ایمان اسلام کی بنیاد ہے، ایمان کی بنیاد پر ہی  دینِ اسلام کی عمارت استوار ہوتی ہے، ایمان کی بنیاد جس قدر گہری، مضبوط اور صحیح ہوگی، اسی قدر اسلام کی عمارت مضبوط قائم ہوگی، جس طرح بنیاد کے بغیر عمارت قائم نہیں رہ سکتی، جس طرح درخت کی جڑ کے بغیر درخت قائم نہیں رہ سکتا، اسی طرح ایمان کی صحت و سلامتی کے بغیر اسلام قائم نہیں رہ سکتا، ایمان ہی اسلام کے عقیدہ توحید اور دیگر تمام عقائد کی بنیاد ہے۔

آیات مبارکہ:

وَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ١ۚ وَ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ يُوْقِنُوْنَؕ۰۰۴ترجمہ کنزالایمان:"اور وہ کہ ایمان لائیں اس پر جو اے محبوب تمہاری طرف اترا اور جو تم سے پہلے اترا اور آخرت پر یقین رکھیں۔"(سورۃ البقرہ، آیت نمبر 4)

تفسیر صراط الجنان:

وَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْكَ:اور وہ ایمان لاتے ہیں، اس پر جو تمہاری طرف نازل کیا۔

اس آیت میں اہلِ کتاب کے وہ مؤمنین مراد ہیں، جو اپنی کتاب اور تمام پچھلی آسمانی کتابوں اور انبیاء کرام علیہم السلام کے نازل ہونے والی وحیوں پر ایمان لائے اور قرآن پاک پر بھی ایمان لائے۔

مَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْكَ:سے تمام قرآن پاک اور پوری شریعت مراد ہے۔

اللہ تعالیٰ کی کتابوں وغیرہ پر ایمان لانے کا شرعی حکم:

یاد رکھیں کہ جس طرح قرآن پاک پر ایمان لانا ہر مکلف پر فرض ہے، اسی طرح پہلی کتابوں پر بھی ایمان لانا ضروری ہے، جو گذشتہ انبیاء کرام علیہم السلام پر نازل ہوئیں، البتہ ان کے جو احکام ہماری شریعت میں منسوخ ہوگئے، ان پر عمل درست نہیں، مگر پھر بھی ایمان ضروری ہے۔ مثلاً پچھلی کئی شریعتوں میں بیت المقدس قبلہ تھا، لہذا اس پر ایمان لانا تو ہمارے لئے بھی ضروری ہے، مگر عمل یعنی نماز میں بیت المقدس کی طرف منہ کرنا جائز نہیں، یہ حکم منسوخ ہو چکا ہے۔

نیز یہ بھی یاد رکھیں کہ قرآن کریم سے پہلے جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کرام علیہم السلام پر نازل فرمایا، ان سب پر اجمالاً ایمان لانا فرضِ عین ہے، یعنی یہ اعتقاد رکھا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے گزشتہ انبیاء کرام علیہم السلام پر کتابیں نازل فرمائیں اور ان میں جو کچھ بیان فرمایا، سب حق ہے ،قرآن کریم پر یوں ایمان رکھنا فرض ہے کہ ہمارے پاس موجود ہے، اس کا ایک ایک لفظ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور حق ہے، باقی تفصیلاً جاننا فرضِ کفایہ ہے، لہذا عوام پر اس کی تفصیلات کا علم حاصل کرنا فرض نہیں، جب کہ علماء موجود ہوں، جنہوں نے یہ علم حاصل کر لیا ہو۔

وَ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ يُوْقِنُوْنَؕ:ور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں، یعنی متّقی لوگ قیامت اور جو کچھ اس میں جزا و حساب وغیرہ ہے، سب پر ایسا یقین رکھتے ہیں کہ اس میں انہیں ذرا بھی شک و شبہ نہیں ہے۔

