اللہ پاک نے اپنے بندوں کی رہنمائی اور ان کی حقیقی فلاح و کامرانی کے لیے جو صحیفہ خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قلب منیر پر نازل فرمایا، اسے ہم قرآن مجید کے نام سے جانتے ہیں۔ قرآن مجید پوری انسانیت کی رہنمائی کے لیے نازل کیا گیا ہے اور اس میں یہ شخص کے لیے دنیا و آخرت کی فلاح و کامرانی کا سامان مہیا کیا گیا ہے۔ لیکن اس میں کچھ مقامات ایسے ہیں جہاں پر خالق ارض و سماوات نے ” یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا “ کہہ کر بڑے پیارے بھرے انداز میں خاص طور پر ہم مسلمانوں سے خطاب فرمایا ہے ۔ اور ”اے ایمان والو“ کا لقب عطا فرما کر ہماری عزت افزائی فرمائی ہے۔ اب یہ ہمارا فرض ہے کہ بحیثیت مسلمان ہم کم از کم قرآن پاک کی ان آیات کا علم تو حاصل کر ہی لیں کہ جہاں ہمارے رب نے ہمیں خاص طور پر مخاطب کر کے کوئی پیغام عطا فر مایا ہے۔

ایمان کی تعریف: لغت میں تصدیق کرنے (سچا ماننا) کو کہتے ہیں۔( تفسیر قرطبی)

اصطلاحی تعریف: سچے دل سے اُن سب باتوں کی تصدیق کرے جو ضروریات دین سے ہیں۔ (بہار شریعت، 172/1)قرآن کریم میں کئی مقامات پر ایمان والوں کو بشارتیں دی گئی ہیں۔ جس سے ایمان والو کی شان و عظمت مزید بلند و بالا ہو جاتی ہے۔ آئیے قرآن پاک کی جن آیات میں اہل ایمان کو بحیثیت مؤمن جو احکام دیے گئے ہیں اور جن آیات میں مؤمنین کے اوصاف بیان بیان کیے گئے ان کا مطالعہ کرتے ہیں:۔

(1) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں عرض کرنے کا با ادب طریقہ: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴) ترجمۂ کنز العرفان: اے ایمان والو! راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لئے درد ناک عذاب ہے۔ (پ1،البقرة : 104) شانِ نزول: جب حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو کچھ تعلیم و تلقین فرماتے تو وہ کبھی کبھی درمیان میں عرض کیا کرتے۔ ’’رَاعِنَا یَارَسُوْلَ اللہ‘‘ اس کے یہ معنی تھے کہ یا رسول اللہ ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ، ہمارے حال کی رعایت فرمائیے یعنی کلامِ اقدس کو اچھی طرح سمجھ لینے کا موقع دیجئے۔ یہودیوں کی لغت میں یہ کلمہ بے ادبی کامعنی رکھتا تھا اور انہوں نے اسی بری نیت سے کہنا شروع کردیا۔ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ یہودیوں کی اصطلاح سے واقف تھے۔ آپ نے ایک روز یہ کلمہ ان کی زبان سے سن کر فرمایا: اے دشمنانِ خدا !تم پر اللہ کی لعنت، اگر میں نے اب کسی کی زبان سے یہ کلمہ سناتو اس کی گردن اڑا دوں گا۔ یہودیوں نے کہا: ہم پر تو آپ برہم ہوتے ہیں جبکہ مسلمان بھی تو یہی کہتے ہیں ، اس پر آپ رنجیدہ ہو کر سرکار ِ دوعالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت ِاقدس میں حاضر ہوئے ہی تھے کہ یہ آیت نازل ہوئی جس میں ’’رٰعِنَا‘‘ کہنے کی ممانعت فرمادی گئی اور اس معنی کا دوسرا لفظ ’’انۡظُرْنَا‘‘ کہنے کا حکم ہوا ۔ (قرطبی، البقرۃ، تحت الآیۃ: 104، 1/45-44، الجزء الثانی، تفسیر کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: 104، 1/634، تفسیر عزیزی(مترجم)2/669، ملتقطاً)

