حضور ﷺ کی نماز سے محبت از بنت شبیر
احمد،فیضان ام عطا شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ
حضور ﷺ نے تقریباً 20 ہزار نمازیں ادا
فرمائیں:
شبِ معراج پانچوں نمازیں فرض ہونے کے بعد
ہمارے پیارے پیارے آقا، مکی مدنی مصطفےٰﷺ نے اپنی حیات ظاہری کے 11 سال چھ ماہ میں
تقریباً 20 ہزار نماز ادا فرمائیں،تقریباً 500 جمعے ادا کیے اور عید کی 9 نمازیں
پڑھیں۔قرآن ِکریم میں نماز کا ذکر سینکڑوں جگہ آیا ہے۔پارہ 18 سورۃ المؤمنون کی آیت
نمبر 9،10،11 میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ
الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(9)اُولٰٓىٕكَ هُمُ
الْوٰرِثُوْنَۙ(10)الَّذِیْنَ
یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَؕ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(11)ترجمہ:اور
وہ جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں یہی لوگ وارث ہیں کہ فردوس کی میراث پائیں
گے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
نماز کے فضائل:
1ــ اللہ
پاک کی خوشنودی کا سبب نماز ہے۔ 2ــ مکی مدنی آقا
ﷺکی آنکھوں کی ٹھنڈک نماز ہے۔(معجم کبیر،20 /
420،حدیث:1012)
3ــ انبیائے
کرام علیہم السلام کی سنت نماز ہے۔ 4ــ نماز اندھیری
قبر کا چراغ ہے۔ 5ــ نماز عذاب قبر سے بچاتی ہے ۔ 6ــ نماز
سے رحمت نازل ہوتی ہے۔ 7ــ نماز جہنم کے
عذاب سے بچاتی ہے۔ حدیثِ مبارک میں ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:آقا ﷺ
پر معراج کی رات پچاس نمازیں فرض کی گئیں پھر کم کی گئیں یہاں تک کہ پانچ رہ گئیں
پھر آواز دی گئی :اے محبوب ! ہماری بات نہیں بدلتی اور آپ کے لیے ان پانچ کے بدلے
میں پچاس کا ثواب ہے۔
(ترمذی،1/254، حدیث:213)
نماز عشاء: ہمارے پیارے آقا
ﷺ نے نماز عشاء ادا فرمائی۔ ہمارے سرکار ﷺ پر تہجد کی نماز فرض تھی۔ نماز عشاء
حضور ﷺ کی خصوصیت ہےاور نمازِ پنجگانہ بھی۔ نماز تہجد کی فرضیت سرکار مدینہ ﷺ کی
خصوصیت ہے۔ آپ اس قدر نماز سے محبت کرتے تھے کہ آپ پر تہجد فرض کی گئی۔
حضور
ﷺکی نماز سے محبت از بنت طارق نذیر،فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ
نماز ایک ایسی عبادت جس کی ادائیگی کے بغیر کوئی چارہ نہیں
اور نہ ہی اس کی اہمیت سے کوئی مسلمان ناواقف ہے۔ ہر خاص و عام مسلمان نماز کی
فرضیت کا اقرار کرتا ہے۔قرآنِ کریم میں متعدد مرتبہ نماز کا ذکر آیا ہے جس سے اس
کی اہمیت بخوبی واضح ہوتی ہے۔چنانچہ ایک جگہ رب
ارشاد فرماتا ہے:وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ
وَ اٰتُوا الزَّكٰوة(پ1، البقرۃ:43)ترجمہ:نماز قائم رکھو
اور زکوۃ دو۔
یہاں نماز قائم کرنے کا واضح حکم ارشاد فرمایا گیا،چنانچہ
فرمایا:اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ كِتٰبًا
مَّوْقُوْتًا(103) (پ5،النسآء: 103)ترجمہ: بے شک نماز
مسلمانوں پر وقت باندھا ہوا فرض ہے۔
اسی طرح کثیر احادیثِ مبارکہ میں نماز کی ترغیب دلائی گئی
ہے اور نماز سے حضور ﷺکی محبت ظاہر ہوتی ہے۔جب نماز کا وقت ہوتاتو آقاکریم ﷺ حضرت
بلال رضی اللہ عنہ سے فرماتے:قُمْ یا بِلَالُ
فَاَرِحْنَا بِالصَّلَاۃِاے بلال!اٹھو اور
ہمیں نماز سے راحت پہنچاؤ۔(ابوداود،4 / 385،حدیث:4986)
اللہ کریم کے آخری نبی ﷺ کو نمازسے بہت محبت تھی،آپ نے نماز
کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک فرمایا۔
(معجم کبیر،20 /
420،حدیث:1012)
حضرت عائشہ صِدّیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:رسولِ کریم ﷺ نماز میں اس قدرقیام فرماتے کہ آپ کے مُبارک پاؤں سُوج جاتے۔(ایک دن)حضرت
عائشہ صِدّیقہ رضی اللہ عنہا نے عَرض کی:یارسول اللہ ﷺ!آپ ایسا کر رہے ہیں
حالانکہ اللہ کریم نے آپ کے سبب آپ کے اگلوں اور پچھلوں کے گناہ بخش دئیے ہیں!آقا
کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اَفَلَا اَکُوْنُ عَبْدًا
شَکُوْرًا کیا میں اللہ پاک کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔ ( مسلم،ص1160،حدیث:7126)
ان احادیثِ مبارکہ سے حضور ﷺ کی نماز سے محبت کا خوب صورت
انداز ملتا ہے کہ آپ ﷺ کس قدر ذوق و شوق سے نماز ادا فرماتے تھے ۔ اسی طرح کثیر
احادیث میں حضور ﷺ نے نماز کے فضائل بیان فرمائے ہیں۔چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول
اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:سوچو تو سہی اگر تم میں سے کسی کے دروازے پر نہر ہو اور
وہ روزانہ اس میں پانچ دفعہ نہائے تو کیا کہتے ہو کہ اس کے جسم پر میل کچیل باقی
رہ جائے گا؟ لوگ عرض گزار ہوئے کہ ذرا بھی میل باقی نہیں رہے گا۔ آپ نے فرمایا:
یہی پانچوں نمازوں کی مثال ہے کہ ان کے ذریعے اللہ گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔(بخاری
،1/196،رقم:528)
اسی طرح بہت ساری احادیث میں نماز نہ پڑھنے والوں کے لیے
وعیدیں بھی بیان فرمائیں اور سخت ناراضی کا اظہار فرمایا۔چنانچہ حضور پاک ﷺ نے
ارشاد فرمایا:جو جان بوجھ کر ایک نماز چھوڑ تا ہے،اس کا نام جہنم کےاس دروازے پر
لکھ دیا جاتا ہے جس سے وہ داخل ہوگا۔(فیضان نماز،ص 425)
حضور ﷺ کی نماز سے محبت از بنت شہباز
احمد، فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ
نبیِ کریم ﷺ کی حیاتِ طیبہ کا ہر لمحہ اللہ کے ساتھ گہرے
تعلق اور کامل وفاداری کا مظہر تھا،مگر نماز کے ساتھ آپ کی محبت نے ایک منفرد شان
اختیار کی۔ نماز آپ کے عظیم معجزے معراج کا عظیم تحفہ ہے۔یہ محض ایک عبادت نہیں،بلکہ
اللہ کے حضور ایک خاص راز و نیاز کی کیفیت تھی،جو آپ کی زندگی کا مرکز و محور بن
گئی تھی۔ آپ کے دل کی دھڑکنوں میں نماز کی محبت رچی بسی تھی اور یہ آپ کی روحانی
زندگی کا محور تھی۔آپ نے فرمایا:نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔(معجم کبیر،20 / 420،حدیث:1012)یہ
جملہ اس حقیقت کو بیان کرتا ہے کہ نماز آپ کے لیے دنیا و مافیہا سے بلند ہو کر
اپنے رب کے قریب ہونے کا ایک ذریعہ تھی۔ نماز میں آپ نے جو لذت اور سرور محسوس کیا،وہ
کسی دنیاوی خوشی سے کہیں بڑھ کر تھا۔
مروی ہے کہ ایک
بار اللہ پاک کے پیارے حبیب ﷺ نے نوافل کی ترغیب دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا:جو 12