اس میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں کا آخرت کے متعلق عقیدہ درست نہیں، کیوں کہ ان میں سے ہر ایک کا یہ عقیدہ تھا کہ ان کے علاوہ کوئی جنت میں داخل نہیں ہوگا، جیسا کہ سورۃ بقرہ، آیت نمبر 111 میں ہے:"اور خصوصاً یہودیوں کا عقیدہ تھا کہ ہم اگر جہنم میں گئے تو چند دن کے لئے ہی جائیں گے، اس کے بعد سیدھے جنت میں۔"

جیسا کہ سورہ بقرہ، آیت نمبر 80 میں ہے:"اس طرح کے فاسد اور من گھڑت خیالات جب ذہن میں جم جاتے ہیں تو پھر ان کی اصلاح بہت مشکل ہوتی ہے۔"(تفسیر صراط الجنان، جلد 1، صفحہ نمبر 68،69)

وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَ مَا هُمْ بِمُؤْمِنِيْنَۘ۸

ترجمہ کنزالایمان:"اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور پچھلے دن پر ایمان لائے اور وہ ایمان والے نہیں۔"(سورہ بقرہ، آیت نمبر 8)

تفسیر صراط الجنان:

وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُوْلُ :اور کچھ لوگ کہتے ہیں، اس آیت سے لے کر 20 تک منافقوں کا حال بیان کیا جا رہا ہے، جو کہ اندرونِ خانہ کافر تھے اور اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے تھے۔

اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کچھ لوگ اپنی زبانوں سے اس طرح کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لے آئے ہیں، حالانکہ وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں، کیوں کہ ان کا ظاہر ان کے باطن کے خلاف ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ منافق ہیں۔

اس آیت سے چند باتیں معلوم ہوئیں ہیں کہ:

٭جب تک دل میں تصدیق نہ ہو، اس وقت تک ظاہری اعمال مؤمن ہونے کے لئے کافی نہیں۔

٭جو لوگ ایمان کا دعوی کرتے ہیں اور کفر کا اعتقاد رکھتے ہیں، سب منافقین ہیں۔

٭یہ اسلام اور مسلمانوں کے لئے کھلے کافروں سے زیادہ نقصان دہ ہیں۔

وَ مِنَ النَّاسِ:اور کچھ لوگ، منافقوں کو کچھ لوگ کہنے میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ گروہ بہتر صفات اور انسانی کمالات سے ایسا عادی ہے کہ اس کا ذکر کسی وصف و خوبی کے ساتھ نہیں کیا جا تا، بلکہ یوں کہا جاتا ہے کہ کچھ لوگ ہیں۔

اسی لئے انبیاء کرام علیہم السلام کو محض انسان یاصرف بشر کے لفظ سے ذکر کرنا کفار کا طریقہ ہے، جبکہ مسلمان انبیاء کرام علیہم السلام کا تذکرہ عظمت و شان سے کرتے ہیں۔"( بحوالہ تفسیر صراط الجنان، جلد 1، صفحہ نمبر 72، 73)

يُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا١ۚ وَ مَا يَخْدَعُوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ وَ مَا يَشْعُرُوْنَؕ۹

ترجمہ کنزالایمان:"فریب دیا چاہتے ہیں اللہ اور ایمان والوں کو اور حقیقت میں فریب نہیں دیتے، مگر اپنی جانوں کو اور انہیں شعور نہیں۔"(سورۃ البقرہ، آیت نمبر 9)

تفسیر صراط الجنان:

يُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ:وہ اللہ کو دھوکا دینا چاہتے ہیں، اللہ تعالیٰ سے پاک ہے کہ اسے کوئی دھوکا دے سکے، وہ تمام پوشیدہ باتوں کا جاننے والا ہے، یہاں مراد یہ ہے کہ منافقوں کے طرزِ عمل سے یوں لگتا ہے کہ وہ خدا کو فریب دینا چاہتے ہیں یا یہ کہ خدا کو فریب دینا یہی ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں، کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے نائب اور خلیفہ ہیں اور انہیں دھوکا دینے کی کوشش گویا خدا کو دھوکا دینے کی طرح ہے، لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو منافقین کے اندرونی کفر پر مطلع فرمایا تو یوں ان بے دینوں کا فریب نہ خدا پر چلے، نہ رسول پر اور نہ مؤمنوں پر، بلکہ درحقیقت وہ اپنی جانوں کو فریب دے رہے ہیں اور یہ ایسے غافل ہیں کہ انہیں اس چیز کا شعور ہی نہیں۔

ظاہر و باطن کا تضاد بہت بڑا عیب ہے کہ:

اس آیت سے معلوم ہوا کہ ظاہر و باطن کا تضاد بہت بڑا عیب ہے، یہ منافقت ایمان کے اندر ہو تو سب سے بدتر ہے اور اگر عمل میں ہے تو ایمان میں منافقت سے تو کمتر ہے، لیکن فی نفسہ سخت خبیث ہے، جس آدمی کے قول و فعل اور ظاہر و باطن میں تضاد ہوگا تو لوگوں کی نظر میں وہ سخت قابلِ نفرت ہو گا۔

ایمان میں منافقت مخصوص لوگوں میں پائی جاتی ہے، جبکہ عملی منافقت ہر سطح کے لوگوں میں پائی جا سکتی ہے۔(بحوالہ تفسیر صراط الجنان، جلد1،صفحہ نمبر 73، 74)

وَ بَشِّرِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ١ؕ كُلَّمَا رُزِقُوْا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِّزْقًا١ۙ قَالُوْا هٰذَا الَّذِيْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ١ۙ وَ اُتُوْا بِهٖ مُتَشَابِهًا١ؕ وَ لَهُمْ فِيْهَاۤ اَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ١ۙۗ وَّ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ۲۵

ترجمہ کنزالایمان:"اور خوشخبری دے انہیں جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے کہ ان کے لئے باغ ہیں، جن کے نیچے نہریں رواں جب انہیں ان باغوں سے کوئی پھل کھانے کو دیا جائے گا صورت دیکھ کر کہیں گے یہ تو وہی رزق ھے، جو ہمیں پہلے ملا تھا اور وہ صورت میں ملتا جلتا انہیں دیا گیا اور ان کے لئے ان باغوں میں ستھری بیبیاں ہیں اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔"(سورہ بقرہ، آیت نمبر 25)

تفسیر صراط الجنان:

وَ بَشِّرِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ:اور ان لوگوں کو خوشخبری دو جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کئے، اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ قرآن میں ترہیب یعنی ڈرانے کے ساتھ ترغیب بھی ذکر فرماتا ہے، اسی لئے کفار اور ان کے اعمال اور عذاب کے ذکر کے بعد مؤمنین اور ان کے اعمال و ثواب کا ذکر فرمایا اور انہیں جنت کی بشارت دی۔

صالحات:

یعنی نیکیاں وہ عمل ہیں، جو شرعاً اچھے ہوں، ان میں فرائض ونوافل داخل ہیں، یہاں بھی ایمان اور عمل کو جدا جدا بیان کیا، جس سے معلوم ہوا کہ عمل ایمان کا جزو نہیں ہیں۔

وَ اُتُوْا بِهٖ مُتَشَابِهًا :اور انہیں ملتاجلتا پھل دیا گیا، جنت کے پھل رنگت میں آپس میں ملتے جلتے ہوں گے، مگر ذائقے میں جدا جدا ہوں گے، اس لئے ایک دفعہ ملنے کے بعد جب دوبارہ پھل ملیں گے تو جنتی کہیں گے کہ یہ پھل تو ہمیں پہلے بھی مل چکا ہے، مگر جب وہ کھائیں گے تو اس سے نئی لذت پائیں گے اور ان کا لطف بہت زیادہ ہو جائے گا۔

اس کا یہ بھی معنی بیان کیا گیا ہے کہ انہیں دنیاوی پھلوں سے ملتے جلتے پھل دیئے جائیں گے، تاکہ وہ ان پھلوں سے مانوس رہیں، لیکن جنتی پھل ذائقے کہ میں دنیوی پھلوں سے بہت اعلیٰ ہوں گے۔

اَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ:پاکیزہ بیویاں، جنتی بیویاں حوریں ہوں یا اور،سب کی سب تمام ناپاکیوں اور گندگیوں سے مبرا ہونگی، نہ جسم پر میل ہوگا، نہ کوئی اور گندگی، اس کے ساتھ ہی وہ بد مزاجی اور بدخلقی سے بھی پاک ہونگی۔

وَّ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ:وہ ان باغوں میں ہمیشہ رہیں گے، جنتی نہ کبھی فنا ہوں گے اور نہ جنت سے نکالے جائیں گے، لہذا جنت اور اہلِ جنت کے لئے فنا نہیں۔(بحوالہ تفسیر صراط الجنان، جلد 1، صفحہ نمبر 89، 90)

وَ قَالُوْا قُلُوْبُنَا غُلْفٌ١ؕ بَلْ لَّعَنَهُمُ اللّٰهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَلِيْلًا مَّا يُؤْمِنُوْنَ۸۸ ترجمہ کنزالایمان:" اور یہودی بولے ہمارے دلوں پر پردے پڑے ہیں بلکہ اللہ نے ان پر لعنت کی ان کے کفر کے سبب تو ان میں تھوڑے ایمان لاتے ہیں۔"( سورہ بقرہ، آیت نمبر 88)

تفسیر صراط الجنان:

قُلُوْبُنَا غُلْفٌ:ہمارے دلوں پر پردے ہیں، یہودیوں نے مذاق اڑانے کے طور پر کہا تھا کہ ہمارے دلوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں، ان کی مرادیہ تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت ان کے دلوں تک نہیں پہنچتی، اللہ تعالیٰ نے اس کا رد فرمایا ہے کہ یہ جھوٹے ہیں، اللہ تعالیٰ نے دلوں کو فطرت پر پیدا فرمایا اور ان میں حق قبول کرنے کی صلاحیت رکھی ہے۔

یہودیوں کا ایمان نہ لانا ان کے کفر کی شامت ہے کہ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پہچان لینے کے بعد انکار کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر لعنت فرمائی، اس کا یہ اثر ہے کہ وہ قبولِ حق کی نعمت سے محروم ہو گئے، آج بھی ایسے لوگ ہیں کہ جن کے دلوں پر عظمت، رسالت سمجھنے سے پردے پڑے ہوئے ہیں۔(بحوالہ تفسیر صراط الجنان، جلد 1، صفحہ نمبر 161)

اَوَ كُلَّمَا عٰهَدُوْا عَهْدًا نَّبَذَهٗ فَرِيْقٌ مِّنْهُمْ١ؕ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ۱۰۰

ترجمہ کنزالایمان:"اور کیا جب کبھی کوئی عہد کرتے ہیں، ان میں ایک فریق اسے پھینک دیتا ہے ،بلکہ ان میں بہیتروں کو ایمان نھیں۔"(سورہ بقرہ، آیت نمبر 100)

تفسیر صراط الجنان:

عٰهَدُوْا عَهْدًا:انہوں نے عہد کیا، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہودیوں کو اللہ تعالیٰ کے وہ عہدیاد دلائے، جو آقا صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے متعلق تھے تو مالک بن صیف نے کہا:خدا کی قسم! آپ کے بارے میں ہم سے کوئی عہد نہیں لیا گیا، اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ یہودیوں نے جب کبھی کوئی عہد کیا تو ان میں سے ایک گروہ نے اس عہد کو ویسے ہی پیٹھ پیچھے پھینک دیا، بلکہ ان میں سے اکثر یہودیوں کو تورات پر ایمان ہی نہیں، اس لئے وہ عہد توڑنے کو گناہ نہیں سمجھتے اور نہ ہی اس بات کی کوئی پرواہ کرتے ہیں۔

بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہودیوں نے یہ عہد کیا تھا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہوگا تو ہم ان پر ضرور ایمان لائیں گے اور عرب کے مشرکوں کے خلاف ہم ضرور ان کے ساتھ ہوں گے، لیکن جب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نبوت کا اعلان فرمایا تو یہودیوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی بجائے انکار کر دیا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(بحوالہ تفسیر صراط الجنان، جلد1، ص نمبر 173، 174)

وَ لَوْ اَنَّهُمْ اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَمَثُوْبَةٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ خَيْرٌ١ؕ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَؒ۱۰۳

ترجمہ کنزالایمان:"اور اگر وہ ایمان لاتے اور پرہیز گاری کرتے تو اللہ کے یہاں کا ثواب بہت اچھا ہے کسی طرح انہیں علم ہوتا۔"(سورہ بقرہ، آیت نمبر 103)

تفسیر صراط الجنان:

وَ لَوْ اَنَّهُمْ اٰمَنُوْا:اور اگر وہ ایمان لاتے، فرمایا گیا کہ اگر یہودی حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن پاک پر ایمان لاتے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں کا ثواب ان کے لئے بہت اچھا ہوتا، کیوں کہ آخرت کی تھوڑی سی نعمت دنیا کی بڑی سے بڑی نعمت سے اعلی ہے۔(حوالہ تفسیر صراط الجنان، جلد 1، صفحہ نمبر 120)

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ۱۵۳

ترجمہ کنزالایمان:"اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد چاہو، بیشک اللہ صابروں کے ساتھ ہے۔"( سورۃ البقرہ، آیت نمبر 153)

تفسیر صراط الجنان:

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا:اے ایمان والو! اس آیت میں صبر اور نماز کا ذکر کیا جا رہا ہے، کیونکہ نماز، ذکر اللہ اور صبر و شکر پر ہی مسلمان کی زندگی کا مل ہوتی ہے، اس آیت میں فرمایا گیا کہ صبر اور نماز سے مدد مانگو، صبر سے مدد طلب کرنا یہ ہے کہ عبادات کی ادائیگی، گناہوں سے رکنے اور نفسانی خواہشات کو پورا نہ کرنے پر صبر کیا جائے اور نماز چونکہ تمام عبادات کی اصل اور اہلِ ایمان کی معراج ہے اور صبر کرنے میں بہترین معاون ہے۔

اس لئے اس سے بھی مدد طلب کرنے کا حکم دیا گیا اور ان دونوں کا بطورِ خاص اس لئے ذکر کیا گیا کہ بدن پر باطنی اعمال میں سب سے سخت صبر اور ظاہری اعمال میں سب سے مشکل نماز ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی نماز سے مدد چاہتے تھے، جیسا کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کوئی ساتھ مہم پیش آتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں مشغول ہو جاتے، اسی طرح نمازِ استسقاءاور نماز حاجت بھی نماز سے مدد چاہنے ہی کی صورتیں ہیں۔

اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ:بے شک اللہ صابروں کے ساتھ ہے، حضرت علامہ نصر بن محمد سمرقندی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"اللہ تعالیٰ (اپنے علم و قدرت سے) ہر ایک کے ساتھ ہے، لیکن یہاں صبر کرنے والوں کا بطور خاص اس لئے ذکر فرمایا، تاکہ انہیں معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ ان کی مشکلات دور کرکے آسانی فرمائے گا۔

صبر کی تعریف: اس آیت میں صبر کا ذکر ہوا ہے، صبر کامعنی ہے، نفس کو اس چیز پر روکنا، جس پر رکنے کا عقل اور شریعت تقاضا کر رہی ہو یا نفس کو اس چیز سے باز رکھنا، جس سے رکنے کا عقل اور شریعت تقاضا کر رہی ہو۔

صبر کی اقسام:بنیادی طور پر صبر کی دو قسمیں ہیں، ایک بدنی صبر(جیسے بدنی مشقتیں برداشت کرنا اور ان پر ثابت قدم رہنا)دوسرا طبعی خواہشات اور خواہش کے تقاضوں سے صبر کرنا، پہلی قسم کا صبر جب شریعت کے موافق ہو تو قابلِ تعریف ہوتا ہے، لیکن مکمل طور پر تعریف کے قابل صبر کی دوسری قسم ہے۔

صبر کے فضائل: قرآن و حدیث اور بزرگانِ دین کے اقوال میں صبر کے بے پناہ فضائل بیان کئے گئے ہیں، ترغیب کے لئے ان میں سے دس فضائل کا خلاصہ درج ذیل ہے:

٭اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

٭صبر کرنے والے کو اس کے عمل سے اچھا اجر ملے گا۔

٭صبر کرنے والے کو بے حساب اجر ملے گا۔

٭صبر کرنے والوں کی جزا دیکھ کر قیامت کے دن لوگ حسرت کریں گے۔

٭صبر کرنے والے ربّ کریم عزوجل کی طرف سے درودو ہدایت اور رحمت پاتے ہیں۔

٭صبر کرنے والے اللہ تعالیٰ کو محبوب ہیں۔

٭صبر آدھا ایمان ہے۔

٭صبر جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔

٭صبر کرنے والے کی خطائیں مٹا دی جاتی ہیں۔

٭صبرہر بلائی کی کنجی ہے۔

غیرِ خدا سے مدد طلب کرنا شرک نہیں:

اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ غیر خدا سے مدد طلب کرنا شرک نہیں ہے، اعلٰی حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں؛"خدارا انصاف! اگر آیت کریمہ ایاک نستعین میں مطلق استعانت کا ذاتِ الٰہی عزوجل میں مقصود ہو تو کیا صرف انبیاء کرام علیہم السلام ہی سے استعانت شرک ہوگی، کیا یہی غیر خدا ہیں اور سب اشخاص و اشیاء وہابیہ کے نزدیک خدا ہیں یا آیت میں خاص انہی کا نام لے دیا ہے کہ ان سے شرک اوروں سے روا ہے؟

نہیں نہیں۔۔جب مطلقاً ذات احدیت سےتخصیص اور غیر خدا سے شرک ماننے کی ٹھری تو کیسی ہی استعانت کسی غیر خدا سے کی جائے، ہمیشہ ہر طرح شر ک ہی ہوگی کہ انسان ہوں یا جمادات، احیاء ہوں یا اموات، ذوات ہوں یا صفات، افعال ہوں یا حالات، غیر خدا ہونے میں سب داخل ہیں، اب کیا جواب ہے آیت کریمہ کا کہ ربّ عزوجل فرماتا ہے کہ اسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ:استعانت کرو صبرونماز سے، کیا صبر خدا ہے جس سے استعانت کا حکم ہوا ہے؟ کیا نماز خدا ہے جس سے استعانت کا ارشاد فرمایا ہے؟

دوسری آیت میں فرماتا ہے کہ وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى:آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرو بھلائی اور پرہیزگاری پر، اگر غیر خدا سے مدد لینا مطلقاً محال ہے تو اس حکمِ الہی کا حاصل کیا؟ اور اگر ممکن ہو تو جس سے مدد مل سکتی ہے، اس سے مدد مانگنے میں کیا زہر گھل گیا۔

حدیثوں کی تو گنتی ہی نہیں، بکثرت احادیث میں صاف صاف حکم ہے کہ:

٭صبح کی عبادت سے استعانت کرو۔

٭شام کی عبادت سے استعانت کرو۔

٭کچھ رات رہے کی عبادت سے استعانت کرو۔

٭علم کے لکھنے سے استعانت کرو۔

٭سحری کے کھانے سے استعانت کرو۔

٭دوپہر کے سونے سے استعانت و صدقہ سے استعانت کرو۔

٭حاجت روائیوں میں حاجتیں چھپانے سے استعانت کرو۔(حوالہ تفسیر صراط الجنان، جلد 1، صفحہ نمبر 245 تا 248)

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِلّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ اِيَّاهُ تَعْبُدُوْنَ۱۷۲