(2) صبر اور نماز سے مدد سے چاہنے کا حکم اور صبر والوں کی فضیلت:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِؕ-اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ(۱۵۳)ترجمہ کنز العرفان : اے ایمان والو ! صبر اور نماز سے مدد مانگو بیشک اللہ صابروں کے ساتھ ہے۔ (پ2،البقرة:153) شان نزول: اس آیت میں صبر اور نماز کا ذکر کیا جا رہا ہے کیونکہ نماز ذکر اللہ اور صبر و شکر پر ہی مسلمان کی زندگی کا حل ہوتی ہے۔ اس آیت میں فرمایا گیا کہ صبر اور نماز سے مدد مانگو ۔ صبر سے مدد طلب کرنا یہ ہے کہ عبادات کی ادائیگی، گناہوں سے رکنے اور نفسانی خواہشات کو پورا نہ کرنے پر صبر کیا جائے اور نماز چونکہ تمام عبادات کی اصل اوراہل ایمان کی معراج ہے اور صبر کرنے میں بہترین معاون ہے اس لئے اس سے بھی مدد طلب کرنے کا حکم دیاگیا اور ان دونوں کا بطور خاص اس لئے ذکر کیاگیا کہ بدن پر باطنی اعمال میں سب سے سخت صبر اور ظاہری اعمال میں سب سے مشکل نماز ہے ۔(روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: 153، 1/257، ملخصاً)

(3)حلال رزق کھانے اور اللہ پاک کا شکر ادا کرنے کا حکم : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِلّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ اِیَّاهُ تَعْبُدُوْنَ(۱۷۲) ترجمۂ کنزالعرفان : اپنے ایمان والو ! ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو۔ (پ۲،البقرة : 172) اللہ پاک نے ہمیں کھانے سے منع نہیں فرمایا بلکہ کئی مقامات پررزقِ الٰہی کھانے کا بیان کیا، جیسے سورۂ بقرہ آیت168،سورۂ مائدہ87 ،88،سورۂ اعراف آیت31، 32اورسورۂ نحل آیت 114وغیرہ ۔ الغرض اس طرح کے بیسیوں مقامات ہیں جہاں رزقِ الٰہی سے لطف اندوز ہونے کی اجازت دی گئی ہے۔ صرف یہ شرط لگائی ہے کہ حرام چیزیں نہ کھاؤ، حرام ذریعے سے حاصل کرکے نہ کھاؤ، کھا کر غافل نہ ہوجاؤ، یہ چیزیں تمہیں اطاعت ِ الٰہی سے دور نہ کردیں ، کھا پی کر اللہ پاک کا شکر ادا کرو۔ چنانچہ فرمایا: اور اللہ کا شکر ادا کرو اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو۔ ( تفسیر صراط الجنان، البقرة، تحت الآيۃ: 172)

)4(روزوں کی فرضیت کا بیان: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ(۱۸۳)ترجمۂ کنز العرفان : اے ایمان والو تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔(پ2، البقرة : 183) اس آیت میں روزوں کی فرضیت کا بیان ہے۔ شریعت میں روزہ یہ ہے کہ صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک روزے کی نیت سے کھانے پینے اور ہم بستری سے بچا جائے۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: 183، 1/119)

(5) مسلمانوں کو اللہ پاک سے ڈرنے اور بقایا سود نہ پینے کا حکم:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۲۷۸)ترجمۂ کنز العرفان: اے ایمان والو! اگر تم ایمان والے ہو تو اللہ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو۔(پ3، البقرة : 278) اس آیت میں ایمان والے کہہ کر مخاطب کیا اور ایمان کے ایک اہم تقاضے یعنی تقویٰ کا حکم دیا پھر تقویٰ کی روح یعنی حرام سے بچنے کا فرمایا اور حرام سے بچنے میں ایک کبیرہ گناہ سود کا تذکرہ کیا۔ چنانچہ فرمایا گیا کہ اگر سود کے حرام ہونے سے پہلے مقروض پر سود لازم ہو گیا تھا اور اب تک کچھ سود لے لیا تھا اور کچھ باقی تھا کہ یہ سود کے حرام ہونے کا حکم آگیا تو جو سود اس سے پہلے لیا تھا وہ واپس نہ کیا جائے گا لیکن آئندہ بقایا سود نہ لیا جائے گا۔