رکعت نفل روزانہ پڑھے گا اس کے لیے جنت میں گھر بنایا جائے گا۔ ام المومنین حضرت
ام حبیبہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس کے بعد میں ہمیشہ 12 رکعت نفل روزانہ
نہایت پابندی سے پڑھتی رہی۔
(صحابیات اور
نصیحتوں کے مدنی پھول،ص48)
نبیِ کریم ﷺ نماز
کے لیے خوب احتمام فرماتے، اچھا اور عمدہ لباس زیب تن فرماتے،خوشبو لگاتے،نماز کا
وقت شروع ہوتے ہی وضو فرماتے۔ آپ ﷺ کا یہ عمل امت مسلمہ کی تعلیم کے لئے تھا تا کہ
مسلمان ان کے طریقے کی اتباع کریں کیونکہ یہی ذریعہ نجات ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا تو اس کیفیت کی
اس طرح عکاسی فرماتی ہیں کہ نماز کا وقت شروع ہو جاتا تو یوں محسوس ہوتا کہ آپ
ہمیں پہچانتے ہی نہیں ہیں۔(احیاء العلوم،1/205)کبھی کبھی آپ پر نماز کے درمیان
رقت طاری ہو جاتی،چشم مبارک سے موتیوں کی لڑی بہنے لگتی،ایک صحابی نے حضور اکرم ﷺ
کی نماز کی منظر کشی کچھ یوں کی: ایک مرتبہ میں اللہ کے آخری نبی ﷺ کی خدمت میں
حاضر ہوا تو آپ نماز پڑھ رہے تھے اور رونے
کی وجہ سے آپ کے سینے سے ایسی آواز نکل رہی تھی جیسی ہنڈیا کی آواز ہوتی ہے۔(ابوداود،1/342،حدیث:904)
نماز کی اہمیت سمجھنے کے لئے یہ جاننا ہی کافی ہے کہ الله
نے قرآنِ کریم میں جتنی تاکید نماز کی فرمائی ہے اتنی تاکید کسی اور بات کی نہیں
فرمائی،الله کا بار بار نماز کی تاکید
فرمانا ہی اس کی اہمیت کو ظاہر کر رہا ہے اور نبیِ کریم ﷺ کی تمام حیات میں اس کی عملی مثال موجود ہے جس سے
آپ کی نماز کے لیے محبت روز روشن کی طرح واضح ہے۔ قرآنِ پاک میں ارشاد باری ہے:الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ
مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَۙ(3) (پ1،البقرۃ:3) ترجمہ:وہ
جو بے دیکھے ایمان لائیں اور نماز قائم رکھیں اور ہماری دی ہوئی روزی میں سے ہماری
راہ میں اٹھائیں۔
نماز کی اہمیت کو مزید اجاگر کرنے کے لیے ایک حدیثِ مبارک
ملاحظہ ہو۔چنانچہ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار
مدینہ،قرار قلب و سینہ،فیض گنجینہ،صاحب معطر پسینہ ﷺ کا فرمان باقرینہ ہے: لوگوں
میں بد ترین چور وہ ہے جو اپنی نماز میں چوری کرتا ہے۔ عرض کی گئی:یا رسول اللہ ﷺ!نماز
میں چوری کیسے ہوتی ہے؟ ارشاد فرمایا: اس طرح کہ رکوع و سجدے پورے نہ کرے۔
(مسند امام احمد،8/386،
حدیث:22705)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور پر نور ﷺنماز
میں اتنی اتنی دیر قیام فر ماتے کہ آپ کے قدم مبارک میں ورم پڑجاتا۔حضرت عائشہ رضی
اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے حضور ﷺسے عرض کی:یارسول اللہﷺ!آپ تو معصوم ہیں پھر
اتنی مشقت کیوں اٹھاتے ہیں ؟تو آپ نے ارشاد فرمایا: افلا اکون عبدا شکوراکیامیں اپنے رب
کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟(مسندبزار،16/114، حدیث:9194 )
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک
مرتبہ میں نے رسول کریم ﷺ کے ساتھ رات کو نماز پڑھی،آپ نے اتنا لمبا قیام کیا کہ
میرے دل میں ایک غلط خیال پیدا ہو گیا،ہم نے اُن سے پوچھا کہ وہ غلط خیال کیا تھا؟
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا :وہ غلط خیال یہ تھا کہ میں بیٹھ
جاؤں اور نبیِ کریم ﷺ کو کھڑا چھوڑ دوں۔(بخاری،1/386،حدیث:1135)
نماز کے لیے نبیِ کریم ﷺ کا اہتمام بھی بہت خاص تھا۔ آپ
بہترین لباس زیب تن فرماتے،خوشبو لگاتے اور انتہائی خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا
کرتے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:تم میں سے کوئی
جب نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو وہ اپنے رب کے ساتھ سرگوشی کرتا ہے،لہٰذا اسے
دیکھنا چاہیے کہ وہ کیسے سرگوشی کرتا ہے۔(مستدرک،1/503،حدیث:895)
ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول
کریم ﷺ نے آخری وصیت یہ فرمائی:نماز کی پابندی کرنا اور اپنے غلاموں کا خیال
رکھنا۔(مسند امام احمد،21/11،حدیث:27240 )
حضور ﷺکی نماز سے محبت از بنت جاوید
اقبال،فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ
اللہ کریم کے آخری نبی ﷺ کو نمازسے بہت محبت تھی،آپ نے نماز
کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک فرمایا۔
(معجم کبیر،20 /
420،حدیث:1012)
جب نماز کا وقت ہوتا تو آقاکریم ﷺ حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرماتے:قُمْ یا بِلَالُ فَاَرِحْنَا بِالصَّلَاۃِ اے بلال!اٹھو
اور ہمیں نماز سے راحت پہنچاؤ۔(ابوداود،4 / 385،حدیث:4986)
نبیِّ پاک ﷺ کی نمازکی کیفیت:
حضرت عبداللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ اللہ پاک کے آخری نبی ﷺ کی کیفیتِ نماز کا ذکر کرتے ہوئے
فرماتے ہیں:ایک مرتبہ میں اللہ کے آخری نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نماز پڑھ
رہے تھے اور رونے کی وجہ سے آپ کے سینے سے ایسی آواز نکل رہی تھی جیسی ہنڈیا کی
آواز ہوتی ہے۔
(ابوداود،1/342،حدیث:904)
ان دونوں روایات سے رسولِ کریم ﷺ کی نماز سے محبت اور خشوع
و خضوع کا اندازہ ہوتا ہے،کریم آقا ﷺ کی امتی ہونے کے ناطے ہمیں بھی نماز کو واقعی
اپنی راحت و سکون کا ذریعہ بنانا چاہئے۔
حضور اقدس ﷺ کو اللہ نے جمالِ صورت میں بے مثل و بےمثال اور
کمال سیرت میں تمام اولین و آخرین سے ممتاز اور افضل و اعلی بنایا ۔ مولانا حسن
رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
تری صورت تری
سیرت زمانے سے نرالی ہے تری
ہر ہر ادا پیارے دلیلِ بے مثالی ہے
آپ کی حیات طیبہ کا ایک انتہائی اہم پہلو آپ کی عبادات ہیں۔
حضور ﷺ کی ان عبادات میں سے ایک بہت ہی اہم عبادت نماز بھی
ہے کہ جسے حضور اقدس ﷺ نے اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک فرمایا ۔(معجم کبیر،20 / 420،حدیث:1012)
چنانچہ اعلانِ نبوت سے قبل بھی آپ غارحرا میں قیام و مراقبہ
اور ذکر وفکر کے طور پر خدا کی عبادت میں
مصروف رہتے تھے،نزول وحی کے بعد ہی آپ کو نماز کا طریقہ بھی بتا دیا گیا،پھر شبِ
معراج میں نمازِ پنجگانہ فرض ہوئی۔حضور ﷺ نمازِ پنجگانہ کے علاوہ نمازِ اشراق،نمازِ
چاشت،تحیۃ الوضوء تحیۃ المسجد،صلوۃ الاوابین و غیره سنن و نوافل بھی ادا فرماتے
