نبیِ کریم ﷺ کی حیاتِ طیبہ کا ہر لمحہ اللہ کے ساتھ گہرے تعلق اور کامل وفاداری کا مظہر تھا،مگر نماز کے ساتھ آپ کی محبت نے ایک منفرد شان اختیار کی۔ نماز آپ کے عظیم معجزے معراج کا عظیم تحفہ ہے۔یہ محض ایک عبادت نہیں،بلکہ اللہ کے حضور ایک خاص راز و نیاز کی کیفیت تھی،جو آپ کی زندگی کا مرکز و محور بن گئی تھی۔ آپ کے دل کی دھڑکنوں میں نماز کی محبت رچی بسی تھی اور یہ آپ کی روحانی زندگی کا محور تھی۔آپ نے فرمایا:نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔(معجم کبیر،20 / 420،حدیث:1012)یہ جملہ اس حقیقت کو بیان کرتا ہے کہ نماز آپ کے لیے دنیا و مافیہا سے بلند ہو کر اپنے رب کے قریب ہونے کا ایک ذریعہ تھی۔ نماز میں آپ نے جو لذت اور سرور محسوس کیا،وہ کسی دنیاوی خوشی سے کہیں بڑھ کر تھا۔

مروی ہے کہ ایک بار اللہ پاک کے پیارے حبیب ﷺ نے نوافل کی ترغیب دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا:جو 12 رکعت نفل روزانہ پڑھے گا اس کے لیے جنت میں گھر بنایا جائے گا۔ ام المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس کے بعد میں ہمیشہ 12 رکعت نفل روزانہ نہایت پابندی سے پڑھتی رہی۔

(صحابیات اور نصیحتوں کے مدنی پھول،ص48)

نبیِ کریم ﷺ نماز کے لیے خوب احتمام فرماتے، اچھا اور عمدہ لباس زیب تن فرماتے،خوشبو لگاتے،نماز کا وقت شروع ہوتے ہی وضو فرماتے۔ آپ ﷺ کا یہ عمل امت مسلمہ کی تعلیم کے لئے تھا تا کہ مسلمان ان کے طریقے کی اتباع کریں کیونکہ یہی ذریعہ نجات ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا تو اس کیفیت کی اس طرح عکاسی فرماتی ہیں کہ نماز کا وقت شروع ہو جاتا تو یوں محسوس ہوتا کہ آپ ہمیں پہچانتے ہی نہیں ہیں۔(احیاء العلوم،1/205)کبھی کبھی آپ پر نماز کے درمیان رقت طاری ہو جاتی،چشم مبارک سے موتیوں کی لڑی بہنے لگتی،ایک صحابی نے حضور اکرم ﷺ کی نماز کی منظر کشی کچھ یوں کی: ایک مرتبہ میں اللہ کے آخری نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نماز پڑھ رہے تھے اور رونے کی وجہ سے آپ کے سینے سے ایسی آواز نکل رہی تھی جیسی ہنڈیا کی آواز ہوتی ہے۔(ابوداود،1/342،حدیث:904)

نماز کی اہمیت سمجھنے کے لئے یہ جاننا ہی کافی ہے کہ الله نے قرآنِ کریم میں جتنی تاکید نماز کی فرمائی ہے اتنی تاکید کسی اور بات کی نہیں فرمائی،الله کا بار بار نماز کی تاکید فرمانا ہی اس کی اہمیت کو ظاہر کر رہا ہے اور نبیِ کریم ﷺ کی تمام حیات میں اس کی عملی مثال موجود ہے جس سے آپ کی نماز کے لیے محبت روز روشن کی طرح واضح ہے۔ قرآنِ پاک میں ارشاد باری ہے:الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَۙ(3) (پ1،البقرۃ:3) ترجمہ:وہ جو بے دیکھے ایمان لائیں اور نماز قائم رکھیں اور ہماری دی ہوئی روزی میں سے ہماری راہ میں اٹھائیں۔

نماز کی اہمیت کو مزید اجاگر کرنے کے لیے ایک حدیثِ مبارک ملاحظہ ہو۔چنانچہ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار مدینہ،قرار قلب و سینہ،فیض گنجینہ،صاحب معطر پسینہ ﷺ کا فرمان باقرینہ ہے: لوگوں میں بد ترین چور وہ ہے جو اپنی نماز میں چوری کرتا ہے۔ عرض کی گئی:یا رسول اللہ ﷺ!نماز میں چوری کیسے ہوتی ہے؟ ارشاد فرمایا: اس طرح کہ رکوع و سجدے پورے نہ کرے۔

(مسند امام احمد،8/386، حدیث:22705)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور پر نور ﷺنماز میں اتنی اتنی دیر قیام فر ماتے کہ آپ کے قدم مبارک میں ورم پڑجاتا۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے حضور ﷺسے عرض کی:یارسول اللہﷺ!آپ تو معصوم ہیں پھر اتنی مشقت کیوں اٹھاتے ہیں ؟تو آپ نے ارشاد فرمایا: افلا اکون عبدا شکوراکیامیں اپنے رب کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟(مسندبزار،16/114، حدیث:9194 )

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے رسول کریم ﷺ کے ساتھ رات کو نماز پڑھی،آپ نے اتنا لمبا قیام کیا کہ میرے دل میں ایک غلط خیال پیدا ہو گیا،ہم نے اُن سے پوچھا کہ وہ غلط خیال کیا تھا؟ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا :وہ غلط خیال یہ تھا کہ میں بیٹھ جاؤں اور نبیِ کریم ﷺ کو کھڑا چھوڑ دوں۔(بخاری،1/386،حدیث:1135)

نماز کے لیے نبیِ کریم ﷺ کا اہتمام بھی بہت خاص تھا۔ آپ بہترین لباس زیب تن فرماتے،خوشبو لگاتے اور انتہائی خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرتے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:تم میں سے کوئی جب نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو وہ اپنے رب کے ساتھ سرگوشی کرتا ہے،لہٰذا اسے دیکھنا چاہیے کہ وہ کیسے سرگوشی کرتا ہے۔(مستدرک،1/503،حدیث:895)

ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے آخری وصیت یہ فرمائی:نماز کی پابندی کرنا اور اپنے غلاموں کا خیال رکھنا۔(مسند امام احمد،21/11،حدیث:27240 )

نماز اللہ پاک کی خوشنودی اور دعاؤں کی قبولیت کا سبب ہے،اس سے گناہ معاف ہوتے اور روزی میں برکت ہوتی ہے،یہ بیماریوں،عذاب قبر و جہنم سے بچا کر جنت میں لے جاتی ہے،نماز مومن کی معراج (مرقاۃ المفاتیح ،2/452،تحت الحدیث:746)اور پیارے آقا ﷺ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔(معجم کبیر،20 / 420،حدیث:1012) یہی وجہ ہے کہ آپ نے اپنی آخری وصیت میں بھی نماز کی اہمیت کو بیان فرمایا۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں حقیقی معنی میں نماز کی محبت عطا فرمائے اور نمازِ پنجگانہ کی پابند بنائے۔ آمین