَ(۱۰۲)ترجمہ کنزالعرفان:اے ایمان والو اللہ سے ڈرو جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور ہرگز نہ مرنا مگر مسلمان۔(پ4،اٰل عمرٰن:102) آیت کے آخری حصے میں فرمایا کہ اسلام پر ہی تمہیں موت آئے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اپنی طرف سے زندگی کے ہر لمحے میں اسلام پر ہی رہنے کی کوشش کرو تاکہ جب تمہیں موت آئے تو حالتِ اسلام پرہی آئے۔(صراط الجنان،2/20)

جب ساری زندگی دائرہ اسلام میں رہتے ہوئے گزاری جائے یہاں تک کہ کوشش بھی یہی ہو کہ موت بھی حالتِ ایمان میں آئے تو آدمی اس کا کیا صلہ پاتا ہے؟ اللہ پاک فرماتا ہے کہ: الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَؕ(۶۳) لَهُمُ الْبُشْرٰى فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَةِؕ ترجمہ کنزالعرفان: اور وہ جو ایمان لائے اور ڈرتے رہے ان کے لئے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں خوشخبری ہے۔(پ، 11 یونس: 63، 64)اس خوشخبری سے ایک مراد یہ ہے جو پرہیزگار ایمانداروں کو قرآنِ کریم میں جا بجادی گئی ہے۔(مدارک، یونس، تحت الآیۃ: 64، ص478)

گویا کہ جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرے تو اس کے لیے اللہ پاک کی طرف سے بے شمار بشارتیں ہیں، جن خوشخبریوں کا ذکر قرآنِ مجید میں موجود ہے۔ قرآنِ مجید میں اہلِ ایمان کے لیے موجود کثیر بشارتوں میں سے 10 بشارتیں پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں اور اپنے ایمان کو مزید پختہ و کامل کرنے کی کوشش کرتے ہیں:

(1)ان کے لئے باغات ہونگے جن میں پھل اور پاکیزہ بیبیاں ہونگی اور جن کے نیچے نہریں جاری ہونگی۔(پ1،البقرۃ:25)(2)انہیں کوئی خوف ہوگا نہ کوئی غم۔(پ3،البقرۃ: 277) (3)ان کی لیے بڑا ثواب ہوگا۔(پ6،مائدہ:9)(4)ان کی لئے خوشی ہوگی اور اچھا انجام ہوگا۔ (پ13،الرعد:29)(5)اچھی زندگی دی جائے گی۔(پ14،النحل:97)(6)لوگوں کے دلوں میں انکی محبت پیدا کر دی جائے گی(پ16،مریم:96)(7)انکی برائیاں مٹادی جائینگی۔ (پ20،عنکبوت:7)(8)انہیں نیک بندوں میں داخل کیا جائے گا۔(پ20، عنکبوت: 9) (9) ان کے لیے بخشش اور عزت کی روزی ہے۔(پ22،سبا:4)(10)اللہ پاک انہیں اپنی رحمت میں داخل فرمائے گا۔(پ25،جاثیہ:30)

یہاں یہ بات ذہن نشین ہونی چاہیے کہ مذکورہ بالا بشارتیں اور اس کے علاوہ تمام بشارتیں جو قرآن و حدیث میں مذکور ہیں، سب اس وقت حاصل ہونگی جب دنیا میں ایمان لانے کے بعد خاتمہ بھی ایمان پر ہو۔ اگر خاتمہ بالایمان ہوا تو بندہ اللہ پاک کی رحمت کے سبب تمام تر بشارتوں کا مستحق ہو جائے گا۔ اِن شَاءَ اللہ۔ لیکن اگر ساری زندگی حالتِ ایمان میں اسلام کے روشن اصولوں کے مطابق گزاری اور مرتے وقت نَعَوذُبِاللہ ایمان سلب ہو گیا تو ساری زندگی کے نیک اعمال برباد ۔ لہٰذا نیک اعمال کرنے کے ساتھ ساتھ برے خاتمے سے بھی ڈرنا چاہیے اور ہر وقت اللہ پاک سے خاتمہ بالایمان کی دعا بھی کرتے رہنا چاہیے کہ نہ جانے کب خفیہ تدبیر غالب آئے اور ہمیشہ کے لیے ٹھکانا جہنم ہو جائے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں مرتے دم تک لمحہ لمحہ اسلام پر رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارا خاتمہ بالایمان فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