(6)تقویٰ اور ایمان پہ خاتمے کا حکم: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ(۱۰۲)ترجمۂ کنز الایمان: اے ایمان والو اللہ سے ڈرو جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور ہر گز نہ مرنا مگر مسلمان ۔(پ4،آل عمرٰن:102) تفسیر صراط الجنان: ارشاد فرمایا کہ اللہ پاک سے ایسا ڈرو جیسا ڈرنے کا حق ہے ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ بَقدرِ طاقت اللہ پاک سے ڈرو۔ اس کی تفسیر وہ آیت ہے جس میں فرمایا گیا: فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ ترجمۂ کنزُالعِرفان:تو اللہ سے ڈرو جتنی طاقت رکھتے ہو۔(سورۂ تغابن:16)نیز آیت کے آخری حصے میں فرمایا کہ اسلام پر ہی تمہیں موت آئے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اپنی طرف سے زندگی کے ہر لمحے میں اسلام پر ہی رہنے کی کوشش کرو تاکہ جب تمہیں موت آئے تو حالت ِ اسلام پرہی آئے۔( تفسیر صراط الجنان،آل عمرٰن،تحت الآیۃ:102)

(7)کافروں کی ہدایات پر چلنے کا نقصان: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تُطِیْعُوا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یَرُدُّوْكُمْ عَلٰۤى اَعْقَابِكُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خٰسِرِیْنَ (۱۴۹) ترجمۂ کنز العرفان: اے اپنے ایمان والو! اگر تم کافروں کے کہنے پر چلے تو وہ تمہیں الٹے پاؤں پھیر دیں گے پھر تم نقصان اٹھا کر پلٹو گے۔ (پ4، آل عمرٰن: 149) یہاں مسلمانوں کو بہت واضح الفاظ میں سمجھایا گیا ہے کہ اگر تم کافروں کے کہنے پر چلو گے یا ان کے پیچھے چلو گے خواہ وہ یہودی ہوں یا عیسائی یامنافق یامشرک، جس کے کہنے پر بھی چلو گے وہ تمہیں کفر ، بے دینی، بدعملی اور اللہ پاک کی نافرمانی کی طرف ہی لے کر جائیں گے اور اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ تم آخرت کے ساتھ ساتھ اپنی دنیا بھی تباہ کربیٹھو گے۔ کتنے واضح اور کھلے الفاظ میں فرمادیا کہ کافروں سے ہدایات لے کر چلو گے تو وہ تمہاری دنیا و آخرت تباہ کردیں گے اور آج تک کا ساری دنیامیں مشاہدہ بھی یہی ہے لیکن حیرت ہے کہ ہم پھر بھی اپنا نظام چلانے میں ، اپنے کردار میں ، اپنے کلچر میں ، اپنے گھریلو معاملات میں ، اپنے کاروبار میں ہرجگہ کافروں کے کہنے پر اور ان کے طریقے پر ہی چل رہے ہیں ، جس سے ہمارا ربّ کریم ہمیں بار بار منع فرمارہا ہے۔ (تفسیر صراط الجنان، آل عمرٰن ،تحت الآیۃ : 149)