تھے۔ راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر نمازیں پڑھا کرتے تھے۔ تمام عمر نماز تہجد کے پابند
رہے،راتوں کے نوافل کے بارے میں مختلف روایات ہیں۔بعض روایتوں میں یہ آیا ہے کہ آپ
نماز عشاء کے بعد کچھ دیر سوتے پھر کچھ دیر تک اٹھ کر نماز پڑھتے پھر سو جاتے پھر
اٹھ کر نماز پڑھتے ۔ غرض صبح تک یہی حالت قائم رہتی۔ کبھی دو تہائی رات گزر جانے
کے بعد بیدار ہوتے اور صبح صادق تک نمازوں میں مشغول رہتے کبھی نصف رات گزر جانے
کے بعد بستر سے اٹھ جاتے اور پھر ساری رات بستر پر پیٹھ نہیں لگاتے تھے اور لمبی
لمبی سورتیں نمازوں میں پڑھا کرتے کبھی رکوع وسجود طویل ہوتا کبھی قیام طویل ہوتا۔
کبھی چھ رکعت کبھی آٹھ رکعت،کبھی اس سے کم کبھی اس سے زیادہ۔ اخیر عمر شریف میں کچھ
رکعتیں کھڑے ہو کر کچھ بیٹھ کرادافرماتے ۔ نماز وتر نماز تہجد کے ساتھ ادا فرماتے،رمضان
شریف خصوصاً آخری عشرہ میں آپ کی عبادت بہت زیادہ بڑھ جاتی تھی۔ آپ ساری رات بیدار
رہتے اور اپنی ازواجِ مطہرات رضی
اللہ عنہن سے بے تعلق ہو جاتے تھے اور گھر
والوں کو نمازوں کے لئے جگایا کرتے تھے اور عموماً اعتکاف فرماتے تھے۔ نمازوں کے
ساتھ ساتھ کبھی کھڑے ہو کر کبھی بیٹھ کر کبھی سر بسجود ہو کر نہایت آہ وزاری اور
گریہ و بکا کے ساتھ گڑ گڑا کر راتوں میں دعا ئیں بھی مانگا کرتے،رمضان شریف میں
حضرت جبریل علیہ السلام کے ساتھ قرآنِ عظیم کا دور بھی فرماتے اور تلاوت قرآن مجید
کے ساتھ ساتھ طرح طرح کی مختلف دعاؤں کا ورد بھی فرماتے تھے اور کبھی کبھی ساری
رات نمازوں اور دعاؤں میں کھڑے رہتے یہاں تک کہ پائے اقدس میں ورم آجایا کرتا تھا۔
(سیرت مصطفیٰ،ص 595۔596)
رات پوے تے
بےدرداں نوں نیند پیاری آوے درد
منداں نوں یاد سجن دی ستیاں آن جگاوے
اللہ اکبر!ہمارے بخشے بخشائے مدنی آقا ﷺ کہ جن کے صدقے
رب نے اگلوں پچھلوں کی مغفرت فرما دی،جو
روز محشر اپنی اس گنہگار امت کی بخشش کروائیں گے،جنہیں رب نے اپنا محبوب فرمایا ان
کی عبادات کا عالم کیسا ہے!جبکہ دوسری طرف ہمیں اپنے حال پر غور کرنا چاہیے کہ حدیثِ
مبارک میں نماز کو دین کا ستون فرمایا گیا(شعب الايمان،3/39،حدیث:2807)جبکہ ہماری اکثریت اب نماز سے دور ہوگئی ہے اور اگر کسی کو
نماز کی توفیق مل بھی جائے وہ بھی ریا کی نظر کر دی جاتی ہے ، اس کی ایک بڑی وجہ حُب
دنیا ہے ۔ ذرا سوچئیے!حُب دنیا کی فکر باعث رکاوٹ ہے تو خود دنیا کس قدر رکاوٹ کا
باعث ہوگی!یاد رہے کہ اگر ہم نے باوجود قدرت اللہ پاک کی عبادت یا اس کی رضا کا
خیال نہ رکھا بلکہ اپنی شہوت کی پیروی میں لگی رہیں اور اس کی عبادت و بندگی سے
منہ موڑا حالانکہ کوئی عذر بھی مانع نہ تھا تو ضرور اپنے مالک و مولی کی طرف سے
ملامت و عار کی سزاوار ہوں گی۔
یہ ہے زندَگی
کوئی زندَگی،نہ نَماز ہے نہ ہی بندَگی یہی
حُبِّ جاہ کی گندَگی،تِری کیوں نظر
میں بسی رہی
اللہ سے دعا ہے کہ
ہمیں حضور ﷺ کی آنکھوں کی ٹھنڈک نماز کی
حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ہر مسلمان عاقل و بالغ عورت و مرد پر پانچ وقت کی نماز فرض
ہے اور اس کی فرضیت کا انکار کفر ہے۔ شبِ معراج پانچوں نمازیں فرض ہونے کے بعد
ہمارے پیارے آقا ﷺ نے اپنی ظاہری حیات کے 11 سال چھ ماہ میں تقریبا 20 ہزار نماز
ادا فرمائی تقریبا 500 جمعہ ادا فرمائے اور عید کی 9 نمازیں ادا فرمائیں۔(درّمختار،
2/6وغیرہ،مراٰۃ المناجیح،2/346،سیرتِ مصطفٰے،ص249ملخصاً)
مسلمان نبیِ کریم ﷺ سے عشق و محبت کا دعوی کرتے ہیں مگر
ہماری اکثریت آپ کے اسوۂ حسنہ پر نہ چل کر نماز جیسا عظیم اور رب کو محبوب کام چھوڑ دیتی ہے۔وہ نماز جو نبیِ کریم
ﷺ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔(معجم کبیر،20 / 420،حدیث:1012) کئی علما کے نزدیک جان
بوجھ کر نماز چھوڑنے والا کافر ہے۔(جہنم میں لے جانے والا کام،1/447)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اپنے فرزند کی وفات کی
خبر سن کر نماز میں مشغول ہو گئےاور اس کو اتنا دراز کیا کہ لوگ دفن کر کر لوٹے تب آپ فارغ ہوئے۔ لوگوں نے اس کی
وجہ دریافت کی تو آپ نے فرمایا:مجھے اس فرزند سے بہت محبت تھی،اس کی جدائی کا صدمہ
برداشت نہ کر سکتا تھا لہٰذا نماز میں مشغول ہو کر اس صدمے سے بے خبر ہو گیا۔(تفسیر
نعیمی،1/299تا300)
اللہ کے آخری نبی ﷺ کو نماز سے بہت محبت تھی،چنانچہ آپ نے
نماز کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک فرمایا۔ (مسلم،ص1160،حدیث:7126)جب نماز کا وقت ہوتا
تو نبیِ کریم ﷺ حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرماتے:اے بلال!اٹھو اور ہمیں نماز سے
راحت پہنچاؤ۔(ابوداود،4/345،حدیث: 4986)
آقا ﷺ کی نماز کی کیفیت: حضرت عبداللہ بن شقیق رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کی نماز کی کیفیت ذکر کرتے ہوئے
فرماتے ہیں: ایک مرتبہ میں آخری نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نماز پڑھ رہے
تھے اور رونے کی وجہ سے آپ کے سینہ مبارک سے ایسی آواز نکل رہی تھی جیسے ہنڈیا کی
ہوتی ہے۔(ابو داود، 1/324،حدیث:964)
نبی ﷺ کا نماز تہجد کا معمول :اللہ کے آخری نبی ﷺ اپنی تمام عمر تہجد کے پابند رہے، راتوں
کے نوافل کے بارے میں مختلف روایات ہیں۔بعض روایات میں آیا ہے کہ آپ نماز عشاء کے
بعد تھوڑی دیر سوتے پھر کچھ دیر اٹھ کر نماز ادا کرتے پھر سو جاتے پھر اٹھ کر نماز ادا کرتے صبح تک یہی
حالت قائم رہتی۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ
فرماتے ہیں کہ ایک رات اللہ پاک کے نبی ﷺ مسجد میں نماز ادا فرما رہے تھے میں نے موقع غنیمت جانا اور آپ کے
پیچھے کھڑے ہو کر ابتدا میں نماز شروع کر دی۔اللہ پاک کے رسول، رسولِ مقبول ﷺ نے
دورانِ نماز سورۃ البقرہ کی تلاوت شروع فرمائی ،میں دل میں خیال کر رہا تھا کہ
حضور کائنات ﷺ سو آیات پڑھ کر رکوع فرما دیں گے لیکن آپ نے سو آیات پڑھ کر رکوع
نہیں فرمایا بلکہ آگے پڑھتے گئے، اب میں نے پھر خیال کیا 200 آیات پڑھ کر رکوع فرما دیں گے لیکن آپ نے 200 آیات پر بھی رکوع نہیں فرمایا،اب مجھے خیال آیا
کہ حضور اکرم ﷺ پوری سورۃ البقرہ تقریباً اڑھائی پارے ایک ہی رکعت میں پڑھ کر رکوع
فرمائیں گے چنانچہ سورۃ البقرہ پوری ہو گئی لیکن اب بھی آپ نے رکوع نہ فرمایا، اب
سورۂ ال عمران شروع ہو گئی میں سوچ رہا تھا کہ سورۂ ال عمران پڑھ کر رکوع فرما
دیں گے، حضور اکرم ﷺ نے سورۂ ال عمران مکمل کرنے کے بعد سورۃ النسآء شروع کر دی،
میں نے سوچا کہ حضور کریم ﷺ سورۃ النسآء پڑھ کر رکوع فرما دیں گے لیکن اب بھی
میرا خیال درست نہ تھا،جان ِکائنات ﷺ نے سورۃ النسآء مکمل کی تقریباً سوا پانچ
پارے کی تلاوت فرمائی اور سورۃ المائدہ کی تلاوت شروع فرما دی، سورۃ المائدہ کی
تلاوت مکمل کرنے کے بعد تقریباً سوا چھ پارے پڑھنے کے بعد رکوع فرمایا۔میں نے سُنا
کہ آپ رکوع میں سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم پڑھ رہے تھے ، پھر(دوسری رکعت میں آپ نے سورۂ اَنْعَام شروع فرما دی۔
(مصنف عبدالرزّاق
، 2 / 95و96 ، حدیث:2845)
حقیقی نماز وہی ہے جس میں توجہ الی اللہ، راحت، لذت، سرور ،ذوق
اور حضور قلب میسر آئے اس کے بغیر ادا کی ہوئی نمازوں کے متعلق قرآن پاک میں
اللہ ارشاد فرماتا ہے:فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَۙ(4) الَّذِیْنَ هُمْ
عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَۙ(5) (پ30،الماعون:5،4)ترجمہ:تو
ان نمازیوں کی خرابی ہے جو
اپنی نماز سے بھولے بیٹھے ہیں۔
آقا کریم ﷺ کی نماز سے محبت ہمارے پیارے پیارے آقا، مدنی مدینے والے مصطفےٰ
ﷺ جو معراج میں اپنی امت کے لئے رب سے
نماز کا تحفہ لانے والے ہیں فرماتے ہیں:میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔(سننِ
کبری للنسائی،5/280،حدیث:8888)
نبی اکرم ﷺ قرآن سےبے حد محبت کرنے والے ہیں اور محبت کیوں
نہ ہو کہ رب کا کلام پاک جس میں رب نے 700 سے زیادہ دفعہ نماز کا حکم فرمایا گیا
تو نبی اکرم ﷺ تو ہیں ہی رب کے حکم پر اول
وقت میں عمل کرنے والے اور رب اپنے محبوب
کی خواہش قبول کرنے میں جلدی فرماتا ہے۔
نماز اللہ سے مدد
حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے،چنانچہ نبی پاک ﷺ کو جب بھی کوئی اہم کام درپیش ہوتا
تو نماز پڑھنے میں مشغول ہو جایا کرتے تھے۔(تفسیرِ نعیمی، 1/ 349)
نبی پاک ﷺ کی امت کا یہ خاصہ ہے کہ امت کو پانچ نمازیں بطور
تحفہ عطا ہوئیں۔ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اور امتوں کو نمازِ پنجگانہ(یعنی
پانچ وقت کی نمازیں)نہیں ملیں یہ اس امت کی خصوصیت ہے۔ہاں!یہ نمازیں علیحدہ علیحدہ
انبیائے کرام علیہم السلام نے ادا کیں۔
(شان حبیب
الرحمن،ص 125)
نبی اکرم ،نور مجسم
ﷺاس قدر نماز سے محبت فرمایا کرتے تھے کہ ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ اپنے مرض
وصال(یعنی جس بیماری میں ظاہری وفات شریف ہوئی اس میں)فرماتے ہیں:نماز کو پابندی
سے ادا کرتے رہو اور اپنے غلاموں کا خیال رکھو۔(ابن ماجہ،2/282، حدیث:1625
نماز جنت کی چابی
ہے۔چنانچہ نبی پاک ﷺ نے نماز کے متعلق
ارشاد فرمایا: جنت کی چابی نماز ہے اور نماز کی چابی وضو ہے ۔( ترمذی،1 / 85 حدیث:4
)
نماز سے محبت کرنے
والے محبوب خدا ﷺ نے نماز کو قبولیتِ دعا
و حاجات قرار دیا ۔چنانچہ نماز کے بعد حمدو ثنا اور دُرود شریف
پڑھنے والے سے فرمایا:دعا مانگ،قبول کی جائے گی،سوال کر،دیا جائے گا۔
(نسائی، ص220،حدیث:1281)
حضرت ابو سعید رضی
اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پیارے آقا ﷺ نے
ارشاد فرمایا:اللہ پاک نے کوئی ایسی چیز فرض نہ کی جو نماز سے بہتر ہو ، اگر اس سے
بہتر کوئی چیز ہوتی تو وہ ضرور فرشتوں پر فرض کرتا۔
( مسند الفردوس
1/165 ،حدیث: 610 )
نماز سے محبت کرنے والے آقا ﷺ نے فرمایا: الصلوة نور یعنی
نماز نور ہے۔
(مسلم،ص140،حدیث:223)
پڑھتی رہو نماز
تو چہرے پہ نور ہے پڑھتی نہیں نماز جو وہ جنت سے دور ہے
امت پر تو صرف
پانچ نمازیں فرض ہیں جبکہ آقا کریم ﷺ پر تو نماز تہجد بھی فرض تھی۔آقا کریم ﷺ رات
میں اٹھ کر اپنے رب کی بارگاہ میں نماز کے لئے کھڑے ہو جاتے اس قدر لمبا قیام
فرماتے کہ پاؤں مبارک سوج جایا کرتے تھے۔(بخاری،3/328،حدیث:4836)
پیارے آقا ﷺ کے نقشے قدم پر چلنے والے فرما بردار صحابہ
کرام بھی نمازوں سے بے حد محبت فرمانے والے اور ہر کام چھوڑ کر نماز کو ترجیح دیا
کرتے تھے۔چنانچہ جب حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ پر قاتلانہ حملہ ہوا تو عرض کی گئی:اے امیر المومنین!نماز کا وقت ہے۔فرمایا:جی
ہاں!سنو! جو شخص نماز کو ضائع کرے تو اس کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شدید زخمی حالت کے باوجود نماز ادا
فرمائی۔ (الزواجر،1/255) یہ تھے ہمارے پیارے آقا ﷺ اور ان کے صحابہ جو نماز سے اتنی
محبت فرماتے کہ اپنی جان کی بھی پروا نہ کرتے تھے۔
اسی طرح پیارے آقا ﷺ سفر و حضر میں نماز کو پہلے ترجیح دیتے
اور نماز کو محبوب رکھتے تھے ۔جس بھی جگہ ہوتے اگر نماز کا وقت ہوتا تو تمام کام
ترک کر کے نماز کے لئے کھڑے ہو جایا کرتے تھے ۔ فرض نمازوں کے علاوہ بھی راتوں کو
اٹھ اٹھ کر طویل قیام فرمانا یقیناً اپنے رب کریم سے محبت اورنماز سے عشق ہی کی
علامت ہے ۔ اور ایک ہم ہیں کہ صد کروڑ افسوس! کاموں کی مصروفیت کی وجہ سے نمازوں
کو چھوڑ دیتی ہیں۔ ہزاروں سہولتیں موجود
ہونے کے باوجود بھی نماز نہیں پڑھتیں۔ روزانہ پانچ بار رب کی طرف سے کامیابی کی
صدا پر بھی اس کی طرف نہیں لوٹتیں۔ امیر اہل سنت دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں کہ نماز سے مت کہو کہ مجھے کام ہے بلکہ کاموں سے کہو کہ مجھے نماز پڑھنی ہے ۔
عشق میں تو محبوب کی ہر ہر ادا کو اپنایا جاتا ہے بلکہ عشق
کا پہلا تقاضاہی اطاعت و فرما نبرداری ہے لہٰذا اولیائےکرام بھی نبی پاک ﷺ کے
تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے نماز کو محبوب رکھتے اور نماز سے عشق کرتے تھے بلکہ ایک
ایک دن میں بعض بزرگ تو ہزار ہزار نوافل پڑھا کرتے تھے، یقیناً یہ ان کی کرامت اور
آقا کریم ﷺ سے بے حد محبت کرنے پر نظر کرم اور فیضان تھا مگر ہم اگر نوافل ادا
نہیں کر سکتیں تو کم از کم اپنی 5 وقت کی نماز کو ہی پورا کر لیں۔عاشقِ مصطفےٰامیر
اہل سنت نیک اعمال کے رسالے میں دوسرے نمبر پر ہی اس اہم فرض کے بارے میں سوال
کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ کیا آج آپ نے پانچوں نمازیں ادا فرمائیں؟ہمارے نبی ﷺ جو
کہ بخشے بخشائے ہیں اور ان کے جنتی صحابہ