ایمان والوں کی10 بشارتیں قرآنی آیات ترجمہ تفسیر اور حدیث کے ساتھ۔

(1)یٰۤاَیُّهَا  الَّذِیْنَ  اٰمَنُوا  اتَّقُوا  اللّٰهَ  حَقَّ  تُقٰتِهٖ  وَ  لَا  تَمُوْتُنَّ  اِلَّا  وَ  اَنْتُمْ  مُّسْلِمُوْنَ(۱۰۲)ترجمۂ کنزالعرفان:اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور ضرور تمہیں موت صرف اسلام کی حالت میں آئے۔(پ4،اٰل عمرٰن:102)اور ارشاد فرمایا:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ قُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًاۙ(۷۰) یُّصْلِحْ لَكُمْ اَعْمَالَكُمْ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا(۷۱) ترجمۂ کنزالعرفان: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کہا کرو۔ اللہ تمہارے اعمال تمہارے لیے سنواردے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور جو اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے اس نے بڑی کامیابی پائی۔(پ22،الاحزاب: 71،70)حضرت عطیہ سعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کوئی بندہ اُس وقت تک متقین میں شمار نہیں ہو گا جب تک کہ وہ نقصان نہ دینے والی چیز کو کسی دوسری نقصان والی چیز کے ڈر سے نہ چھوڑ دے۔(یعنی کسی جائز چیز کے ارتکاب سے ممنوع چیز تک نہ پہنچ جائے۔ )(ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، 19-باب ، 4 / 204-205، حدیث: 2459)حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تمہارا رب ایک ہے ، تمہارا باپ ایک ہے اور کسی عربی کو عجمی پر فضیلت نہیں ہے نہ عجمی کو عربی پر فضیلت ہے ، نہ گورے کو کالے پر فضیلت ہے ، نہ کالے کو گورے پر فضیلت ہے مگر صرف تقویٰ سے۔(معجم الاوسط، 3 / 329، حدیث: 4749)حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور پر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تمہارا رَب ارشاد فرماتا ہے: اس بات کا مستحق میں ہی ہوں کہ مجھ سے ڈرا جائے اور جو مجھ سے ڈرے گا تو میری شان یہ ہے کہ میں اسے بخش دوں۔ (دارمی، کتاب الرقاق، باب فی تقوی اللہ، 2 / 392، حدیث: 2724)

(2) الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَۙ(۳) ترجمۂ کنز الایمان: وہ جو بے دیکھے ایمان لائیں اور نماز قائم رکھیں اور ہماری دی ہوئی روزی میں سے ہماری راہ میں اٹھائیں ۔(پ1،البقرۃ:3) تفسیر صراط الجنان:( الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ:وہ لوگ جو بغیر دیکھے ایمان لاتے ہیں۔)یہاں سے لے کر ’’اَلْمُفْلِحُوْنَ‘‘تک کی 3 آیات مخلص مؤمنین کے بارے میں ہیں جو ظاہری اور باطنی دونوں طرح سے ایمان والے ہیں ، اس کے بعد دو آیتیں ان لوگوں کے بارے میں ہیں جو ظاہری اور باطنی دونوں طرح سے کافر ہیں اور اس کے بعد 13 آیتیں منافقین کے بارے میں ہیں جو کہ باطن میں کافر ہیں اور اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں۔ آیت کے اس حصے میں متقی لوگوں کا ایک وصف بیان کیا گیا ہے کہ وہ لوگ بغیر دیکھے ایمان لاتے ہیں۔ یعنی وہ ان تمام چیزوں پر ایمان لاتے ہیں جو ان کی نگاہوں سے پوشیدہ ہیں اور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان کے بارے میں خبر دی ہے جیسے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا جانا، قیامت کا قائم ہونا، اعمال کا حساب ہونا اور جنت و جہنم وغیرہ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہاں غیب سے قلب یعنی دل مراد ہے، اس صورت میں آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ دل سے ایمان لاتے ہیں۔ (مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: 3، ص20، تفسیر بیضاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: 3، 1 / 114، ملتقطاً)