(8) اطاعت رسول اور اطاعت امیر کا حکم:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ-فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِؕ-ذٰلِكَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا۠(۵۹) ترجمۂ کنزُالعِرفان :اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور ان کی جو تم میں سے حکومت والے ہیں ۔ پھر اگر کسی بات میں تمہارا اختلاف ہو جائے تو اگر اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو تو اس بات کو اللہ اور رسول کی بارگاہ میں پیش کرو ۔ یہ بہتر ہے اور اس کا انجام سب سے اچھا ہے ۔ (پ5،النسآء : 59)یہاں آیت میں رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت اللہ پاک ہی کی اطاعت ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جس نے میری اطاعت کی اُس نے اللہ پاک کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اُس نے اللہ پاک کی نافرمانی کی ۔ (بخاری، کتاب الجهاد والسیر، باب یقاتل من وراء الامام ویتقی به، 2/ 297،حدیث : 2957)

رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت کے بعد امیر کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے ۔ صحیح بخاری کی سابقہ حدیث میں ہی ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جس نے امیر کی اطاعت کی اُس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اُس نے میری نافرمانی کی ۔ (بخاری، کتاب الجهاد والسیر، باب یقاتل من وراء الامام ویتقی به، 2/ 297، حدیث : 2957)

(9)مال، اولاد اللہ کی یاد سے غافل نہ کریں: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِۚ-وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ(۹)ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کردیں اور جو ایسا کرے گاتو وہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں ۔(پ28،المنٰفقون:9)اس سے پہلی آیات میں منافقوں کے اَحوال بیان کئے گئے اور اب یہاں سے ایمان والوں کو نصیحت کی جا رہی ہے کہ اے ایمان والو! منافقوں کی طرح تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ پاک کے ذکر سے غافل نہ کردے اور جوایسا کرے گا کہ دنیا میں مشغول ہو کر دین کو فراموش کردے گا، مال کی محبت میں اپنے حال کی پروا ہ نہ کرے گا اور اولاد کی خوشی کیلئے آخرت کی راحت سے غافل رہے گاتو ایسے لوگ ہی نقصان اٹھانے والے ہیں کیونکہ اُنہوں نے فانی دنیا کے پیچھے آخرت کے گھرکی باقی رہنے والی نعمتوں کی پرواہ نہ کی۔( خازن، المنافقون، تحت الآیۃ: 9، 4/274، مدارک، المنافقون، تحت الآیۃ: 9، ص1245، ملتقطاً)

(10) مسلمانوں کو اللہ سے ڈرتے رہنے اور فکر آخرت کا حکم : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ لْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍۚ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ (۱۸) ترجمۂ کنزُالعِرفان : اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور ہر جان دیکھے کہ اس نے کل کے لیے آگے کیا بھیجا ہے اور اللّٰہ سے ڈرو بیشک اللہ تمہارے اعمال سے خوب خبردار ہے ۔ (پ28،الحشر : 18) گزشتہ آیات میں یہودیوں کی عہد شکنی اور منافقین کے مکر و فریب کو بیان کیا گیا اور اب یہاں سے ایمان والوں کو نصیحت کی جا رہی ہے ، چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو!تم جو کام کرتے ہو اور جو چھوڑتے ہو ہر ایک میں اللہ پاک سے ڈرو اور اس کے حکم کی مخالفت نہ کرو اور ہر جان دیکھے کہ اس نے قیامت کے دن کے لئے کیا اعمال کیے اور تمہیں مزید تاکید کی جاتی ہے کہ اللہ پاک سے ڈرو اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری میں سرگرم رہو، بیشک اللہ پاک تمہارے اعمال سے خبردار ہے (لہٰذا جب گناہ کرنے لگوتو سوچ لو کہ اللہ پاک ہمارے اس گناہ کو دیکھ رہا ہے ، وہ قیامت کے دن اس کا حساب لے گا اور اس کی سزا دے گا) ۔ ( روح البیان، الحشر، تحت الاٰیۃ : 18، 9 / 447)اللہ پاک اس آیت (یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا) کی برکت سے پورے قرآن مجید کو اس کے حقوق کی رعایت کے ساتھ پڑھنے، اسے سمجھنے اور اس بہ کما حقہ عمل کرنے کی سعادت عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم