نماز وہ انمول تحفہ ہے جو ہمارے پیارے آقا ﷺ کو معراج کی رات عطا فرمایا گیا، نماز کی اہمیت اس بات سے سمجھیے کہ عبادات کے احکام زمین پر نازل ہوئے جبکہ نماز وہ عظیم تحفہ ہے جو معراج پر بلا کر عطا فرمایا گیا، سبحان اللہ!آقا ﷺ کی شان یہ ہے کہ انہیں معراج پر بلایا گیا جبکہ ہم جیسے گنہگاروں کی معراج نماز قرار دی گئی کہ مرقاۃ میں ہے:نماز مومن کی معراج ہے۔(مرقاۃ المفاتیح،2/452،تحت الحدیث:746)

شبِ معراج 50 نمازوں کا تحفہ دیا گیا تھا پھر اس میں تخفیف کر دی گئی چنانچہ ہم جو نمازیں پڑھتی ہیں وہ پانچ ہیں اللہ پاک نے جب 50 نمازیں فرض فرما دیں اور پھر تخفیف بھی کر دی گئی تو فرمایا کہ جو یہ پانچ پڑھے انہیں ان 50 کا ثواب ملے۔ یاد رہے کہ ہمارے پیارے آقا ﷺ نے اپنی ظاہری حیات مبارکہ میں 11 سال چھ ماہ میں تقریبا 20 ہزار نمازیں ادا فرمائی اور 500 جمعہ ادا فرمائے اور عید کی 9 نمازیں ادا فرمائی۔

(فیضانِ نماز،ص7)

آقا ﷺنے نہ صرف اللہ پاک کے پیغامات کو بندوں تک پہنچا دیا بلکہ جو احکام نازل ہوئے ان پر لوگوں کو اس طرح عمل کر کے دکھایا کہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مشعلِ راہ بن گئے۔

آقا ﷺ کی نماز سے محبت اس بات سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ حدیثِ پاک میں ہے:نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔(فیضانِ نماز،ص 10)اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ تمام رات نماز میں کھڑے رہے اور قرآن کی ایک ہی آیت بار بار پڑھتے رہے۔(سیرت رسول عربی، ص363)اس حدیثِ مبارک سے آقا ﷺ کی نماز سے محبت ظاہر ہوتی ہے

آپ کو معرفتِ الٰہی اور علم سب سے زیادہ تھا، اس لیے آپ سب سے زیادہ خدا ترس اور عبادت کرنے والے تھے۔چنانچہ آپ فرماتے ہیں:قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے!اگر تمہیں معلوم ہوتا جو مجھے معلوم ہے تو تم البتہ زیادہ روتے اور تھوڑا ہنستے۔(سیرت رسول عربی،364)

عبادت کے ساتھ ساتھ آپ کا خوفِ الٰہی بھی کمال درجے کا تھا۔چنانچہ حضرت عبداللہ بن شخیر روایت فرماتے ہیں کہ ایک روز میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ،کیا دیکھتا ہوں کہ آپ نماز پڑھ رہے ہیں اور رونے کے سبب سے آپ کے شکم مبارک سے تانبے کی دیگ(یعنی جوش)کی مانند آواز آ رہی ہے۔

(سیرتِ رسولِ عربی،ص 364)

اگر ہمارے گھر میں کچھ کھانے کے لیے نہ ہو یعنی فاقے چل رہے ہوں تو بیمار ہو جاتی ہیں اور بیماری کے سبب نماز پڑھنے کو دل نہیں کرتا لیکن آقا ﷺ کا طرزِ عمل ملاحظہ فرمائیے چنانچہ نبی ﷺ کے گھر میں جب فاقہ ہوتا تھا اور رات میں کچھ ملاحظہ نہ فرماتے تھے اور بھوک غلبہ کرتی تھی تو نبی ﷺ مسجد میں تشریف لا کر نماز میں مشغول ہوتے تھے۔(فیضانِ نماز،ص21)