ایمان اور غیب سے متعلق چند اہم باتیں :اس آیت میں ’’ایمان‘‘ اور’’ غیب‘‘ کا ذکر ہوا ہے اس لئے ان سے متعلق چند اہم باتیں یاد رکھیں ! (1)…’’ایمان‘‘ اسے کہتے ہیں کہ بندہ سچے دل سے ان سب باتوں کی تصدیق کرے جو ضروریات دین (میں داخل) ہیں اور کسی ایک ضرورت ِدینی کے انکار کو کفر کہتے ہیں۔(بہارِ شریعت، 1 / 172)(2)…’’ عمل‘‘ ایمان میں داخل نہیں ہوتے اسی لیے قرآن پاک میں ایمان کے ساتھ عمل کا جداگانہ ذکر کیا جاتا ہے جیسے اس آیت میں بھی ایمان کے بعد نماز و صدقہ کا ذکر علیحدہ طور پر کیا گیا ہے۔

(3) اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّهُمْ طٰٓىٕفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ تَذَكَّرُوْا فَاِذَاهُمْ مُّبْصِرُوْنَۚ(۲۰۱) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک جب شیطان کی طرف سے پرہیزگاروں کو کوئی خیال آتا ہے تو وہ فوراًحکمِ خدا یاد کرتے ہیں پھر اسی وقت ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔ (پ9، الاعراف : 201)(4)ا اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ اٰیٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِیْمَانًا وَّ عَلٰى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَۚۖ(۲)ترجمۂ کنز الایمان: ایمان والے وہی ہیں کہ جب اللہ یاد کیا جائے ان کے دل ڈر جائیں اور جب ان پر اس کی آیتیں پڑھی جائیں ان کا ایمان ترقی پائے اور اپنے رب ہی پر بھروسہ کریں۔(پ9،الانفال:2) تفسیر صراط الجنان: اس سے پہلی آیت میں اللہ پاک نے ایمان کی شرط کے ساتھ اپنی اور اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت کا حکم دیا کیونکہ کامل ایمان، کامل اطاعت کو مستلزم ہے۔ جبکہ اس آیت میں اللہ پاک نے کامل ایمان والوں کے تین اوصاف بیان فرمائے ہیں۔ (خازن، الانفال، تحت الآیۃ: 2، 2 / 175-176)

کامل ایمان والوں کے تین اوصاف: اس آیت میں اپنے ایمان میں سچے اور کامل لوگوں کا پہلا وصف یہ بیان ہوا کہ جب اللہ پاک کویاد کیا جائے تو اُن کے دل ڈر جاتے ہیں۔ اللہ پاک کاخوف دو طرح کا ہوتا ہے: (1) عذاب کے خوف سے گناہوں کو ترک کر دینا۔ (2)اللہ پاک کے جلال، اس کی عظمت اور اس کی بے نیازی سے ڈرنا۔ پہلی قسم کا خوف عام مسلمانوں میں سے پرہیز گاروں کو ہوتا ہے اور دوسری قسم کا خوف اَنبیاء و مُرسَلین، اولیاءے کاملین اور مُقَرَّب فرشتوں کو ہوتا ہے اور جس کااللہ پاک سے جتنا زیادہ قرب ہوتا ہے اسے اتنا ہی زیادہ خوف ہوتا ہے۔ (تفسیر کبیر، الانفال، تحت الآیۃ: 2، 5 / 450 ملتقطاً)دوسرا وصف یہ بیان ہوا کہ اللہ پاک کی آیات سن کر اُن کے ایمان میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔ یہاں ایمان میں زیادتی سے ایمان کی مقدار میں زیادتی مراد نہیں بلکہ اس سے مراد ایمان کی کیفیت میں زیادتی ہے۔ تیسرا وصف یہ بیان ہوا کہ وہ اپنے رب پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔ یعنی وہ اپنے تمام کام اللہ پاک کے سپرد کر دیتے ہیں ، اس کے علاوہ کسی سے امید رکھتے ہیں اور نہ کسی سے ڈرتے ہیں۔ (خازن، الانفال، تحت الآیۃ: 2، ۲2/ 176)

(5) اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّاؕ-لَهُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَ مَغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ كَرِیْمٌۚ(۴) ترجمۂ کنز الایمان: یہی سچے مسلمان ہیں ان کے لیے درجے ہیں ان کے رب کے پاس اور بخشش ہے اور عزت کی روزی۔(پ9،الانفال:4) تفسیر صراط الجنان: انہیں سچے مسلمان کا لقب اس لئے عطا ہو اکہ جہاں ان کے دل خَشیتِ الٰہی، اخلاص اور توکل جیسی صفاتِ عالیہ سے مُتّصف ہیں وہیں ان کے ظاہری اعضاء بھی رکوع و سجود اور راہِ خدا میں مال خرچ کرنے میں مصروف ہیں۔ (بیضاوی، الانفال، تحت الآیۃ: 4، 3/ 88-89){لَهُمْ دَرَجٰتٌ: ان کے لیے درجے ہیں۔} اس آیت میں ما قبل مذکور پانچ اوصاف کے حامل مؤمنین کے لئے تین جزائیں بیان کی گئی ہیں :(1)…ان کیلئے ان کے رب کے پاس درجات ہیں۔ یعنی جنت میں ان کے لئے مَراتب ہیں اور ان میں سے بعض بعض سے اعلیٰ ہیں کیونکہ مذکورہ بالا اوصاف کو اپنانے میں مؤمنین کے اَحوال میں تَفاوُت ہے اسی لئے جنت میں ان کے مراتب بھی جدا گانہ ہیں۔(2)…ان کے لئے مغفرت ہے ۔یعنی ان کے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔(3)… اور عزت والا رزق ہے۔ یعنی وہ رزق ہے جو اللہ پاک نے ان کیلئے جنت میں تیار فرمایا ہے۔ اسے عزت والا اس لئے فرمایا گیا کہ انہیں یہ رزق ہمیشہ تعظیم و اکرام کے ساتھ اور محنت و مشقت کے بغیرعطا کیا جائے گا۔( خازن، الانفال، تحت الآیۃ: 4، 2 / 178)

(6) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّكُمْ فُرْقَانًا وَّ یُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَ یَغْفِرْ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ(۲۹) ترجمۂ کنز الایمان: اے ایمان والو اگر اللہ سے ڈرو گے تو تمہیں وہ دے گا جس سے حق کو باطل سے جدا کرلو اور تمہاری برائیاں اتار دے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔(پ9،الانفال:29) تفسیر صراط الجنان: جو شخص رب تعالیٰ سے ڈرے اور اس کے حکم پر چلے تواللہ پاک اسے تین خصوصی انعام عطا فرمائے گا ۔ پہلا انعام یہ کہ اسے فُرقان عطا فرمائے گا۔ یعنی اللہ پاک اس کے دل کو ایسا نور اور توفیق عطا کرے گا جس سے وہ حق و باطل کے درمیان فرق کر لیا کرے۔ (خازن، الانفال، تحت الآیۃ: 29، 2 / 191)دوسرا انعام یہ کہ اس کے سابقہ گناہ مٹا دیئے جائیں گے اور تیسرا نعام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے عیبوں کو چھپا لے گا۔

(7) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوْا وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِیْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ(۴۵) ترجمۂ کنز الایمان: اے ایمان والو جب کسی فوج سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کی یاد بہت کرو کہ تم مراد کو پہنچو۔(پ10،الانفال:45) تفسیر صراط الجنان: اس سے پہلی آیات میں اللہ پاک نے ان نعمتوں کو بیان فرمایا جو ا س نے جنگِ بدر میں اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور ان کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو عطا فرمائی تھیں اور اس آیت میں اللہ پاک نے مسلمانوں کو جنگ کے دو آداب تعلیم فرمائے ہیں۔

(8) وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ هَاجَرُوْا وَ جٰهَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ الَّذِیْنَ اٰوَوْا وَّ نَصَرُوْۤا اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّاؕ-لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ كَرِیْمٌ(۷۴) ترجمۂ کنز الایمان: اور وہ جو ایمان لائے اور ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں لڑے اور جنہوں نے جگہ دی اور مدد کی وہی سچے ایمان والے ہیں ان کے لیے بخشش ہے اور عزت کی روزی۔(پ10،الانفال:74) تفسیر صراط الجنان: اس سے پہلی آیت میں مہاجرین و انصار کے باہمی تَعَلُّقات اور ان میں سے ہر ایک کا دوسرے کے مُعین و مددگار ہونے کا بیان تھا اور اس آیت میں ان دونوں کے ایمان کی تصدیق اور ان کے رحمتِ الہٰی کے مستحق ہونے کا ذکر ہے۔ اس آیت سے مہاجرین اور انصار کی عظمت و شان بیان کرنا مقصود ہے کہ مہاجرین نے اسلا م کی خاطر اپنے آبائی وطن کو چھوڑ دیا، اپنے عزیز، رشتہ داروں سے جدائی گوارا کی، مال و دولت، مکانات ا ور باغات کو خاطر میں نہ لائے۔ اسی طرح انصار نے بھی مہاجرین کو مدینہ منورہ میں اس طرح ٹھہرایا کہ اپنے گھر اور مال و مَتاع میں برابر کا شریک کر لیا ، یہ سچے اور کامل مؤمن ہیں ، ان کے لئے گناہوں سے بخشش اور جنت میں عزت کی روزی ہے۔(مدارک، الانفال، تحت الآیۃ: 74، ص423، تفسیر کبیر، الانفال، تحت الآیۃ: 74، 5 / 519، ملتقطاً)