ترجمہ کنزالایمان:"اے ایمان والوں!کھاؤ ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں اور اللہ کا احسان مانو، اگر تم اسی کو پوجتے ہو۔(سورۃ البقرہ، آیت172)

تفسیر صراط الجنان:

وَ اشْكُرُوْا لِلّٰهِ:اور اللہ کا شکر ادا کرو، اللہ تعالیٰ نے ہمیں کھانے سے منع نہیں فرمایا، بلکہ کئی مقامات پر رزقِ الہی کھانے کا بیان کیا، جیسے سورہ بقرہ آیت 108، سورہ مائدہ آیت 88 اور 87، سورہ اعراف آیت 31 اور 32، اور سورہ نمل آیت 114 وغیرہ۔

الغرض اس طرح کے بیسیوں مقامات ہیں، جہاں رزقِ الہی سے لطف اندوز ہونے کی اجازت دی گئی ہے، صرف یہ شرط لگائی ہے کہ حرام چیزیں نہ کھاؤ، حرام ذریعے سے حاصل کرکے نہ کھاؤ، کھا کر غافل نہ ہو جاؤ، یہ چیزیں تمھیں اطاعتِ الہی سے دور نہ کر دیں، اللہ عزوجل کا شکر ادا کرو، چنانچہ فرمایا:"اور اللہ کا شکر ادا کرو اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو۔"(حوالہ تفسیر صراط الجنان، جلد 1، صفحہ نمبر 272)

10۔ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيْهِ وَ لَا خُلَّةٌ وَّ لَا شَفَاعَةٌ١ؕ وَ الْكٰفِرُوْنَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ۲۵۴

ترجمہ کنزالایمان:"ایمان والو! اللہ کی راہ میں ہمارے دیئے میں سے خرچ کرو، وہ دن آنے سے پہلے جس میں نہ خریدوفروخت ہے، نہ کافروں کے لئے دوستی، نہ شفاعت اور کافر خود ہی ظالم ہیں۔"(البقرہ، آیت254)

تفسیر صراط الجنان:

اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰكُمْ:ہمارے دئیے ہوئے رزق میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کر لو، فکرِآخرت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا جا رہا ہے کہ قیامت کے آنے سے پہلے پہلے راہِ خدا عزوجل میں اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا مال خرچ کر لو، قیامت کا دن بڑی ہیبت والا ہے، اس دن مال کسی کو بھی فائدہ نہ دے گا اور دنیوی دوستیاں بھی بے کار ہوں گی، بلکہ باپ بیٹے بھی اور ایک دوسرے سے جان چھڑا رہے ہوں گے اور کافروں کو کسی کی سفارش کام نہ دے گی اور نہ دنیوی انداز میں کسی کی کوئی سفارش کر سکے گا، صرف الٰہی سے اللہ تعالیٰ کے مقبول بندے شفاعت کریں گے۔

جیسا کہ اگلی آیت یعنی آیت الکرسی میں آرہا ہے اور مال کا فائدہ بھی آخرت میں اسی صورت میں ہے، جب دنیا میں اسے نیک کاموں میں خرچ کیا ہو اور دوستیوں میں سے بھی نیک لوگوں کی دوستیاں کام آئیں گی، جیسا کہ سورۃ زخرف میں ہے:الاخلاء یومئذ بعضھم لبعض عدو الا المتقین۔

"پرہیزگاروں کے علاوہ اس دن گہرے دوست ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں گے۔"

وَ الْكٰفِرُوْنَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ:اور کافر ہی ظالم ہیں، ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو غلط جگہ استعمال کرنا، کافروں کا ایمان کی جگہ کفر اور طاعت کی جگہ معصیت اور شکر کی جگہ ناشکری کو اختیار کرنا ان کا ظلم ہے اور چونکہ یہاں کاظلم کا سب سے بد تر درجہ مراد ہے، اسی لئے فرمایا کہ کافر ہی ظالم ہیں۔۔"(حوالہ تفسیر صراط الجنان، جلد 1، صفحہ نمبر 382،383)