بلکہ جنت ہی ان کے قدموں کے صدقے میں ملنی ہے وہ اس قدر نماز سے محبت فرمائیں اور اس قدر نمازوں کی پابندی کریں اور ہم
گناہوں میں لھتڑی ہوئی نماز ہی نہ پڑھیں یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم عاشقہ مصطفےٰ
کہلائیں!ہمیں اپنے آقا ﷺ کی بروز قیامت شفاعت چاہئے،دین اور دنیا کی تمام بھلائیاں
چائییں، اللہ کی پیاری بندیاں بننا ہے اس کے
محبوب ﷺ کی نظر کرم چاہئے تو نماز کی پابندی کرنی ہوگی اور قبر میں سب سے پہلا
سوال نماز کا ہو گا۔اگر قبرو حشر میں کامیابی چاہتی ہیں تو نماز سے محبت رکھنے
والے آقا کریم ﷺ کی تعلیمات پر عمل کرنا ہو گا اور نمازوں کی پابندی کو لازم پکڑنا ہو گا ۔
ہمارے آقا ﷺ کی آنکھوں کی ٹھنڈک نماز ہے۔(معجم کبیر،20 / 420،حدیث:1012) تو ہم ان کی
ٹھنڈک کو ادا کر کے انہیں خوش کر سکتی ہیں اور ان کی آنکھ مبارک کو ٹھنڈک دے سکتی
ہیں۔
مولیٰ سے اپنے
ملتی ہے بندی نماز میں اٹھ جاتا ہے جدائی کا پردہ نماز میں
ہمارے پیارے آقا ﷺ صاحبِ معراج ہیں،آپ کو اپنی امت کے لیے
رب سے معراج کی رات نماز کا تحفہ ملا۔
قرآنِ کریم میں نماز پڑھنے کا حکم:
1-وَ
اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِیْنَ(43)(پ1،البقرۃ:43)ترجمہ کنز
الایمان:اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔
2-اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا
الصّٰلِحٰتِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ لَهُمْ اَجْرُهُمْ
عِنْدَ رَبِّهِمْۚ-(پ3،البقرۃ:277)ترجمہ:بے شک
وہ جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے اور نماز قائم کی اور زکوٰۃ دی اُن کا
نیگ(اجروثواب)ان کے رب کے پاس ہے۔
نبی پاک ﷺ نے ارشاد
فرمایا:نماز نور ہے۔(مسلم،ص140،حدیث:223)حضرت امام ابو زکریایحییٰ بن شرف نووِی رحمۃ اللہ علیہ نما زکے نور ہونے کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:٭اس
کا معنی یہ ہے کہ جس طرح نور کے ذریعے روشنی حاصل کی جاتی ہے اسی طرح نماز بھی
گناہوں سے باز رکھتی(یعنی روکتی)ہے اور بے حیائی اور بری باتوں سے روک کرصحیح راہ
دکھاتی ہے۔٭ایک قول کے مطابق اس کا معنی ہے:نماز کا اجر وثواب بروز
قیامت نمازی کے لیے نور ہوگا ٭ایک قول ہے:اس کا مطلب یہ ہے کہ بروزِ
قِیامت نمازی کے چہرے پر نماز نور بن کر ظاہر ہوگی نیز دنیا میں بھی نمازی
کے چہرے پر رَونق ہوگی۔
(شرح مسلم،2/101
ملخصّاً)
نماز جنت کی کنجی ہے۔(مسندامام احمد،5/103،حدیث:14668)نماز پیارے آقا ﷺ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔(معجم کبیر،20 /
420،حدیث:1012)نماز مومن کی معراج اور ایمان کی نشانی ہے،چنانچہ حضور نبی رحمت، شفیع امت ﷺ کا فرمان
عا لیشان ہے:نماز ایمان کی نشانی ہے جس نے اپنے دل کو نماز کے لیے فارغ کیا اور اس
کی حدود کی حفاظت کی یعنی صحیح طریقے سے خشوع و خضوع کے ساتھ نماز پڑھی تو وہ کامل
مومن ہے۔(مسند الفردوس،2/69،حدیث:3920)
نبی کریم ﷺ نماز سے بہت محبت فرمایا کرتے تھے ۔آپ نے ارشاد
فرمایا:ہمارے اور کافروں کے درمیان فرق نماز ہے جس نے نماز چھوڑ دی اس نے کفر کیا۔(ابن
ماجہ،1/564،حدیث:1079)ہمارےاَئِمَّۂ
حنفیہ تارکِ نمازکوسخت فاجرجانتے ہیں مگردائرۂ اسلام سےخارج نہیں۔
حدیث میں فرمایا:بندے اور شرک کے درمیان(فرق)نماز چھوڑ دینا
ہے۔(مسلم،ص57،حدیث:82)اس حدیث کا مطلب
یہ ہے کہ بے نمازی قریب کفر ہے یا اس پر کفر پر مرنے کا اندیشہ ہے یا ترکِ نماز سے
مراد نماز کا انکار ہے یعنی نماز کا منکر کافر ہے۔(مراٰۃ المناجیح،1/342)
فرمایا:نماز کی طرف اٹھنے والا ہر قدم بھی صدقہ ہے۔(بخاری،2/306 ،حدیث:2989)
ساری
نمازوں کی فضیلت:
1- نماز فجر
خوبصورتی میں اضافہ کرتی ہے ۔ 2- نماز ظہر رزق میں اضافہ کرتی ہے۔ 3- نماز عصر صحت
بہتر کرتی ہے۔ 4-نماز مغرب مستقبل سنوارتی ہے۔ 5- نماز عشاء سکون کی نیند سلاتی
ہے۔
جو نماز کو اہمیت
نہیں دیتی مرتے وقت اس کو تین سزائیں ملتی ہیں:1- ذلت کی موت مرتی ہے۔2- بھوکی مرتی
ہے۔3- سمندر کا پانی بھی پی لے تو پیاسی ہی مرے گی۔ اللہ مجھے اور ہم سب کو پانچ وقت کی نماز پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔امین
کوئی عبادت کی
چاہ میں رویا کوئی عبادت کی راہ میں رویا
عجیب ہے یہ نمازِ
محبت کے سلسلے کوئی قضا کر کے رویا کوئی ادا کر کے رویا
ہم پیارے آقا ﷺ کی امت میں ہیں ، اللہ نے ہمیں نماز جیسا تحفہ عطا فرمایا۔ نبی پاک ﷺ
بھی نماز بہت محبت فرماتے تھے ہم بھی عاشقہ رسول ہیں لہٰذا ہمیں نبی پاک ﷺ کو عطا
کردہ تحفے سے اپنی محبت کا اظہار کرنا ہے کہ نبی پاک ﷺ کی آنکھوں کی ٹھنڈک نماز ہے۔(معجم کبیر،20 / 420،حدیث:1012)حضور
ﷺ ایک مرتبہ نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد میں تشریف لائے تو ایک چھوٹی سی بچی کو
کندھے پر بٹھایا ہوا تھا ،آپ جب رکوع کرتے اور سجدے میں جاتے تو بچی کو اتار دیتے،
رکوع سجود کے بعد بچی کو پھر سے کندھے پر بٹھا لیتے آپ نے اسی حالت میں نماز ادا کی، وہ بچی نواسیِ رسول
حضرت امامہ بنت سیدہ زینب رضی اللہ عنہ ہیں۔(بخاری،4/100،حدیث:5996)نبی پاک ﷺ نماز
سے اس قدر محبت فرماتے تھے کہ ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی
ہیں کہ نبیِ کریم ﷺ اپنے مرض وصال یعنی جس بیماری میں ظاہری وفات شریف ہوئی اس میں
فرماتے ہیں:نماز کو پابندی سے ادا کرتے رہو اور اپنے غلاموں کا خیال رکھو۔ (ابن ماجہ، 2/282،حدیث:1625)
حضرت ابو سعید خدرِی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ
پاک کے آخری رسول ﷺکافرمانِ عالی شان ہے:جب بندہ باجماعت نماز پڑھے پھر
اللہ پاک سے اپنی حاجت(یعنی ضرورت)کا سُوال کرے تو اللہ پاک اس بات سے حیا فرماتا
ہے کہ بندہ حاجت پوری ہونے سے پہلے واپس لوٹ جائے۔
(حلیۃ الاولیاء ،7/299،حدیث:10591)
نبی پاک ﷺ کا نماز تہجد پڑھنا بھی معمول تھا:نماز اگر محبت ہے تو تہجد اللہ سے عشق کا احساس ہے۔
پانچ وقت کی نماز ہر مسلمان عاقل بالغ پر فرض ہے، یہ اسلام
کا اہم رکن ،ایمان کی علامت اور نبیِ کریم ﷺ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔(معجم کبیر،20
/ 420،حدیث:1012)نماز کی ادائیگی میں رضائے الٰہی
کی نوید و خوشخبری اور اس کی غفلت پر عذابِ الٰہی کی وعید ہے۔خود بھی نماز کی پابندی کرنا اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دلانا ہماری
اہم اسلامی ذمہ داری ہے۔انسان دن کو جاگتا،رات کو سوتا اور نمازِ فجر کے وقت بیدار
ہوتا ہےلیکن ایک تعداد نیند کی وجہ سے نمازِ فجر قضا کر بیٹھتی ہے۔نبیِ کریم ﷺ کو
معراج میں 3 تحفے عطا کیے گئے جو امت کے
لیے تھے جس میں ایک تحفہ نماز کا تھا یعنی نماز نبیِ کریم ﷺ کو معراج میں تحفے میں ملی
اور 5 نمازیں پڑھنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے اور اس کا ترک کرنے والا سخت گنہگار اور عذابِ
نار کا حق دار ہے۔
(1)حضور کی نماز سے محبت:اللہ کریم کے آخری نبی ﷺ کو نماز سے بہت محبت تھی،آپ نے نماز کو اپنی آنکھوں
کی ٹھنڈک فرمایا۔(معجم کبیر،20/420،حدیث:1012)
(2)جب نماز کا وقت ہوتا تو آقا کریم ﷺ حضرت بلال رضی اللہ
عنہ سے فرماتے:قُمْ یا بِلاَلُ فَاَرِحْنَا بِالصَّلَاۃِ اے بلال!اٹھو اور
ہمیں نماز سے راحت پہنچاؤ ۔(ابوداود،4/385،حدیث:4986)
(3)حضرت عبد اللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:ایک
مرتبہ میں اللہ کے آخری نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نماز پڑھ رہے تھے اور رونے کی وجہ سے آپ کے سینے سے
ایسی آواز نکل رہی تھی جیسی ہنڈیا کی آواز ہوتی ہے۔(ابوداود،1/342،حدیث:904)
دینِ اسلام کا تیسرا بنیادی رکن نماز ہے۔نماز کو دینِ اسلام میں ستون کی حیثیت حاصل ہے۔ نماز ایسی
عبادت ہے کہ اس سے متعلق فرمایا گیا کہ نماز ہی کفرو اسلام میں فارق(یعنی فرق کرنے
والی)ہے۔(مراۃ المناجیح،5 /344)اللہ پاک نے اپنے کلام قرآنِ مجید میں سینکڑوں جگہ
نماز کا ذکر فرمایا ہے۔چنانچہ پارہ 16 سورۂ طہ کی آیت 14 میں ارشاد فرمایا:وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِیْ(14)ترجمہ:اور میری یاد کے لیے نماز قائم رکھ۔
اسی طرح سورۂ نور کی آیت نمبر 56 میں بھی نماز قائم رکھنے
کا حکم ارشاد فرمایا ۔حضور ﷺ کا عمل مبارک
تھا کہ 5 نمازوں کی فرضیت سے قبل بھی آقا ﷺ نماز ادا فرمایا کرتے
تھے۔ اللہ پاک کی عبادت کے لیے غارِ حرا
میں تشریف لے جایا کرتے اور اپنے ربِّ کریم کی عبادت فرماتے۔حضور اکرم ﷺ کی
امت کو اللہ کریم نے یہ خصوصیت بھی عطا فرمائی ہے کہ دیگر انبیائے کرام علیہم
السلام کی امتوں کی نسبت اس امت نے اپنے نبی پاک ﷺ کی جملہ عبادات،ان کے
اوقات اور کیفیات کو(جیسے دیکھا)محفوظ کرلیا۔بعض صحابہ کرام نے سفرمیں دیکھا عمل
اپنے ذہن مین محفوظ کرلیا اور بعض گھر میں کیے جانے والے اعمال و عبادات ازواجِ مطہرات
کے ذریعے امت تک پہنچے اور ایسا چرچہ ہوا کہ آج تک کے مسلمانوں بلکہ ان کے بچوں کو بھی آقا ﷺ کی عبادات کا علم ہے۔ آپﷺ کا یوں فرمانِ عالیشان ملتا ہے کہ آپ نے نماز کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک
فرمایا۔(معجم کبیر،20/ 420،حدیث:1012)
نماز کی فرضیت:آپ کو اللہ پاک نے معراج سے مشرف
فرمایا،اس رات مصطفےٰ جانِ رحمتﷺ اللہ کریم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور اپنی سر
کی آنکھوں سے رب کریم کی زیارت سے مشرف ہوئے، اس رات آپ کو بہت سے تحائف عطا فرمائے گئے ان میں سے 1 تحفہ
5 نمازیں ہیں،آپ نے اپنی ظاہری حیات طیبہ
میں نماز کی فرضیت کے بعد تقریباً 20 ہزار نمازیں ادا فرمائیں،500 جمعے اور 9 عید
کی نمازیں ادا فرمائیں۔(فیضانِ نماز،ص 7)
سرکارِ دو عالم ﷺ کی راحت نماز:حضُور داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے
ہیں:رسولِ اکرم،نورِ مُجَسَّم ﷺ کو جب
مِعْراج میں لے جایا گیا اور مَقامِ قُرب سے سَرفراز کیا گیا تو آپنے اللہ پاک کی
بارگاہ میں عَرض کی:اے اللہ پاک!اب مجھے بلاؤں کے گھر(یعنی دُنیا میں)واپس مَت بھیج۔ اللہ پاک نے فرمایا:اے محبوب!ہمارا
حکم ایسا ہی ہے،آپ دُنیا میں واپس جائیے تاکہ آپ کے ذریعے شریعت قائِم ہو اور جو
کچھ ہم نے یہاں عطا فرمایا ہے،دُنیا میں بھی عنایت فرمائیں گے۔چُنانچہ جب آپ دُنیا
میں تشریف لائے تو جب بھی آپ کا دِل مَقامِ بلند کا مُشتاق ہوتا تو فرماتے:اَرِحْنَا یَا بِلَالُ بِالصَّلَاۃِ اے بلال!نماز کی
اَذان دے کر ہمیں راحت پہنچاؤ!(کشف المحجوب،ص445)جبکہ نماز کو مومن کی معراج بھی
فرمایا گیا ہے۔ نماز میں خشوع: ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں
کہ سرکار مدینہ ﷺ ہم سے اور ہم آپ سے
گفتگو کررہے ہوتے لیکن جب نماز کا وقت ہوتا تو(ہم ایسے ہوجاتے)گویا آپ ہمیں نہیں
پہچانتے اور ہم آپ کو نہیں پہچانتے۔(احیاء العلوم،1/205) آقا کریم ﷺ کی نماز سے
محبت ایسی تھی کہ جب کوئی آزمائش آتی تو نماز میں مشغول ہوجایا کرتے کیونکہ رب
کریم نے ارشاد فرمایا:اسْتَعِیْنُوْا
بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِؕ-(پ 1،البقرۃ:45) ترجمہ کَنْزُ الایمان:اور صبر اور نَماز سے مدد چاہو۔
معلوم ہوا!ہمیں بھی اگر کوئی مشکل آئے،کسی قسم کی کوئی
پریشانی ہو،ہم نَماز پڑھیں،اس سے مدد حاصل کریں،جب بارگاہِ رسالت
میں بھوک کی حاضِری ہوتی تو مشہور مفسرِ
قرآن،حکیم الاُمَّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس آیتِ کریمہ کے تحت فرماتے ہیں:نَماز انسان کو دنیا سے بے
خبر کر کے اللہ پاک کی طرف متوجِّہ کر
دیتی ہے اس لئے اس کی برکت سے دنیا کی مشکلیں دل سے فراموش ہو جاتی ہیں(یعنی بھلا دی جاتی ہیں )۔(صاحِبِ)تفسیر
عزیزی نے اس جگہ بیان فرمایا کہ نبیِ کریم ﷺ کے گھر میں فاقہ ہوتا تھا اور رات میں
کچھ ملاحظہ نہ فرماتے(یعنی کچھ نہ کھاتے )تھے،اس دوران جب بھوک غلبہ کرتی تو
نبیِّ کریم ﷺ مسجد میں تشریف لا کر نَماز
میں مشغول ہو جایا کرتے تھے۔(تفسیرِ نعیمی، 1/ 349)
آپ نمازِ پنجگانہ کے علاوہ سنن و نوافل بھی ادا فرمایا کرتے،ان کے فضائل سے آگاہ
فرماتے اور عمل کی ترغیب بھی دلاتے
تھے،چنانچہ حضرت عبد الله ابن شقیق رضی
اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ
صدیقہ رضی اللہ عنہا سے نبیِ کریم ﷺ کی نفل نماز کے بارے میں دریافت کیا،انہوں نے
فرمایا کہ رات میں نو رکعتیں پڑھتے تھے جن
میں وتر بھی ہیں اور رات میں بہت دیر کھڑے ہو کر نماز پڑھتے اور بہت دیر تک بیٹھ
کر اور جب کھڑے ہوتے قرأت کرتے تو رکوع اور سجدہ بھی کھڑے ہوئے ہی کرتے اور جب فجر
طلوع ہوتی تو دو رکعتیں پڑھتے۔(مراۃ المناجیح،2 /386)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی ﷺ اول رات سوتے
تھے اور آخر رات جاگتے تھے پھر اگر آپ کو اپنے اہل سے حاجت ہوتی تو حاجت پوری
فرماتے پھر سو جاتے پھر اگر پہلی اذان کے
وقت جنابت میں ہوتے جلدی کھڑے ہو کر اپنے پر پانی بہاتے اور اگر جنبی نہ ہوتے تو
نماز کے لیئے وضو کرتے پھر دو رکعتیں پڑھتے۔ (مراۃ المناجیح،2 /455)
آقا ﷺ کی نماز سے محبت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے
کہ آپ نماز کسوف،چاند گرہن، سورج گرہن اور
تیز آندھی وغیرہ کے وقت میں بھی نماز میں مشغول ہوجایا کرتےنیزاشراق و چاشت وغیرہ
کی نمازوں کے ساتھ ساتھ رات کو عبادت کیا کرتے۔ بعض روآیات میں یوں بھی آیا ہے کہ آپ عشاء کے بعد رات کا کچھ حصہ آرام فرماتے،پھر عبادت فرماتے،پھر آرام فرماتے اور پھر اٹھ کر نماز کی ادائیگی
فرماتے ،اسی طرح آپ سے نماز تہجد کی 8رکعتیں بھی ثابت ہیں(تہجد کی کم ازکم 2 رکعتیں ہیں)آقا کریم ﷺ تہجد کے ساتھ ہی وتر کی
ادائیگی فرمایا کرتے ۔(سیرت النبی،ص 595)
نبیِ کریم ﷺ بے شک نماز سے بے حد محبت فرماتے تھے۔نماز
فرائض میں اولین درجہ رکھتی ہے اور کل بروزِ قیامت بھی سب سے پہلے نماز کا ہی سوال
ہوگا۔ پیارے پیارے آقا ﷺ نماز سے اس قدر محبت فرماتے تھے کہ آپ کی نماز سے محبت کو
قرآنِ مجید،احادیثِ مبارکہ میں بیان کیا گیا ہے۔اب ہم نبیِ کریم ﷺ کی محبتِ نماز کو قرآن
واحادیث کی روشنی میں پڑھتی ہیں۔چنانچہ
قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلًاۙ(2)(پ29،المزمل:2)ترجمہ:رات میں قیام فرما سوا کچھ رات کے۔
اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اے
چادر اوڑھنے والے میرے پیارے حبیب!رات کے تھوڑے حصے میں آرام فرمائیے اور باقی رات نماز اور عبادت کے ساتھ قیام میں گزارئیے اور وہ باقی آدھی رات ہو یا اس سے کچھ
کم کر لو یا اس پر کچھ اضافہ کرلو۔ یعنی آپ کو اختیار دیا گیا ہے کہ عبادت خواہ
آدھی رات تک کریں یا اس سے کم یعنی تہائی
رات تک کریں یا اس سے زیادہ یعنی دو تہائی
رات تک کرتے رہیں ۔
نبیِ کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام علیہم الرضوان اسی مقدار
کے مطابق رات کو قیام فرماتے اور ان میں سے جو حضرات یہ بات نہ جانتے کہ تہائی رات،آدھی
رات،دو تہائی رات کب ہوتی ہے تو وہ ساری رات قیام فرماتے اور اس اندیشے سے صبح تک
نماز پڑھتے کہ کہیں قیام واجب مقدارسے کم
نہ ہوجائے یہاں تک کہ ان حضرات کے
پاؤں سوج جاتے تھے۔ پھر تخفیف ہوئی اور
بعض مفسرین کے نزدیک ایک سال کے بعد اسی سورت کی آخری آیت کے اس حصے فَاقْرَءُوْا
مَا تَیَسَّرَ مِنْهُۙ-(پ29،المزمل:20)سے یہ حکم
منسوخ ہوگیا اور بعض مفسرین کے نزدیک پانچ نمازوں کی فرضِیّت سے یہ حکم منسوخ ہو
گیا۔یاد رہے کہ اس آیت میں قیام سے مراد
تہجد کی نماز ہے۔(تفسیر خازن، 4 /320-321)(تفسیرنسفی،
ص1292)(تفسیر کبیر، 10 /681-682 ملتقطاً)
وَ مِنَ الَّیْلِ فَتَهَجَّدْ(پ15،بنی اسرائیل:79)اور رات کے کچھ حصے میں تہجد پڑھو۔
مفتی شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ اس مسئلے کی تحقیق
کرنے کے بعد فرماتے ہیں:صحیح یہ ہے نمازِ تہجد حضورِ اقدس ﷺ پر نمازِ پنجگانہ کی
فرضیت کے بعد بھی فرض رہی۔(نزہۃ القاری، 2 /683)
حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:نبیِ کریم ﷺ فتحِ
مکہ کے دن ان کے گھر میں تشریف لائے،آپ نے غسل کیا اور آٹھ رکعتیں پڑھیں، میں نے ان
سے زیادہ ہلکی نماز کوئی نہ دیکھی بجز اس کے کہ آپ رکوع اور سجدہ پورا کرتے تھے۔(مراة
المناجيح، 2 / 273)
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی پاک ﷺ کو جب
کوئی معاملہ پیش آتا تو نماز پڑھتے۔
(مراة المناجيح،
2 / 281)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبیِ کریم ﷺ نے رات
کے ہر حصے میں وتر پڑھی ہے،اول شب میں،درمیانی میں،آخری اور آپ کے وتر سحر پر منتہی
ہوئے۔(مسلم،ص292،حدیث:1737)
سحر سے مراد رات کا آخری چھٹا حصہ ہے یعنی حضور ﷺ نے کبھی
عشاء کے وقت وتر پڑھ لیے اور کبھی عشاء پڑھ کر سوئے اور درمیان رات جاگ کر تہجد و
وتر پڑھے مگر آخری عمل یہ رہا کہ صبح صادق کے قریب تہجد کے بعد وتر پڑھے،مسلمان جس
پر عمل کرے سنت کا ثواب پائے گا اگرچہ آخر رات میں پڑھنا افضل ہے۔
(مراة المناجيح،
2 / 251)
نماز وہ انمول تحفہ ہے جو ہمارے پیارے آقا ﷺ کو معراج کی
رات عطا فرمایا گیا، نماز کی اہمیت اس بات سے سمجھیے کہ عبادات کے احکام زمین پر
نازل ہوئے جبکہ نماز وہ عظیم تحفہ ہے جو معراج پر بلا کر عطا فرمایا گیا، سبحان
اللہ!آقا ﷺ کی شان یہ ہے کہ انہیں معراج پر بلایا گیا جبکہ ہم جیسے گنہگاروں کی
معراج نماز قرار دی گئی کہ مرقاۃ میں ہے:نماز مومن کی معراج ہے۔(مرقاۃ المفاتیح،2/452،تحت
الحدیث:746)
شبِ معراج 50 نمازوں کا تحفہ دیا گیا تھا پھر اس میں تخفیف
کر دی گئی چنانچہ ہم جو نمازیں پڑھتی ہیں وہ پانچ ہیں اللہ پاک نے جب 50 نمازیں فرض فرما دیں اور پھر تخفیف
بھی کر دی گئی تو فرمایا کہ جو یہ پانچ پڑھے انہیں ان 50 کا ثواب ملے۔ یاد رہے کہ
ہمارے پیارے آقا ﷺ نے اپنی ظاہری حیات مبارکہ میں 11 سال چھ ماہ میں تقریبا 20
ہزار نمازیں ادا فرمائی اور 500 جمعہ ادا فرمائے اور عید کی 9 نمازیں ادا فرمائی۔
(فیضانِ نماز،ص7)
آقا ﷺنے نہ صرف اللہ پاک کے پیغامات کو بندوں تک پہنچا دیا بلکہ جو
احکام نازل ہوئے ان پر لوگوں کو اس طرح عمل کر کے دکھایا کہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے
مشعلِ راہ بن گئے۔
آقا ﷺ کی نماز سے محبت
اس بات سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ حدیثِ پاک میں ہے:نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔(فیضانِ
نماز،ص 10)اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ
تمام رات نماز میں کھڑے رہے اور قرآن کی ایک ہی آیت بار بار پڑھتے رہے۔(سیرت رسول
عربی، ص363)اس حدیثِ مبارک سے آقا ﷺ کی نماز سے محبت ظاہر ہوتی ہے
آپ کو معرفتِ الٰہی اور علم سب سے زیادہ تھا، اس لیے آپ سب
سے زیادہ خدا ترس اور عبادت کرنے والے تھے۔چنانچہ آپ فرماتے ہیں:قسم ہے اس ذات کی
جس کے قبضے میں میری جان ہے!اگر تمہیں معلوم ہوتا جو مجھے معلوم ہے تو تم البتہ زیادہ
روتے اور تھوڑا ہنستے۔(سیرت رسول عربی،364)