(9) یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَتْكُمْ مَّوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِۙ۬-وَ هُدًى وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ(۵۷) ترجمۂ کنز الایمان: اے لوگو تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آئی اور دلوں کی صحت اور ہدایت اور رحمت ایمان والوں کے لیے۔(پ11،یونس:57)(10)اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَهُمْ اَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْنٍؕ(۶) ترجمۂ کنز الایمان: مگر جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے کہ انہیں بے حد ثواب ہے۔( پ30، التين:6) تفسیر صراط الجنان: یعنی جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کئے تو ان کیلئے بے انتہا ثواب ہے اگرچہ بڑھاپے کی کمزوری کے باعث وہ جوانی کی طرح کثیر عبادات بجا نہ لا سکے اور ان کے عمل کم ہو جائیں لیکن اللہ پاک کے کرم سے انہیں وہی اجر ملے گا جو جوانی اور قوت کے زمانہ میں عمل کرنے سے ملتا تھا اور ان کے اتنے ہی عمل لکھے جائیں گے جتنے جوانی میں لکھے جاتے تھے اور جہنم کے سب سے نچلے دَرکات ان کا ٹھکانہ نہ ہو گا۔( خازن، والتین، تحت الآیۃ: 6، 4 / 391، مدارک، التین، تحت الآیۃ: 6، ص1361، ملتقطاً)

اسی طرح کا معاملہ ایک حدیث پاک میں بھی بیان کیاگیا ہے ،چنانچہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول ُاللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مسلمان بندہ جب بیمار ہو جائے یا سفر میں ہو تو ا س کے لئے ان اعمال کا ثواب لکھا جائے گاجو وہ تندرست اور مقیم ہونے کی حالت میں کیا کرتا تھا(لیکن بیماری یا سفر کی وجہ سے نہ کر پایا)۔( مسند امام احمد، مسند الکوفیین، حدیث ابی موسی الاشعری رضی اللہ عنہ، 7 / 177، حدیث: 19774)

آیت’’ اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ‘‘سے حاصل ہونے والی معلومات: اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں:(1)… ایمان، اعمال پر مقدم ہے اورایمان کے بغیرکوئی نیکی درست نہیں ۔(2)… لمبی عمر ملنا اور اعمال کا نیک ہونا بہت بڑی نعمت ہے۔حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ایک اَعرابی نے بارگاہِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں عرض کی: یا رسولَ اللہ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، لوگوں میں سب سے بہتر کون ہے؟ ارشاد فرمایا: وہ شخص سب سے بہتر ہے جس کی عمر لمبی ہو اور عمل نیک ہوں ۔ اس نے عرض کی: لوگوں میں سب سے برا کون ہے؟ ا رشاد فرمایا:’’وہ شخص سب سے برا ہے جس کی عمر لمبی ہو اور عمل برے ہوں ۔( ترمذی، کتاب الزہد، 22-باب منہ، 4 / 148، حدیث: 2337)


بشارت کا مطلب ہے خوشخبری، نوید اور یہ وہ الفاظ ہیں کہ جن کو سن کے غمزدہ ،پریشان اور زندگی سے تنگ لوگوں کو ایک مرتبہ پھر جینے ، آگے بڑھنے اور مشکلات سے لڑنے کی ہمت پیدا ہو جاتی ہے۔ اور اللہ پاک کی سنت کریمہ ہے کہ جہاں کافروں کو عذاب سے ڈرایا تو وہیں مؤمنین کو اجرو ثواب اور جنت کی نوید بہی سنائی۔

(1) جنت کی بشارت۔ قرآن کریم میں ہے: ترجمۂ کنز الایمان: اور خوشخبری دے انہیں جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے کہ ان کے لیے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں رواں۔ (پ 1، البقرۃ :25)(2) دنیا میں نیک نامی کی بشارت۔ترجمۂ کنز الایمان: انہیں خوشخبری ہے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں اللہ کی باتیں بدل نہیں سکتیں یہی بڑی کامیابی ہے۔(پ11،یونس:64) بعض مفسرین نے اس بشارت سے دنیا کی نیک نامی بھی مراد لی ہے۔(صراط الجنان،4/348) (3) مقام ومرتبہ کی بشارت۔ ترجمۂ کنز الایمان: اور ایمان والوں کو خوشخبری دو کہ ان کے لیے ان کے رب کے پاس سچ کا مقام ہے۔ (پ11، یونس:2)