ہمارے پیارے آقا ﷺ کی نماز سے محبت دیکھیے کہ جب بھوک کا غلبہ ہوتا تو نماز کی طرف متوجہ ہو جاتے اور اس طرح متوجہ ہوتے کہ بھوک کا احساس تک نہ رہتا۔ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ آج ہم اللہ پاک کی لاکھوں نعمتیں کھانے کے باوجود اللہ پاک کی نعمتوں سے غافل ہو کر دنیا کی رنگینیوں میں کھو چکی ہیں جبکہ ہمارے آقا ﷺ خود بھوکے رہ کر دوسروں کو کھلانے والے اور بھوک کے باوجود اللہ پاک کے صابر و شاکر بندے اور اللہ پاک کی عبادت کو بجا لانے والے تھے ۔

نماز میرے آقا کی راحت کا سبب ہے۔چنانچہ مدینے کی تاجدار ﷺ حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرماتے:اے بلال!ہمیں نماز سے راحت پہنچاؤیعنی اے بلال!اذان دو تاکہ ہم نماز میں مشغول ہوں اور ہمیں راحت ملے۔(فیضان نماز،ص25) (ابوداود،4 / 385،حدیث:4986)

آقا ﷺ کی نماز سے محبت اس عمل سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:مصطفےٰ جانِ رحمت ﷺ نے نماز میں کافی طویل قیام فرمایا،عرض کی گئی:آقا!آپ اتنی تکلیف کیوں اٹھاتے ہیں؟ آپ تو بخشے بخشائے ہیں!ارشاد فرمایا:کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں؟ یعنی کیا میں اس بات کا شکر نہ کروں کہ میں بخشا گیا۔(سیرتِ رسولِ عربی،ص 363)حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو رات کے ایک حصے میں نماز پڑھتے دیکھا آپ یوں پڑھتے تھے:اَللہ اَکْبَرْ(تین بار)ذُو الْمُلْکِ وَالْجَبَرُوْتِ وَالْکِبْرِیَاءِ وَالْعَظَمَۃِ پھر دعائے استفتاح پڑھتے تھے بعد ازاں آپ نے(سورۂ فاتحہ کے بعد)سورۂ بقرہ پڑھ کر رکوع کیا،آپ کا رکوع(طوالت میں)مانندِ قیام کے تھا اور اس میں سَبْحَانَ رَبِیَّ الْعَظِیْمِ پڑھتے تھے، پھر آپ نے رکوع سے سر اٹھایا،آپ کا قومہ مانندِ رکوع کے تھا اور آپ اس میں لِرَبِّیَ اَلْحَمْدُ پڑھتے تھے،پھر آپ نے سجدہ کیا،آپ کا سجدہ مانندِ قومہ کے تھا،آپ سجدہ میں سَبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی پڑھتے تھے،پھر آپ نے سجدے سے سر اٹھایا،آپ دو سجدوں کے درمیان مانندِ سجدہ کے بیٹھے تھے اور رَبِّ اغْفَرْلِیْ،رَبِّ اغْفِرْلِیْ پڑھتے تھے،اس طرح آپ نے چار رکعتیں پڑھیں ،اور ان میں سورۂ بقرہ و ال عمران و نسآء و مائدہ یا انعام ختم کیں۔(سیرتِ رسولِ عربی،ص 364)

رسول اللہ ﷺ کی عبادت کے تفصیلی حالات کتبِ احادیث میں موجود ہیں،یہاں بوجہ اختصار ان کے ایراد کی گنجائش نہیں،مگر اتنا بتا دینا ضروری ہے کہ آپ کا طرزِ عمل افراط و تفریط سے خالی ہوا کرتا تھا، نہ تمام رات نماز پڑھتے اور نہ تمام رات سوتے بلکہ رات کو نماز بھی پڑھتے اور سو بھی لیتے۔

(سیرتِ رسولِ عربی،ص364)