عبادت کے ساتھ ساتھ آپ کا خوفِ الٰہی بھی کمال درجے کا تھا۔چنانچہ
حضرت عبداللہ بن شخیر روایت فرماتے ہیں کہ ایک روز میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں
حاضر ہوا ،کیا دیکھتا ہوں کہ آپ نماز پڑھ رہے ہیں اور رونے کے سبب سے آپ کے شکم
مبارک سے تانبے کی دیگ(یعنی جوش)کی مانند آواز آ رہی ہے۔
(سیرتِ رسولِ
عربی،ص 364)
اگر ہمارے گھر میں کچھ کھانے کے لیے نہ ہو یعنی فاقے چل رہے
ہوں تو بیمار ہو جاتی ہیں اور بیماری کے سبب نماز پڑھنے کو دل نہیں کرتا لیکن آقا ﷺ
کا طرزِ عمل ملاحظہ فرمائیے چنانچہ نبی ﷺ کے گھر میں جب فاقہ ہوتا تھا اور رات میں
کچھ ملاحظہ نہ فرماتے تھے اور بھوک غلبہ کرتی تھی تو نبی ﷺ مسجد میں تشریف لا کر
نماز میں مشغول ہوتے تھے۔(فیضانِ نماز،ص21)
ہمارے پیارے آقا ﷺ کی نماز سے محبت دیکھیے کہ جب بھوک کا
غلبہ ہوتا تو نماز کی طرف متوجہ ہو جاتے اور اس طرح متوجہ ہوتے کہ بھوک کا احساس
تک نہ رہتا۔ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ آج ہم اللہ پاک کی لاکھوں نعمتیں کھانے
کے باوجود اللہ پاک کی نعمتوں سے غافل ہو
کر دنیا کی رنگینیوں میں کھو چکی ہیں جبکہ ہمارے آقا ﷺ خود بھوکے رہ کر دوسروں کو
کھلانے والے اور بھوک کے باوجود اللہ پاک کے صابر و شاکر بندے اور اللہ پاک
کی عبادت کو بجا لانے والے تھے ۔
نماز میرے آقا کی راحت کا سبب ہے۔چنانچہ مدینے کی تاجدار ﷺ
حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرماتے:اے بلال!ہمیں نماز سے راحت پہنچاؤیعنی اے بلال!اذان
دو تاکہ ہم نماز میں مشغول ہوں اور ہمیں راحت ملے۔(فیضان نماز،ص25) (ابوداود،4 /
385،حدیث:4986)
آقا ﷺ کی نماز سے محبت اس عمل سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ
حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:مصطفےٰ
جانِ رحمت ﷺ نے نماز میں کافی طویل قیام فرمایا،عرض کی گئی:آقا!آپ اتنی تکلیف کیوں
اٹھاتے ہیں؟ آپ تو بخشے بخشائے ہیں!ارشاد فرمایا:کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں؟
یعنی کیا میں اس بات کا شکر نہ کروں کہ میں بخشا گیا۔(سیرتِ رسولِ عربی،ص 363)حضرت
حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو رات کے ایک حصے
میں نماز پڑھتے دیکھا آپ یوں پڑھتے تھے:اَللہ
اَکْبَرْ(تین بار)ذُو الْمُلْکِ
وَالْجَبَرُوْتِ وَالْکِبْرِیَاءِ وَالْعَظَمَۃِ پھر دعائے استفتاح پڑھتے تھے بعد ازاں آپ نے(سورۂ فاتحہ کے بعد)سورۂ بقرہ
پڑھ کر رکوع کیا،آپ کا رکوع(طوالت میں)مانندِ قیام کے تھا اور اس میں سَبْحَانَ رَبِیَّ الْعَظِیْمِ پڑھتے تھے، پھر آپ نے رکوع سے سر اٹھایا،آپ کا قومہ مانندِ رکوع کے تھا اور آپ
اس میں لِرَبِّیَ اَلْحَمْدُ پڑھتے تھے،پھر آپ نے سجدہ کیا،آپ کا سجدہ مانندِ قومہ کے تھا،آپ سجدہ میں سَبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی پڑھتے تھے،پھر آپ نے سجدے سے سر اٹھایا،آپ دو سجدوں کے درمیان مانندِ سجدہ کے بیٹھے تھے اور رَبِّ اغْفَرْلِیْ،رَبِّ اغْفِرْلِیْ پڑھتے تھے،اس طرح آپ نے چار رکعتیں
پڑھیں ،اور ان میں سورۂ بقرہ و ال عمران و نسآء و مائدہ یا انعام ختم کیں۔(سیرتِ
رسولِ عربی،ص 364)
رسول اللہ ﷺ کی عبادت کے تفصیلی حالات کتبِ احادیث میں
موجود ہیں،یہاں بوجہ اختصار ان کے ایراد کی گنجائش نہیں،مگر اتنا بتا دینا ضروری
ہے کہ آپ کا طرزِ عمل افراط و تفریط سے خالی ہوا کرتا تھا، نہ تمام رات نماز پڑھتے
اور نہ تمام رات سوتے بلکہ رات کو نماز بھی پڑھتے اور سو بھی لیتے۔
حضورﷺ کی نماز سے محبت اللہ پاک قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا
ہے:وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا
لِیَعْبُدُوْنِ(56)(پ27،الذریت:56)ترجمۂ کنز
الایمان:اور میں نے جِنّ اور آدمی اتنے ہی(اسی لئے)بنائے کہ میری بندگی کریں۔ایک
اور جگہ ارشاد فرمایا:فَسَبِّحْ
بِحَمْدِ رَبِّكَ وَ كُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَۙ(98)وَ اعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى
یَاْتِیَكَ الْیَقِیْنُ۠(99) (پ14،الحجر:98،
99)ترجمۂ کنز الایمان:تو اپنے رب کو سراہتے ہوئے اس کی پاکی بولو اور سجدہ والوں
میں ہو۔اور مرتے دم تک اپنے رب کی عبادت میں رہو۔
نماز دین کا ستون ہے۔اللہ پاک نے معراج کے موقع پر اپنے
محبوب کو نماز کا تحفہ عطا فرمایا۔حضور سرور ِعالم ﷺ نماز سے بے حد محبت فرمایا
کرتے۔ کئی احادیثِ مبارکہ حضور کی نماز سے محبت پر دلالت کرتی ہیں،چنانچہ آپ نے
نماز کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک فرمایا۔(معجم کبیر،20 / 420،حدیث:1012)جب نماز کا
وقت ہوتاتو آقاکریم ﷺ حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرماتے:قُمْ یا بِلَالُ فَاَرِحْنَا بِالصَّلَاۃِ اے بلال!اٹھو اور ہمیں نماز سے راحت پہنچاؤ ۔(ابوداود،4 / 385،حدیث:4986)مسلم
شریف میں ہے کہ سیدہ عائشہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:نبیِ کریم ﷺ ہر وقت اللہ پاک کا ذکر کرتے تھے۔(مسلم، ص159،حدیث:826)
حضور تو وہ ہستی ہیں جن کی حیاتِ طیبہ میں ایسی راتیں بھی
ہوں کہ ان کی ازواجِ مطہرات روایت کرتی ہیں کہ ہم دیکھتی تھی کہ رات کو حضور کا
بستر خالی ہوتا تھا اور آپ کو ڈھونڈتے ہوئے جب ہم نکلتیں تو دیکھتیں کہ آپ جنت
البقیع کے اندر کبھی حالتِ قیام میں تو کبھی حالتِ دعا میں تو کبھی حالتِ سجدہ میں
اپنے رب سے گڑ گڑا رہے ہیں اور صحابہ کرام
کی اکثریت اس بات پر گواہ ہے کہ انہوں نے دیکھا کہ حضور نبیِ کریم ﷺ کبھی کبھی ایک
آیتِ مبارکہ کی تلاوت میں ساری ساری رات گزار دیتے تو کوئی بھی خوبی جو تصور میں
آ سکتی ہے اور کوئی بھی وصف جس کا گمان کیا جا سکتا ہے امام الانبیاء ﷺ نے اسے
اختیار کر کے اسے لاثانی قرار دیا،اس کو شرف بخشا اور بندگی کو بھی معراج بخشی
حالانکہ آپ کا رب جو لوگوں سے عبادت کا تقاضا کرتا ہے لیکن آپ تو وہ ہیں کہ ان کے
قیام کی طوالت دیکھ کر رب العالمین خود فرماتا ہے:قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلًاۙ(2)نِّصْفَهٗۤ اَوِ انْقُصْ
مِنْهُ قَلِیْلًاۙ(3)(پ29،المزمل:3،2)ترجمہ:رات
میں قیام فرما سوا کچھ رات کےآدھی رات یا اس سے کچھ کم کرو۔
یہ ہے حضور ﷺ کا ذوق عبادت۔