(4) بہترین اجر کی بشارت۔ ترجمۂ کنز الایمان :اور ایمان والوں کو جو نیک کام کریں بشارت دے کہ ان کے لیے اچھا ثواب ہے۔ جس میں ہمیشہ رہیں گے۔ (پ۱۵،الکھف:2) (5)رب کے فضل کی بشارت۔ترجمۂ کنز الایمان : اور ایمان والوں کو خوشخبری دو کہ ان کے لیے اللہ کا بڑا فضل ہے۔(پ22،الاحزاب:47)(6) فرشتے بشارت دینے آتے ہیں۔ ترجمۂ کنز الایمان: بے شک وہ جنہوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر قائم رہے اُن پر فرشتے اترتے ہیں کہ نہ ڈرو اور نہ غم کرو اور خوش ہو اس جنت پر جس کا تمہیں وعدہ دیا جاتا تھا۔ (پ24،حٰمٓ السجدۃ :30)(7) بتوں کی عبادت کو چھوڑ نے پر رب کی طرف سے بشارت ۔ ترجمۂ کنز الایمان: اور وہ جو بتوں کی پوجا سے بچے اور اللہ کی طرف رجوع ہوئے انہیں کے لیے خوشخبری ہے تو خوشی سناؤ میرے ان بندوں کو (پ23،الزمر:17) (8)عزت والے ثواب کی بشارت ۔ ترجمۂ کنز الایمان: تم تو اُسی کو ڈر سناتے ہو جو نصیحت پر چلے اور رحمٰن سے بے دیکھے ڈرے تو اُسے بخشش اور عزت کے ثواب کی بشارت دو۔ (پ22، یٰسٓ:11)تفسیر صراط الجنان: اے حبیب! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، آپ کے ڈر سنانے اور خوف دلانے سے وہی نفع اٹھاتا ہے جو قرآنِ مجید کی پیروی کرے اور اس میں دئیے گئے احکامات پر عمل کرے اور اللہ پاک کے غیبی عذاب سے پوشیدہ اور اعلانیہ ہر حال میں ڈرے اور جس کا یہ حال ہے تو آپ اسے گناہوں کی بخشش اور عزت کے ثواب جنت کی بشارت دے دیں ۔(صراط الجنان،227/8)

(9) اللہ پاک سے عہد وفا پر جنت کی بشارت۔ ترجمۂ کنز الایمان: توبہ والے عبادت والے سراہنے والے روزے والے رکوع والے سجدہ والے بھلائی کے بتانے والے اور برائی سے روکنے والے اور اللہ کی حدیں نگاہ رکھنے والے اور خوشی سناؤ مسلمانوں کو ۔(پ11،التوبۃ:112)تفسیر صراط الجنان: تمام گناہوں سے توبہ کرنے والے۔ اللہ پاک کے فرمانبردار بندے جو اخلاص کے ساتھ اس کی عبادت کرتے ہیں اور عبادت کو اپنے اوپر لازم جانتے ہیں۔ جو ہر حال میں اللہ پاک کی حمد کرتے ہیں۔ نمازوں کے پابند اور ان کو خوبی سے ادا کرنے والے ہیں۔ نیکی کا حکم دینے والے اور برائی سے روکنے والے اور اس کے احکام بجا لانے والے یہ لوگ جنتی ہیں۔ اور اے حبیب! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، مسلمانوں کو خوشخبری سنا دو کہ وہ اللہ پاک کا عہد وفا کریں گے تو اللہ پاک انہیں جنت میں داخل فرمائے گا۔( صراط الجنان،4/248) (10) متقین کے لئے بشارت۔ترجمۂ کنز الایمان: اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ تمہیں اس سے ملنا ہے اور اے محبوب بشارت دو ایمان والوں کو۔ (پ2،البقرۃ:223)


خوش نصیب ہے وہ انسان جس کو اللہ پاک نے ایمان جیسی عظیم دولت سے مشرف فرمایا یہ عظیم دولت دنیا و مافیہا کی دولت سے بہتر ہے کہ اس عظیم دولت پر ہی جنت کی عظیم اور ابدی نعمت کو حاصل کرنے کا دارومدار ہے۔ جو شخص ایمان کی حالت میں اس دنیا فانی سے رخصت ہوا اللہ پاک اس کو جنت میں داخل فرمائے گا چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَعَدَ اللّٰهُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا وَ مَسٰكِنَ طَیِّبَةً فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍؕترجمہ کنزالعرفان: اللہ نے مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں سے جنتوں کا وعدہ فرمایا ہے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں ، ان میں ہمیشہ رہیں گے اور عدن کے باغات میں پاکیزہ رہائشوں کا (وعدہ فرمایا ہے) ۔(پ 10،التوبۃ: 72)

اور جو معاذ اللہ اس دنیا فانی سے ایمان سلامت لے کر نہ گیا اس کے لئے ہمیشہ جہنم میں رہنے کا عذاب ہے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ مَاتُوْا وَ هُمْ كُفَّارٌ اُولٰٓىٕكَ عَلَیْهِمْ لَعْنَةُ اللّٰهِ وَ الْمَلٰٓىٕكَةِ وَ النَّاسِ اَجْمَعِیْنَۙ(۱۶۱) خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۚ-لَا یُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَ لَا هُمْ یُنْظَرُوْنَ(۱۶۲)ترجمۂ کنزالعرفان: بیشک وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا اور کافر ہی مرے ان پراللہ اور فرشتوں او ر انسانوں کی ،سب کی لعنت ہے ۔ وہ ہمیشہ اس (لعنت) میں رہیں گے، ان پر سے عذاب ہلکا نہ کیا جائے گا اور نہ انہیں مہلت دی جائے گی۔ (پ1، البقرۃ: 161 تا162)

ایمان کی تعریف: لغوی معنی تصدیق کرنا یعنی سچا مان لینا اور اصطلاحِ شرع میں ایمان کے معنی ہیں سچے دل سے ان سب باتوں کی تصدیق کرنا جو ضروریات دین سے ہیں اور کسی ایک ضرورت دینی کے انکار کو کفر کہتے ہیں، اگرچہ باقی ضروریات کی تصدیق کرتا ہو۔ (بہار شریعت حصہ اول ص 172)

اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ ایمان کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں: محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ہر بات میں سچا جانے، حضور کی حقانیت کو صدق دل سے ماننا، ایمان ہے جو اس کا مقر (قرار کرنے والا) ہو اسے مسلمان جانیں گے جبکہ اس کے کسی قول یا فعل یا حال میں اللہ و رسول کا انکار یا تکذیب یعنی (جھٹلانا) یا توہین نہ پائی جائے۔(فتویٰ رضویہ ،29 / 254)

ایمان کی تعریف میں جو ضروریات دین کا لفظ ذکر ہوا اس سے مراد وہ دینی باتیں ہیں جن کا دین سے ہونا ایسے قطعی یقینی دلیل سے ثابت ہو جس میں ذرہ برابر شبہ نہ ہو اور ان کا دینی بات ہونا ہر عام و خاص کو معلوم ہو جیسے اللہ پاک کی وحدانیت، انبیا کی نبوت، جنت و دوزخ، حشر ونشر وغیرہ۔خاص سے مراد علما اور عام سے مراد وہ لوگ ہیں جو عالم نہیں مگر علما کی صحبت میں رہتے ہوں۔(بہار شریعت ،/1 172)

ایمان والوں کے لیے اللہ پاک نے قرآن پاک میں بے شمار دینی اور دنیوی بشارت عطا فرمائی ہیں جن میں سے چند یہ ہیں:۔ (1)ایمان والوں پر اللہ کا بڑا فضل ہے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ بِاَنَّ لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ فَضْلًا كَبِیْرًا(۴۷) ترجمۂ کنزالعرفان: اور ایمان والوں کو خوشخبری دے دو کہ ان کے لئے اللہ کا بڑا فضل ہے۔(پ 22 ، الاحزاب: 47)

(2) مؤمن کے لیے عزت کی خوشخبری ہے۔اللہ ارشاد فرماتا ہے:وَ لِلّٰهِ الْعِزَّةُ وَ لِرَسُوْلِهٖ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَترجمۂ کنزالعرفان: عزت تو اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں ہی کے لیے ہے۔(پ، 28 المنٰفقون: 8) (3) مؤمن کے لیے اللہ کے پاس اچھا مقام ہے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ بَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنَّ لَهُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْترجمۂ کنزالعرفان: ایمان والوں کو خوشخبری دے دو کہ ان کے لئے ان کے رب کے پاس سچا مقام ہے۔( پ،11 ،یونس: 2)

(4) مؤمن کے لیے دنیا اور آخرت میں خوشخبری ہے۔اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَؕ(۶۳) لَهُمُ الْبُشْرٰى فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَةِؕ ترجمہ کنزالعرفان: اور وہ جو ایمان لائے اور ڈرتے رہے ان کے لئے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں خوشخبری ہے۔(پ، 11 یونس: 63، 64) (5) مؤمن پر قیامت کے دن نہ کوئی خوف ہوگا نہ غم۔اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:یٰعِبَادِ لَا خَوْفٌ عَلَیْكُمُ الْیَوْمَ وَ لَاۤ اَنْتُمْ تَحْزَنُوْنَۚ(۶۸) اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ كَانُوْا مُسْلِمِیْنَۚ(۶۹)ترجمہ کنزالعرفان: (ان سے فرمایا جائے گا)اے میرے بندو آج نہ تم پر خوف ہے اور نہ تم غمگین ہو گے وہ جو ہمارے آیتوں پر ایمان لائے اور وہ فرما بردار تھے۔(پ25 ،الزخرف: 68، 69)

(6) مؤمن کیلئے قیامت کے دن پل صراط پر نور ہو گا۔اللہ ارشاد فرماتا ہے: یَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ یَسْعٰى نُوْرُهُمْ بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ بِاَیْمَانِهِمْترجمۂ کنزالعرفان: جس دن تم مؤمن مردوں اور ایمان والی عورتوں کو دیکھو گے کہ ان کا نور ان کے آگے اور ان کی دائیں جانب دوڑ رہا ہے۔(پ 27، الحدید: 12)

(7)مؤمنوں کے لیے نعمتوں کے باغ ہوں گے۔ اللہ ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ یَهْدِیْهِمْ رَبُّهُمْ بِاِیْمَانِهِمْۚ-تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهِمُ الْاَنْهٰرُ فِیْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ(۹) ترجمہ کنزالعرفان: بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے اعمال کیے ان کا رب ان کے ایمان کے سبب ان کی رہنمائی فرمائے گا ان کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور نعمتوں کے باغوں میں ہوں گے۔(پ11،یونس: 9)

(8) ایمان والوں کی برائیاں مٹا دی جاتی ہیں۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُبَوِّئَنَّهُمْ مِّنَ الْجَنَّةِ غُرَفًا تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاؕ-نِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِیْنَۗۖ(۵۸)ترجمۂ کنزالعرفان: اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کیے تو ہم ضرور ان سے ان کی برائیاں مٹا دیں گے اور انہیں ان کے اچھے اعمال کا بدلہ دیں گے۔(پ21، العنکبوت: 58)

(9) ایمان والے ہمیشہ جنت میں رہیں گے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَۚ(۱۳) اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۚ-جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۱۴)ترجمۂ کنزالعرفان: بیشک جنہوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے پھر ثابت قدم رہے تو ان پر نہ کوئی خوف ہے نہ وہ غمگین ہوں گے وہ جنت والے ہیں ہمیشہ اس میں رہیں گے انہیں ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔(پ26، الاحقاف:13، 14)

(10)مؤمن کے لئے سب سے بڑی بشارت کہ اسے جنت میں اللہ پاک کا دیدار ہوگا۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وُجُوْهٌ یَّوْمَىٕذٍ نَّاضِرَةٌۙ(۲۲) اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌۚ(۲۳)ترجمۂ کنزالعرفان: کچھ چہرے اس دن تروتازہ ہوں گے اپنے رب کو دیکھنے والے ہوں گے۔(پ29، القیامہ: 22، 23)

خزائن العرفان میں اس آیت کے تحت فرمایا: مؤمن کو دیدار الہی کی نعمت سے سرفراز فرمایا جائے گا اس آیت سے ثابت ہوا کہ آخرت میں مؤمنین کو دیدار الہی میسر آئے گا یہی اہل سنت کا عقیدہ قرآن و حدیث و اجماع کے دلائل کثیرہ اس پر قائم ہیں اور یہ دیدار بے کیف اور بے جہت ہو گا۔(خزائن العرفان، ص: 1079)

اللہ پاک سے دعا ہے ہم سب کا خاتمہ ایمان پر فرمائے اور جنت کی ابدی نعمتوں سے مشرف فرمائے اور کافروں کو اپنے کفر سے توبہ کرنے اور ایمان قبول کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم